قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ قم کے ہزاروں بسیجیوں (رضاکاروں) کے اجتماع میں بسیج یعنی عوامی رضاکار فورس کے مختلف پہلوؤں اور اس کے اجزائے ترکیبی پر روشنی ڈالتے ہوئے بصیرت، اخلاص اور بروقت اقدام جیسے تین عناصر کو عوامی رضاکار فورس کی شناخت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی مملکت ایران کی حیرت انگیز ترقی کی برعکس تصویر پیش کرنے کے لئے دشمنوں کی وسیع تشہیراتی کوششیں قوم اور عہدہ داروں کی برق رفتار اور عظیم پیش قدمی کے سامنے ان کی بے بسی اور کھسیاہٹ کی علامت ہے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف یہ پیشرفت بلا وقفہ جاری رہے گی اور ملت ایران کا مستقبل تابناک اور روز افزوں ترقیوں سے مزین رہے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے پورے ملک اور خاص طور پر قم میں پرجوش، با ایمان، صداقت پسند اور بابصیرت بسیجیوں (رضاکاروں) کی کثیر تعداد کو ملت ایران کی نشو نما اور ترقی و پیشرفت اور دشمنوں کی سازشوں کے سامنے اس کی مضبوطی کی ایک منطقی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ عوامی رضاکار فورس اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس کو معرض وجود میں لانے کا نظریہ ہماری عصری تاریخ کے صالح بندے اور لا ثانی شخصیت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے پیش کیا اور پھر اسے عملی جامہ پہنایا گیا، اب تیس سال گزر جانے کے بعد یہ شجرہ طیبہ انقلاب اور ملت ایران کے لئے ماضی سے بھی زیادہ بارآور ثابت ہو رہا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپنی گہری بصیرت کی بنا پر دست قدرت خداوندی کا ہمیشہ مشاہدہ کر لیتے تھے اور اسی بصیرت کی بنیاد پر انہوں نے عوام پر بھروسہ کیا اور عوام بھی میدان میں آئے جس کے نتیجے میں تاریخ کا وہ عظیم اور ناقابل یقین واقعہ یعنی اسلامی انقلاب کی کامرانی، رونما ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے بسیج کی حقیقت و ماہیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ذہن میں رضاکار تحریک کو معرض وجود میں لانے کا خیال در حقیقت آپ کی اسی بابصیرت نظر اور عوام اور نوجوانوں پر آپ کے اعتماد کا تسلسل تھا اور آج کی رضاکار نوجوان نسل اسی پاک و پاکیزہ درخت کا ثمر ہے جسے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) نے اپنے ہاتھوں سے لگایا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایمان، عمل صالح اور مجاہدت کو بسیج (رضاکار فورس) کے اجزائے ترکیبی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ بسیج (رضاکار فورس) کی مجاہدت اور جانفشانی کا میدان بہت وسیع و عریض ہے جو علم و سیاست اور معاشرے سے لیکر عالمی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران مختلف امتحانوں اور آزمائشوں منجملہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران بسیج (رضاکار فورس) کے فیصلہ کن اور جدت عمل پر مبنی کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے بسیج (رضاکار فورس) نے مسلسل ارتقائی منزلیں طے کی ہیں اور اس نے (گمراہ کن) وسوسوں کا ہمیشہ ڈٹ کا مقابلہ کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بصیرت، اخلاص، بروقت اور نپے تلے اقدام کو بسیجی تحریک کی شناخت قرار دیا اور فرمایا کہ بسیج (رضاکار فورس) کی ایک بڑی کامیابی یہ رہی کہ اس نے دشمن کی تہہ در تہہ سازشوں کے مقابلے میں اپنی توانائي اور بصیرت میں مسلسل اضافہ کیا جس کی تائيد سن دو ہزار نو کے فنتہ آمیز قضیئے سے ہوتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ دو ہزار نو کے بلوے میں بہتوں سے غلطیاں سرزد ہوئیں جن میں بہت سے افراد نے کچھ عرصے کے بعد اپنی غلطی کی اصلاح بھی کی لیکن