رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعے کی صبح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر مختلف عوامی طبقات کے عظیم الشان اور پرشکوہ اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کو مومن، مطیع پروردگار اور انقلابی شخصیت قرار دیتے ہوئے ملت ایران کے انقلابی قائد کے راستے پر گامزن رہنے پر تاکید کی اور اسے عوام اور اسلامی نظام کی امنگوں کی تکمیل کا واحد راستہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے انقلابی ہونے کے پانچ اہم معیارات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی مذاکرات سے حاصل ہونے والے اس تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے کہ امریکا ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، ملک کی پیشرفت کے عمل کو جاری رکھنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ستائیسویں برسی کے اجتماع میں اپنے خطاب میں فرمایا کہ اطاعت گزار، انقلابی مومن کی صفت امام خمینی کی جامع صفت ہے، آپ نے مزید فرمایا کہ امام خمینی اللہ، عوام، ہدف اور اس راستے پر پختہ یقین رکھنے والے تھے جو اس ہدف تک پہنچاتا ہے۔
امام خمینی کے اطاعت گزار ہونے کے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ اللہ تعالی کے بندہ صالح، اہل خضوع و خشوع اور اہل ذکر و مناجات تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری اہم صفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی انقلابی قائد تھے اور یہی صفت آپ سے بڑی طاقتوں کی برہمی کی بنیادی وجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ بڑی طاقتیں ملت ایران کی انقلابی ماہیت اور انقلاب کی باتوں سے سخت ہراساں رہتی ہیں، آپ نے فرمایا کہ برسوں سے مختلف بہانوں منجملہ ایٹمی مسئلے اور انسانی حقوق کے موضوع کے ذریعے ملت ایران پر شدید دباؤ ڈالے جانے کی وجہ ملت ایران اور اسلامی نظام کی انقلابی ماہیت ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے بڑی طاقتوں کے کنٹرول سے باہر نکل جانے اور دیگر اقوام کی نظر میں اسلامی نظام کے مثالیہ بن جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے انقلابی امام نے ملک کو مختلف دلدلوں، منجملہ اغیار پر انحصار کی دلدل، سیاسی بدعنوانیوں، اخلاقی بدعنوانیوں، بین الاقوامی تحقیر، علمی، سائنسی اور اقتصادی میدانوں کی پسماندگی اور امریکا و برطانیہ کی آقائیت سے نجات دلائی اور ملک و قوم کی سمت و جہت میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کر دی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اعلی اہداف یعنی دین خدا کی بالادستی کی طرف لے جانے والے راستے کی تعمیر کی، آپ نے فرمایا کہ دین خدا کی بالادستی کا مطلب ہے حقیقی سماجی انصاف کا قیام، غربت و جہل کی بیخ کنی، سماجی مشکلات اور استحصال کا خاتمہ، اسلامی اقدار کے نظام کی ترویج، جسمانی و اخلاقی و روحانی صحت و سلامتی کی گارنٹی، ملک کی علمی پیشرفت، قومی تشخص و وقار اور بین الاقوامی پوزیشن کا تحفظ اور ملکی توانائیوں کو متحرک کرنا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی برکت سے ملک کو انھیں اہداف کی جانب گامزن کر دیا، آپ نے فرمایا کہ حالانکہ ان اہداف کا حصول وقت طلب اور محنت و مشقت کا متقاضی ہے، لیکن یہ سب قابل عمل ہے اور اس کے حصول کی واحد شرط ہے انقلاب اور انقلابیت کے راستے پر گامزن رہا جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کی پیش قدمی کے عمل کی ممکنہ مشکلات اور رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد جب بھی ہم نے انقلابی انداز میں عمل کیا ہے ہمیں پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور جہاں بھی انقلابیت اور جہادی اقدامات سے ہم نے غفلت برتی ہے پسماندگی اور ناکامی ہاتھ لگی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف عوامی طبقات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس راستے پر انقلابی انداز میں پیش قدمی کی جا سکتی ہے اور ایسی صورت میں پیشرفت یقینی ہے، جبکہ پیش قدمی کے دوسرے طریقے بھی ہیں تاہم اس صورت میں افسوسناک انجام ہوگا اور ملت ایران اور اسلام کو شدید نقصان پہنچے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی انقلاب، ملک و ملت کا ممتاز اور عدیم المثال