قائد انقلاب اسلامی نے ولادت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صورت میں دنیا کو ملنے والی عظیم نعمت کے بعض رموز بیان کئے۔ آپ نے اتحاد بین المسلمین کو عالم اسلام کے گوناگوں مسائل و مشکلات کا واحد حل بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ میں پیدا ہونے والی بیداری اور اس بیداری سے عالمی سامراج کی تشویش کا ذکر کیا۔ آپ نے اسلامی بیداری اور مسلمانوں کے وقار رفتہ کی بحالی کے تعلق سے ایران کے اسلامی انقلاب کا حوالہ دیا اور اسے دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کا تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:

بسم‏ اللَّه ‏الرّحمن ‏الرّحيم‏

تمام امت مسلمہ، عزیز ملت ایران اور آپ حاضرین محترم کو بشریت کے نجات دہندہ، تاریخ انسانیت کے لئے تحفہ الہی، نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے پوتے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یہ ولادت تاریخ انسانیت کے لئے رحمت الہی کے ظہور سے عبارت تھی۔ قرآن مجید میں پیغمبر اسلام کے وجود کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے۔
اس رحمت کی کوئی حد بندی نہیں ہے۔ اس میں تعلیم و تربیت، تزکیہ نفس، صراط مستقیم کی جانب انسانوں کی ہدایت و رہنمائی زندگی کے مادی و معنوی میدانوں میں بشر کی ترقی، سب شامل ہے۔ یہ اس زمانے کے لوگوں سے ہی مخصوص نہیں، اس کا تعلق پوری تاریخ سے ہے۔ و آخرین منھم لما یلحقوا بھم اس ہدف و منزل تک رسائی کا مقصد اسلامی تعلیمات و قوانین پر عملدرآمد ہے جن کا انسانوں کے لئے تعین کیا جا چکا ہے۔
تاریخ کے نشیب و فراز میں عظیم امت مسلمہ کو متعدد چیلنجوں اور انحرافات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے خود کو اسلام سے دور کرکے ایسی چیزوں میں پھنسا دیا کہ جن سے اسلام نے ہمیں سختی سے روکا تھا۔ اس طویل تاریخ کے دوران، ہم خانہ جنگیاں کرتے رہے، طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عظیم امت مسلمہ ابتدائی صدیوں کے بعد کے طولانی دور میں خود کو اس ہدف و منزل تک نہیں پہنچا سکی جس کا تعین اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالی کا لطف یہ رہا کہ اس نے اسلامی ممالک میں مادی دولت و ثروت کے ذخیرے قرار دئے جو ہماری ترقی و پیش رفت کا وسیلہ بن سکتے تھے لیکن علم و صنعت اور ترقی کے دیگر میدانوں میں ہم پسماندگی کا شکار رہے۔ اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا تھا۔ یہ وہ انجام تھا جو ہماری بد اعمالیوں، غفلتوں اور طرز عمل سے سامنے آیا۔ ما اصابک من سیئۃ فمن نفسک زمانے میں ہماری غفلتوں نے ہمیں اس حالت پر پہنچایا۔
آج عالم اسلام میں حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں اسلامی بیداری صاف محسوس کی جا رہی ہے۔ پورے عالم اسلامی میں مختلف مراحل پر استوار ایک عظیم تحریک اور گہما گہمی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی جانب میلان کی تحریک جو مایہ عز و شان اور ضامن پیشرفت و ترقی ہے۔
