رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے منگل کی شام اٹلی کے وزیر اعظم میتیؤ رینزی سے ملاقات میں ماضی میں دونوں ملکوں کے اچھے تعلقات کی جانب اشارہ کیا اور باہمی تعاون کے فروغ کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ حالیہ عرصے میں یورپی وفود کی آمد و رفت کی ایک مشکل یہ رہی کہ مذاکرات کے عملی نتائج واضح طور پر محسوس نہیں کئے جا سکے۔
مہمان وزیر اعظم سے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ کے ملک اور خود آپ کی حکومت کے ساتھ تعاون کے تعلق سے ہماری نظر بالکل الگ اور مثبت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سفر اس نقطہ نظر کی تقویت کا باعث بنے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف مسلط کردہ پابندیوں کے زمانے میں اٹلی کے برتاؤ کو بعض دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ معقول اور منطقی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران مختلف میدانوں میں روابط میں وسعت اور خاص طور پر اقتصادی تعاون کے فروغ کا خیر مقدم کرتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی وفود کی آمد و رفت اور مذاکرات میں سب سے اہم نکتہ معاہدوں پر عملدرآمد ہے، آپ نے فرمایا کہ بعض یورپی حکومتوں اور کمپنیوں کے وفود کی ایران آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان مذاکرات کا نتیجہ اب تک محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کچھ لوگ اس کے لئے امریکیوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور امریکیوں کے سابقہ ریکارڈ کے مد نظر یہ نظریہ درست بھی معلوم ہوتا ہے، چنانچہ امریکی اس وقت ایٹمی مذاکرات کے تحت اپنے وعدوں پر جس طرح عمل کرنا چاہئے نہیں کر رہے ہیں اور اپنے اقدامات اور بیانوں سے دیگر ملکوں کو ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی بابت ہراساں کرتے رہتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنے پہلے یورپی سفر کے لئے اٹلی کا انتخاب کیا اور ایران، اٹلی کے تعلق سے مثبت رائے رکھتا ہے اور پرامید ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم بعض یورپی ممالک کے سلسلے میں یہ مثبت رائے نہیں رکھتے، کیونکہ وہ ہمیشہ امریکا کو دیکھتے رہتے ہیں اور اسی کے اشارے پر کام کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھی دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کا اہم میدان قرار دیا اور فرمایا کہ بعض یورپی ممالک نے کچھ سفاک دہشت گرد گروہوں کی ایک زمانے تک پشت پناہی کی اور آج دہشت گردی کی خطرناک اور وسیع لہر یورپ پہنچ چکی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی مالیاتی و اسلحہ جاتی مدد دہشت گردی کے مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا کی طرف سے داعش اور بعض دیگر دہشت گرد گروہوں کو مدد فراہم کئے جانے کی مصدقہ رپورٹیں اور شواہد مل رہے ہیں اور اس وقت بھی جب داعش مخالفت اتحاد تشکیل پا چکا ہے، بعض امریکی ادارے دوسری شکل میں داعش کی مدد کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اطالوی وزیر اعظم کے اس موقف کی تائید کی کہ دہشت گردی کے خلاف عسکری و مالیاتی جنگ کے ساتھ ہی ثقافتی مقابلہ آرائی بھی ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں بڑے تشہیراتی ادارے جو مغربی سیاستدانوں کے قبضے میں ہیں، بعض شر پسندوں اور دہشت گردوں کے اقدامات کی وجہ سے اسلام دشمنی کی مہم چلا رہے ہیں اور ان کی خفیہ سیاسی چالوں کی وجہ سے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ثقافتی اقدامات بہت دشوار ہو گئے ہیں۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر اٹلی کے وزیر اعظم میتیؤ رینزی نے کہا کہ آج کی ملاقاتوں میں بہت اہم موضوعات اور خاص طور پر اقتصادی مسائل کے بارے میں مذاکرات ہوئے اور ہمیں اقتصادی و مالیاتی سسٹم کی اصلاح اور تقویت کرنے کی ضرورت ہے۔ اطالوی وزیر اعظم نے کہا کہ اٹلی کا عزم ہے کہ معاہدوں کا احترام کیا جائے اور اسی لئے ہمارا یہ موقف ہے کہ ایٹمی معاہدہ ہو جانے کے بعد ایران پر عائد پابندیاں ختم ہوں، انھوں نے کہا کہ ہمیں کوئی تشویش نہیں ہے اور ہم نے جو وعدہ کیا ہے اس پر عمل کریں گے۔
میتیؤ رینزی نے دہشت گردی کا دائرہ یورپ تک پھیل جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عسکری سطح پر دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کی جائے اور تیل اور آثار قدیمہ کی فروخت کے ذریعے دہشت گردوں کو حاصل ہونے والی رقم کا راستہ بند کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ داعش کی بیخ کنی ہماری ترجیحات کا حصہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اس سلسلے میں ایران کے ساتھ ہمارا اتفاق رائے ہے۔
اٹلی کے وزیر اعظم نے دہشت گردی کے بہانے اسلام کی شبیہ خراب کرنے کی کوششوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج جب یورپ میں دہشت گردانہ کارروائياں ہوتی ہیں تو بعض حکام دہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے اسلام کی سرزنش کرنے لگتے ہیں، مثال کے طور پر امریکا کے صدارتی امیدوار نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دعوی کیا کہ دہشت گردی کے سلسلے میں بنیادی طور پر قصور اسلام کا ہے!
میتیؤ رینزی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ثقافتی اقدامات اس مہم کا دوسرا اہم حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ادیان امن و آشتی، پرامن بقائے باہمی اور گفتگو کا پیغام دیتے ہیں اور عالم اسلام کے عظیم رہبر کی حیثیت سے اس نقطہ نگاہ کی ترویج میں جناب عالی کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