قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ محرم کی آمد کی مناسبت سے آج دینی تعلیمی مراکز کے ہزاروں طلباء، علماء اور تہران کے ائمہ جماعت کے ایک بہت بڑے اجتماع سے انتہائی حساس خطاب میں معاشرے میں بالخصوص پر آشوب دور میں حقائق کو روشنی میں لانے اور صحیح معیار قائم کرنے کو حقیقی تبلیغ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے بعد کے واقعات اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کے دشمنان قوم کے حالیہ اقدام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، میدان میں عوام کی بھرپور موجودگی کی قدردانی کی اور عوام بالخصوص طلباء کو پر سکون رہنے کی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا: یہ مستحکم عمارت جس کا خاکہ الہی ہے، جس کی بنیاد ایک مرد خدا کے ہاتھوں رکھی گئی اور جس کی بقاء کی ضامن ایک الہی قوم کی حمایت ہے، ہمیشہ قائم و دائم رہے گی اور اس کے مخالفین اپنے مذموم عزائم ہرگز پورے نہیں کر سکیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پر آشوب دور میں حقائق کی وضاحت اور تبلیغ کے اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انتخابات کے بعد کے واقعات کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: افسوس کا مقام ہے کہ انتخابات کے بعد بعض افراد نے قانون شکنی کی اور بد امنی پھیلائی اور اس بات کا سامان فراہم کیا کہ مایوسی و نا امیدی کا شکار ہو چکے دشمن کے اندر امید اور ایسی جرات پیدا ہو جائے کہ امام (خمینی رہ) انقلاب اور اسلامی نظام کے عاشق طلباء کی آنکھوں کے سامنے امام (خمینی رہ) کی توہین کر دے۔
آپ نے فرمایا: یہ توہین آمیز اقدام، اسی قانون شکنی اور بیرونی ذرائع ابلاغ کی تعریفوں پر خوش ہو جانے کا نتیجہ ہے۔ اب جبکہ یہ غلطیاں اور غلط کام سرزد ہو گئے ہیں تو ان کی پردہ پوشی کے لئے دلیلیں اور بہانے تراشنے کا سلسلہ شروع کر دیا گيا ہے۔ آپ نے غلطیوں کی تکرار کے بعد اس بہانہ تراشی کو فتنہ و آشوب اور فضا کے مکدر ہونے کی بنیادی وجہ قرار دیا اور فرمایا: بعض افراد قانون کی حمایت کے نام پر غیر قانونی حرکتیں کر رہے ہیں، یہ افراد امام (خمینی رہ) کے حامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان کے کام ایسے ہیں کہ امام (خمینی رہ) کی شان میں اس انداز سے گستاخی کر دی جاتی ہے اور دشمن خوش ہوکر انہی اقدامات کی بنیاد پر تجزئے اور تبصرے کرتے ہیں اور قومی مفادات اور ملت ایران کے خلاف فیصلے کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مشکل یہی گمراہ کن باتیں، اقدامات اور مکدر فضا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو شخص اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رہ) کے لئے کام کرتا ہے وہ جیسے ہی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا بیان یا عمل اصولوں کے خلاف محاذ آرائی کا سبب بن رہا ہے فورا سنبھل جاتا ہے اور اپنا رخ تبدیل کر لیتا ہے۔ یہ حضرات کیوں نہیں جاگتے؟
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب اسلامی جمہوریہ کے بنیادی ترین نعرے یعنی استقلال، آزادی، جمہوری اسلامی ( خود مختاری، آزادی، اسلامی جمہوریہ) سے اسلام کو حذف کیا جا رہا ہے تو ان حضرات کو چاہئے کہ سنبھل جائیں اور اس بات کو محسوس کریں کہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔ جب یوم قدس پر، جس کی بنیاد فلسطین کے دفاع اور اسرائیل کی مخالفت پر رکھی گئی ہے، غاصب حکومت کے حق میں اور فلسطین کے خلاف نعرے لگے تو ہوشیار ہو جانا چاہئے اور اس حلقے سے اپنی لا تعلقی کا اعلان کر دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب مظالم اور سامراج، جس کے حقیقی مظہر امریکا، فرانس اور برطانیہ ہیں، کے آقاؤں نے ان کی حمایت کی تب بھی انہیں سنبھل جانا چاہئے تھا۔ جب بد عنوان، مفرور، سلطنت طلب افراد اور انہی جیسے لوگوں پر مشتمل ایک گروہ ان کی حمایت کر رہا ہے تو وہ ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے اور کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کی سمت غلط ہے؟
