قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں اسلامی جمہوری نظام کی داخلی صورت حال اور عالمی حالات کا جامع جائزہ پیش کیا اور اسلامی محاذ اور اسلامی انقلاب کی قوت و استحکام میں روز افزوں اضافے اور سامراجی نظام کی روز افزوں کمزوری و سراسیمگی کو اسلامی نظام کے تین قابل افتخار عشروں کے بعد کی نمایاں حقیقت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ دینی تعلیمی مرکز اور یونیورسٹی کے حلقوں کی ممتاز شخصیات نیز معاشرے کے با اثر افراد کا سب سے اہم فریضہ عوام میں امید و نشاط پیدا کرنا، حکام کے سلسلے میں بد گمانی پھیلانے سے اجتناب، دشمن کی سازشوں اور منصوبوں سے آگاہی و ہوشیاری، بنیادی اور فروعی مسائل کی صحیح شناخت، وسیع قومی خود اعتمادی، حیرت انگیز ترقی اور ملک میں قائم محنت و مشقت کے ماحول کو نظر انداز نہ کرنا اور قومی اتحاد و اسلامی یکجہتی کے لئے صرف نعرے بازی نہیں بلکہ عملی اقدام کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی عالمی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے اور سامراجی محاذ کے روئے کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت سامراجی نظام کی سب سے خاص بات حد سے زیادہ ہاتھ پیر مارنا ہے اور اس کے نتیجے میں زیادہ سرگرمیاں بغیر ارتکاز کے اور بے مقصد انجام پا رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف کئی قراردادوں کی پے در پے منظوری، پابندیاں عائد کئے جانے، تہمت و الزام تراشی، داخلی مخالفین کو سرگرم رکھنے کی کوششوں اور تمام مواصلاتی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی وسائل کے استعمال کو اسلامی نظام کے خلاف سامراجی محاذ کی وسیع کارروائي کی مثال قرار دیا اور فرمایا کہ سراسیمگی کے عالم میں انجام دی جانے والی یہ تمام سرگرمیاں تیس سال بعد اسلامی نظام کی روز افزوں طاقت، تجربات اور آگاہی و ہوشیاری کی علامت ہے کیونکہ اگر یہ محاذ کمزور ہوتا تو اتنے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی اور سازشوں کی ضرورت نہ پڑتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر بلکہ زیر تسلط رہنے والے ممالک کے اندر بھی مغربی دنیا کی موجودہ پوزیشن کو بہت کمزور اور متزلزل قرار دیا اور فرمایا کہ یہ روز افزوں کمزوری اسلامی بیداری کی لہر کی وسعت کا نتیجہ ہے جو اس بات کا باعث بنی ہے کہ علاقے میں مغرب کے بعض حلیف ممالک بھی اسلامی لہر کے دباؤ سے بچنے اور در پیش مشکل سے نکلنے کے لئے اپنی کچھ باتوں پر نظر ثانی کریں جس سے اب تک تو انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا ہے۔ بنابریں سامراجی محاذ کی پوزیشن متزلزل اور کمزور ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران مخالف قراردادوں کی منظوری، اسلامی نظام کے خلاف موقف، دو ہزارنو کا (صدارتی انتخابات کے بعد پھیلایا جانے والا) فتنہ جس میں دشمن کے ہاتھ بالکل صاف نظر آ رہے تھے اور قرآن کریم کی شرمناک طریقے سے بے حرمتی ایسے اقدامات ہیں جو سامراجی محاذ، پریشانی میں مبتلا ہو جانے کے باعث انجام دے رہا ہے اور سامراج کے کرتا دھرتا، اسلامی نظام کی قدرت و طاقت کا کھلے عام اعتراف بھی کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگرچہ ان اقدامات کے نتیجے میں اسلامی نظام اور بھی مستحکم ہو رہا ہے لیکن کبھی بھی غفلت اور لا پروائی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ دائمی طور پر اصلاح کرتے رہنا غفلت سے بچنے کا مناسب راستہ ہے اور معاشرے اور عوام کی اصلاح کے لئے پہلے اپنے اندر اصلاح کرنا ہے اور اگر با اثر افراد اور ممتاز ہستیاں اللہ تعالی سے اپنے رابطے کی اصلاح کرتی رہیں تو نوجوانوں اور عوام پر اچھے اثرات مرتب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوں گے کیونکہ عوام نے مختلف مواقع پر اپنے فرائض پر بحسن و خوبی عمل کیا ہے اور کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اندرونی جذبات کی تقویت کو عہدہ داروں اور علماء کا اہم فریضہ قرار دیا اور معاشرے میں اتحاد کے موضوع کو بار بار اٹھائے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اتحاد کا مطلب محض اس کے بارے میں گفتگو کرنا نہیں ہے بلکہ عملی شکل میں