بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
خواہران و برادران عزیز، اپنی تربیت کے ذریعے فضیلتوں سے آراستہ کرنے والے معلمین اور ملک کے مستقبل کے معماران محترم! خوش آمدید!
ملک کے سبھی معلمین کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں، یوم معلم کی اپنے سبھی عزیز معلمین کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور عظیم معلم شہید آیت اللہ مطہّری کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
یہ دن، یکم مئی، ملک کے معلمین کے تئیں اظہار اخلاص کا موقع ہے۔ انہیں خراج عقیدت بھی پیش کریں، اپنے عزیز معلمین کی جہاں تک ہو سکے، زبانی قدردانی کریں، البتہ زبانی قدردانی کافی تو نہیں لیکن ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ یہ دن تعلیم و تربیت سے متعلق مسائل بیان کرنے کا بھی موقع ہے۔
معلمین کی تکریم، میں نے عرض کیا کہ لازمی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ "من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق" (2) سبھی کو معلمین کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ آپ ہمارے بچوں کی تربیت کرتے ہیں، انہیں تعلیم دیتے ہیں اور انہیں ان کی عمر کے دوران زندگی کے لئے تیار کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ پوری قوم، ملک کے ایک ایک فرد کو چاہے کہ وہ جس رتبے کا ہو، جو بھی کام کرتا ہو، اس کو معلمین کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ دوسرے معلم کا شکریہ، میں جو عرض کرتا ہوں تو وہ تعلیم و تربیت اور معلم کی اہمیت کی جانب رائے عامہ کو متوجہ کرنے کے لئے ہے۔ اگر رائے عامہ کے لئے کسی بات کی درست وضاحت ہو جائے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس کی انجام دہی آسان ہو جاتی ہے۔
اس وقت تعلیم و تربیت کے مسئلے میں ہمیں مادی مشکلات کا سامنا ہے، معیشت کی مشکلات کا سامنا ہے، کام کی مشکلات کا سامنا ہے، تعلیم کے ماحول سے متعلق مسائل کا سامناہ ہے۔ اگر رائے عامہ اس مسئلے کے تئيں حساس ہو جائے، معلم کی شناخت حاصل کر لے، معلم کی قدر کو سمجھے تو ان تمام مشکلات میں اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، میں عرض کر رہا ہوں کہ معلمین کا شکریہ سبھی لوگوں کا فریضہ ہے، تاکہ رائے عامہ اس مسئلے کی طرف متوجہ ہو جائے۔
معلمی اور ٹیچنگ کا پیشہ جتنی محترم ہوگا، اس کی کشش بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ معاشرے میں اگر کوئی کام محترم ہو جائے تو اس کی کشش بڑھ جاتی ہے اور جب کشش بڑھ جاتی ہے تو زیادہ بلند سطح کے لوگ بھی اس کا رخ کرتے ہیں۔ (معلمی کا پیشہ محترم ہو جائے تو) معاشرے میں معلمین کا علمی اور معنوی درجہ بلند ہو جائےگا۔ اس صورت میں تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ملک ترقی کرے گا۔
دیکھئے یہ واضح حساب کتاب ہے۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ ٹیچنگ دنیا میں محترم ہو جائے۔ یہ ذرائع ابلاغ عامہ کی ذمہ داری ہے، جو لوگ منبر پر جاتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے، جو لوگ عوام سے خطاب کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں معلمی کی تعریف اور تحسین کریں۔ یہ معلمین کے تعلق سے کچھ باتیں تھیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کی بات کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ ملک کے دیگر ادارے ادارہ تعلیم و تربیت کے برابر نہیں ہیں۔ یہ بات سب کو تسلیم کرنی چاہئے۔ یہی بات جو میں نے کہی کہ
