رہبر انقلاب اسلامی نے ظلم و کفر و استکبار کے محاذ کے مقابلے میں ایران کی امید افزا کارکردگی و حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے طلبہ کو اعلی مقاصد کا پرچم بلند رکھنے کی دعوت دی۔

آپ نے اپنے خطاب میں مطالبے اور پرخاش گری میں فرق، نئے افکار و نظریات پر بحث، ہمفکر افراد سے کو فروغ دے کر محاذِ انقلاب کی توسیع، پسند اور مزاج کے اختلاف کو بنیاد نہ بنانے، انقلاب کے بنیادی اصولوں کو شک و تردد کی نظر سے دیکھنے والوں سے دوری، علمی پیشرفت پر تاکید، نوجوانوں پر دشمن کی سرمایہ کاری کی طرف سے ہوشیار رہنے اور نوجوان و انقلابی حکومت کے صحیح مفہوم سے متعلق اہم سفارشات کیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کورونا کے حالات میں بھی طلبہ سے ہر سال ماہ رمضان میں ہونے والی ملاقات کا سلسلہ جاری رہنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ملاقات کے آغاز میں طلبہ کے پیش کردہ خیالات کو پختہ اور سنجیدہ خیالات قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بحثوں کا معیار گزشتہ نشستوں کے مقابلے میں بلند تر رہا جو اس بات کی علامت ہے کہ موضوعات پر فکری و تحقیقی کام کیا گيا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی پوزیشن کے بارے میں فرمایا کہ یہ حقیقت ہے کہ آج ایران کے مقابلے میں ظلم و کفر و استکبار کا بہت وسیع محاذ کھڑا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ کسی بھی حربے اور ذریعے سے اسلامی نظام کو پسپائی اختیار کرنے اور ہتھیار ڈال دینے پر مجبور کر دے، اگر اس کا یہ ہدف پورا ہو گیا تو ملک کے مستقبل کے لئے یہ چیز بہت مہنگی ثابت ہوگی، البتہ فضل پروردگار اور عوام کی استقامت و بیداری کی برکت سے استکباری محاذ اپنے اس ہدف میں ناکام رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے خلاف دشمنوں کی سرگرمیوں کا اصلی ہدف دنیا کی اقوام کی نظر میں ایران کو ایک پرکشش نمونہ بننے سے روکنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران استکباری محاذ سے سیاسی، فکری، تشہیراتی اور بعض اوقات فوجی تصادم کی حالت میں رہا ہے اور آج بھی ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق ظلم و استکبار کے طاقتور محاذ کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کی وسیع توانائیاں ایران کے پاس موجود ہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پچھلے چالیس سال میں عسکری اور غیر عسکری سطح پر حاصل ہونے والے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ عزیز ملتِ ایران ضدی دشمنوں کو مغلوب کرنے کی خوب توانائی رکھتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق دنیا کی سائنسی پیشرفت کی اوسط رفتار سے زیادہ سرعت کے ساتھ ایران کی پیشرفت، اسلامی نظام کے دینی، اعتقادی اور ثقافتی اصولوں کے پابند نوجوانوں کی بڑی تعداد، کورونا، زلزلہ اور سیلاب جیسے حادثات کے وقت عوام کا ملک گیر سطح پر قابل تعریف تعاون اور امدادی جذبہ در حقیقت علمی، ثقافتی اور سماجی جہاد میں فتح کے لئے وطن عزیز کے پاس موجود وسیع صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔

آپ نے فرمایا کہ فکری محاذ پر بھی بہت اچھے اقدامات انجام دئے گئے ہیں جس کا ایک نتیجہ طلبہ کی آج کی بحث و گفتگو ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جن حقائق کا ذکر کیا گیا ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام ثقافتی، سماجی، دفاعی اور دیگر میدانوں میں ایسی عظیم صلاحیتوں سے آراستہ ہے جو دشمن محاذ پر ایران کو فتحیاب کر سکتی ہیں اور یہ روشن حقیقت دلوں میں حقیقی امید پیدا کرتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی ترقی کی راہ میں پائی جانے والی بعض مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مسائل کا حل جوان اور حزب اللہی حکومت کا اقتدار میں آنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ البتہ جوان حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت ایک بتیس سال کے جوان کے ہاتھ میں دے دی جائے اور بس، نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ جوان کا مطلب ایک ایسی حکومت ہو جس کے ارکان جوش و جذبے سے سرشار ہوں اور عمر کے اس مرحلے میں ہوں جس میں محنت اور کام کر سکیں۔

آپ نے فرمایاکہ بعض افراد سن رسیدہ ہونے کے بعد بھی حقیقی معنوں میں جوان رہتے ہیں مثال کے طور پر یہی عزیر و گرانقدر شہید جنرل قاسم سلیمانی کو ہی دیکھ لیجئے، ساٹھ سال سے زائد ان کی عمر تھی لیکن اُن کا عزم و حوصلہ جوان تھا وہ اگر آئندہ دس سال بھی زندہ رہتے تو بھی وہ اسی عہدے پر باقی رہتے اور اُسی انداز میں کام کرتے رہتے۔