بسیج (رضاکار فورس) پرچم بصیرت کے تلے صراط حق پر چلی اور اس میں کوئی انحراف نہیں پیدا ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ حق کی شناخت کے لئے معیار اور کسوٹی چہرے نہیں ہیں کیونکہ بعض اوقات اچھے چہرے بھی غلط راستے پر چل پڑتے ہیں لہذا حق و باطل کا تعین بصیرت کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے چہروں اور افراد کو معیار بنا کر نہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ اگر میں بھی اسلام سے الگ ہو جاؤں تو عوام مجھ سے منہ پھیر لیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ حق کی پہچان کے لئے معیار اور کسوٹی اسلام ہے اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے دشمن کی سازشوں اور منصوبوں کی شاخت کرنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بسیج (رضاکار فورس) کے دوسرے اہم ترین عنصر یعنی اخلاص کے سلسلے میں فرمایا کہ اخلاص عبارت ہے ذاتی، گروہی و خاندانی مفادات اور دوستی کے تکلفات سے متاثر ہوئے بغیر محض خدا پرستانہ جذبے کے تحت آگے بڑھنے سے۔ آپ نے بروقت اور نپے تلے اقدام کو بھی انتہائی اہم قرار دیا اور فرمایا کہ عمل میں کوتاہی اور انتہا پسندی سے اجتناب بسیج (رضاکار فورس) کی ضروری صفات میں سے ایک ہے کیونکہ کوتاہی جتنی نقصان دہ ہے انتہا پسندی بھی اتنی ہی مضر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بسیجی نوجوانوں کے انقلابی جوش و جذبے میں کسی طرح کی کمی نہیں آنا چاہئے بلکہ یہ انقلابی جوش و خروش روز بروز بڑھنا چاہئے تاہم یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس جوش خروش کا مظاہرہ مناسب موقع و محل پر ہی ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے رضاکاروں کو جہاد بالنفس یعنی جہاد اکبر کے لئے مزید سعی و کوشش کی دعوت دی اور معاملات کے صحیح ادراک اور تجزئے کے طریقے کے تعلق سے فرمایا کہ قضیئے کو صحیح طور پر سمجھنے کا ایک طریقہ اس بات پر نظر رکھنا ہے کہ دشمن کس منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت نرم جنگ کے تناظر میں دشمن کا ایک اصلی حربہ ملک کے حقائق کو برعکس شکل میں پیش کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے زمینی حقائق کو بالکل مختلف شکل میں پیش کرنے کے لئے جاری دشمن کی وسیع تشہیراتی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بات دشمن کی شکست اور ترقی کی راہ پر ایرانی قوم اور حکام کی تیز رفتار پیش قدمی اور ان کی گوناگوں کامیابیوں کے سامنے دشمن کی بے بسی اور کھسیاہٹ کی علامت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملکی معیشت کی صورت حال کے سلسلے میں دشمن کے پروپیگنڈے کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس پروپیگنڈے میں ملک کی اقتصادی حالت کو مایوس کن ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر بعض افراد کی جانب سے دشمن کے پروپیگنڈے کو دہرائے جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ بعض افراد جو گزشتہ سال کے بلوے کے دوران امتحان سے گزرے، (صدارتی) انتخابات سے قبل عوام کے لئے معاشی لحاظ سے تاریک اور دشوار سال کی پیش گوئیاں کر رہے تھے جبکہ سب نے دیکھا کہ دو ہزار نو ایسا سال نہیں تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام سے متعلق حقائق کو برعکس شکل میں پیش کرنے کو دشمن کا تیس سال پرانا طریقہ قرار دیا اور فرمایا کہ گزشتہ برسوں میں یہ تشہیراتی مہم اور بھی تیز ہو گئی ہے کیونکہ ملک کے حکام اور حکومتی افراد انقلاب کے نعروں کو زیادہ سنجیدگی سے اور پرزور انداز میں دہرا رہے ہیں اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور اسلامی انقلاب کی راہ پر ان کی پیش قدمی اور عوام کے لئے ان کے کام زیادہ نمایاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حالیہ برسوں میں حکام عوام الناس کا حصہ رہے ہیں اور عوام کے اندر اس بات کا احساس بھی ہے لیکن یہ بات اسلامی نظام کے مخالفین کو پسند نہیں آ رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی فرمایا کہ اسلامی نظام کے مخالفین اور فتنہ پرور افراد کہتے تھے کہ ایران دنیا میں خوار و رسوا ہو گيا ہے جبکہ آج دنیا کی قوموں میں اسلامی جمہوریہ ایران کا عز و وقار کم ہونا تو دور اسے ‍چار چاند لگ گئے ہیں۔ آپ نے لبنانی عوام کی جانب سے صدر ایران ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے والہانہ اور تاریخی استقبال کو اس حقیقت کی دلیل قرار دیا اور فرمایا کہ کسی بھی ملک کے صدر کا دنیا کے کسی بھی علاقے میں اتنا شاندار استقبال نہیں ہو سکتا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورہ لبنان اور وہاں پرشکوہ عوامی استقبال کو معمولی بات نہیں سمجھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت اگر اسلامی نظام کے عہدہ دار کسی بھی اسلامی ملک کا دورہ کریں اور عوام کو چھوٹ مل جائے تو لبنانی عوام کی مانند ہی وہ بھی استقبال کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان واقعات کو ملت ایران کے افتخار و عظمت کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ حکومت عوامی حمایت سے محروم حکومت ہوتی اور دسیوں لاکھ نوجوانوں کی حمایت اسے حاصل نہ ہوتی تو لبنان میں ہرگز یہ نظارہ دکھائی نہ پڑتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بسیج (رضاکار فورس) کے خلاف اسلامی نظام کے دشمنوں کے پروپیگنڈے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک زمانے میں دشمن نے اپنی عالمی تشہیراتی مہم کا رخ بسیج (رضاکار فورس) کی جانب موڑ دیا اور اس پر تشہیرتی بمباری کر ڈالی تاکہ اسے عوام کی نظروں سے گرا دے لیکن بسیج (رضاکار فورس) ایک درخشاں حقیقت اور مظہر عزم ارادہ بن چکی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران اور امت اسلامیہ کا مستقبل اور بھی درخشاں و تابناک ہوگا اور موجودہ دور کی نسبت ملت ایران کی مستقبل کی ترقی و پیشرفت کا فرق اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو تیس سال قبل کی صورت حال اور آج کی پوزیش کے درمیان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام و قرآن کی راہ پر ملت ایران کی بلا وقفہ پیش قدمی ملت ایران کے لئے زیادہ ترقی اور درخشاں مستقبل کا مژدہ سنا رہی ہے اور اس حقیقت کے اثرات پورے عالم اسلام اور مسلمان قوموں کی اور بیداری و آگاہی کا باعث بنیں گے۔
اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صوبہ قم کے دو ممتاز رضاکاروں جناب حامد عبد اللہی اور محترمہ احسانی نے اپنی تقریروں میں دشمن کی نرم جنگ کے مختلف پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اچھی فکری صلاحیتوں کے مالک انقلابی نوجوانوں کو مزید موقع دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور مختلف علمی و اجرائی سطح پر ان کی خدمات حاصل کرنے اور ملک کے منصوبوں میں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کئے جانے کا مطالبہ کیا۔
صوبہ قم میں سپاہ پاسداران انقلاب کی علی ابن ابی طالب علیہ السلام بٹالین کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل ابراہیم جباری نے بھی اس موقع پر اپنی تقریر میں بصیرت کو رضاکاروں بالخصوص صوبہ قم کے بسیجیوں کی نمایاں خصوصیت قرار دیا اور کہا کہ بسیجی نوجوانوں نے ماضی کے سخت حالات اور دشمن کی پیچیدہ سازشوں سے تجربات حاصل کرکے نرم جنگ کے پیچیدہ میدانوں میں اقدامات کی اپنی توانائیوں میں اضافہ کیا ہے اور وہ ضرورت پڑنے پر وارد میدان ہونے کے لئے ہمیشہ آمادہ ہیں۔