سرمایہ ہے، آپ نے زور دیکر کہا کہ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے بڑی قیمتی قربانیاں دی گئی ہیں، لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں بے شمار فوائد بھی حاصل ہوئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 37 سال بعد اسلامی انقلاب کی مزید مستحکم ہو چکی بنیادوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج ملت ایران کے حالات ماضی سے زیادہ سازگار اور ہموار ہو چکے ہیں اور اب بہت سے اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ انقلاب عوام کے عزم و ارادے اور قوت ایمانی سے کامیاب ہوا اور اسی عوامی قوت کی بنیاد پر باقی ہے اور اس کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، اس نے عسکری خطرات اور پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، 'مفلوج' نہیں ہوا بلکہ سربلندی کے ساتھ شجاعانہ انداز میں اپنے راستے پر گامزن ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انقلابی ہونا صرف جدوجہد کے دور اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے مختص نہیں ہے بلکہ انقلاب اور انقلابیت تمام ادوار کے لئے ہے، انقلاب ایک بہتا ہوا دریا ہے اور جو لوگ بھی انقلابیت کے معیاروں کے مطابق چلتے ہیں وہ انقلابی ہیں حتی وہ نوجوان بھی جنھوں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں دیکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ وہ طرز فکر جس کے تحت انقلاب پسندی کو انتہا پسندی قرار دیا جاتا ہے اور عوام کو انتہا پسند اور اعتدال پسند میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بالکل غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس طرح کی دوگانگی جو اغیار کی دین اور دشمنوں کا موقف ہے ملک کے سیاسی کلچر میں ہرگز داخل نہیں ہونی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلابی ہونے اور انقلابیت کے تعلق سے ایک اور غلط سوچ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے راستے پر چلنے والے اور انقلابیت کے معیاروں کے مطابق عمل کرنے والے تمام افراد سے ایک ہی سطح کی انقلاب نوازی کی توقع رکھنا غلط ہے، بلکہ بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ انقلابیت کے اوصاف نظر آئیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص انقلابی مفاہیم اور انقلابی اقدامات کے تعلق سے بہتر انداز میں کام کرے اور دوسرا شخص اس شدت و سنجیدگی کے ساتھ کام نہ کر پائے لیکن دونوں انقلابی کہے جائيں گے، اس شخص کو غیر انقلابی یا انقلاب مخالف نہیں کہا جا سکتا جو انقلاب کے معیاروں کے راستے پر تو ہے لیکن بہت تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد پانچ بنیادی علامات کا ذکر کرتے ہوئے انقلابی ہونے کے معیاروں کی تشریح شروع کی۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے بنیادی اقدار کا التزام، اعلی اہداف کو دائمی طور پر مد نظر رکھنا اور ان کے حصول کے لئے اپنے حوصلے بلند رکھنا، ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کا پابند رہنا دشمن کی طرف سے ہوشیاری برتنا اور اس کی اطاعت سے اجتناب اور دینی و سیاسی تقوی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلابی ہونے کے پہلے معیار یعنی بنیادی اصولوں اور اقدار کی پابندی کے بارے میں فرمایا کہ امریکی اسلام کے مقابلے میں حقیقی اسلام پر عقیدہ رکھنا اس معیار کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں؛ رجعت پسند اسلام اور سیکولر اسلام ہیں اور استکبار اسلام کی ان دونوں شاخوں کی حمایت کرتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق دل کی گہرائی سے عوام کو محور و مرکز ماننا بھی انقلاب کے بینادی اصولوں کا جز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام میں عوام کی مرضی، مطالبہ، اہداف اور مفادات ہی سب سے اہم ترجیحات ہیں اور ان حقائق پر دل سے عقیدہ رکھنا انقلابی ہونے کی لازمی شرطوں میں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ پیشرفت، تبدیلی اور تکامل انقلاب کے دیگر بنیادی اقدار ہیں، آپ نے فرمایا کہ انقلابی انسان ان اقدار پر بھی گہرا عقیدہ رکھتا ہے اور ہر دن نئی تبدیلی اور حالات کی بہبودی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کمزور طبقات اور