رہبر انقلاب اسلامی اس نکتے پر بھی زور دیا کہ ایران کے عوام کے اندر اپنی طاقت اور وقار کا احساس بھی، ظلم و کفر و استکبار کا مقابلہ کرنے کی ملک کی وسیع صلاحیتوں کا حصہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی گوشے میں پڑے مٹھی بھر منفی نظریے کے افراد ہیں جو اپنی کمزوریوں کو پورے معاشرے اور اسلامی نظام کی طرف نسبت دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان کے باوجود ملک میں عمومی سطح پر طاقت اور وقار کا پختہ احساس ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ استعماری و تسلط پسند طاقتوں کا ایک اہم حربہ قوموں میں عدم تشخص اور حقارت کا احساس پھیلانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے نوجوانوں اور ملت ایران کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ بیرونی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی حمایت یافتہ استبدادی حکومتوں کو سرنگوں کر کے جو بظاہر ناممکن کام نظر آتا تھا، ساری دنیا کو متحیر کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے جابرانہ سرگرمیوں کے مقابلے میں ایران کی صریح اور مقتدرانہ مزاحمت اور موجودہ قومی اقتدار اعلی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہئے کہ دشمن ملت کی تحقیر کرنے اور قومی خود اعتمادی کو کمزور کرنے کی کوششوں سے ابھی مایوس نہیں ہوا ہے تاہم دشمن کی کوششوں کے برخلاف اللہ تعالی نے اس قوم کو عزت بخشی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ کورونا کے معاملے میں بھی مغرب کی نسبت ایران کا اس بیماری کو کنٹرول کرنے کا طریقہ، وائرس کی شناخت کے لئے سائنسی تحقیقات، جذبہ ایمانی کے تحت امداد، اسی طرح سیٹیلائٹ کو خلا میں بھیجا جانا وہ واقعات ہیں جن سے ملت ایران کے اندر عزت و وقار کا احساس بڑھا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کے مسئلے پر توجہ دینے کے بارے میں اپنی خاص تاکید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خوشی کا مقام ہے کہ مختلف شعبوں میں نوجوانوں پر توجہ بڑھی ہے اور میانہ درجے کے انتظامی عہدوں پر نوجوانوں کی موجودگی پر خاص توجہ دکھائی دے رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد نوجوانوں اور سرگرم طلبہ کو دس سفارشات کیں جن میں سب سے پہلی سفارش تھی انفرادی اور سماجی سطح پر خود سازی۔ آپ نے فرمایا کہ ماہ مبارک تو اپنے آخری ایام میں پہنچ گیا تاہم قرآن کریم سے انسیت، اول وقت حضور قلب کے ساتھ نماز اور دعا و تضرع، خود سازی کے بہترین طریقے ہیں، چنانچہ یہ مہینہ ختم ہونے کے بعد بھی یہ روحانی رابطہ منقطع نہیں ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری سفارش تھی معرفت و آگاہی کی بنیادوں کو مستحکم بنانا۔ آپ نے فرمایا کہ بے عملی اور انحراف نوجوانوں کے لئے دو بڑی مشکلیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی دور میں کچھ نوجوان جن کی معرفت و آگاہی کی بنیادیں مستحکم نہیں تھیں، کچھ منحرف گروہوں کا حصہ بن گئے اور بعد میں اپنے ہموطنوں کے خلاف انہوں نے ہتھیار اٹھا لیا اور صدام سے جا ملے لیکن جن نوجوانوں کی معرفت و آگاہی کی بنیادیں مستحکم تھیں وہ ثابت قدمی سے کھڑے رہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں خاص طور پر دعائے مکارم الاخلاق کو معرفت و آگاہی کی بنیادوں کو مستحکم بنانے میں بہت موثر قرار دیا اور نوجوانوں کو یہ دعائیں پڑھنے اور ان کے معانی پر غور کرنے کی دعوت دی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی تیسری سفارش اعلی مقاصد کو مد نظر رکھنے اور مطالبات کا پرچم بلند رکھنے سے متعلق تھی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ممکن ہے کہ سارے مطالبات پورے نہ کئے جا سکتے ہوں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ انہیں بیان کیا جائے تاکہ اعلی اہداف کا مطالبہ ہمیشہ زندہ رہے اور انقلاب کو انحراف سے بچائے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی چوتھی سفارش یہ تھی کہ مطالبے اور تنقید کے ساتھ اچھی اور قابل عمل تجاویز بھی دیں تاکہ سنجیدہ اور پائیدار نتیجہ حاصل ہو، چنانچہ اسلام میں بھی نہی عن المنکر اور امر بالمعروف یعنی اچھی اور کارساز تجاویز پیش کرنے پر زور دیا گيا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ایک سفارش یہ بھی تھی کہ مطالبے کے ساتھ پرخاشگری اور بدکلامی کو ہرگز نہ جوڑا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ عہدیداران سے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں اور طلبہ کے درمیان جائیں لیکن ان میں بعض کی شکایت یہ ہے کہ ان اجتماعات میں مطالبات کے ساتھ ہی ہنگامہ آرائی اور بدکلامی ہوتی ہے، اس لئے اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک سفارش یہ بھی کی کہ اسلامی نظام کے اہم موضوعات کے سلسلے میں ماحول سازی کے ساتھ ساتھ راہ حل بھی تلاش کیا جائے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اجلاسوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں  بیان کی گئی باتیں رائے عامہ کی سطح پر رفتہ رفتہ نظریات ایجاد کرتی ہیں اور سرانجام ایک عمومی بحث کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کی ایک سفارش یہ  تھی کہ انقلاب کے محاذ کو وسیع تر کیا جائے اور اس میں نئے نئے افراد کو شامل کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ انقلاب کے بنیادی اصولوں کے قائل ہیں لیکن ممکن ہے کہ بعض چیزوں میں آپ سے مختلف سوچ رکھتے ہوں تو ایسے لوگوں کو خود سے دور نہ کیجئے، بلکہ جہاں تک ممکن ہو انقلاب کے محاذ کو وسعت دیجئے۔

اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں کے بارے میں شک و شبہ ایجاد کرنے والے افراد سے فاصلہ رکھنے اور فرق کو نمایاں رکھنے کی بھی سفارش کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے افراد ملک کی پیشرفت کا انکار کرتے ہیں، دشمن کی خوبیاں گنواتے ہیں اور غلط راستوں کو ملکی مسائل کے بنیادی حل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا  کہنا تھا کہ اس طرح کے افراد کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا جانا چاہئے۔

