قائد انقلاب اسلامی نے شہر قم کے عوام کو مخلص، صداقت پسند، پاک و پاکیزہ اور مثالی بصیرت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اہل قم کی بیداری نہ ہوتی تو خاص اہمیت کے حامل اس شہر کے خلاف تیار کی جانے والی دشمنوں کی سازشیں ناکام نہ ہوتیں۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول شہر قم عوام کی بیداری اور با برکت دینی علمی مرکز کے وجود سے جہاد و بصیرت کا سرچشمہ بن گیا ہے، اہل قم دینی علمی مرکز اور علماء کی قدر و قیمت کو جانتے ہیں اور حالیہ بتیس برسوں میں اسلام اور انقلاب کے دفاع کے میدانوں اپنے با برکت کردار کا لوہا منوا چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصّلوۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی الہ الاطیبین الاطھرین المنتخبین الھداۃ المھدیّین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔

 

آٹھویں امام (علی ابن موسی الرضا) علیہ آلاف التّحیّۃ و الثناء کے مبارک و مسعود یوم ولادت اور اسی طرح (آپ کی خواہر گرامی) حضرت فاطمہ معصومۂ (قم) سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت ( سے شروع ہونے والے ) عشرۂ کرامت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خداوند متعال کا بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے توفیق عطا کی کہ ایک بار پھر عظیم یادوں سے معمور اس شہر قم میں آپ تمام عزیزوں سے ملاقات اور آپ کا دیدار کر سکوں۔ شہر قم شہر علم ہے، شہر جہاد ہے، شہر بصیرت ہے۔ قم کے لوگوں کی بصیرت ان نہایت ہی اہم خصوصیات میں سے ہے جو ادھر تیس سے بھی کچھ اوپر برسوں کے دوران ان کے ہاں ہمیشہ دکھائي دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر قم کی پیدائش بھی ایک جہادی اقدام کا نتیجہ ہے جو بصیرت کے ساتھ انجام دیا گیا۔ یعنی اشعریوں کا خاندان جب یہاں آیا اور اس علاقے میں قیام پذیر ہو گيا تو در اصل اس نے معارف اہلبیت علیہم السلام کی ترویج کے لئے، ایک ثقافتی جد وجہد یہاں شروع کی تھی۔ اشعریوں نے اس سے پہلے کہ وہ قم آئیں، میدان جنگ میں جہادی کارنامے بھی انجام دئے تھے۔ اشعریوں کے بڑوں نے جناب زيد ابن علی ( علیہما السلام ) کی قیادت میں رہ کر پیکار کی تھی۔ یہی وجہ تھی حجاج ابن یوسف ان پر غضبناک ہوا اور یہ لوگ یہاں آنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے، اپنی بصیرت سے، اپنے علم و دانش سے اس علاقے کو علم کا گہوارا قرار دیا اور یہی چیز باعث بنی کہ حضرت فاطمۂ معصومہ سلام اللہ علیہا جب اس علاقے میں پہنچیں تو آپ نے قم آنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہاں ان ہی اشعریوں کے بزرگوں کے سبب، لوگ گئے ان کا استقبال کیا، حضرت معصومۂ ( قم) کو اس شہر میں لے آئے اور یہ نورانی بارگاہ اس دن سے، اس عظیم ہستی کی وفات کے بعد سے ہی اس شہر قم میں نورافشانی کر رہی ہے۔ اہل قم نے جو اس عظیم ثقافتی تحریک کے وجود کا باعث بنے تھے اسی دن سے اس شہر میں معارف اہلبیت علیہم السلام کا مرکز تشکیل دیا اور سیکڑوں عالم، محدث، مفسر اور اسلامی و قرآنی احکام کے مبلغ عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں روانہ کئے۔ قم سے ہی خراسان کے خطے میں اور عراق و شامات کے مختلف حصوں میں علم پھیلا۔ روز اول سے ہی قم والوں کی بصیرت کا یہ عالم ہے، کیونکہ قم کی پیدائش ہی جہاد و بصیرت کی بنیاد پر ہوئي ہے۔