عالم اسلام کے علما، دانشوروں اور ارباب سیاست کو چاہئے کہ اس عمل کی تقویت کریں۔ یہ تصور غلط ہے کہ نوجوانوں میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہر اسلامی حکومتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جی نہیں، اسلامی بیداری کی برکت سے مسلم حکومتیں اپنا وہ وقار بحال کر سکتی ہیں جو سامراجی طاقتوں نے ان سے سلب کر لیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ ہمارا ملک، ہمارا انقلاب اور ہمارے امام خمینی رحمت اللہ علیہ ہیں۔ ہم صدیوں ظلم و استبداد کی چکی میں پستے رہے اور گزشتہ دو صدیوں میں اغیار کے تسلط کا نشانہ بنے رہے۔ اچانک ہم نے سنبھالا لیا اور ہمارے بزرگوار امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہمارے وقار کو بحال کر دیا۔
برطانیہ، روس اور امریکہ نے بالترتیب اس ملک پر حقیقی معنی میں حکمرانی کی۔ بظاہر تو وہ ملک کے سربراہ نہیں تھے لیکن ہر کام اور ہر چیز کا اختیار انہی کو تھا۔
ہمارے ملک کے عوام اپنے حقوق، ذخائر، عزت و وقار اور دین کی حقیقی چاشنی سے محروم تھے لیکن ہمارے امام (خمینی رہ) نے اسلام کی جانب واپسی اور اسلام سے تمسک کے نعرے کے ساتھ طویل المیعاد استبداد و سامراج کے چنگل سے ملک کو نکالا اور ہمیں عزت بخشی اور عوام کو اپنی اسلامی شناخت کا احساس میسر آیا، ملک کے عوام کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں، اپنی تقدیر کے فیصلے خود کر سکتے ہیں اور اپنا راستہ چن سکتے ہیں۔ تقدیر ساز اور فیصلہ کن مسائل میں ہاں یا نہیں کی شکل میں اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے عوام کو گزشتہ صدیوں میں یہ چیز کبھی میسر نہیں ہوئی تھی۔ یہ چیز انہیں اسلام سے ملی۔ دنیا کےجس خطے میں بھی اسلامی بیداری کو تقویت ملے گی اور جہاں کہیں بھی اس کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور عوام خود کو اسلام سے قریب محسوس کرنے لگیں گے شناخت کے احیاء اور وقار کی بحالی کا یہی منظر وہاں نظر آئے گا۔ ہاں اسلام دشمن طاقتیں اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گی۔ ارشاد رب العزت ہے ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا آج اسلام کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے جو حقیقت میں شیطان مجسم ہے۔ اس وقت اسلام کا سب سے بنیادی دشمن عالمی سامراج ہے جس کا سرغنہ امریکہ ہے۔ اس کی نشاندہی ہمارے انقلاب اور ہمارے نظام کے اصولوں میں کی گئی ہے۔ اسلامی انقلاب چوبیس سال سے اس بات کا اعلان کرتا آیا ہے لیکن اب دنیا کے لوگ اور مسلم معاشرے خود بھی اسے محسوس کرنے لگے ہیں۔ فلسطین کے واقعات اور اس سرزمین پر امریکہ کی پشتپناہی سے آئے دن رونما ہونے والے سانحے عوام کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ امت مسلمہ اس سب پر کیسے آنکھیں موندے رہ سکتی ہے؟ کیسے ان المناک واقعات کو نظرانداز کر سکتی ہے؟ جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے، دنیا والوں کے سامنے ہے۔ یہ دنیا کے عوام اور بالخصوص امت مسلمہ کے سامنے یہ ایک سیاسی و تاریخی امتحان گاہ ہے۔ امریکیوں نے جمہوریت اور آزادی کے نام پر صدام حکومت پر یلغار کر دی لیکن اب وہ عراقی عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کہتے ہیں ہمارا موجود ہونا ضروری ہے۔
ایک مسلم ملک کو عالمی سطح پرمسلمہ بنیادی حقوق تک سے محروم کر دیتے ہیں اور بہانہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے، ہمارا موجود رہنا ضرری ہے ہم تمہیں جمہوریت کا تحفہ دیں گے۔ کیسی جمہوریت اور کہاں کی ڈیموکریسی؟ کیا یہی جمہوریت اور انسانی حقوق کی پابندی ہے؟
