تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی الہ الاطیبین المنتجبین المعصومین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

سب سے پہلے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ سفر اور اس صوبے کے انقلابی، مومن اور شہید پرور لوگوں سے ملاقات کے اسباب فراہم کئے۔ مازندران کا حق بہت زیادہ ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس صوبے میں ایک طرف منحوس پہلوی حکومت کے خباثت آمیز کام اور دوسری طرف دشمنان دین، ملحدین اورمنافقین کی کوششیں تھیں کہ اگر ہم ہر چیز کو معمول کی روش سے پرکھنا چاہتے تو اس صوبے میں انقلاب کے دوران، جنگ کے دوران، فوجی میدان میں اور سیاسی میدان میں جو ایمان، اخلاص اور جذبہ دیکھا گیا اس کا اندازہ نہیں کرسکتے تھے۔ یہ آپ کے گہرے اور خالص ایمان کی دلیل ہے۔ یہ آپ مومن اور فداکار مردوں اور ‏خواتین پر خدا کے لطف و کرم کی علامت ہے۔ میں نے محاذوں پر آپ کی سعی و کوشش کو فراموش نہیں کیا ہے۔ آپ کے دستوں کو میں نے نزدیک سے دیکھا ہے۔ آپ کے شہداء اور اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانباز ثبوت ہیں اس بات کے کہ آپ کے مجاہدین نے خوب جہاد کیا۔
جہاں بھی دیکھیں کہ راہ اسلام میں فداکاری کرنے والے شہداء اور جانباز زیادہ ہیں، تو جان جائیں کہ وہاں کے والدین، عورتوں اور مردوں کے دل عشق خدا، عشق اسلام ، عشق امام اور عشق انقلاب سے سرشار ہیں۔ یہ شہیدوں کی مائیں، یہ شہیدوں کے باپ، یہ جوانوں کی تربیت کرکے انہیں میدان جنگ میں بھیجنے والے خاندان، انہوں نے بہت بڑی مجاہدت کی ہے۔ خدا کا شکر گزار ہوں کہ ایک بار پھر آپ کے سامنے آیا ہوں اور مازندران کے لوگوں سے اپنی محبت و اخلاص کا اپنی زبان سے اظہار کر رہا ہوں۔ البتہ یہ سفر ایسا نہیں ہے کہ میں نے یہ چاہا ہو کہ مازندران آؤں۔ یہ ایک فوجی سفر تھا اور میں ایک ضروری کام کے لئے فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے سپاہیوں سے ملاقات کے لئے نوشہر آیا تھا تاکہ ان کے کام کا نزدیک سے مشاہدہ کروں۔ آپ مازندران کے لوگوں سے انشاء اللہ آئندہ الگ سے تفصیلی ملاقات ہوگی مگر اس مختصر موقع سے جو دستیاب ہوا ہے، استفادہ کرتے ہوئے دو تین مختصر باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جو دنیا کے آج کے مسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ مسائل اگرچہ تمام مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم اس میں دخیل ہیں، مگر ان سے آج کے مظلوم اور ستم رسیدہ انسان کا چہرہ سامنے آتا ہے۔
تاریخ میں انسانوں کو سب سے زیادہ صدمہ اور دکھ بڑی طاقت و ثروت رکھنے والوں کے دھوکے و فریب سے پہنچا ہے۔ یعنی جن لوگوں نے پیسہ اور دنیاوی لذتوں کا سامان اپنے لئے جمع کر لیا ہے، طاقت کو اپنے قبضے میں رکھا ہے اور ان تمام باتوں کے ساتھ ہی لوگوں کے درمیان اپنی بات منوانے کے لئے، اقوام کو دھوکہ دیا ہے۔ مثلا آپ دیکھیں کہ فرعون، وہ ظالم، تسلط پسند، لوگوں کی بے حرمتی کرنے والا، زمین پر آ‎سمانی سفیر، پیغمبر خدا، حضرت موسی بن عمران جیسی نورانی ہستی کے لئے کہتا ہے کہ انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظھر فی الارض الفساد(43) موسی بد عنوانیاں پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ آج تک کے انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ جب ریڈیو اور ٹیلیویژن بنا اور مشرق و مغرب کے لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا ہوا تو کچھ سادہ لوح لوگوں نے خیال کیا کہ اب لوگوں کو بے وقوف بنانے کا دور ختم ہو گیا۔ لیکن افسوس کہ جن طاقتوں نے تاریخ میں ہمیشہ پیسہ، طاقت، علم اور دنیا کے تمام الہی ذخائر سے انسان کو نقصان پہنچانے کے لئے کام لیا ہے، اس وسیلے سے بھی بشریت کو نقصان پہنچانے کے لئے کام لے رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو! ایک سال ہو گیا ہے کہ ایک قوم کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ یہ مذاق ہے؟ ہم اور آپ ایک چیز سنتے ہیں۔ ہمارے مختلف شہروں پر چند دنوں تک دشمن کی بمباری ہوتی تھی تو آپ نے دیکھا ہے کہ لوگوں کا کیا حال ہوتا تھا۔ ایک سال ہو گیا ہے کہ ایک یورپی ملک میں لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ وہاں افریقا نہیں ہے۔ امیزن کے جنگلوں کے درمیان (واقع کوئی علاقہ) نہیں ہے۔ مشرقی ایشیا نہیں ہے۔ وہ یورپ ہے۔ وہی جگہ ہے جہاں کی حکومتیں، ممالک عالم کے زندہ رہنے کی قائل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ وہ کہتی ہیں کہ وہ متمدن نہیں ہیں اور ہم متمدن ہیں اسی جگہ ایک سال سے ایک قوم کا قتل عام ہو رہا ہے۔ کون زبان یہ بتانے پر قادر ہے کہ بوسنیا و ہرزے گووینا کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے؟ کون سا قلم اس کو لکھ سکتا ہے؟ کس اخبار نے، دنیا کی کس معروف نیوز ایجنسی نے وہاں کے حقائق لکھے اور دنیا کے سامنے پیش کئے؟
ایک سال ہو گیا۔ چھوٹے، بڑے، عورتیں اور مرد، بیمار اور صحتمند تمام لوگ وہاں مارے جا رہے ہیں۔ کچلے جا رہے ہیں۔ ان کی عزت و ناموس پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھر برباد کئے جا رہے ہیں۔ اس ماجرے کے آغاز سے ابتک، شاید ایک سال سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ اس عرصے میں بڑی طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا نے ہر کچھ دنوں کے بعد صرف ایک بار نظر اٹھا کے دیکھ لیا، زبان سے ایک بات کہی اور کبھی افسوس کا اظہار کردیا۔
میں اس شخص کی حیثیت سے جو مادیت پر قائم تمدن کی سرشت سے واقف ہے، دنیا کے ان جھوٹے اور دھوکے باز سیاستداں کی فطرت کو پہچانتا ہوں۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ بوسنیا ہرزے گوونیا کے عوام کی حمایت کریں گے۔ آج جو کہہ رہے ہیں کہ حمایت کرتے ہیں، میں جانتا ہوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس دن بھی جب انہوں نے کہا کہ ہم سربوں کا سمندری محاصرہ کریں گے، میں جانتا تھا کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور انہوں نے نہیں کیا۔
ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔ وہ اس بات کی اجازت بھی دینے پر تیار نہ ہوئے کہ دنیا کے چار مسلمان نوجوان وہاں جاکے ان بیچاروں کی مدد کریں۔ یا چار اسلحے ان کو دے دیئے جائیں تاکہ وہ اپنی جان بچا سکیں۔ پھر دنیا میں جہاں یہ منفرد قسم کا المیہ ہے وہیں فلسطین کا مسئلہ بھی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں کے مسائل بھی ہیں اور یہ تمام المناک کام دنیا کی تسلط پسند طاقتیں یا خود انجام دے رہی ہیں یا ان کی حوصلہ افزائی سے انجام پا رہے ہیں یا پھر ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر انجام دیئے جا رہے ہیں۔ اس وقت یہی جھوٹے سیاستداں یہی لوگ جن کے دل ہزاروں بوسنیائی عورتوں کے لئے نہ جلے، یہی لوگ جنہوں نے ایک قوم کی نسل کشی کو کوئی اہمیت نہ دی، آواز بلند کرتے ہیں اور تشہیراتی وسائل سے کام لیکر دعوا کرتے ہیں کہ ہم دہشتگردی کے مخالف ہیں۔ ہم انسانی حقوق کے طرفدار ہیں فہرست تیار کرتے ہیں اور اس ملک اور اس ملک کو اس فہرست میں دہشتگرد لکھتے ہیں اور خود کو انسانی حقوق کا طرفدار بتاتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہی بشریت کا پرانا درد ہے۔ یہ وہی بے وقوف بنانے کی روش ہے جو فرعون کے زمانے میں اور اس سے پہلے تھی اور اس کے بعد رہی ہے۔ یہ وہی چیز ہے۔ بشریت، بشریت مظلوم ہے۔ یہ جان لیں۔ یہ انسان جو ان طاقتوں کے تسلط میں زندگی گزار رہا ہے، یہ مظلوم انسان ہے۔ اس منزل پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی آسمانی آواز جو انسانوں کو اہمیت دیتی ہے، جھوٹ کو برا سمجھتی ہے اور سچ کو ایمان کی علامت قرار دیتی ہے، کتنی اہم ہے۔
آج بشریت اسلام کی محتاج ہے۔ میرے عزیزو! مومن اور پر جوش نوجوانو! خدا نے آپ کے دلوں کو نور ایمان سے منور کیا ہے، آج بشریت کو اسی ایمان کی ضرورت ہے جو آپ کے پاس ہے۔
چند ہفتے سے عالمی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ کون لوگ؟ وہی لوگ جن کی روسیاہی اوائل انقلاب سے آج تک ایرانی قوم کی نگاہوں میں عیاں رہی ہے اور روز بروز روسیاہ تر ہوتے جارہے ہیں، یعنی صیہونی، یعنی امریکی ایجنٹ، یعنی بڑے شیطان کے پنجے اور انگلیاں، انہوں نے پوری دنیا کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈوں سے پر کر رکھا ہے۔
میں اس سلسلے میں چند نکات عرض کروں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یہ تشہیراتی ہنگامہ نیا نہیں ہے اور آج کل کی بات نہیں ہے۔ اول انقلاب سے یہ سلسلہ رہا ہے۔ البتہ بالکل ابتدا کی بات نہیں کہہ رہا ہوں کیونکہ بالکل ابتداء میں دشمن چکرایا ہوا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ پوزیشن کو سمجھنے پر قادر نہیں تھا۔ اس لئے انقلاب کے شروع کے چند مہینوں میں پروپیگنڈہ اس طرح نہیں تھا۔ مگر ابھی چند مہینے نہیں گزرے تھے کہ امریکی سینٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک بل پیش کرکے، اسلام، اسلامی جمہوری نظام اور ہمارے امام سے اپنی دشمنی کو آشکارا کر دیا۔ یہ اقدامات اس دن سے آج تک جاری ہیں۔ بنابریں یہ نئے نہیں ہیں۔ ہمیشہ دشمن نے اپنے وار اور حملے کو کاری ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو یاد ہے کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران جب ہمارے نوجوان علاقے لیتے تھے، دشمن پر کاری وار لگاتے تھے، دشمن بھی جواب میں چھوٹا موٹا حملہ کرتا تھا اور ہنگامہ کرتا تھا کہ ہم نے آپریشن کیا ہے۔ یہ کیا ہے اور وہ کیا ہے؟ دشمن جب حملے کی کاروائی کرتا تھا تو اس کو بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھا تاکہ سامنے والوں کا حوصلہ کمزور ہوجائے۔ جب خود حملہ کرتے ہیں تو اس کو بڑا ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے ریڈیو ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی ان کی باتیں نقل کرتے ہیں۔ یہ نئی بات نہیں ہے۔ یہ اسلام سے کینہ رکھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ قوم کی خودمختاری کے سخت مخالف ہیں۔ جو قوم ان کے مقابلے میں اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنا چاہے، تہ دل سے اس سے دشمنی کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے دشمنوں کی دشمنانہ ہنگامہ آرائیوں کا شروع سے ہی ہماری عظیم اور مستحکم قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ آج بھی معمولی سا بھی اثر نہیں ہے۔ ہمارے عوام کا گہرا ایمان اور محکم جذبہ ایسا نہیں ہے کہ ان دشمنانہ پروپیگنڈوں سے کمزور ہو جائے۔ عوام، اپنی قوم، اپنے ملک، اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنے پرشکوہ اور بہت قیمتی انقلاب اور اپنے حکام کو بہت زیادہ چاہتے ہیں۔ ان باتوں سے عوام کمزور نہیں ہو سکتے۔
میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ لوگوں سے، کمزور اور محروم طبقات سے اور شہیدوں کے خاندان والوں سے میں نے اپنا رابطہ برقرار رکھا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ بہت زیادہ مشغولیتیں اس رابطے کو منقطع کردیں۔ خدا کے فضل سے توفیق ملی ہے کہ عوام کی بہت سی باتیں خود ان کی زبانی سنوں۔ لہذا جو کہہ رہا ہوں وہ نتیجہ ہے اس چیز کا جو میں نے لوگوں کے ایمان کی گہرائیوں میں دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اس قوم نے اسلام کا انتخاب کیا ہے۔ اسلام کو دین و دنیا کے امور کی اصلاح کا وسیلہ سمجھا ہے۔ دشمن نہیں چاہتا کہ یہ ہو۔ یہ ظاہر ہے۔ جب آپ چاہتے ہیں اپنا گھر خود چلائیں تو جو کل تک آپ کے گھر پر قابض تھا، وہ چاہے گا کہ کچھ لوگوں کو مزدوری دیکر آپ کے گھر پر باہر سے پتھر پھنکوائے۔ آپ کے گھر کا پانی کاٹ دے۔ اگر ہو سکے تو بجلی کاٹ دے۔ چارہ کیا ہے؟ چارہ مزاحمت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہی مالک اور رعایا والا رابطہ جو انقلاب سے پہلے ان طاقتوں اور ایران کے خائن حکام کے درمیان تھا، دوبارہ وجود میں آ جائے۔ جب دیکھتے ہیں نہیں ہو رہا ہے تو اذیت پہنچاتے ہیں۔ روڑے اٹکاتے ہیں۔ اس کا چارہ مزامحت کرنا ہے اور اس کو ہماری قوم سمجھ گئی ہے۔ خدا کے فضل سے یہ قوم اس بات پر قادر ہے کہ دشمنوں کی دشمنی پر کوئی توجہ دیئے بغیر، اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر، اپنے ملک اور اپنے گھر کو بنائے اور چلائے۔ ہمارے عوام اس کو سمجھ گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے اس کو سمجھ لیا ہے۔ اسی لئے جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک کے حکام محنت اور کوشش کر رہے ہیں تو ان سے محبت کرتے ہیں۔
اس کے بعد کا نکتہ یہ ہے کہ ہم سے جہاں تک ہو سکے گا اپنی آواز کو دنیا تک پہنچائیں گے۔ یہ نہیں ہے کہ ہم ان کی باتوں پر خاموش رہ جائیں۔ خدائے متعال نے محاذ حق کو ایسے وسائل دیئے ہیں کہ باطل کچھ بھی کرلے حق کے نفوذ کو نہیں روک سکتا۔ ہمارے پاس ایک ریڈیو ہے ان کے پاس دس ریڈیو ہے۔ ہمارے وسائل آواز کو نشر کرنےکے لئے، جدیدترین نہیں ہیں۔ ان کے وسائل بہت قوی اور جدید ترین ہیں۔ وہ بڑا سرمایہ صرف جھوٹ اور افواہ پھیلانے کے لۓ مخصوص کرتے ہیں۔