محرومین کی حمایت و پشت پناہی اور دنیا بھر کے مظلوموں کی مدد کو انقلابی ہونے کے اقدار اور اصولوں کا جز قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ پابندی اور قرآن کے لفظوں میں یہ استقامت موجود ہو تو طوفانی ہواؤں میں بھی نظام اور عہدیداران کی پیش قدمی صراط مستقیم پر اور پورے استحکام کے ساتھ ہوگی اور اگر اس کا فقدان ہو تو ہم انتہا پسندی کے شکار ہو جائیں گے اور ہر نئے واقعے پر ہمارا راستہ اور ہماری پیشرفت کی سمت تبدیل ہو جائے گی۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد انقلابی ہونے کی دوسری اہم خصوصیات یعنی پیشرفت اور اعلی اہداف تک رسائی کے لئے بلند ہمتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حالات کا رخ کچھ بھی ہو انقلاب اور عوام کے اعلی اہداف کی تکمیل کے لئے سعی و کوشش میں کوئی خلل نہیں آنے دینا چاہئے اور موجودہ پیشرفت پر اکتفا کرکے بیٹھ نہیں رہنا چاہئے۔ آپ کا کہنا تھا کہ تساہلی اور مایوسی اس اہم صفت کے برعکس عادتیں ہیں، رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ پیشرفت کا راستہ ختم ہونے والا نہیں ہے، لہذا انقلابی جذبے کے ساتھ اس راستے پر ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہنا چاہئے۔
انقلابی ہونے کا تیسرا معیار ہے خود مختاری کا پابند رہنا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی کی ستائیسویں برسی پر عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اس معیار کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تین پہلوؤں سے بحث کی۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی خود مختاری کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ ہم دشمن کی گوناگوں چالوں سے فریب نہ کھائیں، بلکہ ہر حالت میں دا‏خلی، علاقائی اور بین الاقوامی خود مختاری کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمنوں بالخصوص امریکا کی حیلہ گری اور چالوں کا اشارتا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ہمیشہ دھمکیوں کا ہی سہارا نہیں لیتے، بلکہ بسا اوقات تبسم بلکہ تملق کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، مثال کے طور پر خط ارسال کرتے ہیں کہ آئیے عالمی مسائل کو باہمی تعاون سے حل کریں، ایسے مواقع پر ممکن ہے انسان لالچ میں پڑ جائے کہ چلئے بہت اچھا ہے ہم عالمی مسائل کے تصفئے کے لئے ایک سپر پاور سے تعاون کرتے ہیں، جبکہ وہ اس بات سے غافل ہو جاتا ہے کہ دشمن در پردہ دوسرے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عالمی مسائل کے تصفئے کے لئے تعاون کی دشمن کی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن نے اپنے مد نظر مسائل اور طے شدہ معاملات کے تصفئیے کی خاطر جو پروگرام تیار کیا ہے آپ اسی پروگرام کے تحت اپنے حصے کا کام انجام دیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سلسلے میں ایک مصداق بیان کرتے ہوئے شام کے مسئلے کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا کہ ہم شام کے مسئلے میں اور اسی طرح کے دیگر مسائل میں جو امریکا کے نام نہاد اتحاد میں شریک نہیں ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم پہلے سے جانتے تھے کہ وہ ہماری اور کچھ دوسرے ملکوں کی توانائیوں اور اثر و نفوذ کو استعمال کرکے اپنے خاص مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اہم انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کام جو بظاہر خود مختاری سے بھی متصادم نظر نہیں آتے، عملی طور پر دشمنوں کے منصوبے کو پورا کرنے کے مترادف ہیں اور در حقیقت خود مختاری کے خلاف ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خود مختاری کے دوسرے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ثقافتی خود مختاری کی استثنائی اہمیت کا ذکر کیا اور زور دیکر کہا کہ انقلابی ہونے کا مطلب ہے اسلامی ایرانی طرز زندگی کا انتخاب اور مغرب و اغیار کی تقلید سے سختی کے ساتھ اجتناب۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مزید فرمایا کہ سائیبر اسپیس کے جدید وسائل در حقیقت اطلاعات کو کنٹرول کرنے اور قوموں کی ثقافتوں پر مغرب کے غلبے کے وسائل ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وسائل نفع بخش بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے غلبے اور نفوذ کی چیزوں کو ان وسائل سے الگ کر دیا جائے اور اس طرح عمل کیا جائے کہ سائیبر اسپیس دشمن کے ثقافتی تسلط اور نفوذ کا ذریعہ نہ بننے پائے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلابی ہونے کے تیسرے معیار یعنی ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کے التزام کی تشریح کرتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان فرمایا کہ اقتصادی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ خود کو عالمی برادری کے معاشی نظام میں ہضم ہو جانے سے بچایا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکیوں نے ایٹمی مذاکرات کے بعد کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایران کی معیشت کے عالمی برادری میں ضم ہو جانے پر منتج ہونا چاہئے، اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ جو نقشہ اور سسٹم بڑے سرمایہ داروں نے جن میں بیشتر صیہونی ہیں، دنیا کے مالیاتی وسائل پر قابض ہونے کے لئے تیار کیا ہے ایران اس کے اندر ہضم ہوکر رہ جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں نے پابندیوں کے ذریعے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دینے کی کوشش کی تھی اور جب مذاکرات کامیاب ہو گئے تو اب وہ چاہتے ہیں کہ ایران کی معیشت عالمی اقتصاد کے ہاضمے میں جس کا سرپرست امریکا ہے ضم ہو جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق استقامتی معیشت اقتصادی خود مختاری کا واحد راستہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خوشی کا مقام ہے کہ حکومت نے، اس رپورٹ کے مطابق جو اس نے دی ہے، 'مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل' کے سال میں کچھ اقدامات کا آغاز کیا ہے، ضروری ہے کہ یہ عمل اسی مضبوطی کے ساتھ جاری رہے، تو یقینی طور پر عوام اس کے ثمرات دیکھیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام بڑے فیصلوں اور اقدامات منجملہ دیگر ملکوں سے ہونے والے معاہدوں میں استقامتی معیشت کو بہت سنجیدگی سے مد نظر رکھا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایسے لوگوں پر نکتہ چینی کی جو اقتصادی ترقی کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر سمجھتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ غیر ملکی سرمایہ ملک کے اندر آئے تو یہ اچھی اور ضروری چیز ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم ملک کی اندرونی صلاحیتوں کو متحرک کرنا ہے، ہر چیز کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر نہیں کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے نئی اور پیشرفتہ ٹیکنالوجیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی بیرونی ملک ایسی ٹیکنالوجی دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں دیتا تو وہی نوجوان جنھوں نے ایران کو نینو ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی میں، اسی طرح بعض دیگر میدانوں میں دنیا کے دس بہترین ملکوں کی صف میں شامل کر دیا ہے، صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کی ضرورت کی دوسری ٹیکنالوجیاں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد انقلابیت کے چوتھے معیار یعنی دشمن کی طرف سے حساس رہنے کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ زمانہ جنگ کی طرح ہمیشہ دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنا چاہئے اور اس کے اہداف و مقاصد کی شناخت کے ساتھ بھرپور چوکسی برتتے ہوئے دشمن کی سرگرمیوں کے ممکنہ زہر کا توڑ آمادہ رکھنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایسے لوگوں پر شدید تنقید کی جو امریکا کی آشکارا اور مکرر مخاصمتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے دشمن کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کو توہم قرار دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران سے امریکا کی واضح، دائمی اور عمیق دشمنی کا انکار بذات خود ایک سازش ہے جس کا مقصد شیطان بزرگ کے سلسلے میں چوکسی اور ہوشیاری کو کم کرنا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اسلامی انقلاب سے امریکا کی دشمنی اس کی ماہیت کا جز ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توسیع