اس پر کام کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اتحاد کے معنی یہ ہیں کہ اشتراکات کی تقویت کی جائے اور عوام کے سامنے انہیں نمایاں کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ بعض افراد سے ذاتی ناراضگی انسان کی پوری رفتار و گفتار پر حاوی ہو جائے اور بنیادی مسائل اور اشتراکات کو سامنے لانے کے بجائے فروعی مسائل اور ملکی مفادات کے منافی باتوں کو موضوع بحث بنایا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سازشوں اور روشوں کی شناخت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن نے عوام کو نظام سے الگ کرنے اور عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کے دینی عقائد کو کمزور کرنے جیسے دو محوروں پر اپنی تمام کوششوں اور منصوبہ بندی کو مرکوز کر رکھا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کو اسلامی نظام کا اصلی سرمایہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ دشمن عوام کو حکام سے بد ظن کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پروپیگنڈے میں اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حکام کے ہر اچھے اور مناسب اقدام کو نادرست، غلط اور ملکی مفادات کے بر خلاف قدم ظاہر کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تیس برسوں میں نظام کے خدمت گزاروں سے عوام الناس کو بد ظن کرنے کی دشمن کی مختلف سازشوں اور ان سازشوں کے مقابلے کی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی دس سالہ قیادت کے زمانے میں اس وقت کے بعض حکام پر کئے جانے والے بعض اعتراضات کے باوجود ہمیشہ ان کا دفاع کیا اور ان کے بچاؤ میں سینہ سپر ہو گئے البتہ اس کا مطلب حکام کے اقدامات کی ہر چھوٹی بڑی بات کو صحیح قرار دینا نہیں تھا بلکہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی کوشش یہ تھی کہ حکام پر عوام کے اعتماد میں ذرہ برابر کمی واقع نہ ہونے پائے۔ آپ نے فرمایا کہ پچھلے بیس سالوں میں بھی اسلامی نظام کی قیادت نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روش کے مطابق حکومتوں کی حمایت کی اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے حاصل شدہ کامیابیوں کو حکام کی مخلصانہ، مومنانہ اور بے تکان کوششوں کا ثمرہ قرار دیا اور فرمایا کہ کسی گوشے میں کسی ایک اقدام کے باعث حکومت اور تمام محکموں کو عوام کی نظر میں بے اعتبار بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، اس سلسلے میں جو باتیں بعض افراد کرتے ہیں وہ حقیقت کے بر خلاف ہیں اور یہ ایسی باتیں ہیں جو دشمن کو پسند ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ کہیں دشمن کی آواز سے آواز نہ مل جائے، اس کے بنائے ہوئے نقشے پر عملدرآمد نہ ہونے لگے اور دشمن کی بات کو ہم ملک کے اندر منعکس نہ کرنے لگیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کو دینی عقائد اور شرعی احکام سے دور کرنے کے لئے انجام دی جا رہی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی سازشوں اور دینی و اخلاقی احکام کی مخالفتوں کے مقابلے میں بہت سوچ سمجھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی و اعتقادی امور میں سعی و کوشش کرنے کو حکومت اور تمام عہدہ داروں کا فریضہ قرار دیا اور فرمایا کہ بے شک اس میدان میں علمائے کرام، دینی علمی مراکز اور یونیورسٹیوں کی اہم شخصیات کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام کے دینی عقائد کی تقویت کے لئے اور دشمنوں کی منصوبہ بند سازشوں کے مقابلے کے لئے ٹھوس اور موثر اقدام دینی علمی مراکز اور یونیورسٹی کی ممتاز شخصیات کا فریضہ ہے اور مختلف علمی شعبوں میں ہدایت و رہنمائی کا کام کرنے والے علمی و دینی افراد کی کمی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی اور فنی اداروں کو قالب اور پیرائے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اس قالب اور پیرائے کا مضمون یونیورسٹیوں اور دینی علمی مراکز میں تشکیل پانے والی فکری و علمی کمیٹیوں کے اندر تیار کیا جانا چاہئے تاکہ ایک دینی شاہکار کی تخلیق کی زمین ہموار ہو ورنہ دوسری صورت میں پیرائے صحیح مضمون سے خالی رہ جائیں گے اور ثقافتی اور فنی محکموں