بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين.
بہت مسرور ہوں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں اس توفیق پر جو دیر سے ہی سہی اس بندہ حقیر کو حاصل ہوئی کہ کرمانشاہ کے آپ عزیز باایمان و وفادار عوام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ اگر آپ کے صوبے اور آپ کے شہر کا دورہ کرنے میں تاخیر ہوئی تو یہ اس صوبے اور یہاں کے عوام کی اہمیت میں کسی کمی کی وجہ سے نہیں تھی۔ یہ صوبہ افرادی قوت کے لحاظ سے، قدرتی مناظر کے لحاظ سے اور جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے ہمارے اس وسیع و عریض وطن عزیز کے ممتاز صوبوں میں سے ایک ہے۔ اپنے معروضات کے آغاز میں میں چند جملے کرمانشاہ اور یہاں کے عزیز عوام کے صفات کے تعلق سے عرض کرنا چاہوں گا۔
بعض خصوصیات تو ایسی ہیں جو پورے ملک کے عوام میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں جبکہ بعض خصوصیات ایسی ہیں جو بعض صوبوں میں زیادہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ کرمان شاہ کے عوام کو ہم ایک طویل عرصے سے ان کی شجاعت، دریادلی، وفاداری اور محبت سے پہچانتے رہے ہیں۔ مہمان نوازی اور مسافرین کی خاطر مدارات جیسے صفات یہاں زیادہ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ایک بات جس کی وجہ سے میں کرمان شاہ کی ہمیشہ تعریف کرتا ہوں یہ ہے کہ قومیتی لحاظ سے، مسلکی لحاظ سے، بولی کے لحاظ سے پائے جانے والے فرق کے باوجود عوام ایک ساتھ میل محبت، رواداری و بردباری اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم خصوصیت ہے جس پر ہمیشہ تاکید کرنا چاہئے، اس کی حفاظت کرنا چاہئے۔ اس صوبے کے قبائل اور سرحدوں کے محافظ جوان صوبے کے ہر علاقے میں اسی غیرت و حمیت اور قبائلی صفات و خصوصیات سے پہچانے جاتے ہیں۔
میں سنہ اسی میں مسلط کردہ جنگ کے اوائل میں پورے صوبے میں گیا اور اسے قریب سے دیکھا۔ گيلان غرب اور اسلام آبام میں جہاں شیعہ آبادی ہے اور پاوہ و اورامانات میں جہاں برادران اہل سنت بستے ہیں، ریجاب و دالاہو میں عوام کی ایک تعداد کا تعلق اہل حق مسلک سے ہے، ہر جگہ عوام دفاعی سرگرمیوں میں اور اسلامی جمہوری نظام سے اظہار عقیدت میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ میں نے جو جذبہ صوبے کے گوناگوں خطوں میں دیکھا وہی جذبہ صوبے کے مرکز میں بھی نظر آیا جو مختلف قبائل اور قومیتوں کا شہر ہے۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے۔
مقدس دفاع کا زمانہ اس صوبے کے لئے بہت بڑے امتحان کا دور تھا۔ آٹھ سالہ جنگ اسی صوبے سے شروع ہوئی اور اسی صوبے میں اختتام پر پہنچی۔ عراق کی بعثی حکومت کے سب سے پہلے فضائی حملے اسی صوبے پر اور اسی صوبے کے شہروں پر، اسی اسلا آباد پر، گیلان غرب اور اور دیگر سرحدی علاقوں پر ہوئے اور سب سے پہلی سرحدی جارحیت اسی صوبے میں قصر شیرین پر ہوئی۔ آٹھ سال بعد جنگ ختم ہوئی تو وہ بھی اسی جگہ پر۔ ہمارے ملک اور ہمارے عزیز عوام کی آخری دفاعی کارروائي مرصاد آپریشن کے تحت اسی صوبے میں ہوئی۔ یعنی پورے آٹھ سال یہ صوبہ حالت جنگ میں تھا اور استقامت و شجاعت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اور آٹھ سالہ جنگ شروع ہونے سے قبل بھی یہاں یہی صورت حال تھی۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے ایک مہینے بعد یعنی سنہ تیرہ سو ستاون ہجری شمسی کے اسفند مہینے (فروری-مارچ 1979) میں کرمانشاہی جوانوں نے پیش قدم کرتے ہوئے سنندج کی لشکر چھاونی تک زور شجاعت دکھایا۔ انقلاب مخالف عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے جو گروہ تشکیل پائے اور جو آگے بڑھے ان میں بعض کرمانشاہ کے یہی معروف شہداء ہیں۔
شعر و ادب، علوم و فنون، سائنس و ٹکنالوجی، دینی علوم، ورزش اور کھیل جیسے میدانوں میں ماضی قریب اور ماضی بعید کی نمایاں شخصیات اس صوبے سے ملیں اور آج بھی بحمد اللہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس صوبے میں ایسے معروف علمی خاندان آج بھی موجود ہیں جن کی اس شہر اور اس صوبے میں علمی سرگرمیوں کی تاریخ سو سال اور دو سو سال پر محیط ہے۔ یعنی افرادی قوت کے لحاظ سے اس صوبے کا ایسا نمایاں مقام ہے۔
