قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی معاشرے کی سب سے اہم عصری ضرورت بعثت کے پیغام پر عملدرآمد، عقل و خرد کو معیار قرار دینا، اخلاقی اقدار کی بالادستی اور قانونی نظم و ضبط کا بنیاد قرار پانا ہے اور اس سلسلے میں اہم شخصیات اور بزرگوں کی ذمہ داریاں سب سے اہم ہیں۔
عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر مختلف عوامی طبقات اور اسلامی نظام کے حکام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے بعثت پیغبر اسلام کو تاریخ بشریت کا نہایت اہم موڑ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ اور ایرانی عوام کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کی اور عاقلانہ تربیت و دانش پسندی اور تفکر و تدبر کو بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیغام کا سب سے اہم جز قرار دیا اور فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا کام اسلامی معاشرے میں عقل و خرد کی بالادستی کو قائم کرنا تھا کیونکہ معاشرے میں عقل و خرد اور فکری صلاحیت کی تقویت و پرورش، تمام مشکلات کا حل، نفس کو قابو میں رکھنے والی اور انسان کے لئے بندگی کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اخلاقی پرورش کو بعثت کے پیغام کا دوسرا اہم جز قرار دیا اور فرمایا: معاشرے میں اخلاقی قدروں کا رواج اس لطیف ہوا کی مانند ہے جو صحتمند زندگی کی ضامن ہوتی ہے اور انسان کو حرص و طمع، جہالت و نادانی، دنیا طلبی و مادہ پرستی، ذاتی بغض و عناد اور ایک دوسرے سے بدگمانی سے دور رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلام میں تزکیہ (نفس) اور اخلاقی نشو نما کو تعلیم پر بھی ترجیح دی گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قانونی نظم و ضبط کو بعثت کے پیغام کا تیسرا جز قرار دیا اور اسلامی احکامات اور فرامین پر عملدرآمد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیش پیش رہنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: یہ ساری مثالیں اسلامی معاشرے کے لئے معیار اور کسوٹی کا درجہ رکھتی ہیں، اور میدان زندگی انسانوں کی آزمائش کا مقام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کے موجودہ وقار کو گزشتہ تیس برسوں کی آزمایشوں میں کامیابی اور سرخروئی کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: اللہ تعالی نے ان کامیابیوں کے بدلے میں ملت ایران کو بہت عظیم ثمرات عطا کئے ہیں اور آج بھی لوگ بلند اسلامی اہداف کی سمت گامزن اور کوشاں ہیں جس کا نتیجہ ملت ایران کے اندر اپنی شناخت اور اپنے با وقار ہونے کا احساس ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلے کو اپنا نعرہ بنا لیا ہے اور اسلامی نظام کو اپنے اہداف کی راہ میں خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہیں وہ ایرانی حکومت و قوم و نظام کی عظمت کا غماز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان ثمرات کو دین کے احکامات پر عمل آوری کے سلسلے میں ملت ایران کی پیشقدمی کا نتیجہ قرار دیا اور معاشرے کی علمی شخصیات اور اہم رہنماؤں کے کردار کے عوام کے لئے نمونہ عمل قرار پانے کی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں میں ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ وفادار اور متحمل مزاج قوم ہے، صدارتی انتخابات کے بعد کے مسئلے میں بھی ملت ایران کی یہ خصوصیت ایک بار پھر نمایاں ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: سماجی زندگی کی سطح پر ملت ایران کے اندر الگ الگ طرز فکر موجود ہیں اور ہر کوئی اپنا نظریہ پیش کرتا ہے، لیکن جیسے ہی ملت ایران کو یہ احساس ہوتا ہے کہ (اسلامی) نظام سے دشمنی کی بات آ گئی ہے اور کوئی ہاتھ نظام پر وار کرنے کے لئے کسی تحریک کو منظم کر رہا ہے تو قوم اس سے دوری اختیار کر لیتی ہے خواہ وہ اسی نعرے کا سہارا کیوں نہ لے جس کی ملت ایران معتقد ہے۔