کی کارکردگی کی بعض خامیوں کی وجہ بھی یہی مسئلہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی نظام کی داخلی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلامی و انقلابی اصولوں اور اقدار پر عوام کی ثابت قدمی کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ گزشتہ تیس برسوں میں نطام کی انقلابی اور اسلامی ماہیت کو ختم کرنے کے لئے بہت سے بنیاد شکن اقدامات اور حملے کئے گئے تاکہ عوام میں انقلاب سے دوری پیدا ہو جائے لیکن اللہ تعالی کے لطف و کرم سے یہ کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان کوششوں کے باوجود عوام اور عوامی حلقوں میں موجود با ایمان حکام نے استقامت کا ثبوت دیا اور نتیجے میں انقلاب آگے بڑھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات کو انقلابی اقدار اور اصولوں پر عوام کی ثابت قدمی کا نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ صدارتی انتخابات میں عوام نے غیر مذہبی اور غیر اسلامی رنگ کے نعروں اور باتوں میں دلچسپی نہیں لی اور ان نعروں اور منصوبوں کی حمایت کی جو اسلام اور سماجی انصاف کا رنگ لئے ہوئے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم عہدہ داروں کا عوام کی جانب سے احترام در حقیقت اسلام سے عوام کے گہرے لگاؤ کا نتیجہ ہے، چنانچہ اگر ہم ایک لمحے کے لئے بھی اسلام اور انقلاب کے راستے سے ہٹ جائیں تو یہی عوام ہم سے اپنی نفرت کا اعلان کر دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے نعرے آج بھی زندہ ہیں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اقوال اور افکار کا سکہ چل رہا ہے حتی وہ لوگ جو پہلے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مخالفت کرتے تھے اور واشگاف لفظوں میں انقلاب کے دفن ہو جانے کی بات کرتے تھے آج عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی باتیں دہرا رہے ہیں اور انقلاب کا دم بھرنے لگے ہیں۔
آپ نے سن دو ہزار نو میں رونما ہونے والے پر آشوب واقعات کو اسلام اور انقلاب کے اقدار اور اصولوں پر عوام کے کاربند رہنے کی مثال قرار دیا اور فرمایا کہ اس فتنے کے وقت حتی ان افراد نے جنہوں نے منتخب امیداوار کے علاوہ کسی اور امیدوار کو ووٹ دیا تھا فتنہ پروروں کے چہرے سے نقاب ہٹنے کے بعد اصولوں اور اقدار کا ہی رخ کیا اور ہم نے دیکھا کہ تیس دسمبر (2009) اور گیارہ فروری (2010) کو ( عوامی ریلیوں میں) سب کے سب سڑکوں پر آئے اور پتہ چل گیا ہے کہ فنتہ پروروں کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت ملک میں عوام کی پسند امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روش اور راستہ اور اسلام و انقلاب کے اقدار ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے داخلی صورت حال پر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے سائنس و ٹکنالوجی اور صنعت کے میدان میں حاصل ہونے والی پیشرفت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان ترقیوں کی حقیقت میڈیا میں پیش کی جانے والی تصویر سے کہیں زیادہ افتخار آمیز ہے کیونکہ یہ پیشرفت ملک کے نوجوان سائنسدانوں کے اندر قومی خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہونے کا ثمرہ ہے۔ آپ نے یونیورسٹی کے حلقوں، طلبہ، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور عہدہ داروں سے ماہ رمضان میں ہونے والی اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے قومی خود اعتمادی کی درخشندگی کو ان ملاقاتوں کی سب سے خاص بات قرار دیا اور فرمایا کہ خود اعتمادی کا جذبہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کی حفاظت اور تقویت کی جانی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ حود اعتمادی در حقیقت وہی جذبہ ہے جسے عوام اور نوجوانوں میں بیدار کرنے کے لئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے کوششیں کیں اور یہ امور بہت شیریں اور افتخار آمیز ہیں اور جو افراد ہمیشہ خامیوں اور تلخیوں کی باتیں کرنے کے عادی ہیں انہیں ان امور کو بھی دیکھنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سب سے بنیادی بات ہے ملک کی پیشرفت اور اللہ کا شکر ہے کہ ملک پیشرفت کر رہا ہے اور