امام رضا علیہ السلام کا عظیم کارنامہ

ائمہ علیہم السلام کی مظلومیت صرف ان حضرات کی زندگی تک محدود نہیں رہی بلکہ صدیوں تک ائمۂ اہلبیت علیہم السلام کی زندگی کے اہم بلکہ شاید اصلی پہلوؤں کی طرف عدم توجہ نے ان کی تاریخی مظلومیت کو جاری رکھا۔ (1986/7/19) ائمہ کی زندگی کی سب سے اہم چیز جس پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی، ان کی "بھرپور سیاسی جدوجہد" ہے۔ (1984/8/9) سیاسی جدوجہد یا بھرپور سیاسی جدوجہد کا کیا مطلب ہے جس کی نسبت ہم ا‏ئمہ علیہم السلام کی جانب دیتے ہیں؟ سیاسی جدوجہد ایک سیاسی ہدف کے ساتھ جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ سیاسی ہدف کیا ہے؟ وہ اسلامی حکومت اور ہمارے الفاظ میں علوی حکومت کی تشکیل سے عبارت ہے۔ (1986/7/19) امامت کا مطلب ہے دین اور دنیا کی قیادت، مادیت اور معنویت کی سربراہی۔ اس کا مطلب یہی سیاست، ملک کا انتظام چلانا اور حکومت کا انتظام چلانا ہے۔ سارے ائمہ اسی ہدف کے حصول کے لیے کوشاں تھے، بغیر کسی استثنیٰ کے سارے ائمہ اسی ہدف کے لیے کوشاں تھے، بس طریقے الگ تھے، الگ الگ وقت میں، الگ الگ طریقوں اور مختلف قلیل المیعاد اہداف کے ساتھ لیکن سبھی کا طویل المیعاد ہدف ایک تھا۔ (2024/5/8)

ایک غیر معمولی غیر عسکری جنگ!

اگرچہ ائمہ علیہم السلام کی حیات طیبہ میں امامت کے ڈھائی سو سالہ دور میں نمایاں اور ممتاز نکات بہت زیادہ ہیں جن میں سے ہر ایک توجہ، تجزیے اور تشریح کے لائق ہے لیکن آٹھویں امام علیہ السلام کا زمانہ، اس سلسلے کے سب سے نمایاں ادوار میں سے ایک ہے۔ (2014/9/7)

امام رضا علیہ السلام کی عمر مبارک تقریبا پچپن سال تھی۔ اس پچپن سال کے عرصے میں تقریباً بیس سال آپ کی امامت کا زمانہ ہے لیکن اسی مختصر سی مدت نے عالم اسلام کی حقیقت پر آپ نے جو اثر ڈالا اور حقیقی معنی میں اسلام کے فروغ اور اس کی گہرائی اور اہلبیت علیہم السلام سے جڑنے اور ان کے مکتب فکر سے آشنائی پر جو اثر ڈالا وہ ایک بہت ہی حیرت انگیز باب ہے، ایک بہت ہی گہرا سمندر ہے۔ (2013/9/17) امام رضا علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہارون رشید کے جابرانہ تسلط کے دور میں ہوا۔ (2014/9/7) دوست، اصحاب اور چاہنے والے کہتے تھے کہ علی ابن موسی ایسے حالات میں کیا کر سکتے ہیں؟ دور ہارونی کے اس انتہائی گھٹن بھرے ماحول میں، جس کے بارے میں روایت ہے کہ کہا جاتا تھا: "وَ سَیفُ ھارونَ یُقَطِّرُ الدَّم" ہارون کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا، یہ نوجوان ان حالات میں، جس کے کندھوں پر شیعہ اماموں کے جہاد کو آگے بڑھانے کی عظیم ذمہ داری ہے، کیا کر سکتا ہے؟ (2013/9/17) اتنے سخت اور دشوار حالات میں بھی اس عظیم ہستی نے سیرت پیغمبر اور قرآنی و اسلامی تعلیمات کا روشن راستہ اسلامی معاشرے کے سامنے پیش کیا اور اسے وسعت دی اور دلوں کو مکتب اہل بیت رسول اور خاندان پیغمبر سے قریب کیا۔ (2014/9/7)