ہمارے آج کے دور میں بھی بالکل اسی طرح کا مسئلہ پیش آیا؛ یعنی قم الہی و اسلامی معارف کا ایک بڑا مرکز بن گیا اور بڑے بڑے علماء کی موجودگي اور ان کے مجاہدانہ اقدام اور بصیرت کی برکت سے یہ سرزمین ایک ایسے سرچشمے کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ مشرق سے لیکر مغرب تک پورا عالم اسلام اس سے فیض اٹھا رہا ہے۔
میں دو اہم ترین مواقع آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں اور ان دونوں موقعوں پر قمیوں نے حقیقی معنی میں اہم کردار ادا کیا ہے؛ ان دونوں موقعوں پر اہل قم نے بہت ہی موثر اور یادگار کردار نبھایا ہیں۔ ایک تو سنہ 1963 کے عاشورا کا دن اور اس کے دو دن بعد 15 خرداد ( یعنی 5 جون سنہ 63) کا دن تھا۔ عاشورا کے دن یہیں مدرسۂ فیضیہ میں قم کے لوگ جمع ہوئے۔(حکومت کے خلاف) امام (خمینی رح) کی للکار کی آواز سنی جو اہل قم کی روحوں کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ دو روز بعد جس وقت امام بزرگوار (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی گرفتاری کی خبر سنی تو (حرم معصومۂ قم کے ) صحن مطہر میں (اہل قم نے) اجتماع کیا۔ ان کی یہ عظیم الشان تحریک باعث بنی کہ ہمارے امام بزرگوار ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی قیادت میں شروع ہونے والی علماء کی تحریک قم کے دینی علوم کے مرکز تک ہی محدود نہ رہی بلکہ پورے معاشرے تک پہنچ گئی۔ اس کام میں پیش قدمی قمیوں نے کی تھی اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا تھا۔
دوسرا موقع ، سنہ 1977 کا وہ موقع ہے جب امام بزرگوار ( امام خمینی رضوان اللہ علیہ ) کی توہین سے متعلق دشمن کی گہری سازش کو ( قمیوں نے ) محسوس کیا، انہوں نے بھانپ لیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ امام بزرگوار ( امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔ اس خائنانہ حرکت کے خلاف اسی شہر قم میں وسیع سطح پر سب سے پہلے عوامی مظاہرے شروع ہوئے۔ قمی نوجوانوں نے ان ہی سڑکوں کو، اسی ارم روڈ کو، اور اسی چہار مردان روڈ کو اپنے خون سے رنگین کر دیا، اپنی جان دیدی، اپنے خون کے ذریعے اپنی بات کی صداقت ثابت کر دی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد اس تیس سال کے طویل دور میں بھی تمام اہم مواقع پر، عوام کے ہر دل عزیز یہی لوگ ہیں جو پورے اخلاص، پورے صدق و صفا اور قابل مثال بصیرت کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ دشمن نے قم کے لئے منصوبہ بندی کی تھی، پروگرام ترتیب دئے تھے۔ وہ تو قم کے لوگ بیدار تھے، اہل بصیرت تھے ورنہ قم کے سلسلے میں دشمنوں کے منصوبے بہت خطرناک تھے۔ اس شہر میں لوگوں کی بیداری اور دینی علوم کے مرکز کی موجودگي نے ہی اس شہر کو بصیرت کا مرکز بنا دیا ہے۔
حوزۂ علمیہ (قم) کے بانی آیۃ اللہ حائری مرحوم کے زمانہ سے مراجع عظام اس شہر میں موجود رہے ہیں. آیۃ اللہ بروجردی مرحوم سے لیکر ادھر حالیہ برسوں کے مراجع تک؛ آيۃ اللہ گلپائگانی مرحوم، آیۃ اللہ اراکی مرحوم، آیۃ اللہ مرعشی مرحوم، آیۃ اللہ بہجت مرحوم ( و غیرہ ) اور آج بھی بحمداللہ مراجع عظام اس شہر میں موجود ہیں، ممتاز فضلاء پائے جاتے ہیں، حوزۂ علمیہ برکات کا سرچشمہ ہے اور اس شہر صادق کے با بصیرت اور مجاہد فی سبیل اللہ عوام نے دکھا دیا ہے کہ وہ دینی علوم کے مرکز کی قدر کرتے ہیں، علماء کی قدر جانتے ہیں، جب بھی لازم ہو اپنی موجودگي کو ثابت کر دیتے ہیں اور یہ وہی شہر ہے جو اپنے وقت کے اس مرد عظیم حضرت امام خمینی کے اقدام کے باعث انقلاب کی چھاؤنی اور اس کا مرکز بن گیا ہے۔