آپ نے فرمایا کہ امریکیوں نے گزشتہ برسوں میں اپنی ساکھ اور اپنی تصویر سنوارنے کے لئے بڑے پیسے خرچ کر ڈالے لیکن آج دنیا کے بڑے حصے میں امریکہ اور امریکی نظام سے نفرت کی جاتی ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں اور خود امریکہ کے اندر امریکی پرچم جلائے جانے کے متواتر واقعات اس حکومت سے قوموں کی نفرت کا شاخسانہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عوام ہی نہیں بعض ملکوں کی وہ حکومتیں جو امریکہ کی اتحادی بھی ہیں، جب کبھی اپنے دل کی بات کرتی ہیں تو امریکی حکومت اور عہدیداروں سے نفرت اور بے اعتمادی کا اظہار کرتی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق امریکہ سے اس نفرت کی ایک وجہ موجودہ امریکی عہدیداران منجملہ فرومایہ، مہمل گوئی کرنے والے، نامعقول امریکی صدر اور وزیر خارجہ کا رویہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک امریکہ سے نفرت کی صرف یہی وجہ نہیں ہے بلکہ طویل عرصے سے امریکہ کی کارکردگی، قتل عام، ناانصافی، دہشت گردوں کی پرورش، ظالم و بدنام حکومتوں کی مدد، صیہونی حوکمت کے روز افزوں مظالم کی حمایت اور حالیہ دنوں کورونا کے مسئلے میں شرمناک بد انتظامی اس نفرت کی بنیادی وجوہات ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ افغانستان، عراق اور شام میں جنگ کی آگ بھڑکانا بھی امریکہ سے نفرت کی ایک اہم وجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شام میں اپنے فوجی اتارے ہیں کیونکہ وہاں تیل ہے! البتہ وہ نہ شام میں اور نہ عراق میں کہیں بھی ٹھہر نہیں پائیں گے بلکہ انھیں وہاں سے نکلنا ہوگا، انہیں یقینا باہر نکال دیا جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی آٹھویں سفارش یہ تھی کہ ملک کی سائنسی و علمی پیشرفت اور اسکی رفتار کو قائم رکھا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ذاتی فائدے کے لئے کوتاہ مدتی اہداف کی حامل علمی پیشرفت کی خاص اہمیت نہیں ہے، علمی کام ملک کی پیشرفت میں مددگار ہونا چاہئے جو نئے افق کھولے تاکہ جیسا کہ میں نے چند سال پہلے بھی کہا کہ ہم ایسے مقام پر پہنچ جائیں کہ محققین جدید علوم سے بہرہ مند ہونے کے لئے فارسی سیکھنے پر مجبور ہوں۔

رہبر انقلاب اسلامی کی نویں سفارش یونیورسٹیوں میں حجاب اور اسلامی حیا سے متعلق تھی۔ آپ نے زور دیا کہ متعلقہ عہدیداران بچیوں کے حجاب اور مرد و زن کے درمیان فاصلے پر توجہ دیں جس پر اسلام نے تاکید کی ہے اور یونیورسٹیوں میں شرعی اصولوں کی پاسداری کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی کی دسویں اور آخری سفارش یہ تھی کہ نوجوانوں کا خیال رکھا جائے اور انہیں دشمن کے جال میں  پھنسنے سے بچانے پر توجہ دی جائے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس طرح نوجوانوں کا موضوع ملک کے مستقبل اور اسلامی نظام کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے، اسی طرح دشمن بھی اسلامی انقلاب کو ناکام اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے اسی موضوع پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور نوجوانوں کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ اس بات کا سب خیال رکھیں کہ ملک کی نوجوان نسل کے افراد کو اپنے ایجنٹ کے طور پر بھرتی کرنے کی دشمن کی کوششوں میں مددگار نہ بنیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے طلبہ یونینوں کے سات نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