دوسرے ادارے اس کے برابر نہیں ہیں، یہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا کرتی ہے۔ یہ رائے عامہ کی جو بات میں نے کی ہے، یہاں واضح ہوتی ہے کہ "دوسرے ادارے اس کے برابر نہیں ہیں" اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے ادارے افرادی قوت سے کام لیتے ہیں اور تعلیم و تربیت کا ادارہ افرادی قوت تیار کرتا ہے۔ ہاں اعلی تعلیم کا محکمہ بھی ہے لیکن بنیاد یہ ہے۔ افرادی قوت کا تشخص تعلیم و تربیت کے محکمے میں تیار ہوتا ہے۔ ان بارہ برسوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ افرادی قوت کا تشخص تعلیم و تربیت کے محکمے میں تیار ہوتا ہے۔ جب معلم میدان میں آتا ہے تو درحقیقت وہ تشخص تیار کرتا ہے۔ آپ کی رفتار، آپ کی گفتار، آپ کا موقف، آپ کا اشارہ، بعض اوقات کلاس میں آپ جو مذاق کرتے ہیں اور بعض اوقات جو طنز کرتے ہیں، وہ سب آپ کے مخاطبین پر، اس نوجوان نسل پر جس کو کل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے، جو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی اور ملک کی تعمیر کرنے والی ہے، اس پراثرانداز ہوتا ہے۔
تو تعلیم و تربیت کی حیثیت یہ ہے۔ افرادی قوت تعلیم و تربیت کا محکمہ تیار کرتا ہے۔ ہر ملک کا سب سے بڑا سرمایہ افرادی قوت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس تیل ہو، معدنیات ہوں، سونے کی کان ہو، انواع و اقسام کی قیمتی اشیاء کی کانیں ہوں، ہماری زمین کے اندر دولت و ثروت کا انبار ہو، بہت اچھی آب و ہوا ہو، لیکن ایسے افراد نہ ہوں جو انہیں بروئے کار لا سکیں، جو ان سے کام لے سکیں تو کیا فائدہ؟ گزشتہ صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ دولت، بہترین دولت افریقا میں تھی لیکن اس سے استفادہ کرنے والے (ماہر) افراد نہیں تھے، یورپ والوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور افریقا کو تباہ کر دیا۔ اس کی ساری دولت و ثروت لوٹ لے گئے۔ افرادی قوت کی اہمیت یہ ہے۔ یہ افرادی قوت تعلیم و تربیت کا محمکہ تیار کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں، دیگر تمام جگہوں کی طرح، ہماری سیکورٹی میں، ہماری پیشرفت میں، ہماری سلامتی میں، ہمارے علم میں، ہماری تحقیقات میں، ہماری سبھی انسانی اور اسلامی اقدار میں، افرادی قوت کی ضرورت ہے اور یہ افرادی قوت، یہ انسانی وسائل، تعلیم و تربیت کا محکمہ تیار کرتا ہے۔ بنابریں تعلیم و تربیت کے بارے میں بہت زيادہ بات کرنے کی ضرورت ہے، زیادہ بولنے کی ضرورت ہے اور اس محکمے میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ جناب وزیر نے بہت اچھی تقریر کی ہے۔ ان کی بعض باتیں ان یاد دہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں جو ماضی میں کرائی گئی ہیں۔ الحمد للہ جن ترقیات کا انھوں نے ذکر کیا، وہ بہت اہم ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر ان رپورٹوں میں بھی تھا جو ہمیں دی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ میں ان کی طرف اشارہ کروں۔
چند جملے تعلیم و تربیت کے تعلق سے عرض کروں گا۔ چند مختصر جملے معلمین کی توقعات کے بارے میں عرض کروں گا جو انہیں معاشرے سے ہیں۔
تعلیم و تربیت کے سلسلے میں چند ابواب کا میں ذکر کروں گا۔ ایک باب جو سب سے اہم ہے، تغیر کا مسئلہ ہے جس کی جانب جناب وزیر نے بھی اشارہ کیا ہے۔ ہم نے ملک میں تبدیلی اور تغیر کی دستاویز چند برس قبل پیش کی لیکن اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا، لہذا ہم نے اپنا نقصان کیا۔ ان چند برسوں میں تبدیلی اور تغیر کی دستاویز پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی اور کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، ہم نے نقصان کیا۔ اب الحمد للہ سنا ہے کہ اس دستاویز پر نظر ثانی کی گئی ہے اور اس کو آخری شکل دی جا رہی ہے اور اس پر عمل درآمد کا نقشہ راہ بھی تیار ہے۔ یہ باتیں بہت اہم ہیں، بالخصوص اس کے نفاذ کا نقشہ راہ بہت اہم ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس پر کس طرح عمل کیا جائے کہ تعلیم و تربیت کی ہر سطح پر یہ نافذ ہو۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ اس میں وقفہ نہ آنے دیں اور کام کو سنجیدگی سے آگے بڑھائيں۔ تمام مراحل میں ماہرین سے کام لیا جائے۔ تعلیم و تربیت کے محکمے کے اندر ماہرین موجود ہیں جو صاحب الرائے ہیں اور محکمے سے باہر بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اگر چہ تعلیم و تربیت کے تعلق سے کوئی نمایاں کام نہیں کر رہے ہیں، لیکن صاحب الرائے ہیں اور ان کے پاس فکر ہے۔ ان کے افکار سے استفادہ کیا جائے اور اس دستاویز میں روز بروز بیشتر اور بہتر اصلاح کی جائے۔ یعنی آج آپ نے اس دستاویز کو اپ ٹوڈیٹ کیا ہے، ممکن ہے کہ دو سال بعد تین سال بعد اس کو پھر سے اپ ٹو ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہو۔ اس لئے کہ بہت تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ لہذا ان سے استفادہ کیا جائے۔ یہ پہلا باب ہے، جو باب تغیر ہے۔
دوسرا باب معلمین کو توانا بنانے کا مسئلہ ہے۔ دو طریقے سے توانا بنانے کی ضرورت ہے، ایک مادی اور معیشتی لحاظ سے ہے۔ اس کی ہم نے ہمیشہ تاکید کی ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں حتی المقدور ضروری کوشش کرنی چاہئے۔ یہ بات اپنی جگہ محفوظ ہے۔ ضروری ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن توانا بنانے کا ایک پہلو اور بھی ہے، میں اس کی تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ معلم اپنی معنوی قوت سے، یعنی انسان کے باطن میں تعلیم و تربیت سے فطری طور پر جو عشق نہفتہ ہے، معلم اس سے کام لے اور ضروری معلومات سے، جو باتیں ضروری ہیں، ان سے اور ضروری تجربات سے استفادہ کرے تاکہ معلمی کے کام میں استحکام آئے اور معلم کا کام محکم ہو۔ یہ جو میں نے کہا کہ آپ انسان تیار کرتے ہیں، افرادی قوت اور انسانی وسائل تیار کرتے ہیں، یہ صرف کلاس میں جانے اور کتاب کے مخصوص صفحات پڑھا دینے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ وہ بھی ضروری ہے، لیکن صرف وہی کافی نہیں ہے۔ جب ہم کلاس میں داخل ہوں تو ایک ذمہ دار کی حیثیت سے، ایسے فرد کی حیثیت سے جس کے اختیار میں یہ لوگ (کلاس میں موجود افراد) اور ان کا مستقبل ہے، اور اس نیت کے ساتھ داخل ہوں کہ ہم انہیں مستقبل پیش کرنے جا رہے ہیں، اس نیت اور جذبے کے ساتھ اور اس فکر کےساتھ کلاس میں داخل ہوں۔ یہ میری گزارش ہے۔ توانا ہونے کا مطلب یہ ہے۔
اگر ہم معلمین کی سطح بلند کرنا چاہیں یعنی اس سطح تک لے جانا چاہتے ہیں جس کا میں نے ذکر کیا، تو فطری طور پر ہمیں معلمین کی ٹریننگ کے مراکز کی تقویت کرنی ہوگی جس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ میں نے بھی ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی اور معلمین کی ٹریننگ کے مراکز کے بارے میں بارہا سفارش کی ہے، تاکید کی ہے اور ایک بار پھر تاکید کرتا ہوں کہ ان مراکز کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ یہ بہت اہم مراکز ہیں، ایک بار پھر تاکید کرتا ہوں کہ انہیں معمولی نہ سمجھا جائے۔ یہ مراکز بہت اہم ہیں اور درحقیقت ٹیچرز ٹرینںگ یونیورسٹی ملک کی نسل جدید کی تربیت کرنے والوں کی ٹریننگ کا مرکز ہے۔ بنابریں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
تیسرا باب، شعبہ تربیت کا مسئلہ ہے۔ ایک دور میں یہ بات کی گئی کہ تربیت کے شعبے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں؟ ان کی دلیل یہ تھی کہ تربیت بھی معلم کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔ یہ بات صحیح ہے۔ معلم کا کام صرف تعلیم دینا نہیں ہے۔ معلم کو تربیت بھی کرنا چاہئے، معلم کو تربیت بھی کرنا چاہئے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ بحث یہ ہے کہ محکمہ تعلیم و تربیت میں، تربیت کا شعبہ بہت اہم ہے۔ البتہ آج شعبہ تربیت مشکلات سے دوچار ہے۔ مال وسائل کی کمی اور نظریاتی اختلاف ہے لیکن اس شعبے کی تقویت ہونی چاہئے۔
