آج آپ مغربی ایشیا میں کہ جس کا نام انھوں نے مشرق وسطی رکھ دیا ہے، اگر دنیا کی پہلے درجے کی مادی طاقتوں کو دیکھ رہے ہیں کہ زمیں بوس ہو گئی ہیں، امریکہ آج مغربی ایشیا میں زمیں بوس ہو گیا ہے، ان کے کچھ اہداف ہیں، کچھ کام کرنا چاہتی ہیں، کچھ مقاصد ہیں اس علاقے میں، ان کا ایک مقصد اس علاقے میں استکبار کی چھاونی صیہونی حکومت کو تقویت پہنچانا ہے، ان کا ایک مقصد علاقے میں قوت و توانائی کے سارے وسائل کو اپنے قبضے میں کرنا ہے تاکہ حکومتیں ان کے سائے میں پناہ لیں اور تمام وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں، اس علاقے میں فرماں روائی کریں، لیکن ان کا مقصد پورا نہیں ہو سکا۔ ان کے مقاصد میں کیا چیز رکاوٹ بنی؟ انقلابی اسلام یا اسلامی انقلاب۔ دونوں ہی اصطلاحیں درست ہیں۔ یہ اسلامی جمہوری ںظام کی صورت میں آج جلوہ گر ہے۔ یہی ان طاقتوں کا سد راہ بن گیا۔ اگر اسلام نہ ہوتا، اللہ پر ایمان نہ ہوتا، اسلامی تعلیمات پر عقیدہ نہ ہوتا، دینی فرائض کا التزام نہ ہوتا تو اسلامی جمہوری نظام بھی دوسروں کی مانند امریکہ وغیرہ جیسی استکباری قوتوں کے زیر تسلط چلا جاتا، جیسے دوسری حکومتیں چلی گئی ہیں۔ بنابریں ان کے شدید حملوں کے نشانے پر یہی چیز ہے جس نے اس اسلامی عمارت کی تعمیر کی، یعنی ایمان۔ اگر اسلامی ایمان نہ ہوتا تو یہ ملک جو ہم پہلے دیکھ چکے تھے، جسے اپنے پورے وجود سے ہم محسوس کر چکے تھے، یہ ملک ہرگز کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا تھا۔ یہ سب کچھ اسلامی عقیدہ و ایمان نے کیا ہے۔
تہران کی مساجد کے ائمہ جماعت سے خطاب سے اقتباس