صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت نیز بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے یوم پیدائش 20 جمادی الثانی کی مناسبت سے تہران کے حسینہ امام خمینی میں ایک پرشکوہ محفل جشن کا اہتمام کیا گيا جس میں شعرا و خطباء نے شرکت کی اور اپنے بیان اور منظوم نذرانہ عقیدت سے حسینیہ کی فضا کو معطر کر دیا۔
شعرا و خطباء کے اس اجتماع سے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں معصومہ دو عالم کی ولادت کی مبارکباد پیش اور اسی دن بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی بھی پیدائش کو انتہائی اہم حسن اتفاق سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علہیا کی زندگی سے انسانی معاشرے کو سب سے بڑا سبق سعی و کوشش اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا ملا۔ آپ نے فرمایا: دینی نشستیں، دین کی ضوفشاں فرزانہ ہستیوں کی زندگی سے ملنے والے اہم اسباق و تعلیمات کو بیان کرنے کا بہترین موقعہ ہیں چنانچہ فنکارانہ انداز، اگاہی بخش، ذہنوں کو بیدار کرنے والے، امید کی کرن جگانے والے اور اتحاد قائم کرنے والے مضامین کے بیان اور مذہبی تقاریب میں شرعی ضوابط کی مکمل پابندی کے ساتھ ان مواقع کو دشمنان اسلام کی تہہ در تہہ سازشوں کو ناکام بنانے اور اسلامی نظام کے اعلی اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام میں ائمہ علیہم السلام کے لئے روحانی تقاریب کے اہتمام کو بہترین موقعہ اور اللہ کی عظیم نعمت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگرچہ انسان کا محدود ذہن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی آسمانی و ملکوتی شخصیات کے تمام پہلوؤں کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہے مگر ضروری ہے کہ اعلی سماجی اہداف کے حصول کے لئے ہم ان ہستیوں کے اعلی مقامات اور طرز زندگی کو نمونے کے طور پر اپنی نظروں کے سامنے رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پاکیزہ اسلامی زندگی اور آباد و آزاد، خود مختار، اعلی اخلاقیات سے آراستہ اور متحد معاشرے کی تشکیل اور متقی و پرہیزگار سماج کے قیام کو حقیقی اسلامی سماج کے اہداف میں شمار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے معاشرے کی تشکیل پرہیزگاری و محنت کے ذریعے اور تساہلی، بے عملی اور قنوطیت سے اجتناب کی صورت میں ممکن ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر خاندان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت حسنہ کی ترویج اور گہرائیوں تک اتر جانے کو سنہری موقعہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس سنہری موقعے اور امکانات کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جو ملک کو تبدیل کر دینے کا مقدمہ بن سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام الناس کے عقائد پر ضرب لگانے کی اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی وسیع کوششوں اور پیچیدہ مواصلاتی ذرائع کی مدد سے اسلامی نظام اور ملت ایران کو اس کے افتخار آمیز راستے سے ہٹا دینے کی مساعی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کا مقصد اسلام کو جھکانا اور دنیا میں شیعہ معاشرے اور شیعہ تعلیمات کو مثالیہ بننے سے روکنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام دشمنوں کی اس گہری اور منصوبہ بند سازش کے مقابلے میں کچھ بے مثال اور انفرادی وسائل سے آراستہ ہے جن میں سے ایک یہی مجالس، مذہبی انجمنیں اور منبر سے کی جانے والی تقاریر ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سنہری موقعے کا نامناسب انداز سے استعمال کفران نعمت ہے۔ آپ نے اس موقعے کو گنوانے کی کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر منبر پر کی جانے والی تقریر یا پڑھے جانے والے اشعار کے نتیجے میں مستقبل کے تعلق سے عوام میں مایوسی پیدا ہو، یا معاشرے کے حقائق اور فرائض کے سلسلے میں لوگوں کی اطلاعات میں اضافہ نہ ہو تو یہ موقعہ ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد بین المسلمین کو نقصان پہنچانے اور شیعہ و سنی فرقوں کے درمیان تفرقہ اندازی کو بھی کفران نعمت کے مصادیق میں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ دینی جلسوں میں فرقہ وارانہ کدورت کو ہوا نہیں دینا چاہئے کیونکہ یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا دشمنان اسلام کی شمشیر کو صیقل کرنے کے مترادف ہے جس سے ان کا ہدف پورا ہوتا ہے۔
عالم اسلام کی سرکردہ شخصیات کی طرف سے مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پر کی جانے والی تاکید کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں علی کا شیعہ ہونے پر افتخار ہے اور ہمیں اس پر ناز ہے کہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے ولایت اہل بیت کا پرچم بلند کیا اور اس بات کا سبب بنے کہ پورا عالم اسلام شیعہ و غیر شیعہ سب مسلمان ہونے پر فخر محسوس کریں مگر ہمیں ناعاقلانہ برتاؤ اور گفتار کے ذریعے دشمنوں کی تفرقہ انگیزی کی شمشیر کو صیقل نہیں کرنا چاہئے۔