شعبہ تربیت کا پہلا کام یہ ہے کہ نوجوانوں کے درمیان اخلاقی اور سماجی برائیاں پھیلنے کی روک تھام کرے۔ میں یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان، دسیوں لاکھ اسکولی طلبا و طالبات میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے، وہ خود آگے بڑھیں اور سماجی برائیوں کو روکیں۔ یہ کام ثقافتی شعبے کا ہے۔ البتہ یہ جو اعداد و شمار دیے جاتے ہیں کہ برائیاں بڑھ گئی ہیں، مجھے ان پر اعتماد نہیں ہے لیکن نقائص اور برائیاں ہیں۔ یعنی سخت رویہ، نامناسب اخلاقی روابط اور بہت سی دوسری باتیں جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ تربیتی شعبہ ان باتوں پر توجہ دے۔
ایک اور مسئلہ جو تربیتی شعبے سے تعلق رکھتا ہے، ملک اور نظام کی بنیادی مصلحتوں کو بیان کرنا ہے، یہ مصلحتیں نوجوانوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ دسیوں لاکھ نوجوان جو اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں، نظام کی بنیادی مصلحتوں کو جان لیں، ملک کی مصلحتوں کو سمجھ لیں، ملک کے دوستوں اور دشمنوں کے محاذ کو پہچان لیں، ملک کی ضرورت کے بنیادی مسائل سے واقف ہو جائيں تو دشمن کا پروپیگنڈہ اور اربوں ڈالر کے خرچے سے اس کی گمراہ کن تشہیراتی مہم ناکام ہو جائے گی۔ اگر ہمارے نوجوانوں کو محفوظ بنا دیا جائے اور رائج الفاظ میں، انہیں ویکسینیٹڈ کر دیا جائے تو دشمن کے پروپیگنڈے ناکام ہو جائيں گے۔
ملک کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کی مصلحتیں کیا ہیں اور ان کی منطق کیا ہے۔ یہ بھی اہم ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کو لے لیں، یہ جو امریکا مردہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں، نوجوان یہ نعرے لگاتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ امریکا مردہ باد کیوں کہہ رہے ہیں۔ ہم صیہونی حکومت مردہ باد کیوں کہتے ہیں۔ یہ بات نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اس کا منطقی استدلال معلوم ہونا چاہئے۔ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہم فلاں حکومت یا اس ملک کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ان مصلحتوں کی عقلی وجہ اس کو معلوم ہونی چاہئے۔ تربیتی شعبے سے متلق ایک باب یہ بھی ہے۔
ایک اور باب تعلیم و تربیت کے مینیجمنٹ کا ثبات اور استحکام ہے۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ برسوں تک صورتحال یہ رہی ہے کہ ہر دو سال میں ایک وزير آیا ہے، ہر دو سال میں ایک وزير! تو پھر ظاہر ہے کہ اس ادارے کا حال کیا ہوگا۔ جب تک آکے کوئی بنیادی کام شروع کیا، وزیر کو جانا پڑ گیا۔ وزیر چلا گیا تو وہ مینیجمنٹ بھی تبدیل ہو جائے گا جو اس کی نگرانی میں چل رہا تھا۔ بنیادی کام ہو ہی نہیں پائے گا۔ میری تاکید یہ ہے کہ مینیجمنٹ میں ثبات ہونا چاہئے۔ اعلی ترین سطح پر بھی اور متوسط سطح پر بھی، مینیجمنٹ میں استحکام ہونا چاہئے تاکہ منصوبوں پر عمل ہو سکے۔ ایک باب یہ بھی ہے، البتہ تعلیم و تربیت کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں سے اس کا تعلق ہے۔
