قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے یوم ولادت کی تمام مسلمانوں، دنیا کے مظلوموں اور عدل و انصاف کے متلاشی افراد کو مبارکباد پیش کی۔ آپ نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو پوری انسانیت سے متعلق قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے وقت جب مسلمانوں میں تفرقہ اندازی دشمن کے ایجنڈے کا حصہ بن چکی ہے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت، جس کی قدر و منزلت کے شیعہ سنی سب معترف ہیں اتحاد بین المسلمین کا مظہر واقع ہو سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امیرالمومینن علی علیہ السلام سے محبت و عقیدت کے ساتھ ہی آپ کی سیرت اور تعلیمات کی حقیقی معنی میں پیروی کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کا سب سے نمایاں نعرہ جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ کوشاں رہے عدل و مساوات ہے۔ بنابریں حضرت کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے ہمیں چاہئے کہ عدل ومساوات کو اسلامی نظام کےتمام امور کا بنیادی اصول قرار دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عدل و مساوات کی ثقافت ملت ایران میں پوری طرح رائج ہو جانی چاہئے اور عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اندرونی اور عالمی مسائل میں عدل و مساوات کو ایک دائمی فریضے کے طور پر مد نظر رکھیں۔
آپ نے فرمایا کہ عدل و مساوات قائم کرنے کی بنیادی شرط اللہ تعالی کی نصرت و مدد پر یقین اور پروردگار سے رابطے کو استحکام بخشنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ رجب، شعبان اور رمضان کے مبارک مہینوں کے با برکت ایام میں ملنے والے موقع کو دعا و مناجات، گریہ و زاری، تضرع و خاکساری اور تقرب الہی کے لئے استعمال کرنا چاہئے تاکہ میدان زندگی میں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ صراط مستقیم کی منزلیں طے کی جا سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اعتکاف کے معنوی و روحانی عمل کا عوام بالحصوص نوجوانوں کی جانب سے خاص استقبال کا ذکر کرتے ہوئے، اس جذبے کو بہت با ارزش قرار دیا اور فرمایا کہ ان ایام اور اعتکاف کے اعمال کی قدر کرنی چاہئے اور متعلقہ حکام کو بھی چاہئے کہ اعتکاف کے لئے اس طرح سے سہولیتں فراہم کریں کہ کوئي بھی ضمنی اور ذیلی کام معتکف حضرات کی انفرادی عبادتوں اور روحانی خلوت میں مخل نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان ایام میں صحیفہ سجادیہ کی سبق آموز تعلیمات اور کلمات پر غور و خوض کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ ماہ رجب بارگاہ پروردگار میں دعا و مناجات اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا مہینہ ہے۔
آپ نے اسی طرح اپنی تقریر میں فرمایا کہ آج ملت ایران کو در پیش بہت سے مسائل اور سیاسی دباؤ کی وجہ اسلام کی راہ میں اس کی ثابت قدمی اور خود مختار و آزاد رہنے پر اس کا اصرار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران اپنے وقار اور آزادی کی حفاظت کے لئے اپنے قوی ارادے کی مزید تقویت کرے جیسا کہ یہ قوم گزشتہ تیس برسوں میں تسلط پسندیوں کا مقابلہ کرتی رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوموں کو میدان عمل سے باہر نکالنے کے لئے دھونس اور دھمکی کے سامراجی طاقتوں کے حربے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حربے ان حکومتوں کے سلسلے میں کارگر ہیں جنہیں عوامی حمایت حاصل نہ ہو، ایسے نظام اور حکومت کو جو عوام کی حمایت اور جذبہ ایمانی پر استوار ہواس طرح پسپا نہیں کیا جا سکتا۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے امریکہ نے بارہا کوشش کی کہ دھونس اور دھمکی کے ذریعے اسلامی جمہوری نظام اور حکام کو میدان عمل سے باہر کر دے لیکن عوامی حمایت اور ایمان