قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ ای نے معيشت کو منصفانہ اور عادلانہ نظريات کے مطابق ڈھالے جانے کي ضرورت پر زور ديا ہے-
پير کي شام ملک کے ايک ہزار کے قريب ممتاز طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ايران کی معاشي پاليسيوں کو عادلانہ بنيادوں پر استوار ہونا چاہيے-
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے سرمايہ داري کے بارے ميں اسلامي تعليمات کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ اگر آئين کي دفعہ چواليس پر اس کے ماحصل کے مطابق عمل کيا جائے تو ملک ميں مذموم سرمايہ داري کا خاتمہ ہوگا اور بڑے فيصلوں ميں سرماداري کو محور بنائے جانے کي روک تھام ہو سکے گي- قائد انقلاب اسلامي نے تاکيد فرمائي کہ اس بات کا پورا دھيان رکھنے کي ضرورت ہے کہ معاشي پاليسوں پر سوشلسٹ نظريات غالب نہ آنے پائيں- آپ نے فرمايا کہ آئين کي دفعہ چواليس پر اس کي روح کے مطابق عمل کيا جائے تو عادلانہ معيشت کي تکميل کو يقيني بنايا جا سکتا ہے-
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ مغرب اور یورپي ملکوں پر بڑھتے ہوئے اقتصادي بحران کي اصل وجہ سرمايہ دارانہ نظام کي اصليت يعني سرمايہ کي بالادستي ہے- آپ نے مزاحمتي معيشت کو جارحانہ معيشت سے بالکل مختلف قرار ديا اور اس بات پر تاکيد فرمائي کہ مزاحمتي معيشت سے مراد دفاعي اقدامات اور اپنے گرد دائرے کھينچنا نہيں ہے بلکہ يہ ايسي معيشت ہے جو کسي بھي قوم کے لئے دباؤ اور پابنديوں کے دوران بھي ترقي اور پيشرفت کا راستہ ہموار کرتي ہے- آپ نے نوجوانوں کو سافٹ وار کے کمانڈر قرار ديتے ہوئے فرمايا کہ دشمن کے مقاصد کا باريک بيني سے جائزہ ليجيے کيونکہ دشمن ملت ايران اور ايراني حکام کے اندازوں اور ضابطوں کو تبديل کرنا چاہتا ہے- آپ نے فرمايا کہ عوام کے دل ، ذہن ، نظريات اور ارادے دشمن کے نرم حملوں کے نشانے پر ہيں اور دشمن کھل کر کہہ رہا کہ ہم ايرانيوں کے اصولوں اور ضابطوں کو تبديل کرنے کي کوشش کر رہے ہيں-
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ دشمن چاہتا ہے کہ ايراني قوم اس نتيجے پر پہنچے کہ عالمي سامراج کے خلاف جنگ اس کے مفاد ميں نہيں ہے لہذا نرم جنگ کے کمانڈروں( طلبہ) کو دشمن کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے اس کا بھرپور مقابلہ کرنا چاہيے-
پیر کی شام تقریبا ایک ہزار ممتاز طلبہ و طالبات نے ساڑے تین گھنٹے کے قریب قائد انقلاب اسلامی کے ساتھ بڑے محبت آمیز اور اپنائیت بھرے ماحول میں گفتگو کی۔ اس گفتگو میں یونیورسٹیوں اور ملک کے علمی، ثقافتی، سماجی، سیاسی و اقتصادی مسائل کا جائزہ لیا گيا۔ ملاقات کے آغاز میں سیاسی، ثقافتی اور علمی شعبے میں سرگرم عمل گیارہ طلبہ نے مختلف اسٹوڈنٹس یونینوں، تنظیموں اور مراکز کی جانب سے ڈھائی گھنٹے تک اپنے خیالات و نظریات بیان کئے۔ جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے ایک گھنٹے کی اپنی تقریر میں مختلف سوالات کے جوابات دیئے اور کچھ شبہات دور کئے۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی، علمی، اخلاقی اور معنی میدانوں میں بلند امنگوں کے سلسلے میں التزام طلبہ سے قوم کی اہم ترین توقع ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلباء کی گفتگو کو اس صنف کے اندر پائے جانے والے خیالات اور طرز فکر کا بہترین مرقع قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض نکات بڑے اہم اور رہگشا تھے جو مختلف مسائل کے حل میں مفید واقع ہو سکتے ہیں۔ لہذا متعلقہ حکام کو ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کے درمیان سیاسی وسیع القلبی کے اہم نکتے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اقدار اور اصولوں کی مکمل پابندی کے ساتھ ساتھ غیر ہم خیال افراد کے سلسلے میں سیاسی و غیر سیاسی مسائل میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے میں کوئی باہمی تضاد نہیں ہے۔ طلبہ کی جانب سے یونیورسٹیوں میں حکام کی آمد و رفت کی کمی کی شکایت پر قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ اعتراض بالکل بجا ہے، عدلیہ، مجریہ اور مقننہ کے سربراہوں، اعلی رتبہ حکام، دیگر حکام، قومی نشریاتی ادارے آئي آر آئی بی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈروں کو چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں تواتر کے ساتھ آمد و رفت رکھیں، وہاں طلبہ کی گفتگو سنیں اور اپنے دلائل پیش کریں۔ ایسا کرنے کی صورت میں بہت سے ابہامات دور ہوں گے اور نئی نسل کو اپنے سوالوں کے جواب ملتے رہیں گے۔
ایک طالب علم نے بعض ماہرانہ نظریات اور قائد انقلاب اسلامی کے طرز فکر کے مابین فرق کے بارے میں سوال کیا کہ کیا اس فکری تفاوت کو ولایت فقیہ یا نظام کی مخالفت قرار دئے جانے سے متعلق سوال پوچھا جس کے جواب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کوئي بھی ماہرانہ رائے جو قائد انقلاب کے نقطہ نظر کے برخلاف ہے اسے ولایت فقیہ کی مخالفت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ دقیق علمی کام اور تحقیق سے جو نتیجہ سامنے آئے وہ اس محقق کے لئے معتبر ہے اور اسے کبھی بھی نظام کی مخالفت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