ایک اور باب جو میری نظر میں اہم ہے، ملک کے معلمین کے مجموعے میں نمونہ عمل اور مثالی ہستی کا باب ہے۔ ملک کے معلمین کی برادری میں، آپ کے معلمین کا نمونہ عمل اور مثالی ہستی کون ہے؟ دوسرے شعبوں میں نمونہ عمل اور مثالی ہستیاں ہیں، مثلا کھیل کود کے میدان میں لیجنڈ کھلاڑی نمونہ عمل ہیں۔ فن اور آرٹ میں ممتاز فنکار نمونہ عمل ہیں، دینی تعلیم اور بزرگ علمائے کرام میں کچھ لوگ ہیں جو دوسروں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ طلبا کی نگاہیں مرجع تقلید پر ہوتی ہیں، بڑے مدرسین پر ہوتی ہیں۔ معلمین کی برادری میں نمونہ عمل اور مثالی ہستیاں کون ہیں؟ ان کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے محکمے کو ایسے معلمین کو دیکھنا چاہئے جو اپنے پیشے میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ پورے ملک میں ایسے معلمین کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔ فرض کریں کہ ایک معلم ہے جو بہت اچھا پڑھاتا ہے، اس کا پڑھانے کا طریقہ اور انداز ممتاز ہے۔ کوئی معلم ایسا ہے کہ اس نے اپنی طولانی عمر تعلیم و تربیت میں صرف کر دی۔ ہمارے پاس ایسے معلمین تھے، کم تعداد میں تھے، انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے کہ جنہوں نے پچاس برس تدریس کی تھی۔ ساٹھ سال معلمی کی تھی! یہ بہت اہم ہے۔ یہ معلم نمونہ عمل اور مثالی ہے۔ وہ معلم جو سخت اور دشوارگزار علاقوں میں پڑھاتا ہے۔ سائیکل سے کسی علاقے میں جاتا ہے پانچ یا دس شاگردوں کو پڑھاتا ہے اور واپس آ جاتا ہے۔
وہ معلم جو انواع و اقسام کے اندرونی مسائل، جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کے باوجود تعلیم و تربیت کا کام ترک نہیں کرتا اور اس کام کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ ہیرو ہیں۔ پورے ملک میں ایسے معلمین کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ان کا پتہ لگائيں اور متعارف کرائيں۔ ہر صوبے سے بالترتیب تین، پانچ، دس افراد کا انتخاب کریں اور انہیں مثالی ہستی کے عنوان سے متعارف کرائيں اور ہیرو کی حیثیت سے ان کے لئے امتیازت مد نظر رکھے جائيں۔ یہ بھی ضروری کاموں میں سے ہے۔ یہ کام جو میں نے کہا، معلمین کے اندر شوق و اشتیاق پیدا کرے گا۔ ہمیں اس اشتیاق کی ضرورت ہے۔
لیکن معلمین سے ہمیں جو توقعات ہیں، ان کے سلسلے میں عرض کروں گا کہ آپ معلمین سے بھی ہمیں توقع ہے: ایک توقع جو شاید سب سے زیادہ اہم ہے، وہ توقع ہے کہ جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں (3) معلم صرف سکھانے والا نہیں ہے بلکہ طالب عالم کا تشخص بھی پروان چڑھاتا ہے۔ اس پر توجہ رکھیں۔ اس بات پر توجہ رکھیں کہ آپ اس بچے اور اس نوجوان کی شخصیت بنا رہے ہیں۔ اگر گہرائی سے کام کریں تو اگر وہ یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے اور فرض کریں وہاں کوئی مشکل ہے تو یہ مشکل اس کو دامنگیر نہیں ہوگی۔ اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ آپ درحقیقت اس بچے اور اس نوجوان کی جو آپ کی کلاس میں بیٹھتا ہے، اندرونی اور باطنی استعداد اور توانائیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس کے اندر لکھنے کی امکانی صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن لکھ نہیں سکتا۔ آپ اس کی اس امکانی صلاحیت کو عملی شکل عطا کرتے ہیں۔ اس کے اندر مسئلہ حل کرنے کی امکانی استعداد پائی جاتی ہے لیکن مسئلہ حل نہیں کر سکتا، اس کے اندر پروڈکشن کی امکانی صلاحیت ہے لیکن یہ کام نہیں کر سکتا۔ آپ اس کو یہ باتیں سکھاتے ہیں۔ یعنی اس کی یہ استعداد آپ باہرلاتے ہیں۔ جس طرح کان کے اندر سونا اور چاندی ہوتی ہے اور اس کو نکالا جاتا ہے، اسی طرح آپ اس کی استعداد کو باہر نکالتے ہیں۔ بنابریں آپ شخصیت ساز ہیں۔ اس کو علم سکھائيں، یہ پہلا درجہ ہے، اس کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا کریں، ان کے اندر ہمت اور جذبہ بھی پیدا کریں، اس کے اندر پڑھنے کا شوق بھی پیدا کریں تاکہ اس کے اندر جو صلاحیتیں اور امکانات ہیں وہ انہيں باہر لا سکے۔ یہ پہلی بات۔