یہ سب ہے۔ اس کے باوجود ان ملکوں سے جہاں انقلاب کی آواز پہنچ گئی ہے، کسی بھی میں آپ جائیں تو تعجب کریں گے۔ البتہ ان ملکوں کی بات میں نہیں کر رہا ہوں جو ثقافتی لحاظ سے ہم سے بہت دور ہیں۔ ان ملکوں کے لوگ ہم کو نہیں پہچانتے ہیں۔ وہ اسلام سے واقف نہیں ہیں۔ ہماری حالت کی بھی انہیں خبر نہیں ہے۔ ان کی شناخت کا ذریعہ ان کے ریڈیو ہیں لیکن اسلامی ممالک اور وہ ممالک جو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے سوفیصدی متاثر نہیں ہوئے ہیں، اگر آپ وہاں کے لوگوں سے رابطہ قائم کریں تو دیکھیں گے کہ لوگ اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتے ہیں۔ ایک یا دو آدمی کی بات نہیں ہے۔ عوام کی بات ہے۔ آپ دیکھیں کہ آج مختلف ملکوں کے حکام کتنا ایران آ رہے ہیں اور اس شہر میں آتے جاتے ہیں۔ کون سمجھتا ہے؟ کون خود کو اتنی زحمت دیتا ہے کہ دوکان سے باہر آئے اور سڑک تک جائے کہ فلاں صدر مملکت وہاں آیا ہے، جاکے اس کو دیکھے۔ اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن جب ہمارا صدر مملکت کسی ملک میں جاتا ہے تو لوگ اس شہر سے اس شہر تک اس کو دیکھنے کے لئے صف باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے ہاتھ ہلاتے ہیں، نعرہ لگاتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ دنیا میں بہت سے گھر، گھرانے، کامپلکس، اسکول، کالج اور ثقافتی مراکز ہیں جن کی ہمیں خبر بھی نہیں ہے، لیکن جب آپ وہاں جائیں تو دیکھیں گے کہ امام کی تصویر اوپر لگی ہوئی ہے۔ یہ کہاں سے اور کس لئے ہے؟ امام کی تصویر، امام کا نام اور امام کا شرح حال، افریقا، ایشیا، حتی یورپ کے ان ملکوں میں حتی سابق سوویت یونین سے الگ ہونے والی اور تازہ آزاد ہونے والی ریاستوں میں کس نے پہنچایا؟ کس نے ان کو یہ باتیں بتائی ہیں؟ ان کی ممتاز شخصیات معمولی انسان تھے، بعد میں امام کی برکت سے، امام کے نام کی برکت سے، پیغام امام اور پیغام انقلاب، آپ کی فداکاریوں، آپ نوجوانوں، آپ والدین کی فداکاریوں سے ان کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ بڑے انقلابیوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایک ملک کے زندہ اور بیدار مسلمانوں کا لیڈر جس کا میں اس وقت نام نہیں لوں گا، میر ے پاس آیا اور اس نے کہا ہم معمولی انسان تھے۔ امام نے ہمیں زندہ کردیا یہ وہ ہستی ہے کہ دنیا میں ہزاروں انسان اس سے الہام حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے کس پیشرفتہ وسیلے اور کس جدیدترین ٹکنالوجی سے یہ کام انجام دیا ہے؟ آج بھی وہی بساط بچھی ہوئی ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم بھی حقائق کو بیان کریں گے۔ میں بھی مسلمین عالم کو پیغام دیتا ہوں کہ یہ پیغام اسلامی معاشروں میں اندر تک جائے اور وہاں گونجے۔ خدائے متعال نے حق بات میں برکت دی ہے اور برکت دیتا ہے۔ ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت ور فرعھا فی السماء (44) اس کی جڑ زمین میں ہے لیکن شاخیں اور پتے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جو چاہیں ایرانی قوم کے خلاف کہیں اور ہم بھی بعض دوسرے ملکوں اور ان کے حکام کی طرح صم بکم بنے بیٹھے رہیں اور جواب میں کچھ نہ کہیں۔ جی نہیں۔ ہم نوٹس لیں گے۔ یہ بات صرف آپ کے شہر کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ یہ وہ بات ہے جو خدا کے فضل سے پوری دنیا میں گونجے گی۔ یہ خدا کا کام ہے کہ دنیا کے دور ترین حصے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ پیغام پہنچ جاتے ہیں۔ لوگ حقائق سمجھ جاتے ہیں اور حقیقتوں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔
ہم حقائق بیان کرتے ہیں۔ ہم کسی قوم کے امور میں مداخلت نہیں کرتے۔ یہ جو اپ دیکھتے ہیں دنیا میں کچھ لوگ اور بیکار کی باتیں کرنے والے ان کے حامی دعوا کرتے ہیں کہ ایران ملکوں کے امور میں مداخلت کرتا ہے وجہ یہی ہے۔ مداخلت نہیں ہے۔ بات وہاں تک پہنچتی ہے اور اس کے طرفدار پیدا ہو جاتے ہیں۔ حق بات ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے۔ وہ ملک کا صدر بیچارہ دعوا کرتا ہے کہ ایران ہمارے ملک میں مداخلت کرتا ہے۔ اس سے پوچھا ہے کہ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ ایران مداخلت کرتا ہے؟ جواب میں کہتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم گرفتار کرتے ہیں، جب ان گھر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں ایران کے امام کی تصویر ان کے گھروں میں لگی ہوئی ہے۔ اس سے کہا ہے کہ یہ مداخلت کی دلیل ہے؟ یہ ان کے ان اثرکی دلیل ہے کہ ان کی بات کو انہوں نے قبول کیا ہے۔ حقیقت مسئلہ بھی یہی ہے۔
مسئلہ اسلام ہے۔ مذاق نہیں ہے۔ اب وہ امریکی نہیں سمجھتا کہ اسلام یعنی کیا؟ تم تو ایک اسلامی ملک میں بڑے ہوئے ہو، اگر تم سے پوچھیں تمھارا دین کیا ہے تو جھوٹ کہوگے اسلام۔ تمہیں سمجھنا چاہئے کہ عوام کو اسلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مصر کے عوام، الجزائر کے عوام، سوڈان کے لوگ اور دوسرے ملکوں کے عوام مسلمان ہیں۔ یہاں بھی پرچم اسلام بلند ہوا ہے۔ جس کا دل بھی اسلام کے لئے دھڑکتا ہے، اس پرچم کو عزیز رکھتا ہے۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے خلاف ریڈیو اور اخبارات وجرائد کے ان ہنگاموں اور پروپیگنڈو‎ں سے، ہم اسلام اور انقلاب کے اصول و اقدار سے جن کے لئے، اس قوم کے نوجوانوں نے اپنا خون دیا ہے، ہمارے معذور ہونے والے جانبازوں نے ان کے لئے، اپنی صحت و سلامتی کھوئی ہے اور اس قوم نے ان کے لئے معنوی سرمایہ کاری کی ہے، سوئی کی نوک کے برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ایک بار پھر میں یہ بات عرض کر دوں اگرچہ پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں، جو لوگ اسلامی جمہوریہ سے برہم ہیں، مسلسل دہشتگردی کی بحث کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ایران دہشتگردی کی حمایت کرتا ہے اور ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس قسم کی بے سرپیر کی باتیں کرتے ہیں، ان کے دل کی بات کچھ اور ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ایران دہشتگردی کا طرفدار ہے، خود جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ دہشتگرد خود ہیں۔ خود وحشی ترین دہشتگردوں یعنی صیہونیوں کے حامی ہیں۔ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران دہشتگردی کا حامی نہیں ہے۔ اگر کبھی کہتے ہیں کہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو خود جانتے ہیں کہ جھوٹ کہتے ہیں۔ سب سمجھتے ہیں کہ یہ بے سرپیر کی بات ہے۔ وہ خود انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ انسانی حقوق یعنی کیا؟ آپ نے دیکھا کہ امریکا میں انسانوں کو کس طرح جلا دیا گيا؟ آپ نے دیکھا کہ سیاہ فاموں کو جو امریکا کے اصلی شہری تھے، کس طرح ختم کیا گيا ہے؟ انسانی حقوق کا مطلب کیا ہے؟ وہ انسانی حقوق پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ یہ صرف باتیں ہیں۔ یہ ظاہر قضیہ ہے۔ باطن کچھ اور ہے۔
چند باتوں سے وہ بہت ناراض ہیں۔ مگر صراحت کے ساتھ کہنا نہیں چاہتے۔ سب سے پہلے یہی دین اور سیاست کے ایک دوسر سے الگ نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ یہ اصل مسئلہ ہے۔ وہ اس پیغام کے مخالف ہیں جو امام نے متن و قلب اسلام سے نکالا ہے اور اس معاشرے اور پوری دنیا میں نشر کیا ہے کہ دین سیاست سے الگ نہیں ہے۔ دین عین سیاست ہے اور سیاست عین دین ہے۔ دین صرف گوشہ محراب میں بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔ دین زندگی کے میدان میں موجود ہے۔ بنی نوع انسان کے امور چلانے کے لئے ہے۔ اور یہ بات ایرانی قوم اور تمام مجاہد اقوام کی جد وجہد کی بنیاد بن گئی۔ وہ اس سے برہم ہیں۔ کہتے ہیں دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرو یعنی کیا؟ یعنی جومتدین ہونا چاہے متدین ہو لیکن جب کسی کو ملک کا صدر منتخب کریں تو یہ نہ دیکھیں کہ متدین ہی ہو۔ ایک شخص کو چاہے وہ لاابالی ہو، بے دین ہو، غیر متقی ہو، امور مملکت چلانے کے لئے آنے دیں۔ جب کسی رکن پارلیمنٹ کا انتخاب کریں تو یہ نہ دیکھیں کہ وہ متدین ہو اور دین کا پابند ہو، بلکہ کسی کو بھی چاہے وہ لاابالی ہی کیوں نہ ہو، بے دین ہی کیوں نہ ہو، اسلامی اقدار اور اصول واخلاق کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، اس کو منتخب کریں۔ ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ جانتے ہیں کہ اگر صدر اور وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں ہیں اگر متدین ہوں، دین کے پابند ہوں تو قوم کے مفاد کے خلاف ان سے سازباز نہیں کی جا سکے گی۔ ایسے لوگ اپنے مفاد کو ملک و قوم کے مفاد پر ترجیح نہیں دیں گے۔ لیکن جو لاابالی ہے، اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ لاابالی اور بے دین انسان کا مسئلہ خود اس کا مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں تم چاہتے ہو صدر بنو، نعمتوں میں رہو، دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند رہو، یہ ہمارے ذمے ہے۔ جس طرح ہم کہتے ہیں عمل کرو۔ جیسا کہ فاسد اور شرمناک پہلوی حکومت کے حکام تھے اور افسوس کہ آج بھی اسلامی دنیا میں بعض حکومتیں ایسی ہی ہیں۔ اس طرح چاہتے ہیں۔ لہذا ان کی اصل مشکل دین اور سیاست ہے جن کو وہ چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ ہوں۔ اس کے بعد کا مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ یہ نہ کہے کہ ہم فلسطینی قوم کے ساتھ خیانت کے مخالف ہیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں۔ کہتے بھی ہیں جس طرح دوسرے مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھتے ہیں، فلسطینیوں کے گھر اور ان کی قسمت کا سودا کرتے ہیں ، تم بھی اس کو قبول کرو ہم نے فلسطین میں لشکر تو نہیں بھیجا ہے لیکن وہ فلسطینیوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں، اس کے مخالف ضرور ہیں، اسی سے وہ جلے جا رہے ہیں۔ ان کی مشکلیں یہ ہیں ۔
دوسرا مسئلہ دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کا ہے۔ کہتے ہیں دنیا کے مسلمانوں کا دفاع کیوں کرتے ہو؟ ان کی ناراضگی کا سبب یہ مسائل ہیں۔ یہ اصولی مسائل ہیں۔ دہشتگردی، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور یہ باتیں بہانہ ہیں جو زبان پر آتے ہیں۔ میں گفتگو کے آخر میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ عزیز بہنو اور بھائیو اور پوری ایرانی قوم! جب تک آپ اپنے دین کے پابند ہیں، جب تک آپ اپنے ملک ایران عزیز سے محبت کریں گے، جب تک آپ ایرانیوں سے محبت کریں گے، جب تک آپ اسلام اور قرآن کے احترام کے قائل رہیں گے، جب تک آپ قرآن کی باتوں پرعمل کرتے ہوئے ایک دوسرے سے متحد رہیں گے، جب تک اپنے ملک کے حکام سے محبت کریں گے اور کھلی آنکھوں سے ان کا انتخاب کریں گے اور آخر تک ان کی پشت پناہی میں ڈٹے رہیں گے، الحمد للہ سب کچھ اسی طرح رہے گا۔ جب تک آپ کے نوجوان اپنا انقلابی اور دینی جذبہ کم نہیں ہونے دیں گے، جب تک علماء میدان میں ہیں، جب تک اس ملک میں دین سرچشمہ زندگی ہے، جب تک خدا کے فضل سے ایران پر قرآنی حکومت کا سایہ ہے اور یہ ملک میں قرآن کے سائے میں رہے گا امریکا تو کچھ نہیں اگر امریکا سے بڑی کوئی طاقت اور ساری شیطانی طاقتیں متحد ہوجائیں تو بھی اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی ۔
پالنے والے ان دلوں کو جو تیری معرفت کے نور سے منور ہیں منورتر فرما۔ پالنے اس قوم کی معنوی قوت میں اضافہ کر۔ پالنے والے اسلام اور مسلمین کی عزت بڑھا۔ ہم احساس کرتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی عزت سے ہمارے شہدا کا خون رائگاں نہیں ہے۔ پالنے والے ، ان عزیزوں کے خون کو دنیا میں روز بروز عزیز تر فرما۔ پالنے والے ، اس قوم کے دشمنوں کو آپس میں ہی الجھائے رکھ۔ ان کی سازشوں کو خود انہیں کی طرف پلٹا دے۔ پالنے والے، ان کے دلوں کو اسی طرح اس قوم کی عظمت سے مرعوب رکھ۔ پالنے والے اس قوم کی پریشانیاں دور کر دے۔ پالنے والے دشمن کے مشکلات پیدا کرنے والے ہاتھوں کو کاٹ دے۔ پالنے والے ان ہاتھوں اور بازوؤں کو جو لوگوں کی مشکلات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قوت دے۔ پالنے والے ملک کے دلسوز حکام کو کامیابی عطا کر۔ پالنے والے اس عزیز قوم کو اپنے الطاف سے نواز۔ پالنے والے امام زمانہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما۔ پالنے والے ہمیں آنجناب کے شیعہ ہونے کے قابل بنا۔ پالنے ہم سب کی آنکھیں ان کے جمال سے روشن کر۔ امام (خمینی رہ) کی روح پاک اور ہمارے شہدا کی مقدس ارواح کو اپنے اعلا علیین کی برکات اور درجات عطا کر۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
43- غافر؛26
44- ابراہیم ؛