و جذبے کے سامنے اس کی کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے میں ملت ایران کی عظیم کامیابیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس عظیم کارنامے کے سلسلے میں قوم کسی کی بھی احسان مند اور مرہون منت نہیں ہے کیونکہ یہ ٹکنالوجی ہماری اپنی ہو چکی ہے جو ایرانی نوجوانوں کے ذوق و شوق اور ہمت و حوصلے اسی طرح حکام کی حکمت و دانشمندی سے حاصل ہوئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ کامیابی پوری قوم سےتعلق رکھتی ہے اور کوئي بھی طاقت ملت ایران سے یہ ٹکنالوجی اور یہ حق چھین نہیں سکتی۔
آپ نے فرمایا کہ ملت ایران ان ممالک جو امریکہ کی طرح بغض و عناد کے تحت ایٹمی حقوق اور اس عظیم کامیابی کی مخالفت کرتے ہیں، اور ان ممالک کے درمیان جو ملت ایران اور اس کے حقوق کا احترام کرتے ہیں، اس کی ریڈ لائن کا پاس و لحاظ کرتے ہیں اور اس سے مذاکرات کے خواہاں ہیں، فرق رکھے جانے کی قائل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ کے ساتھ مذاکرات کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی رضامندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مذاکرت میں اسی صورت میں پیشرفت ہوگی جب دھونس اور دھمکی کی فضا اسے متاثر نہ کرے۔ یورپیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ (مذاکرات میں) ان کے مد مقابل ملت ایران ہے۔ یہ وہ غیور قوم ہے جسے دھمکی کی زبان تو قطعی نا پسند ہے اور یہ کبھی کسی دھونس میں آنے والی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید فرمائی کہ ملک کے حکام ایٹمی مسئلے میں بڑی سوجھ بوجھ اور دانشمندی کےساتھ فیصلے کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایٹمی مسئلے کو اعلی قومی سلامتی کونسل آگے بڑھا رہی ہے جس کے سربراہ صدر محترم ہیں۔ جو کچھ بھی صدر اور دیگر حکام کی جانب سے ایٹمی مسئلے میں اعلان کیا جا رہا ہے اس پر تمام حکام کا اتفاق رای ہے اور مجریہ و مقننہ و عدلیہ اسی طرح اعلی قومی سلامتی کونسل میں قائد انقلاب کے نمایندے پوری توجہ اور ذمہ داری کے ساتھ اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف اور ملت ایران کی ریڈ لائن بالکل واضح ہے اور اگر دوسرا فریق اسی تناظر میں گفتگو کرے تو ملک کے حکام بھی گفت و شنید کریں گے لیکن شرط یہ ہے کہ ملت ایران سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو نہ کی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں کسی نے کوئی حماقت کی تو اسلامی جمہوریہ کا جوابی رد عمل بڑا دنداں شکن ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر امریکی یا صیہونی حکومت اپنے داخلی مسائل پر پردہ ڈالنے کے لئے کوئي بات کہتی ہیں تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہے لیکن اگر انہوں نے کوئي حماقت آمیز اقدام کیا تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جارح کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ ایران کی سمت بڑھنے والا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کے لئے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ یہ جارح ہاتھ حکومتی شعبے سے تعلق رکھتا ہو یا اس سے خارج ہو جائے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر اپنے دور حکومت کے آخری مہینوں میں کوئي اقدام کرکے اس کے منفی نتائج آئندہ صدر کے دامن گیر کر دینا چاہتے ہیں، ایک غلط تصور ہے کیونکہ اگر کسی نے اقدام کیا تو پھر عہدے سے ہٹ جانے کے بعد وہ ملت ایران کے نشانے پر رہے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران ایک لمحے کے لئے بھی الہی نصرت و مدد اور لطف و عنایات سے مایوس نہیں ہوگی، ملت ایران، قوت ارادی اور جوش و جذبے سے سرشار قوم ہے، اسے یقین ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا مستقبل تابناک و درخشاں ہے۔