رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ سال منی اور مسجد الحرام میں پیش آنے والے سانحے کے سلسلے میں آل سعود کی کوتاہی اور بے لیاقتی کو حرمین شریفین کے امور سنبھالنے کے تعلق سے اس 'ملعون شجربہ خبیثہ' کی نااہلی کا ایک اور ثبوت قرار دیا اور زور دیکر فرمایا کہ اگر وہ سچ کہتے ہیں کہ اس سانحے کے سلسلے میں بے گناہ ہیں تو ایک بین الاقوامی اسلامی تحقیقاتی کمیٹی کو واقعے کے حقائق کی قریب سے تحقیقات انجام دینے کی اجازت دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے منی اور مسجد الحرام میں گزشتہ سال پیش آنے والے سانحوں میں شہید ہو جانے والے حاجیوں کے اہل خانہ سے اپنی ملاقات میں فرمایا کہ یہ ملاقات گزشتہ سال کے دردناک سانحے کی یاد تازہ کر دینے والی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ منی کا سانحہ اور اس میں ایرانی حاجیوں کا عبادت کے عالم میں، تشنہ لب، کڑی دھوپ میں جاں بحق ہونا نہایت غمناک اور ناقابل فراموش سانحہ ہے، البتہ اس سانحے کے دوسرے گوناگوں پہلو بھی ہیں اور سیاسی، سماجی، اخلاقیاتی اور دینی اعتبار سے بیان کرنے کی بہت سی چیزیں، لہذا انھیں بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ گزشتہ سال خاندانوں کو اپنے عزیزوں کی رحلت کی اطلاعات کا ملنا اور پھر ان کے جنازوں کی واپسی بہت کٹھن اور دشوار مرحلہ تھا، تاہم اس بڑی مصیبت کے ساتھ ہی اس حقیقت پر توجہ کہ شہدا کی مانند یہ عزیز افراد بھی مغفرت، رحمت اور نعمت خداوندی کے سائے میں ہیں، باعث تسلی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سانحہ منی میں تقریبا سات ہزار حجاج کرام کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ملکوں اور حکومتوں نے اتنے سنگین اور گہرے سانحے پر کوئی رد عمل کیوں نہیں دکھایا؟
رہبر انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کی حکومتوں، یہاں تک کہ علما، سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور اہم شخصیات کی بھی سات ہزار حاجیوں کی شہادت پر خاموشی کو امت مسلمہ کے لئے بہت بڑا المیہ قرار دیا اور فرمایا کہ منی جیسے سخت اور جانکاہ سانحوں کے سلسلے میں بھی حساس نہ ہونا، عالم اسلام کے لئے بہت بڑی مصیبت کی بات ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ زبانی معذرت خواہی سے بھی سعودی حکام کا اجتناب ان کی پستی و بے شرمی کی انتہا ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر عمدا غلطی نہ کی جائے تب بھی ایک حکومت اور سیاسی نظام کے لئے اس بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور بے لیاقتی جرم شمار ہوتی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سانحہ منی کے سوگوار خاندانوں سے خطاب میں یہ سوال کیا کہ جب ایک حکومت اللہ کے مہمانوں کے امور کی انجام دہی سے بھی عاجز ہو جو اس کے لئے آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ اسی طرح کے حالات میں منی جیسے واقعے دوبارہ نہیں ہوں گے؟
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ملت ایران آل سعود کی جہالت و گمراہی کے مقابلے میں شجاعت کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور اپنا قرآنی و برحق موقف پوری صراحت اور افتخار کے ساتھ بیان کر رہی ہے، دیگر ملکوں اور قوموں کو بھی چاہئے کہ شجاعت کے ساتھ سعودیوں کا گریبان پکڑ لیں۔
آپ نے فرمایا کہ سعودیوں کی نااہلی اور ان کی جانب سے حجاج خانہ خدا پر مسلط کر دی جانے والی بدامنی حقیقت میں یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ حکومت حرمین شریفین کے امور کی دیکھ بھال کے قابل نہیں ہے، عالم اسلام میں اس حقیقت کی تشہیر کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق سانحہ منی کا دوسرا پہلو انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض ملکوں میں عدالتی فیصلوں کے نفاذ پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی جانب سے کی جانے والی تشہیراتی اور سیاسی ہنگامہ آرائی کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ ایک حکومت کی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی اور سات ہزار بے گناہ اور مظلوم انسانوں کی جانیں تلف ہو جانے پر خاموشی انسانی حقوق کے دعویداروں کی دروغگوئی کو آشکارا کرتی ہے، چنانچہ جن لوگوں نے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ اس تلخ حقیقت سے سبق لیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسلامی ملکوں اور انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوے کرنے والوں کی جانب سے ایک تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل لازمی اور ناگزیر ہے، آپ نے فرمایا کہ اس غم انگیز سانحے کو ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی تحریری، صوتی اور تصویری دستاویزات کا جائزہ لیکر کافی حد تک حقیقت ماجرا تک پہنچا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کے حکام تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں پوری سنجیدگی سے کام کریں، اگر آل سعود سانحہ منی میں بے گناہ ہونے کے اپنے دعوے میں سچے ہیں تو لوگوں کی زبانیں پیسے سے بند نہ کروائیں، بلکہ تحقیقاتی کمیٹی کو نزدیک سے تحقیقات انجام دینے کا موقع دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں سعودی حکومت کے حامیوں کو بھی سانحہ منی میں اس حکومت کا شریک جرم قرار دیا اور فرمایا کہ بے شرم سعودی حکومت امریکا کے تعاون سے بڑی بے حیائی کے ساتھ مسلمانوں کے مد مقابل کھڑی ہے اور یمن، شام، عراق اور بحرین میں خون کی ندیاں بہا رہی ہے، لہذا امریکا سمیت ریاض کے حامی بھی، سعودیوں کے جرائم میں شریک ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض ذرائع ابلاغ کی جانب سے سانحہ منی کو شیعہ سنی اختلاف یا عرب و غیر عرب تنازعے کا رنگ دینے کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ سعودی حکام کے حامی ذرائع ابلاغ ایسے عالم میں یہ سفید جھوٹ بار بار دہرا رہے ہیں کہ منی کے سات ہزار شہیدوں بشمول ایرانی شہدا، میں اکثریت اہل سنت کی تھی۔
آپ نے فرمایا کہ آل سعود اور ان کے پروردہ جلاد دہشت گرد یمن، عراق اور شام میں عربوں کا خون بہا رہے ہیں، بنابریں مغربی ذرائع ابلاغ کے خباثت آلود تشہیراتی پروپیگنڈے کے برخلاف سعودی حکام عرب عوام کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں اور سانحہ منی کا عرب و غیر عرب کے جعلی تشہیراتی تنازعے سے کوئی ربط نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقت ماجرا یہ ہے کہ نفرت انگیز سعودی حکام، عالم اسلام کے اندر موجود ایک ایسے گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر مسلمانوں اور عالم اسلام سے دشمنی نکال رہا ہے، لہذا ضروری ہے کہ ان کے خلاف ڈٹ جایا جائے اور سعودیوں کے آقاؤں یعنی امریکا اور خبیث برطانیہ سے اعلان بیزاری کیا جائے۔