پسندانہ نظام جنگ افروزی، دہشت گردی کی حمایت، حریت پسندوں کی سرکوبی، مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کے ذریعے اپنی سرشت کو آشکارا کرتا ہے جبکہ اسلامی نظام اس سرکوبی پر خاموش اور مہر بلب نہیں رہ سکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق یمن کے عوام پر حملہ آور ملک کی امریکا کی جانب سے براہ راست مدد بے گناہ عوام کے قتل عام اور ان پر ہونے والی بمباری میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ان جرائم پر خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ جو شخص یا جماعت اسلام کے لئے اور اسلام کے نام پر کام کر رہی ہے اگر اس نے امریکا پر اعتماد کیا تو بہت بڑی غلطی کی مرتکب ہوگی اور اس کا نقصان ضرور اٹھائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ حالیہ برسوں کے دوران بھی علاقے کی بعض اسلامی تنظیموں نے 'عقل سیاسی' اور 'ٹیکٹک' کے نام پر امریکیوں سے تعاون کیا لیکن آج شیطان اکبر پر اعتماد کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ برطانیہ ملت ایران کے واقعی انتہائی خبیث دشمنوں میں ہے، آپ نے فرمایا کہ برطانیہ ملت ایران کے خلاف اپنی خباثتوں سے کبھی بھی باز نہیں آيا۔ آپ کا کہنا تھا کہ اسی دشمنی کا نتیجہ ہے کہ حکومت برطانیہ کا تشہیراتی ادارہ عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے موقع پر امریکیوں کی مدد سے جعلسازی کے ذریعے ملت ایران کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے والے قائد امام خمینی کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق امریکا اور برطانیہ کے ساتھ ہی منحوس صیہونی حکومت بھی ملت ایران کے دشمنوں میں ہے، آپ نے زور دیکر کہا کہ دشمنوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے اور ان کی ہر تجویز کے سلسلے میں منجملہ سیاسی و اقتصادی تجاویز کے بارے میں احتیاط سے کام کرنا چاہئے، کیونکہ اگر یہ چوکسی رہے گی تو پیروی سے اجتناب کیا جائے گا اور یہی 'جہاد کبیر' ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلابیت کے آخری معیار یعنی دینی و سیاسی تقوی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دینی تقوی یعنی اسلام نے معاشرے کے لئے جن اہداف کا تعین اور مطالبہ کیا ہے ان سب کے حصول کے لئے محنت اور نگرانی کرنا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اس سلسلے میں صرف عقلی تخمینوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ یہ اہداف دینی فرائض کا جز ہیں اور جو بھی اسلام کو دینی و سماجی میدان سے الگ رکھتا ہے، اس نے گویا دین مبین اسلام کو پہچانا ہی نہیں ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر دینی تقوی پیدا ہو گيا تو سیاسی تقوی بھی حاصل ہو جائے گا اور وہ انسان کو سیاسی اور انتظامی لغزشوں سے محفوظ رکھے گا۔
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کچھ سفارشیں کیں۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک 'نمونہ کامل' کے طور پر ہمیشہ مد نظر رکھا جائے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ آج جو روڈ میپ بیان کیا گيا اس کے تمام معیارات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بلند ترین مقام پر فائز ہیں، لہذا انھیں نمونہ کامل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ 'صحیفہ امام' اور اسی طرح آپ کے وصیت نامے کا مطالعہ اور اس کی عبارتوں پر تدبر، امام خمینی کے فرمودات اور موقف سے مانوسیت، عالم ملکوت کے اس مسافر کو نمونہ عمل قرار دینے کا درست طریقہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یہ سفارش سب کے لئے اور خاص طور پر نوجوانوں کے لئے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری سفارش یہ تھی کہ ایٹمی مذاکرات سے حاصل ہونے والے تجربے کو ہرگز فراموش نہ کیا جائے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اس تجربے سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اگر امریکا کے مقابلے میں ہم نے نرمی بھی دکھائی تب بھی وہ اپنے تخریبی کردار سے باز نہیں آئے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے گروپ پانچ جمع ایک کے تحت اور الگ سے بھی امریکا سے ہونے والے ایٹمی مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے جفاکش برادران عزیز کی محنت کے نتیجے میں مذاکرات ایک مشترکہ موقف تک پہنچے لیکن امریکا نے اب تک عملی طور پر اپنے وعدوں کے سلسلے میں بد دیانتی اور وعدہ خلافی کا ثبوت دیا ہے اور دھوکا دہی کرتا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بہت سے افراد تو مذاکرات کے پہلے سے ہی امریکا کے اس مزاج سے واقف تھے اور پیشین گوئی بھی کر رہے تھے لیکن بعض افراد نہیں جانتے تھے تو وہ اب جان لیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر بفرض محال انسانی حقوق، میزائلی توانائی، دہشت گردی، لبنان، فلسطین یا کسی بھی مسئلے میں ہم امریکا سے مذاکرات کریں اور اپنے اصولوں اور موقف سے پیچھے ہٹ جائیں تب بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا اور میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے بعد بھی عملی طور پر اپنے انھیں اہداف کے لئے کام کرے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی تیسری سفارش حکومت اور ملت کے اتحاد سے متعلق تھی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ممکن ہے کہ کسی کو کسی دور میں حکومت کے کام پسند آئیں یا پسند نہ آئیں، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن کسی بھی حالت میں ملت اور حکومت کا اتحاد ختم نہیں ہونا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ بیشک حکومت پر تنقید کرنے اور اس سے کسی چیز کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اتحاد و یکجہتی اور اس میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے، تاہم جس طرح میں نے دیگر حکومتوں کے دور میں ہمیشہ یہ سفارش کی، اسی طرح اب بھی یہ سفارش کرتا ہوں کہ یہ خیال رکھا جانا چاہئے کہ کدورت و نفاق کی کیفیت پیدہ نہ ہو، بلکہ مخاصمتوں اور خطرات کا سامنا ہونے پر سب شانہ بشانہ کھڑے نظر آئيں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مقننہ، عدلیہ اور مجریہ کے باہمی اتحاد و ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یکجہتی اور اپنے اپنے قانونی فرائض کی انجام دہی میں کوئی تضاد نہیں ہے، البتہ ذاتی یا جماعتی رجحانات کے تحت ہمدلی اور تعاون کے ماحول کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ایسی باتیں زبان پر لانے سے اجتناب کرنا چاہئے جو ٹکراؤ، تصادم اور تقسیم کا باعث بنیں تاکہ دشمن کو پورا ایران متحدہ نظر آئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی چوتھی سفارش یہ تھی کہ امریکا سے جاری مقابلہ آرائی کے دوران پورے محاذ پر نظر رکھی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک امریکا اس محاذ کے مرکز میں ہے تاہم اس محاذ کا پھیلاؤ مختلف جگہوں یہاں تک کہ بسا اوقات ملک کے اندر تک ہوتا ہے، لہذا اس محاذ کی عیاں اور پنہاں سبھی شاخوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پانچویں سفارش میں یہ فرمایا کہ دشمنوں اور اپنے درمیان کے خط فاصل کو ہمیشہ واضح اور نمایاں رکھا جائے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ بعض داخلی حلقوں نے اس اہم ضرورت سے غافل رہنے کی وجہ سے خط فاصل کو قائم نہیں رکھا نتیجے میں یہ خط فاصل کم رنگ ہو گیا، لہذا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہئے کہ انقلاب، امام خمینی اور ملت کے دشمنوں سے ہمارا فرق واضح رہے۔
عوام اور عہدیداران کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی چھٹی اور آخری سفارش یہ تھی کہ اللہ کی ذات پر توکل کریں۔ آپ نے فرمایا کہ نصرت خداوندی کے وعدے پر پورا یقین رکھئے اور مطمئن رہئے کہ مستقبل دشمنوں کی مرضی کے برخلاف ایران کے عوام اور نوجوانوں کا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ کے خطاب سے پہلے آستانہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے متولی حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے اپنی تقریر میں اسلامی انقلاب کو الہی و عوامی انقلاب قرار دیا اور کہا کہ ہدایت الہیہ، وقار، محبت و مہربانی، اتحاد، نصرت پروردگار اور عوامی پشت پناہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور تاریخی تحریک کی بے مثال خصوصیات ہیں اور یہ تحریک اور عظیم جد و جہد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین بر حق کے انتخاب کی برکت سے بنحو احسن جاری ہے۔