یہ شوشہ چھوڑا کہ ہم عام تباہی کے ہتھیار تلاش کرنے آئے ہیں۔ یہاں مسلم رای عامہ کے لئے یہ سوال پیدا ہوا کہ کیمیاوی اسلحہ، عام تباہی کے ہتھیار اور جرائم کا ساز و سامان کس نے صدام کو دیا؟ کیا خود ان کے علاوہ کسی اور نے یہ سب صدام کو دیا تھا؟ انہی لوگوں نے اسلام اور انقلاب کو نقصان پہنچانے کے لئے صدام کو مسلح کیا تھا۔ جب تک اس سے تعاون اور مدد ملنے کی امید رہی انہوں نے اسے جہاں تک ممکن تھا مسلح کیا لیکن جب عضو فاضل ہوکر رہ گیا اور انہوں نے محسوس کر لیا کہ صدام اسلامی انقلاب اور اسلامی بیداری کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے تو یہ نیا اسٹیج تیار کیا گیا۔
مسلم امہ ان مسائل کودیکھہ رہی ہے۔ یہ امتحان گاہ ہے۔ امت مسلمہ اس سے کیسے چشم پوشی کر سکتی ہے؟ یہ سب تجربات ہیں۔ عالم اسلام کے پاس اب اپنے عز و وقار اور تشخص و شناخت کی بحالی کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اسلام کی سمت واپسی۔ حقیقی اسلام کی طرف واپسی۔ اس رجعت پسند اور خرافات سے آمیختہ اسلام کی طرف نہیں جس کی تبلیغ اسلام دشمن طاقتیں کر رہی ہیں اور کہتی پھرتی ہیں کہ یہی اسلام ہے۔ ایسا اسلام کارساز نہیں اور نہ ہی وہ اسلام جو امریکی اصولوں اور اہل مغرب کے مطلوبہ معیاروں کےمطابق ڈھالا گیا ہو۔ یہ دونوں ہی امریکی اسلام ہیں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے امریکی اسلام اور خالص و حقیقی اسلام محمدی کے درمیان خط فاصل کھینچ دیا۔ حقیقی و خالص اسلام، توحید اور امت مسلمہ کے اتحاد کا اسلام ہے۔ ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا کا پیغام دینے والا اسلام۔ وہ اسلام جس کی خصوصیت ہے الاسلام یعلو و لا یعلی علیہ وہ اسلام جو کہتا ہےکہ و لو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء و الارض اس اسلام کی جانب میلان و واپسی امت مسلمہ کے ہر درد کا علاج ہے اور یہ چیز نا ممکن نہیں۔ آج اسی اسلام کی جانب پیش قدمی کا عمل عالم اسلام میں مشرق سے مغرب تک ہر جگہ پھیلا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور یہی دیکھہ کر دشمنان اسلام سراسیمہ ہیں۔
سامراج کے تشہیراتی ہنگاموں اور زور آزمائی پر نہ جائیے، وہ اسلام سے ہراساں ہیں، عظیم اسلامی تحریک کو دیکھھ کر وہ بوکھلا گئےہیں۔ اسی بنا پر طاقت کی نمائش کر رہے ہیں لیکن اس سے بھی بات بنتی نظر نہیں آتی۔ طاقت حکومتوں کا تو خاتمہ کر سکتی ہے لیکن عظیم اسلامی اور عوامی تحریک کو اس سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ امت مسلمہ غفلت سے جاگ کر انگڑائیاں لے رہی ہے۔ دشمن اس سے واقف ہو چکے ہیں۔ امت مسلمہ کا مستقبل وہی ہے جس کا خاکہ اسلام نے اس کے لئے کھینچا ہے۔ رہنما، عالم دین، حکومتی عہدہ دار اور سیاسی شخصیت کی حیثیت سے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مستقبل کے خد و خال ابھاریں اور اس کی جانب پیش قدمی کے عمل کو تیز رفتار اور آسان بنائیں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس عید سعید کو امت مسلمہ کے لئے مایہ برکت اور ہم سب کے لئے بیداری کا ذریعہ قرار دے۔ اللہ تعالی کی توفیقات ہمارے شامل حال رہیں اور ہم حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی توجہ اور التفات کے مستحق قرار پائيں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