اس عظيم اجتماع میں ہماری گفتگو کا وقت محدود ہے۔ افسوس ہے کہ راستے میں، (استقبال کے لئے آنے والے) لوگوں کے کثیر ازدہام کے سبب سڑکوں پر زیادہ وقت لگ گیا لہذا وقت گزر گيا، میں صرف چند جملے ہی عرض کر سکوں گا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قم انقلاب کا اصلی مرکز ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مذہبی شہر، عصر حاضر میں انقلاب کا عظیم ترین مرکز اور چھاؤنی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ پوری دنیا سمجھ لے کہ یہ انقلاب ایک دینی اور مذہبی انقلاب ہے۔ اس انقلاب کی کوئی تفسیر بالرائے اور کوئی مادی تفسیر نہیں کی جا سکتی؛ اس انقلاب کا اصلی مرکز قم ہے۔ اس کا سرپرست ایک فقیہ، ایک فلسفی، ایک بڑا عالم دین، ایک روحانی اور معنوی انسان ہے جو اس انقلاب کی شناخت کا درجہ رکھتا ہے، اسے اس طرح سے دنیا میں جانا جاتا ہے۔ یہ ایک بات ہوئی اور اس بات سے ہی جڑی ہوئی بات یہ بھی ہے کہ انقلاب دشمنوں نے، اس طویل عرصے میں جب بھی اس انقلاب اور اس نظام کو کوئی نقصان پہنچانا چاہا ہے تو ان کے حملوں کا آماجگاہ کیا چیز رہی ہے؟! دشمنوں کے حملوں کا نشانہ دو بنیادی نقطے رہے ہیں۔ ایک تو انہوں نے دین کو نشانہ بنایا ہے اور دوسرے عوام کو اور ان کی دینداری کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ انقلاب ایک دینی انقلاب نہ ہوتا، اس میں استقامت کی قوت نہ ہوتی کیونکہ یہ دین ہی ہے جو اپنے پیروکاروں کو ظلم کے سامنے سر جھکانے سے منع کرتا ہے۔ ظلم سے مقابلے کا حوصلہ دلاتا ہے۔ انسانوں کی زندگی میں انصاف، آزادی، معنویت اور ترقی کی پیشکش کرتا ہے۔ یہ دین کی خصوصیت ہے۔ لہذا وہ نظام جو دینی بنیادوں پر استوار ہو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دشمنوں، طاقتوروں اور تسلط پسندوں کے زور اور دباؤ کے سامنے جھک جائے۔ اگر اس انقلاب میں دین کا عنصر نہ ہوتا ممکن تھا کہ انقلاب کے ذمہ دار افراد، انقلاب کی سربرآوردہ شخصیتیں کوئی ایک امتیاز حاصل کرنے کے لئے دشمن کے مقابلے میں اپنا موقف نرم کر لیتیں اور پھر سے دشمن کے تسلط کے لئے راہ کھلی چھوڑ دیتیں۔ لیکن دین چونکہ اس انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس لئے اس طرح کی کوئی چیز اب تک پیش نہیں آ سکی ہے اور آئندہ بھی ( انشاء اللہ) پیش نہیں آئے گی۔
ہمارے عزيز و بزرگ امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ کا سب سے بڑا سبق ہم کو اور تمام ملتوں کو یہی تھا، خود اپنی قوت و توانائی پر ایمان رکھنا اور اس قوت کو روز بروز بڑھانے اور خود کو قوی کرنے کی کوشش کرنا اور خداوند متعال اور اس کے وعدوں پر اطمینان و یقین رکھنا۔ اگر استقامت دکھائی اور تدبیر کے ساتھ اقدام کیا تو مطمئن رہیئے! اللہ کی نصرت و مدد آپ کو حاصل ہوگی۔ یہ لوگوں کے دیندار ہونے، اس نظام کے اسلامی اور اس انقلاب کے دینی ہونے کی خصوصیت ہے۔ عوامی ہونا یعنی اس انقلاب کو پوری وفاداری کے ساتھ عوام کی حمایت حاصل ہونا، اسلامی نظام کو عوام کی جانب سے پوری تائيد و حمایت اور پشتپناہی ملنا بھی، جو اس تمام مدت میں اس کو حاصل رہی ہے، اس انقلاب کی خصوصیت ہے۔ اگر عوام کی موجودگي نہ ہوتی، اگر معمولی سا بھی فاصلہ عوام اور نظام کے درمیان پیدا ہو جاتا تو دشمنوں کے مقابلے میں نظام کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ عوام کی مستحکم شراکت ہے جو (حکومت کے) ذمہ داروں کی استقامت کے لئے پشتپناہی کا کام کر رہی ہے۔ یہ دونوں یعنی دین اور عوام بہت اہم ستون ہیں۔ لہذا دشمن نے بھی ان ہی کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ دین کو ایک طرح سے اور عوام کی دینداری اور وفاداری کو کسی اور طرح سے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں سنہ کہ 1980 کی دہائي کے بعد کے برسوں میں، امام خمینی کی با برکت حیات کے زمانے سے ہی چاہے وہ بیرونی دشمن ہوں اور چاہے ان کے ہاتھ بکے ہوئے افراد یا مفت میں ان کی نوکری کرنے والے اندرونی نوکر ہوں، دینی مقدسات کو، دینی حقائق کو اور مسلمہ اسلامی اصولوں اور باتوں کو مشکوک اور غیر یقینی بنا کر انکار کر رہے ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے اس اس کو با قاعدہ ایک حربہ بنا رکھا ہے؛ یہ مسئلہ سلمان رشدی کے واقعے سے شروع ہوا اور اس کا سلسلہ ھالیووڈ کی اسلام مخالف فلموں، ( توہین آمیز) خاکوں یہاں تک کہ قرآن سوزی اور دوسری طرح طرح کی اسلام مخالف حرکتوں تک پھیلا ہوا ہے جو دنیا کے مختلف گوشوں میں پیش آئی ہیں۔ تاکہ اسلام اور اسلامی مقدسات کے سلسلے میں لوگوں کے ایمان کو کمزور کریں۔ ملک ( ایران ) کے اندر بھی مختلف طریقوں سے لوگوں خصوصا نوجوان نسل کے ایمانی ستونوں کو متزلزل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ بے پردگی اور بے حیائی سے لیکر جھوٹے تصوف و عرفان کی تشہیر اور حقیقی عرفان کے بجائے ایک جعلی مکتب فکر تک، بہائیت کی ترویج اور چینلوں کی ترویج تک، یہ تمام وہ امور ہیں جو پوری منصوبہ بندی اور چھان بین کے ساتھ، دشمنان اسلام کے اندازوں اور تخمینوں کے مطابق انجام پا رہے ہیں۔ ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ معاشرے میں دین اور دینی اقدار کو کمزور کر دیں۔
نظام اسلامی کی نسبت لوگوں کی وفاداری کے جذبے کمزور کرنے کی راہ میں بھی بہت کام کر رہے ہیں۔ افواہیں پھیلاتے ہیں کہ لوگ ملک کے حکام سے اور ( کابینہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ) سربراہوں سے مایوس ہو جائیں۔ اس کے لئے غلط فہمی اور بدگمانی کے بیج بوتے ہیں ہر وہ کام جو ملک میں اچھا مناسب اور لائق قدر انجام پاتا ہے اپنی مختلف النوع تشہیرات کے ذریعے، اس سے متعلق شکوک و شبہات ایجاد کر دیتے ہیں۔ اگر کمزوریاں ہیں تو اس کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور مثبت و تعمیری نکات کو نہیں بتاتے۔ تا کہ لوگوں کو ناامید کردیں۔ خصوصا نوجوان نسلوں میں مایوسی پھیلائیں، عوام الناس اور نوجوان نسل کے مستقبل کو ان کی نگاہوں میں تاریک کرکے پیش کرتے ہیں۔ تا کہ لوگوں کو میدان سے دور کر دیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ملت ایران کے دشمنوں اور اسلامی نظام کے مخالفوں نے بتیس سال کے دوران جتنی بھی کوششیں ان دونوں موضوعات کے سلسلے میں کی ہیں بہت ہی نقصان دہ سرمایہ کاری ثابت ہوئی ہے۔ کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے۔ قطعی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کا خیال تھا کہ لوگوں کو اسلامی نظام سے جدا کر دیںگے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں دینی مسائل اور معنوی اقدار کے سلسلے میں لوگ اور زيادہ پابند ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کب ہمارے نوجوان معنوی پروگراموں میں اس طرح شریک ہوا کرتے تھے؟ ماہ رمضان المبارک کی عبادتوں میں، عید الفطر کے دن مذہبی اجتماع میں، یہ عظیم اجتماعات، سیاسی مسائل کے سلسلے میں لوگوں کی یہ روشن فکری، ماضی میں کہاں اس کی مثال ملتی ہے؟ اس سال عاشورا ( سنہ 1431 ہجری ) کو، دوسروں کے بہکائے ہوئے کچھ افراد کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کی نسبت جو توہین آمیز حرکت کی گئی تھی اس کے بعد دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ تیس دسمبر سنہ 2009 کو پورے ملک کے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے دوٹوک اور صریح موقف کا کھل کر اعلان کر دیا۔ دشمن کے ناپاک ہاتھ اور دشمن کے پروپیگنڈے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دینی احساسات کو دبا نہیں سکے ہیں بلکہ روز بروز یہ احساسات اور زيادہ پرزور و قوی اور ان کی معرفت اور زيادہ گہری اور عمیق ہوتی جا رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کو اسلامی نظام سے جدا کرنے میں دشمن کو زبردست شکست ہوئي ہے، پچھلے سال کے ( صدارتی ) انتخابات میں ملک کے چار کروڑ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور در اصل اسلامی جمہوری نظام اور انتخابات کے حق میں چار کروڑ کا ریفرنڈم انجام پایا، اسی چیز نے دشمن کو غصے میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے فتنہ کے ذریعے اس کے اثر کو زائل کر دینے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ لوگوں نے اس فتنہ کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سنہ 2009 کے فتنہ نے ملک کے لئے (بیماریوں سے بچانے والے حفاظتی) ٹیکے کا کام کیا۔ لوگ سیاسی اور معاشرتی جرثوموں کے خلاف لیس ہو گئے اور لوگوں کی بصیرت کو اس فتنے نے اور زيادہ بڑھا دیا۔
پچھلے برسوں کے دوران ملک کے بعض جرائد میں، فہم و دانش کے دعویدار بعض افراد، اسلام کی بعض بنیادوں کے خلاف اپنے نظریات لکھتے رہے ہیں، یہ ( تحریریں) بھی لوگوں پر موثر نہیں ہوئیں۔ یہاں اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ دشمنوں نے دین و مذہب کے باب میں دو بنیادی باتوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا ہے یہ دونوں باتیں لوگوں کی زندگي میں کس قدر تاثیر گزار واقع ہوئی ہیں۔ ایک تو علما اور مولویت سے عاری اسلام کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا ہے کہ ایرانی معاشرے میں علماء کا وجود کس قدر حیرت انگیز اثرات کا حامل رہا ہے اور لوگوں کے اقدام کا باعث بنا ہے۔ البتہ انقلاب سے پہلے بھی کچھ چہ میگوئياں ہوا کرتی تھیں۔ انقلاب میں علماء کی موجودگی اور انقلاب میں ان کی پیش قدمی نے وقتی طور پر اسے بحث کے میدان سے خارج کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے دوبارہ یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ایک اور مسئلہ، سیاست سے جدا اسلام کا مسئلہ ہے، دین سے سیاست کی جدائی کی بات ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ آج جس کی بڑے اصرار کے ساتھ اپنے اخبار و رسائل، اپنی تحریروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے تشہیر کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کے لئے بہت اہم ہے۔ اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے، ہر وہ چیز کہ دشمن جس پر تکیہ کئے ہوئے ہے اور دشمنوں کے منصوبے اور دشمن کی راہ و روش جس پر مرکوز ہے وہی چیز ہمارے لئے بھی ایک بنیادی منصوبے اور حکمت عملی کی نشان دہی کرتی ہے، وہی چیز کہ جس کو ان لوگوں نے اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس پر ہم خاص توجہ دیں اور طے کر لیں کہ اس کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم کو اسی پر تکیہ کرنا چاہئے، لوگوں کی پوری طرح میدان میں موجودگي اور مشارکت اور دینی و اسلامی معارف سے پوری طرح وابستگی اور ان تعلیمات کی ترویج و اشاعت۔