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اپنی آنکھیں کھولئے اور اس حلقے سے خود کو الگ کر لیجئے۔ کیا عقل پسندی کے نام پر ان نمایاں حقائق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ان حقائق کو نظر انداز کرنا در حقیقت عقل پسندی کے بالکل بر خلاف قدم ہے۔ آپ نے فرمایا: عقل و منطق کا تقاضا یہ ہے کہ امام (خمینی رہ) کی شان میں گستاخی کے مسئلے میں اس واقعے کا سرے سے انکار کرنے کے بجائے اس کی مذمت کیجئے اور اس کے علاوہ اس حرکت کی سنگینی کو محسوس کیجئے کہ دشمن نے کس چیز کو ہدف بنایا ہے اور وہ کس کوشش میں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ماضی کے ہمارے یہ احباب جو اپنے نام و شہرت کے سلسلے میں اسلامی انقلاب کے ممنون کرم ہیں، کیوں نہیں سنبھلتے اور کیوں نہیں دیکھتے کہ انقلاب و امام (خمینی رہ) کے دشمن ان کے اقدامات اور بیانوں سے کتنے مسرور و شادماں ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں اور ان کی تصویریں اٹھائے ہوئے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک بار پھر زور دیکر فرمایا کہ انتخابات قانون کے مطابق منعقد ہوئے اور یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔ اس پر کیا جانے والا کوئی بھی اعتراض صحیح ثابت نہیں ہوا، اب قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ اگر ہم منتخب صدر سے خوش نہیں ہیں تب بھی قانون کے سامنے تو ہم سر تسلیم خم کریں اور اس کا احترام کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے زمانے میں بھی انقلاب کے بعض حامیوں کی امام (خمینی رہ) سے علاحدگی اور دوری اور پھر راندہ درگاہ قرار پانے کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: یہ چیزیں ہم سب کے لئے درس عبرت ہونا چاہئے۔ البتہ میں، جیسا کہ ( انیس جون دو ہزار نو کو ) نماز جمعہ میں بھی اعلان کر چکا ہوں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر چلنے اور کم سے کم افراد کو دور کرنے کا قائل ہوں لیکن بظاہر بعض افراد نظام سے دور ہو جانے اور مسترد قرار پانے پر مصر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض افراد کے اقدامات اور بیانوں کی وجہ سے جری ہو کر نظام کے مد مقابل کھڑے ہو جانے والے معدودے چند افراد کو ملت ایران کی عظمت و جلالت کے سامنے ہیچ قرار دیا اور فرمایا: یہ نظام، الہی نظام ہے اور گزشتہ تیس برسوں کے دوران خدا وند عالم نے اسلامی نظام کی بارہا نصرت و تائید فرمائی ہے اور اگر ہم اللہ کے ساتھ ہیں تو یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کے دشمن اور پوری دنیا کو ہڑپ لینے کی خواہاں وہ طاقتیں جو غلط طرز فکر کے ساتھ دنیا پر مسلط ہو جانا چاہتی ہیں اس قوم اور دنیا کے حریت پسند عوام سے منہ کی کھائیں گی۔ آپ نے زور دیکر فرمایا کہ نظام کے دشمن اب بھی اسلامی نظام، عظیم الشان امام (خمینی رہ) ثابت قدم ملت ایران اور اس قوم کے جوانوں کو پہنچاننے میں غلطی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس وقت کے طلبا علم و دانش اور روحانیت و معنویت کے لحاظ سے ممتاز ترین طلبا ہیں اور ہمیشہ میدان عمل میں حاضر رہتے ہیں، حالیہ واقعات میں بھی انہوں نے کامیاب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شان میں گستاخی پر مختلف عوامی طبقات کے غم و غصے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس رد عمل اور اظہار برائت کو بجا اور مناسب قرار دیا ۔ آپ نے فرمایا: سارے لوگ پر سکون رہیں اور یہ یقین رکھیں کہ جو لوگ قوم کے مد مقابل کھڑے ہوئے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ملت ایران اور اسلامی انقلاب کی عظمت و جلالت کے سامنے وہ ٹک نہیں پائیں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اگر ضرورت پڑی تو حکام اور قانون نافذ کرنے والے، قانونی اقدام کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ طلبا کی ذمہ داری یہ ہے کہ فتنہ و فساد کے ذمہ داروں کی شناخت کرکے دوسروں کو ان سے آگاہ کریں تاہم یہ سارا کام پر سکون انداز میں انجام دیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امن و استحکام کی حفاظت کو اہم ترین فریضہ قرار دیا اور فرمایا: جو دشمن بد امنی اور بلوؤں کو ہوا دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کا مقابلہ عوام سے ہے البتہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہئے کہ اپنے فرائض کے مطابق اقدام کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملت ایران اور اسلامی نظام کے دشمن پانی کے بلبلے کی مانند ہیں جو نابود ہو جانے والے ہیں اور جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ اسلامی نظام کی حقیقت ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسی طرح تین اہم ترین مناسبتوں؛ عید مباہلہ، ماہ محرم اور دینی تعلیمی مرکز اور یونیورسٹی کی وحدت کے قومی دن کی جانب اشارہ کیا اور ان تینوں اہم مناسبتوں کا بنیادی پیغام عوام تک حقائق پہنچانا قرار دیا اور فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید مباہلہ کے دن عوام کو حقیقت سے روشناس کرانے اور حق و باطل کا معیار قائم کرنے کے لئے اپنے عزیز ترین افراد کو میدان میں لیکر آئے اور آپ نے اپنی رفتار و گفتار سے اور بہت بڑی قیمت ادا کرکے حقیقت کو پہنچایا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دینی تعلیمی مرکز اور یونیورسٹیوں کی وحدت کا بنیادی ہدف ان دونوں با اثر شعبوں کی روحانی و مادی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنا اور ان کے ما بین حقیقی رشتہ قائم کرنا قرار دیا اور فرمایا: اس مناسبت میں بھی سب سے اہم ہدف پیغام الہی کی تبلیغ اور حقیقت بیانی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بصیرت، یقین اور عمل آوری کو تبلیغ کے بنیادی ستون قرار دیا اور فرمایا: تبلیغ میں فرض شناسانہ قلبی ایمان اور بصیرت نیز پیغام کے تئیں یقین ضروری ہے تاکہ اس کی بنیاد پر عمل اور اقدام وجود میں آئے اور در حقیقت ایسی ہی تبلیغ عمل صالح قرار پائے گی۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حقیقی تبلیغ کی اہم شرط ایک طرز فکر کی تعمیر، ایک نظرئے کی تعمیر اور ایک معیار کی تعمیر ہے، فرمایا: طرز فکر کی اس تعمیر اور معیار کی تعمیر کے لئے درست اور مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور تبلیغ کے سلسلے میں دینی تعلیمی مراکز کی ایک اہم ضرورت منصوبہ سازی اور ضرورتوں کی نشاندہی کے لئے ایک مرکز کا موجود ہونا ہے۔
آپ نے تبلیغ میں نظریہ کی تعمیر کا ہدف عوام کی دینی معرفت و فکر کو ارتقاء کی منزلوں پر پہنچانا بتایا اور فرمایا: عوام میں اگر فرض شناسی کے جذبے کے ساتھ دینی معرفت میں اضافہ ہو تو اس سے معاشرے میں عملی کاوشیں انجام پائیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہ محرم کو معاشرے میں صحیح تبلیغ اور معیار کی تعمیر کا بہترین موقع قرار دیا اور فرمایا: جس دنیا میں حقائق کے دشمنوں کی تمام سرگرمیوں کا دار و مدار فتنے پر ہے، حقیقت پسند افراد کی کارکردگی کا ارتکاز بصیرت و رہنمائی پر ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تبلیغ کی دو اہم شرطوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر تبلیغ اور حقیقت بیانی راہ خدا میں، اللہ کے لئے اور اخلاص کے جذبے کے تحت ہو اور اس راہ میں غیروں یعنی طاغوتوں اور طاقتوروں سے ہراساں نہ ہوا جائے تو یقینا یہ نتیجہ خیز اور موثر ہوگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے صحیح و درست تبلیغ اور اس کی شرائط اور لوازمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: یقین و شجاعت کے ساتھ اقدام کرنا، امور کو اللہ کے سپرد کر دینا اسلامی تبلیغ کا حقیقی پیرایا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مجلس