دوسری بات بھی اسی سے مرتبط ہے۔ طلبا و طالبات کی استعداد کا پتہ لگانا۔ آپ ان بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ، دوسروں سے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ماں باپ کا رابطہ اتنا نہیں ہوتا، خصوصا اس دور کے مسائل کی وجہ سے، یہ مشینی دور ہے، اس وجہ سے۔ آپ اس کی استعدادوں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ معلم اگر طلبا و طالبات کے سلسلے میں توجہ کرے تو ان کی استعدادوں کا پتہ لگا سکتا ہے۔ آپ ان کی استعدادوں کو نکھار سکتے ہیں یا والدین کو بتا سکتے ہیں یا متعلقہ اداروں کو ریفر کر سکتے ہیں تا کہ یہ استعدادیں نکھر سکیں۔ یہ دوسری بات۔
تیسرا مسئلہ- یہ بھی میری نظر میں بہت اہم – یہ ہے کہ آپ ان طلبا و طالبات کو ملّی نظریہ دیں۔ یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ ملک کو چلانے کے لئے اور ملک کی پیشرفت کے لئے ہمارے پاس ایک وسیع منصوبہ اور چارٹ ہے۔ اگر اس چارٹ کے سبھی خانے صحیح طور پر پر کئے گئے تو اس کے نتیجے میں ملک پیشرفت کرے گا۔ آپ کی کلاس بھی اس چارٹ کا ایک خانہ ہے۔ یہ طالب علم خود کو اس پورے مجموعے، اس 'کل' کا جز محسوس کرے۔ اس کو معلوم ہونا چاہئےکہ وہ پڑھائی کر رہا ہے تو یہ بھی ایک سماجی اور عمومی تحریک کا حصہ ہے، ملک کی پیشرفت کا حصہ ہے۔ یہ بات طلبا و طالبات کے ذہن میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ البتہ متعلم کے ذہن میں ڈالنے سے پہلے خود معلم کو بھی اس کا احساس ہونا چاہئے۔
یہ معلمین سے ہماری شفارش ہے۔ جان لیں کہ آپ کی یہ کلاس اس مجموعے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس مجموعے کا ایک حصہ ہے جو آگے بڑھ رہا ہے اور اس طرح اس مشین کو جس کا نام ملک ہے، جس کا نام معاشرہ ہے، جس کا نام نظام ہے چلا رہا ہے اور آگے بڑھا رہا ہے۔ اپنے کام کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھئے اور اس نقطہ نگاہ کو طلبا و طالبات میں منتقل کیجئے۔ یہ وہی طلبا وطالبات کو تشخص دینا ہے۔ یعنی وہ احساس کرے کہ اس مجموعے میں شامل ہے جو ملک کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کا کام، کوئی ذاتی کام نہیں ہے بلکہ اس وقت وہ پڑھائی کر رہا اور سیکھ رہا ہے تو یہ پڑھائی اور سیکھنا ملک کی سطح پر انجام پانے والے ایک بڑے کام کا حصہ ہے۔ یہ احساس طالب علم میں منتقل ہونا چاہئے۔ طالب علم کو ملّی افتخارات سے، ملک کے اندر جو ہے اس سے اور ان کامیابیوں سے جو صحیح راستے پر چلنے اور صحیح سلوگن سے حاصل ہوئی ہیں، واقف کرائیں۔ خطرات سے بھی آگاہ کریں، اس کے اندر خطرات، دشمنوں اور دشمنیوں کی شناخت پیدا کریں۔ یہ توقع ہے۔
ایک اور توقع امید پیدا کرنے کی ہے۔ میں نوجوانوں میں امید پیدا کرنے کی تواتر کے ساتھ تاکید کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امید ملک کے مستقبل کی ضامن ہے۔ اگر کوئی آج اور ان نوجوانوں میں امید پیدا کرے، وجود میں لائے اس کے ذہن میں امید وجود میں لائے تو ملک کے مستقبل میں مدد کرے گا۔ جو لوگ نظام کی ضد میں، یا کسی فرد کی ضد میں یا حکومت کی ضد میں نوجوانوں کو نا امید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ملک کے مستقبل کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امید پیدا کرنا یہ ہے کہ ان کے لئے ترقیات بیان کریں، مثبت پہلووں کو اجاگر کریں، اشتیاق پیدا کرنے والے افق دکھائیں۔ ممکن ہے کہ خود آپ بھی ملک میں، نظام میں اور حکومت کے اندر کوئی کمزوری دیکھتے ہوں، ضروری نہیں ہے کہ آپ اس کو منتقل کریں اور اس طرح نا امیدی پیدا کریں اور نوجوانوں کو مایوس کریں۔ آپ کوشش کریں کہ اس کے اندر ملک کے مستقبل کی امید پیدا ہو۔ یہ امید ہے جو اس کو آگے بڑھائے گی اور صحیح راستے پر چلائے گی۔ امید پیدا کرنا ملک کے مستقبل کی خدمت کرنا ہے۔ یہ بھی ایک نکتہ تھا۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے بارے میں ہم نے کچھ باتیں عرض کیں، ان کے ساتھ ہی طالب علم میں سماجی سرگرمیوں کا شوق بھی پیدا کریں۔ ہمارے سامنے سماجی کام بہت ہیں: یہ فعالیتیں جو مساجد میں انجام پاتی ہیں، یہ مومنانہ امداد، یہی سڑکوں پر نیمہ شعبان اور عید غدیر وغیرہ کےجشن اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیاں ہیں، ملک کی تعمیر سے متعلق سرگرمیاں ہیں، 'راہیان نور' اور 'راہیان پیشرفت' کے نام سے جو سرگرمیاں انجام پاتی ہیں، یا یہ نوجوان جو دور افتادہ دیہی بستیوں میں جاکر کام کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے اندر اس کی سرگرمیوں کا شوق پیدا کریں۔ یہ سرگرمیاں اس کو کام کرنا سکھاتی ہیں اور اسی کے ساتھ ملک کی بہت سی مشکلات دور ہوتی ہیں۔ اس وقت تقریبا ایک کروڑ ستر لاکھ اسکولی طلبا و طالبات ہیں۔ ان ایک کروڑ ستر لاکھ میں سے کم سے کم ستر لاکھ بچے اور نوجوان ایسے ہیں جو مختلف میدانوں میں کام کر سکتے ہیں۔ اس قوت اور طاقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو آگے لے جائيں اور کام کو آگے بڑھائيں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔
اور آخری مسئلہ مہارت پیدا کرنے کا ہے۔ وزیر محترم کے خطاب میں بھی اس کا ذکر تھا۔ چند دنوں قبل اسی حسینیے میں عزیز محنت کشوں سے ملاقات (4) میں، میں نے کہا کہ محنت کش کے اندر مہارت کی بنیاد اسکولوں اور کالجوں میں پڑتی ہے۔ یعنی اگر اسکول کالج میں مہارت سکھائی جائے، ٹیکنیکل تعلیم کے انسٹی ٹیوٹ وغیر ہ کے علاوہ عام اسکولوں اور کالجوں میں بھی اگر یہ کام کیا جائے تو میری نظر میں اس سے بڑی ترقی ہوگی۔
یہ ہماری توقعات ہیں۔ البتہ ہمارے عزیز معلمین بہت اچھی طرح کام کر رہے ہیں، بہت سے معلمین ہیں جو کہنے سے پہلے ہی یہ توقعات پوری کر رہے ہیں لیکن معلمین کی برادری میں یہ روش عام ہونی چاہئے۔
آج غزہ کا مسئلہ دنیا کا اولین مسئلہ ہے۔ یعنی بین الاقوامی سطح پر صیہونی اور ان کے امریکی و یورپی پشت پناہ غزہ کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ کے ایجنڈے سے باہر کرنے کے لئے جو چاہیں کر لیں، نہیں کر سکتے۔ آپ دیکھیں کہ امریکا کی ان یونیورسٹیوں کو۔ آج بھی میں خبروں میں پڑھ رہا تھا کہ آسٹریلیا اور مختلف یورپی ملکوں میں، چند یونیورسٹیوں کا اضافہ ہو گیا ہے۔(5) یعنی اقوام غزہ کے مسئلے میں حساس ہوگئی ہیں۔ یہ مسئلہ دنیا کا اولین مسئلہ ہے۔ ہمیں دنیا کے عوام، بین الاقوامی رائے عامہ کی نگاہ میں اس مسئلے کی اولین مسئلے کی حیثیت ختم نہیں ہونے دینا چاہئے۔ صیہونی حکومت پر دباؤ میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔
ایک نکتہ اور ہے اور بہتر ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔ آج پوری دنیا صیہونی حکومت کی روش کو دیکھ رہی ہے۔ چھے مہینے کے اندر چونتس پینتیس ہزار لوگ قتل کر دیے گئے جن میں کم سے کم نصف عورتیں اور بچے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اتنی زیادہ بے رحمی، اتنی زیادہ حیوانیت معمولی چیز نہیں ہے کہ یہ پاگل کتے فلسطینی بچوں، بیماروں، بوڑھوں اور عورتوں کی جان کو آ گئے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے دنیا کے عوام کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل موقف کو ثابت کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حقانیت ثابت کر دی۔ دسیوں سال سے اسلامی جمہوریہ ایران میں صیہونی حکومت مرد باد کہتے ہیں، یہ موقف صحیح ثابت ہو گیا۔ ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران حق پر ہے، ایرانی عوام حق بجانب ہیں۔ (اس لئے کہ اس حکومت نے) اپنی شیطانی اور خبیث طینت دکھا دی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حقانیت ثابت ہو گئی۔