ویسے سن انیس سو اناسی-اسی سے ہمارے ملک کا بائیکاٹ شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن بائیکاٹ میں یہ موجودہ سختی دراصل اس لئے ہے کہ عوام پر دباؤ ڈالیں اور لوگوں کو اسلامی نظام سے جدا کر دیں۔ خوش قسمتی سے حکام نے بھی کہہ دیا ہے اور عوام نے بھی اعلان کر دیا ہے اور عملی طور پر بھی اس کی نشان دہی ہو چکی ہے کہ اس بائیکاٹ کا عنایات الہی کے طفیل لوگوں کی زندگی پر ایسا کوئي خاص اثر نہیں پڑے گا اور عوام کہ جنہوں نے اوائل انقلاب میں سن ساٹھ کی دہائی کے دور کی زحمتیں اور مشکلات برداشت کی ہیں آج ان عظیم ترقیوں کے بعد جو انجام پائی ہیں ان کا اعتماد اور زیادہ بڑھ چکا ہے اور مستقبل کی طرف سے ان کی امیدیں اور زيادہ بڑھ گئی ہیں۔ دشمن کے مقابلے میں سب کے سب ثابت قدمی سے کھڑے ہیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا رہے ہیں۔
نماز(ظہرین) کا اول وقت مومنین کے ہاتھ سے جانے نہ پائے اس لئے آخر میں مختصر طور پر چند بنیادی باتیں خود اپنے لوگوں کے لئے، دشمن کے منصوبے کو سامنے رکھتے ہوئے، عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ پہلا مسئلہ قومی اتحاد و یکجہتی کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں خطاب خاص لوگ سے بھی ہے اور عام لوگ سے بھی ہے۔ اتحاد کے مسئلے کو پوری سنجیدگي کے ساتھ سامنے رکھنا چاہئے۔ میں لوگوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے موضوع پر بہت باتیں کر چکا ہوں۔ کچھ خصوصیات اور علامتیں بھی بیان کر دی ہیں۔ کسی کا صرف یہ کہہ دینا کہ ہم اتحاد کے طرفدار ہیں کافی نہیں ہے۔ اس کی علامتیں ہیں اور اس کی نشانیاں ہیں (ان پر کھرا اترنا ضروری ہے)
دوسرا مسئلہ عوام اور خواص دونوں کی تینوں شعبوں ( مجریہ، مقننہ اور عدلیہ ) سے وابستگي کا مسئلہ ہے، ملک کے تینوں شعبوں کے ساتھ وابستگی میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ ان کی مدد کرنی چاہئے۔ خاص طور پر مجریہ کی کہ جس کے کاندھوں پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ یہ افواہوں کا بازار گرم کرنا اور زحمتوں کو نظر انداز کر دینا، کسی بھی طرح ملک اور ملک کے مستقبل کے حق اور بھلائی میں نہیں ہے۔ تیسرا نکتہ دین و ایمان کی تقویت، فکری ضروریات کی تکمیل اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کی جواب دہی اور افہام و تفہیم کا مسئلہ ہے۔ اس کا بڑی حد تک علماء اور دینی علوم کے مرکز سے تعلق ہے۔ شبہے مسلسل کانوں میں بھرے جاتے ہیں تو دائمی طور پر، روز کے روز ان شبہات کا جواب دینا چاہئے۔
چوتھا نکتہ با صلاحیت و با لیاقت علما کو متعارف کرانے کا ہے۔ یہ صرف علماء کا فریضہ نہیں ہے، روشن فکر باخبر حضرات ملک میں علماء کے کردار کو نمایاں کر سکتے ہیں کہ حساس موقعوں پر علماء خصوصا مراجع عظام اور دینی علوم کے مرکز کی بڑی ہستیوں نے کن مشکلات اور کیسی سخت راہوں سے گزر کر معاشرے کو آگے بڑھایا ہے۔
ایک اور مسئلہ بصیرت افروزی کی راہ میں نوجوانوں کی کوشش کا مسئلہ ہے۔ خود نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس میدان میں جد وجہد کریں۔ دشمن کو پہچاننا چاہئے، دشمن کی چالوں کو سمجھنا چاہئے، یہ وہ کام ہے جو خود نوجوانوں کے ذمے ہے۔
اس کے بعد جو بات ہمارے آج کے ضروری کاموں کی فہرست میں مرکز توجہ قرار پانا چاہئے وہ ہے ملک کو ایک جامع علمی مقام تک پہنچانے کے لئے علم و سائنسی سرگرمیوں کے میدان میں ترقی کا مسئلہ۔ یہی کام جو پانچ چھ سال سے بحمداللہ بہتر طور پر انجام پایا ہے اور ترقیاں بھی اچھی ہوئي ہیں۔ اور زيادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ یہ رفتار اور زیادہ تیز ہوگی۔ ایک اور میدان جس میں تیز رفتاری کے ساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے حوزات علمیہ یعنی اعلی دینی درسگاہوں کی اندرونی ترقی سے تعلق رکھتی ہے جس کے بارے میں انشاء اللہ حوزۂ علمیہ کے ارکان، دوستوں، بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ نشست میں گفتگو ہوگی۔