و مرثیہ خوانی کو اولیائے الہی سے جذباتی لگاؤ کا مظہر اور دینی تعلیمات سے فکری و عملی رشتے کی انتہائی با ارزش بنیاد قرار دیا اور فرمایا: یہ جذباتی رشتہ در حقیقت وہی مودت ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے اور اگر یہ مودت نہ ہو تو محبت و اطاعت بھی نہ ہوگی اور پھر ممکن ہے کہ مودت سے کنارہ کشی کی وجہ سے ابتدائی ادوار کی امتوں پر جو بلائیں نازل ہوئیں وہی پھر نازل ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: عاشورا کے واقعے کی تشریح اور مصائب پڑھنا لازمی ہے بنابریں کوئی روشن خیالی کے زعم میں یہ نہ کہنے لگے کہ مصائب پڑھنے اور گریہ و زاری کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے روایتی انداز کی عزاداری امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں فرمایا: روایتی انداز میں عزاداری کرنا، ماتمی دستوں کی صورت میں حرکت کرنا اور مصائب پڑھنا عوام کی عقیدت میں اضافے کا باعث ہوگا لیکن عزاداری کی بعض روشوں جیسے قمہ زنی وغیرہ سے جو درست نہیں ہیں اور جن کے ترک کئے جانے پر پہلے بھی تاکید کی جا چکی ہے، پرہیز کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حقیقت بیانی اور تبلیغ کی اہمیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے ادوار کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں حقائق کے انکشاف کا مسئلہ اکثر و بیشتر منافقین سے متعلق تھا اور حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں سب سے بڑا چیلنج اسلام کے دعوے کرنے والے ان افراد کا مقابلہ کرنا تھا جو ہوائے نفسانی سے مغلوب ہوکر غلط راستے پر آگے بڑھ رہے تھے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایسے حالات کو انتہائی پیچیدہ اور دشوار قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان حالات میں عوام کی نظروں میں چیزیں مشکوک ہو جاتی ہیں اور خواص بھی شکوک و شبہات میں پڑ جاتے ہیں اور خواص کے یہی شکوک و شبہات اسلامی معاشرے کی صحیح پیشقدمی کی بنیادوں کو دیمک کی مانند چاٹ جاتے ہیں۔
آپ نے اس چیز کو موجودہ حالات میں عالمی برادری کی بہت بڑی مشکل قرار دیا اور فرمایا: عالمی سطح پر دشمن معاشرے کو بشمول عوام و خواص کے شک و تردد میں ڈالنے کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے جن میں قانون پسندی، انسانی حقوق کی حمایت اور مظلوموں کی طرفداری کے دعوؤں اور نعروں کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکی صدر کے چند روز قبل کے بیان کا حوالہ دیا جس میں قانون شکنی کرنے والی حکومتوں کو جواب دینے کا دعوی کیا گيا تھا۔ آپ نے سوال کیا کہ کون سی حکومت امریکی حکومت سے بڑی قانون شکن ہے جس نے ایک جھوٹ کی بنیاد پر عراق پر قبضہ کر لیا اور عراقی عوام پر اتنی مصیبتیں نازل کر دیں؟ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکومت کس قانون کی بنیاد پر عراق میں غاصبانہ قبضے کو طول دے رہی ہے اور کس قانون کی بنیاد پر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور اس ملک کے بے گناہ عوام کو روزانہ خاک و خوں میں غلطاں کر رہی ہے؟! قائد انقلاب اسلامی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت دنیا میں قانون شکنی اور لا قانونیت کا مظہر ہے لیکن ظاہری طور پر کسی اور انداز سے کام کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا: اسی کو فتنہ کہتے ہیں اور اس متعفن اور مٹ میلے پانی کے بہاؤ کی روک تھام کے لئے، جو مختلف ذریع سے عالمی رائے عامہ کی فکروں میں داخل ہو جانا چاہتا ہے، واحد موثر طریقہ حقیقت کی پردہ کشائی ہے جو بہت اہم فریضہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کو مسلمانوں کے درمیان شکوک و شبہات اور انتشار پیدا کرنے کا ایک اور حربہ قرار دیا اور فرمایا: مذہبی اختلافات پرقابو پانے کا واحد طریقہ حقائق کی پردہ کشائی، بصیرت و دور اندیشی، صحیح تبلیغ اور دشمن کے جال میں نہ پھنسنا ہے۔