قائد انقلاب اسلامي نے بيت المقدس کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنيادي مسئلہ قرار ديا اور فرمايا کہ بيت المقدس کا مسئلہ ہمارے لئے کوئی سیاسی حربہ نہیں بلکہ اسلامي ملک فلسطين کو صہيونزم کے چنگل سے نجات دلانا ہمارا ديني و شرعي فريضہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے ايران پر مسلط کي گئ آٹھ سالہ جنگ کے دوران گرفتار کئے گئے ايراني جانبازوں کي عراقي جيلوں سے رہائي کي سالگرہ کي مناسبت سے سيکڑوں جانبازوں سے جو عراقي جيلوں سے فاتحانہ انداز ميں رہا ہو کر ايران واپس لوٹے تھے ملاقات ميں فرمايا کہ اسلامي سرزمين فلسطين پر غاصبانہ قبضہ اور اس سرزمين ميں صہونيوں کی آبادکاری، مشرق وسطي کے علاقے کی بے تکی صورت حال کي بنياد اور اس علاقے کي اقوام کي گذشتہ دسيوں سال سے جاري مشکلات کي جڑ ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ اگر يہ سازش نہ کي گئ ہوتي تو آج يہ جنگيں، يہ اختلافات اور تسلط پسندوں اور استکباری طاقتوں کي يہ مداخلتيں بھي نہ ہوتيں -
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ صیہوني اور ان کے حامي جی توڑ کوشش کر رہے ہيں کہ کسی صورت سے فلسطين کا مسئلہ رائے عامہ کے ذہنوں سے محو ہو جائے لہذا عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ اس سازش کے مقابلے ميں ڈٹ جائے-
آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے ايران کے اسلامي انقلاب کي تحريک کے آغاز سے ہي مسئلہ فلسطين پر امام خميني رح کي خاص توجہ اور تاکيد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمايا کہ ايران ميں اسلامي انقلاب کي کاميابي سے فلسطين پر غاصبانہ قبضے کی بات کو طاق نسیاں کی زینت بنا دینے کی استکباری طاقتوں کی کوششوں پر پانی پھر گیا۔
قائد انقلاب اسلامي نے مسئلہ فلسطين کو فراموش کر دئے جانے کے لئے کي جانے والي کوششوں کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ اسي سلسلے ميں شيعہ و سنی تنازعے کا مسئلہ اٹھايا گيا اور ہلال شيعي کا شور مچايا گيا جبکہ گذشتہ ساٹھ سال سے ملت فلسطين پر ان طاقتوں کے ذريعے ظلم ڈھايا جارہا ہے ليکن کوئی ایک لفظ کہنے کا بھی روادار نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے يہ سوال کيا کہ اسلامي جمہوريہ ايران کے نام کو کہ جس نے فلسطين کے مسئلے کو زندہ کر ديا ايک خطرے کے طور پر پيش کرنا اور صہيونيوں کے مظالم کے مقابلے ميں خاموشي اختيار کر لینا خيانت اور غداري نہيں ہے؟
قائد انقلاب اسلامي نے فلسطين اور بيت المقدس کو حاشيئے پر ڈال دئے جانے کي سازشوں کے مقابلے ميں ملت ايران کي استقامت و پامردي پر زور ديتے ہوئے فرمايا کہ مسئلہ فلسطين اور بيت المقدس کا معاملہ ہمارے نزدیک کوئی سیاسی حربہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں ہمارے موقف کي جڑيں ہمارے گہرے اسلامي عقائد ميں پيوست ہيں اور ہم اسلامي ملک فلسطين کي صہيونيوں اور ان کے حاميوں کے چنگل سے آزادي و رہائی کو اپنا ديني اور شرعي فريضہ سمجھتے ہيں اور ديگر اسلامي ملکوں اور مسلم اقوام کو بھي مسئلہ فلسطين کو اسي نقطہ نگاہ سے ديکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامي نے زور دے کر فرمايا کہ جس طرح اسلامي انقلاب