صحیح ہدف، سمت اور بھرپور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت ملک سعی و کوشش اور تعمیر و ترقی کے اقدامات کا میدان بنا ہوا ہے اور بڑے اہم امور انجام پائے ہیں جو قابل قدر بات ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گزشتہ تین عشروں کے سخت حالات اور دشمن کے شدید دباؤ کا نتیجہ عوام اور حکام میں زیادہ استقامت و ثابت قدمی پیدا ہونے کی شکل میں سامنے آيا ہے اور دباؤ کے اس نئے دور کے نتیجے میں بھی یقینی طور پر عوام میں ثابت قدمی اور استقامت بڑھے گی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دباؤ ناکام رہے گا کیونکہ دین خدا کی مدد کرنے والوں کی اللہ کی جانب سے نصرت و مدد کا الہی وعدہ تو ہے ہی، اس کے علاوہ بھی انقلاب کے مختلف مراحل کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے عوام کی استقامت کے نتیجے میں یہ دباؤ ناکام ہو جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت جنگ عزم و ارادے کی جنگ ہے اور اگر اسلامی نظام کو شکست ہونی ہوتی تو پہلے عشرے میں ہی ہو چکی ہوتی جب ملک کی توانائیاں اور تجربات محدود تھے، اس وقت تو ملک اور انقلاب کی طاقت، تجربات اور توانائیاں انقلاب کے ابتدائی برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلاب کے پہلے عشرے کی بنسبت اس وقت عوام میں جوش و جذبہ اور بھی زیادہ ہے اور موجودہ نوجوان نسل کا جذبہ ایمانی اور بلند ہمتی اوائل انقلاب کی نسل سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ آپ نے گزشتہ تیس برسوں میں ہر موقع پر عوام کے میدان میں حاضر رہنے کو اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی نظام کی کامیابیوں کی بنیادی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ میدان میں عوام کے حاضر رہنے کی وجہ ان کے اندر موجود امید ہے بنابریں عوام میں یہ امید باقی رہنی چاہئے اور ایسی ہر بات اور اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے ان میں بد گمانی اور بے اعتمادی پیدا ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے داخلی امور کے سلسلے میں فروعی اور اصلی مسائل کی نشاندہی کو بھی بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ اصلی مسائل کی صحیح شناخت ہونی چاہئے اور فروعی باتوں کو بنیادی مسئلہ نہیں بنانا چاہئے البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ فروعی مسائل کی بات ہی نہ کی جائے بلکہ انہیں اصلی مسئلہ بننے سے روکا جائے اور انہیں مخالفت یا حمایت کا معیار نہ بننے دیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ راہ حق، اسلام، انقلابی اصولوں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اہداف پر ثابت قدم رہنا اور سامراجیوں سے مقابلہ کرنا معیار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ثقافتی امور کو اقتصادی اور سیاسی امور سے زیادہ اہم قرار دیا اور فرمایا کہ اگر کسی قوم کی ثقافت جو زندگی میں انسانوں کے ادراک، طرز فکر، عقائد اور جذبات سے عبارت ہے، درست نہ ہو تو اس کے اثرات یقینی طور پر معاشرے کی کارکردگی اور راہ و روش میں نمایاں ہوں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ فرض شناسی، جذبہ ایثار، جذبہ عمل، نظم و ضبط، سماجی تعاون، سماجی رواداری، اسراف سے اجتناب، معیار صرف کی اصلاح، قناعت پسندی، داخلی پیداوار کی مضبوطی، امور کی صحیح انجام دہی، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار اور انقلاب کے اقدار کی پاسبانی، اسلامی یکجہتی کے جذبے کی تقویت، عفاف و پاکیزگی اور سادہ زیستی ثقافتی مسائل میں شامل ہیں، ان کے تعلق سے ذرائع ابلاغ کا کردار بہت اہم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ثقافتی پیرائے کے مضمون کی ذمہ داری علمائے کرام اور دینی علمی مراکز پر ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں ماہرین کی کونسل کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے کونسل کے دو روزہ اجلاس اور زیر بحث آنے والے موضوعات کو بہت اطمینان بخش قرار دیا۔ کونسل کے نائب سربراہ آيت اللہ یزدی نے بھی کونسل کے اجلاس میں ہونے والی بحث کی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