ایک اور اہم کام کہ جس کے مخاطب اور ذمہ دار، ارکان حکومت ہیں عوام کے لئے مشکل اور ناراضگی ایجاد کرنے والے اسباب و محرکات برطرف کرنے پر توجہ کا مسئلہ ہے۔ معیشت کا مسئلہ ہے، روزگار کا مسئلہ ہے، اداروں میں حسن کارکردگي کا مسئلہ ہے، مختلف محکموں میں خصوصا اعلی سطح پر تقرری کا مسئلہ ہے، کارپوریشنوں کا مسئلہ ہے، پولیس کا مسئلہ ہے جو براہ راست یا بالواسطہ عوام سے تعلق رکھتی ہے اور لوگوں کی بہت سی مشکلات برطرف کر سکتی ہے یا خدا نخواستہ ناراضگیوں کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ بنابریں (حکومتی) اداروں کومختلف مسائل در پیش ہیں توجہ اور ہم آہنگی سے کام لینا چاہئے، ایک دوسرے سے وابستگی اور مل جل کر ترقی و پیشرفت کی کوشش کرنی چاہئے۔ اختلاف نہ پایا جائے، یہ سب باتیں سرکاری اداروں سے تعلق رکھتی ہیں۔
چند جملے شہر قم کے سلسلے میں عرض کر دوں۔ قم انقلاب کا سرچشمہ ہے۔ اس عظیم واقعے اور ہمارے ملک کی عظیم تاریخی تحریک کی جائے پیدائش ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی قم کو ایک خاص نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مختلف ملکوں سے یہاں آمد و رفت پائی جاتی ہے، وہ لوگ بھی جو یہاں آمد و رفت نہیں کرتے، اس شہر کی نسبت حساس ہیں۔ اسے ایک خاص نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس شہر کے واقعات اور تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ یہی آپ لوگوں کا آج کا عظیم الشان اجتماع ان کی توجہ کا مرکز ہے۔ ممکن ہے کہ اسے اپنے پروپيگنڈوں میں شامل نہ کریں، زبانیں بند رکھیں لیکن وہ لوگ جو پالیسیاں بناتے ہیں اور دراصل جو رخ اور موقف کا تعین کرنے والے ہيں، وہ دیکھتے ہیں، حساب کتاب کرتے ہیں اور بین الاقوامی نگاہ رکھتے ہیں۔ دنیائے اسلام میں اسلامی علوم کا ایک سب سے عظیم دینی علوم کا مرکز اس شہر میں ہے۔ دینی علوم کے مراکز کے درمیان کوئی بھی مرکز قم کے دینی علوم کی سی عظمت نہیں رکھتا۔ یہاں زيارتی اور معنوی مرکز بھی ہے۔ یہاں حضرت معصومہ کا حرم، یہ پرشکوہ بارگاہ پائي جاتی ہے۔ مسجد جمکران کی بنیاد یہاں رکھی گئی ہے۔ مختلف امامزادوں کے حرم اس شہر میں واقع ہیں۔ جو امامزادے قم کی گلیوں میں مدفون ہیں اگر ان میں سے کوئي ایک بھی کسی شہر میں دفن ہوتا تو اس شہر کا مرکز و محور قرار دیا جاتا، یہ سب کچھ اس شہر مقدس کی قومی اور بین الاقوامی افادیتیں اور توانائیاں کہی جا سکتی ہیں۔
قم چونکہ طاغوتی دور میں حکومت کے غیظ و غضب کا شکار رہا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں پسماندگیوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور یہ پسماندگیاں حکام محترم کو پوری سنجیدگي سے تیزی کے ساتھ برطرف کرنی ہیں۔ یقینا انقلاب کے بعد کے برسوں میں کام زیادہ ہوئے ہیں اور ادھر سنہ 2000 کے بعد جب سے اس شہر کو ایک صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی ہے اس کے بجٹ میں کافی اضافہ ہوا ہے اور جیسا کہ مجھ کو رپورٹ دی گئی ہے سنہ 2005 ع سے اس شہر کا بجٹ اپنے پورے اوج پر رہا ہے اور بہت سے امور انجام پائے ہیں لیکن ان تمام کاموں کو مکمل ہونا چاہئے، کام پورا ہو اور اس شہر میں لوگوں کی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی اور شہر کی عظمت کے اعتبار سے بھی، قوم کے لوگوں کے لئے شایاں شان ترقی آنی چاہئے۔ پسماندگیوں کا یہ ڈھیر اگر برطرف کرنا ہے تو اس کے لئے سخت محنت لازم ہے۔