ایک اور نکتہ امریکا کا طرزعمل ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ امریکی اور ان کے متعلقہ ادارے اسرائيل کی صرف زبانی مخالفت پر کیا کارروائی کر رہے ہیں! امریکی یونیورسٹیوں کے طلبا نے نہ تخریب کی، نہ تخریب کے نعرے لگائے، نہ کسی کو مارا، نہ کہیں آگ لگائی،
نہ کوئی شیشہ توڑا، لیکن اس طرح ان کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ امریکیوں کا یہ طرزعمل بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے اس موقف کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ امریکی قابل اعتماد نہیں ہیں۔ یعنی یہ سب پر ثابت ہو گیا کہ آپ یہ جو امریکا مردہ باد کہتے ہیں، صحیح کہتے ہیں، امریکا شریک جرم ہے۔ ممکن ہے کبھی کوئی بات عارضی طور پر کہہ دیں، ہمدردی کا اظہار کر دیں لیکن وہ جھوٹ ہے حقیقت کے برعکس ہے۔ جو انسان دیکھ رہا ہے وہ یہ ہے امریکا عمل میں اس بڑے جرم میں ساتھ دے رہا ہے، صیہونی حکومت کے اس ناقابل معافی جرم میں شریک ہے۔ یہ امریکی (حکام) شریک جرم ہیں۔ انسان ایسے نظام اور ایسی حکومت سے اچھی توقع کیسے رکھ سکتا ہے؟ اس کی باتوں پر کیسے اعتماد کر سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟
ایک اور بات فلسطین کے موجودہ مسئلے سے متعلق ہے۔ میری نظر میں، جب تک فلسطین اپنے اصلی مالکین کو واپس نہیں مل جاتا، مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر بیس سال تیس سال بھی وہ اس حکومت کو باقی رکھنے کی کوشش کر لیں، ویسے ان شاء اللہ یہ نہیں کر پائیں گے، تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ مشکل اس وقت حل ہوگی جب فلسطین اس کے اصلی مالکین یعنی فلسطینی عوام کو واپس مل جائے۔ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے، ان کے درمیان مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں۔ فلسطین ان کا ہے۔ فلسطین انہیں واپس کر دیں، وہ اپنی حکومت، اپنا نظام تشکیل دیں، اس کے بعد یہ نظام فیصلہ کرے کہ صیہونیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ انہیں باہر نکالا جائے یا رہنے دیا جائے۔ یہ وہ راہ حل ہے جس کا اعلان ہم نے چند برس قبل کیا ہے۔ بظاہر اقوام متحدہ میں بھی یہ تجویز درج ہو چکی ہے۔ ہم اب بھی اسی پر زور دیتے ہیں۔ جب تک یہ نہیں ہوگا مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کے اطراف کے ملکوں کو مجبور کر دیں کہ صیہونی حکومت کے ساتھ روابط بحال کریں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ نہیں! وہ غلطی کر رہے ہیں۔ فرض کریں کہ ان اطراف کے کچھ ممالک، عرب ممالک، صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط معمول پر لائیں تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بلکہ خود یہ حکومتیں مشکل میں پڑجائيں گی ۔ یعنی وہ حکومتیں جو ان جرائم پر آنکھیں بند کرکے ان تمام جرائم کے باوجود، اس حکومت سے دوستی کریں گی، تو قومیں ان کی جان کو آ جائيں گی۔ آج اگر علاقے کی اقوام صیہونی حکومت کے خلاف ہیں تو اس وقت خود اپنی حکومتوں کے خلاف ہو جائيں گی۔ اس طرح یہ مشکل حل نہیں ہوگی۔ فلسطین، فلسطینیوں کو واپس دیا جائے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم یہ دن جلد سے جلد لائے گا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات کی ابتدا میں وزیر تعلیم و تربیت جناب رضا مراد صحرائی نے رپورٹ پیش کی۔
2۔ عیون اخبار الرضا جلد 2 صفحہ 24 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
3۔ مورخہ 2-5-2023 کو ملک کے معلمین سے خطاب
4۔ مورخہ 24-4-2024 کو محنت کشوں اور لیبر یونینوں کے اراکین سے ملاقات میں خطاب
5۔ امریکا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں صیہونی حکومت کے خلاف یونیورسٹی طلبا کے مظاہروں کی طرف اشارہ جن کے دوران امریکا اور یورپ میں طلبا کو زدوکوب اور گرفتار کیا گیا۔