وہ اپنے عقیدے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو کریں، لیکن دوسروں کے عقیدے کی حرمت و احترام اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ کریں۔ مناظرے اور بحث کو علمی نشستوں پر چھوڑ دیں۔ علما اور اہل فن حضرات چاہتے ہیں تو بیٹھیں مذہبی مذاکرہ کریں۔ لیکن علمی نشست میں عالمانہ مذہبی مناظرے کرنے اور اعلانیہ، رائے عامہ کی سطح پر، ایسے افراد کے سامنے جن کے اندر تجزیاتی صلاحیتیں نہیں ہیں ایک دوسرے کے سلسلے میں بد کلامی کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس پر علما کو کنٹرول کرنا چاہئے۔

بیرونی عامل، دشمنان اسلام کا تفرقہ انگیز ہاتھ ہے۔ اس کی جانب سے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، اسی دن سے جب دنیا کی تسلط پسند سیاسی طاقتوں کو احساس ہوا کہ قوموں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، یہ تفرقہ انگیز ہاتھ سرگرم عمل ہو گیا اور آج اس کی کارکردگی بہت بڑھ گئی ہے۔ مواصلاتی ذرائع، جدیدترین وسائل جو آج تیار کر لئے گئے ہیں ان سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ یہ آگ کو ہوا دینے والے ہیں۔ تفرقہ انگیزی کے لئے نعرے تیار کرتے ہیں۔ آگاہ اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ مسلم ممالک اور مسلم قوموں کے اندر موجود بعض عناصر دشمنوں کا وسیلہ اور ذریعہ بن جاتے ہیں۔

بڑی عبرتناک بات ہے، آپ ذرا غور کیجئے۔ دو سال قبل جب اسرائیل کے خلاف حزب اللہ ، اسلامی مزاحمت کے جوانوں کو فتح ملی اور انہوں نے صیہونی حکومت کو بری طرح ذلیل و رسوا کر دیا تو عالم اسلام میں مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی و کامرانی تھی، تفرقہ انگیز ہاتھوں نے فوری طور پر شیعہ- سنی مسئلےکو ہوا دینا شروع کر دیا۔ فرقہ وارانہ تعصب کو بڑھانا شروع کر دیا۔ لبنان کے اندر بھی اور مشرق وسطی اور عالم اسلام کی سطح پر بھی۔ گویا شیعہ- سنی مسئلہ ابھی ابھی وجود میں آیا ہو! وجہ یہ تھی کہ اس عظیم کامیابی کے زیر سایہ مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تھے۔ انہیں شیعہ-سنی مسئلہ اٹھا کر ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش شروع ہو گئی۔

15 مارچ 2009