کي کاميابي، آٹھ سالہ مقدس دفاع اور ايران کے جنگي قيديوں کي شاندار واپسي کے مواقع پر صبح اميد کا ستارہ جگمگايا تھا ان شاء اللہ خداوند عالم کي مدد و نصرت سے مسئلہ فلسطين ميں بھي شفق اميد کی لالی پھیلے گي اور يقيني طور پر يہ اسلامي سرزمين ملت فلسطين کو واپس مل کر رہے گي اور غيرقانوني و جعلي صیہوني حکومت کا صفحہ ہستي سے صفايا ہو جائےگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر ميں ايران کے صوبہ مشرقي آذربائجان ميں آنے والے زلزلے ميں بڑے پيمانے پر انساني جانوں کے ضياع پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کو ايک دردناک اور غم انگيز سانحہ قرار ديا اور حکام کو ہدايت کي کہ متاثرين کے مصائب و آلام کو برطرف کرنےکے لئے ہر ممکن کوشش کريں۔
قائد انقلاب اسلامي نے زلزلے ميں جاں بحق ہونےوالوں کي مغفرت کي دعا اور لواحقين کو صبر و ضبط کي تلقين فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی نے عراقی جیلوں سے آزاد ہونے والے جنگی قیدیوں کو ذخیرہ ایمانی کے بازیاب شدہ موتیوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ قید کے سخت دور نے ہمارے جانبازوں کو درخشاں موتیوں میں تبدیل کر دیا۔ آپ نے جنگی قیدیوں کی استقامت و پائیداری کی سبق آموز سرگزشت کو معاشرے کی آگاہی و بصیرت کا دائمی ذریعہ قرار دیا اور ان عزیزوں کی قید کے حقائق کے مطالعے اور ان کے بیان میں میڈیا اور فلمی صنعت کی سطح پر ہونے والی کوتاہی پر نکتہ چینی کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے آزاد شدہ جنگی قیدیوں کو اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور اسلام کا سرمایہ قرار دیا اور ان کی وطن واپسی کو وعدہ الہی کی تکمیل کا آئینہ ٹھہراتے ہوئے فرمایا کہ آج ملت ایران دنیا کی تسلط پسند اور استبدادی قوتوں کا مقابلہ کر رہی ہے تو اس وعدہ الہی کے بارے میں غور کرنے کی شدید احتیاج ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فرزندان قوم، دشمن کے کیمپوں اور عقوبت خانوں میں محبوس تھے اور بظاہر ان کے لئے امید کا کوئی دریچہ بھی وا نہیں تھا، لیکن اللہ تعالی کے فرمودات پر عمل آوری کے نتیجے میں اللہ کا وعدہ برحق ایفاء کی منزل میں پہنچا اور یہ جانباز فاتحانہ انداز میں وطن لوٹے اور ان کے دشمن تاریخ کے کوڑےدان میں گم ہو گئے۔
آپ نے فرمایا کہ آج بھی ملت ایران کو امریکا کی جانب سے چیلنجوں کا سامنا ہے، چنانچہ اگر ہم نے آج انہی جنگی قیدیوں کی مانند اللہ کے فرمودات پر عمل کیا تو بلا شبہ وعدہ الہی کے مطابق فتح و کامرانی ہمارا مقدر بنے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کے بدلتے حالات کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ قوانین الہی کی رو سے ہمارے فیصلوں، ہمارے طرز عمل اور اقدامات کا دنیا کے نئے حالات کی تشکیل میں موثر کردار ہے۔ لہذا اگر ہم دشمن کی جیلوں میں استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اپنے جانبازوں سے سبق لیں تو اس سے ہمارے قدموں کو ثبات اور استحکام ملے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی قید میں جانبازوں کی استقامت و پائيداری کے ایک ایک لمحے پر اللہ کی جانب سے عظیم ثواب اور جزا کو یقینی قرار دیا۔