یہاں تک کہ نوبت مامون تک پہنچی اور پھر امام رضا علیہ السلام کو مدینے سے بنی عباس کے سیاسی دارالخلافہ یعنی خراسان کے مرکز مرو لانے پر اصرار کرنے اور دباؤ ڈالنے کا ماجرا سامنے آیا۔  (2014/9/7) تاریخ ہارون کے زمانے میں امام رضا کی زندگی کے دس سال اور اس کے بعد خراسان اور بغداد کی خانہ جنگی کے پانچ سالہ دور میں ان کی زندگی کے بارے میں کوئی واضح تصویر پیش نہیں کر پاتی ہے لیکن غوروفکر کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے کہ آٹھویں امام اس عرصے میں بھی اہلبیت کی اسی طویل المیعاد جدوجہد کو، جو عاشورا کے بعد ہر زمانے میں جاری رہی تھی، اسی جہت میں اور ان ہی اہداف کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے۔ (1984/8/9) آپ دیکھئے کہ (سیاست) کے مسئلے میں امام رضا علیہ السلام کا کردار کیا ہے ... امام رضا کی ولیعہدی در اصل مامون، اس باہوش، زیرک اور بے حد چالاک مامون اور امام رضا علیہ السلام کے درمیان ایک مقابلہ تھا ... ایک عظیم مہم، ایک غیر معمولی غیر فوجی جنگ یعنی سیاسی جنگ در اصل حضرت اور مامون کے بیچ شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں حضرت نے مامون کو دھول چٹا دی۔ انھوں نے مامون کی مٹی پلید کر دی۔ یہاں تک کہ مامون حضرت کو قتل کر دینے پر مجبور ہو گیا۔ ورنہ اس سے  پہلے یہ صورتحال نہیں تھی، وہ لوگ حضرت کا احترام کرتے تھے، نماز کی امامت کے لیے بھیجتے تھے۔ یہ سب چیزیں تھیں۔ (2024/5/8)

مامون کی سیاسی اور شاطرانہ چال کے مقابلے میں امام رضا علیہ السلام کا مدبرانہ پروگرام

مامون امام رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کی دعوت دے کر کچھ اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا جن میں پہلا اور سب سے اہم ہدف، شیعوں کی بھرپور انقلابی جدوجہد کے میدان کو پرسکون اور بے خطر سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں بدلنا تھا۔ دوسرا ہدف، اموی اور عباسی خلافتوں کے غاصب ہونے کے شیعوں کے دعوے کو غلط ثابت کرنا اور ان خلافتوں کو قانونی ظاہر کرنا تھا۔ تیسرا ہدف یہ تھا کہ مامون اپنے اس کام کے ذریعے امام کو، جو جدوجہد اور مخالفت کا ایک مستقل مرکز تھے، اپنی حکومت کے کنٹرول میں لانا چاہتا تھا اور اس طرح وہ امام علیہ السلام کے ساتھ ہی تمام علوی رہنماؤں، طاقتور شخصیات اور جنگجوؤں کو اپنے کنٹرول میں لے آتا۔ (1984/8/9)

مامون کی اس شاطرانہ سیاسی چال کے جواب میں آٹھویں امام علیہ السلام نے مدبرانہ حکمت عملی طے کی اور اس پر عمل کیا، جس کے نتیجے میں خلیفہ وقت کے عزائم کی تکمیل تو در کنار، اس کے بالکل برعکس دنیا کے گوشہ و کنار میں قرآنی معارف اور اہل بیت اطہار سے وابستہ افکار و نظریات کی ترویج ہونے لگی۔ اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ بڑا عظیم قدم اٹھایا اور امام ہشتم نے الوہی تدابیر کے ذریعے، گہری بینش کے ذریعے ظالم و جابر حکومت وقت کے معاندانہ سیاسی منصوبے کا رخ بالکل برعکس سمت میں یعنی حق و حقانیت کے اہداف کی طرف موڑ دیا۔ (2014/9/6)