اس شہر کی اہم ترین ضرورتوں میں سے پانی کا مسئلہ ہے اور پچھلے کئی برسوں سے اس مسئلے پر پوری سنجیدگی سے کام ہوا ہے۔ اس راہ میں اقدامات ہوئے ہیں اور بہت سے کام بخوبی انجام پائے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی راہ میں اہم حصہ انجام پا چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کام میں جن لوگوں نے زحمتیں اٹھائي ہیں ان کی قدردانی کی جائے لیکن جن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ان سے ہماری گذارش ہے کہ وہ پانی جو دوری پر واقع دز کے چشموں سے قم لایا جا رہا ہے جتنا جلد ممکن ہو قم تک اس کو پہنچایا جائے۔ یہ قم والوں کے لئے ایک بنیادی قسم کی بڑی ہی اہم ضرورت ہے جو پوری ہونی چاہئے۔
قم کی زراعت کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے اور جیسا کہ میں نےسنا ہے، طے پایا ہے کہ تہران سے مسیلہ کے علاقے میں پانی لایا جائے اور قم کی کھیتی جو کسی زمانے میں بہت معروف تھی انشاء اللہ پھر سے رونق حاصل کر لے۔
قم کی دستی صنعتیں خاص طور پر قم کے قالین کی صنعت کی، کہ جس کا بڑا نام رہا ہے، حمایت و پشتپناہی کرنی چاہئے۔ چنانچہ میں اس سفر کے دوران ذمہ دار افراد کو اس سلسلے میں ضروری تاکید کروں گا۔
مجھے ایک اور بات تاکید کے ساتھ شہر قم کی تعمیر نو اور معماری سے متعلق کہنی ہے۔ اس وقت قم میں بہت بڑے بڑے تعمیراتی پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ حتمی طور پر ان معماریوں میں اسلامی فن تعمیر کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس شہر کی معماری میں انقلاب کے جلوے نمایاں طور پر نظر آنا چاہئے کیونکہ یہ شہر شہر انقلاب اور شہر اسلام ہے۔
ایک آخری بات یہ ہے کہ اس شہر میں حکام محترم کے درمیان اگر کسی موضوع پر ایک دوسرے کے ساتھ کوئی اختلاف پیش آئے تو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اختلاف لوگوں کی زندگی میں سرایت کرے اور اہل قم مشکلات سے دوچار ہوں۔ مختلف اداروں میں آپس میں اختلافات ہوتے ہیں جو ممکن ہے لوگوں کی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں، یہ باتیں میں نے یہاں نوٹ کر رکھی ہیں لیکن اب ذکر نہیں کروں گا لیکن مجموعی طور پر میری نصیحت یہ ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔ حکومت کے ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ باہمی تعاون اور میل محبت کے ساتھ لوگوں کی خدمت کریں اور عوام کو بھی چاہئے کہ ان کی پشتپناہی کریں اور اپنی اسی طرح کی عظیم مشارکت کے ذریعہ جو خوش قسمتی سے انہوں نے ہمیشہ کی ہے وہ موقع فراہم کریں کہ وہ عظیم کام جو عصر حاضر میں اس ملک میں انجام پانا چاہئے اپنے انجام تک پہنچ سکے اور اس کے فوائد اسلامی دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ اپنی برکتیں ان باوقار لوگوں اور تمام ملت ایران پر نازل فرما۔ پروردگارا! ہم کو ان تمام لوگوں کی مجاہدت اور کوششوں کا قدرداں بنا دے کہ جنہوں نے اس عظیم تحریک کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد علیہم السلام کے حق کا واسطہ ہم سب کو حقیقی اسلام کے سپاہیوں میں قرار دے۔ اس ملک کے عزيز و باوقار حکام اور خدمتگاروں کو اپنی توفیق و تائید عنایت فرما۔ اپنی توفیقات اور اپنی مدد و نصرت کے ذریعے عوام کی مدد اور عوام کی خدمت کے منصوبوں کو آسان کر دے۔
حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ اور ہم کو ان کے حضور و غیبت کے دور میں ان کے ناصرین میں قرار دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