آپ نے حالیہ واقعات کو ملت ایران کے لئے گزشتہ برسوں کے تجربات کے ساتھ ہی حاصل ہونے والا اہم درس اور تجربہ قرار دیا اور فرمایا: یہ واقعات اس درس اور تجربے کے حامل تھے کہ ایسے وقت میں بھی کہ جب کوئی بڑا عمل مکمل امن و ثبات کی فضا میں انجام پا رہا ہو تب بھی دشمنوں کے مکر و حیلے سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسے عالم میں کہ جب سارے لوگ کہہ رہے تھے کہ چار کروڑ لوگوں کی شرکت سے منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات آغاز انقلاب سے اب تک کا بے نظیر واقعہ اور تیس سال کے بعد بھی عوام کو میدان میں لانے کی اسلامی نظام کی صلاحیت کا ثبوت تھا، سب کو محسوس ہو گیا کہ ایسے عالم میں بھی قوم پر ضرب لگانے کے دشمنوں کے منصوبوں سے غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے کے دشمنوں کے دعوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایسے وقت جب ان کی مداخلت اور خاص طور پر ان کے ذرائع ابلاغ کا کردار بالکل آشکارا ہے، ان کا یہ دعوا بے حیائی کی علامت ہے۔
آپ نے چند سال قبل قوموں کو خود مختاری و عزت و وقار کی راہ سے منحرف کرنے کے ہدف سے جاری سامراج کے تشہیراتی اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اپنے انتباہ کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کے دشمن اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نادان و غافل بلوائی گروہوں کے لئے بد امنی، تخریبی اقدامات اور جھڑپوں کے سلسلے میں اعلانیہ احکامات اور ہدایات جاری کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے جبکہ بالکل اعلانیہ طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے بلوائیوں اور عوام کے درمیان فرق قائم کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی ذرائع ابلاغ بلوائیوں کی حمایت کے مقصد سے انہیں ایرانی عوام کا نام دیتے ہیں جبکہ ایرانی عوام تو وہ کروڑوں لوگ ہیں جو ان بلوائیوں اور تخریب کاروں کو دیکھتے ہے خود کو الگ کر لیتے ہیں اور انہیں نفرت و بیزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کسی بھی عہدے اور مقام پر فائز کوئی بھی شخص اگر معاشرے کو بد امنی کی جانب لے جانے کی کوشش کرے گا ملت ایران کی نظر میں منفور قرار پائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کے بلند اہداف اور معاشرے کی دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی کا حصول امن و سکون کے ماحول میں ہی ممکن ہے۔ آپ نے امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا اور بااثر شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اہم شخصیات ہوشیار رہیں کیونکہ ان کی ہر وہ بات، تجزیہ اور اقدام جو معاشرے کے امن و امان کے مختل ہو جانے پر منتج ہو، ملت ایران کی پیشقدمی کی سمت اور جہت کے خلاف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے بیان، موقف حتی اپنے سکوت کے تئیں محتاط رہے کیونکہ ان مسائل کے سلسلے میں سکوت جن کو بیان کرنا ضروری ہے در حقیقت فریضے پر عملدرآمد نہ کرنا ہے اور ایسی باتیں کہنا جو نہیں کہنی چاہئیں فریضے کے خلاف عمل کرنے سے عبارت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: بڑی شخصیات محتاط رہیں کیونکہ ان کے سامنے بڑے عظیم امتحان کا لمحہ آن پہنچا ہے جس میں کامیاب نہ ہونا صرف فیل ہو جانا نہیں بلکہ ان کے سقوط کا موجب ہوگا۔ آپ نے ایسے انجام سے رہائی کی واحد راہ عقل و خرد کو معیار قرار دینا بتایا اور فرمایا: عقلمندی یہ رائج سیاست بازی نہیں ہے کیونکہ سیاست بازی عقل کے منافی ہے اور جو لوگ سیاست بازی کو عقلمندی تصور کرتے ہیں غلطی کر رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ صحیح عقلی طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس کا معیار یہ ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ ہمارا بیان اور موقف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اخلاص کے ساتھ ہے یا بعض افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کیلئے۔ ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغاموں پر غور کرنے اور اسے ایک جشن سے بالاتر واقعے کی حیثت سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: بعثت، انسانیت کے لئے بہت اہم موڑ ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سالہ حکومت کے زمانے میں جو اقدامات کئے اور تاریخ انسانیت میں جو تبدیلیاں پیدا کیں ان کا کسی بھی اقدام اور تبدیلی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارکباد دی اور انسانوں کو جہل و ظلم کی تاریکی سے نجات دلانے اور انہیں نور ہدایت کی سمت گامزن کرنے میں اس عظیم تاریخی واقعے کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام، دین کے احکامات پر عمل کے سلسلے میں سب سے پیش پیش رہتے تھے۔ انسانیت کی موجودہ مشکلات کی بنیادی وجہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی راہ سے دوری ہے۔