اس سے پہلے تک شیعہ اکّا دکّا ہر جگہ تھے لیکن آپس میں جڑے ہوئے نہیں تھے، مایوسی کا عالم تھا۔ کوئی واضح افق نگاہوں کے سامنے نہیں تھا۔ کوئی امید نہیں تھی۔ خلفاء کا تسلط ہر جگہ تھا۔ اس سے پہلے ہارون کا زمانہ تھا جو فرعونی قوت کا مالک تھا۔ جب حضرت امام رضا خراسان تشریف لائے اور اس راستے سے گزرے تو لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ایسی شخصیت آئی جس نے علم، عظمت، شکوہ، صداقت اور نورانیت کا مرقع لوگوں کی نظروں کے سامنے رکھا۔ گویا لوگ پیغمبر کی زیارت کر رہے تھے۔ یہ عالم تھا۔ وہ روحانی ہیبت، وہ روحانی عظمت، وہ وقار، وہ اخلاق، وہ تقویٰ، وہ نورانیت، وہ بے پایاں علم کہ جو پوچھنا ہے پوچھ لو، جو چاہو ان کے پاس موجود ہے! لوگوں نے یہ چیز کبھی دیکھی ہی نہ تھی۔ (2003/5/10)

امام رضا کا مقدس کارنامہ

جب مرو میں امام رضا علیہ السلام کو خلیفہ کی ولیعہدی کی تجویز دی گئی تو آپ نے شدت سے اسے مسترد کر دیا اور جب تک مامون نے کھل کر آپ کو قتل کی دھمکی نہیں دی، آپ نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ ان سب کے باوجود امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے صرف اسی شرط پر ولیعہدی کو قبول کیا کہ وہ حکومت کے کسی بھی معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے اور جنگ، صلح، معزول کرنے، منصوب کرنے اور امور کی نگرانی میں کوئی حصہ نہیں لیں گے۔ مامون نے، جو سوچ رہا تھا کہ فی الحال شروعات میں یہ شرطیں قابل برداشت ہیں اور بعد میں تدریجی طور پر امام کو خلافت کی سرگرمیوں میں گھسیٹا جا سکتا ہے، ان کی اس شرط کو قبول کر لیا۔ امام رضا علیہ السلام نے ولیعہدی کو قبول کر کے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جو ائمہ کی زندگی میں سنہ چالیس ہجری میں اہلبیت کی خلافت کے خاتمے کے بعد سے لے کر اس دن تک اور خلاف کے آخری دور تک بے مثال تھا اور وہ کارنامہ عالم اسلام کی سطح پر شیعی امامت کے دعوے کو اعلانیہ کرنا، تقیے کے دبیز پردے کو چاک کر دینا اور تشیع کے پیغام کو تمام مسلمانوں کے کانوں تک پہنچا دینا تھا۔ خلاف کا وسیع پلیٹ فارم امام رضا کے اختیار میں آ گیا اور انھوں نے وہ باتیں ببانگ دہل بیان کیں جو پچھلے ڈیڑھ سو سال میں صرف خفیہ طریقے سے، تقیے کی آڑ میں اور اہلبیت کے خاص اور قریبی افراد کے سامنے ہی بیان کی گئی تھیں۔ (1984/8/9)

اس انیس بیس سال کے عرصے کے بعد جب آپ کی امامت و شہادت کا دور مکمل ہوا اور حضرت علی ابن موسی الرضا کو شہید کر دیا گیا، اگر آپ اس وقت کے حالات دیکھئے تو محسوس کریں گے کہ ولایت اہل بیت علیہم السلام اور خاندان رسول سے عقیدت کا سلسلہ عالم اسلام میں ایسی گیرائی و گہرائی پیدا کر چکا ہے کہ ظالم و مستبد عباسی سلطنت اس پر قابو پانے سے قاصر ہے۔ یہ کارنامہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے انجام دیا۔ (2013/9/17)