اس صوبے میں عورتوں کی شراکت بھی بہت نمایاں ہے۔ ملک کے صرف ایک صوبے کو چھوڑ کر کسی بھی اور صوبے میں کرمانشاہ کی تعداد میں شہید ہونے والی یا زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والی خواتین نہیں ہیں۔ یہاں جس طرح خواتین محاذ جنگ پر جاکر شہید ہوئیں یا اسپتالوں پر دشمن کی بمباری میں شہید ہوئيں اس کی مثال پورے ملک میں صرف ایک صوبے میں ملتی ہے۔ تو یہ بھی اس صوبے کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔
صوبے کے قدرتی مناظر یہاں کے افراد کی ہی مانند بڑے ممتاز قدرتی مناظر ہیں۔ یہ صوبہ قدرتی مناظر کے لحاظ سے بھی اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی بالکل منفرد صوبہ ہے۔ یہاں زراعت کے لئے بڑی اچھی زمین ہے۔ پانی کافی مقدار میں ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کا سسٹم مہیا نہیں ہے۔ اس صوبے میں میدانی علاقوں کے پانی کو کنٹرول کرنے کا زیادہ بہتر انتظام کیا جانا چاہئے۔ صوبے کی زمین زرخیز ہیں، مٹی بہت زرخیز ہے، زراعت کے قابل زمینیں ہیں۔ صوبے میں آٹھ لاکھ ہیکٹیئر سے زیادہ کا رقبہ کاشتکاری کے قابل ہے۔ صوبے کی آب و ہوا میں تنوع ہے اور صنعتی و معدنیاتی ذخائر ہیں۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بنا پر بیرون ملک اور وطن عزیز کے مختلف علاقوں سے رابطے کے اعتبار سے یہ صوبہ نقل و حمل اور تجارت کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس صوبے اور اس شہر سے یکساں فاصلے پر ملک کے کئی اہم اقتصادی مراکز واقع ہیں۔ صوبے میں دلکش قدرتی مناظر اور منفرد قسم کے آثار قدیمہ سیاحت کی اچھی زمین ہموار کرتے ہیں۔ یہ اس صوبے کی قدرتی و جغرافیائی خصوصیات اور افرادی قوت ہے۔
ان مثبت اور نمایاں خصوصیات کی بنا پر صوبے کے نوجوانوں میں امید و نشاط اور کام کا جذبہ بھرپور انداز میں پایا جانا فطری ہے۔ صوبے کے نوجوانوں کو چاہئے کہ توجہ دیں اور سمجھیں کہ وہ کس پوزیشن میں، کس حساس علاقے میں اور اہم خصوصیات سے آراستہ خطے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بیشک مشکلات بھی موجود ہیں جنہیں رفع کرنے کے لئے حکام کو چاہئے کہ کمر ہمت باندھیں۔ صوبے کی مشکلات میں سب سے اہم روزگار کا مسئلہ ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت یہاں روزگار کا مسئلہ زیادہ حساس ہے لہذا اس صوبے کے روزگار کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔
ہمارا یہ سفر جو چند روز تک جاری رہے گا اور جس کے دوران آپ عزیز عوام کے ساتھ اس شہر میں بھی اور دیگر شہروں میں بھی میرے مختلف پروگرام ہیں، بڑے حساس دور میں انجام پا رہا ہے۔ آئے دن علاقے اور دنیا کی نئی نئي خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس وقت ہمارے علاقے میں جو مسئلہ سامنے ہے اور پوری دنیا میں جو صورت حال نظر آ رہی ہے، اس کی ماضی میں کوئي مثال نہیں ہے۔ خواہ وہ علاقے کے مسائل ہوں یا یا مغرب میں، یورپ اور امریکہ میں رونما ہونے والے مسائل۔ دنیا کے حالات بہت حساس ہیں البتہ ہمارے مفادات سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان حالات میں بہت مناسب ہے کہ ملت ایران اپنی صورت حال پر بھی جامع نظر رکھے اور دنیا کے حالات کا بصیرت آمیز نگاہ سے جائزہ لیتی رہے۔
میں اس موقعے سے استفادہ کرتے ہوئے عزیز عوام اور وطن عزیز کے تعلق سے اس دور میں جو امور انتہائی اہم ہیں کہ جن کی یاددہانی لازمی ہے، انہیں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ ہمارا اصلی مسئلہ عوام کا مسئلہ ہے، عوام کی شرکت کا مسئلہ ہے، عوام کی رغبت کا مسئلہ ہے، عوام کے ارادے کا مسئلہ ہے، عوام کے عزم محکم کا مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ بات بیان کرنا چاہئے کہ تمام بڑی سماجی تحریکوں میں عوام کا کردار کسوٹی کا درجہ رکھتا ہے۔ یعنی کسی بھی تبدیلی کا پھیلاؤ، کسی بھی فکر کی ہمہ گیری، کسی بھی سماجی مصلح کے اثر و رسوخ کی گہرائی کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کا عوام سے کتنا رابطہ ہے۔ اس تحریک، اس تبدیلی اور اس انقلاب کا عوام سے رابطہ جتنا مضبوط ہوگا اس کی فتح و کامیابی کا امکان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اگر عوام سے اس کا رابطہ منقطع ہوا تو اس کے بے اثر ہو جانے میں دیر نہیں لگے گی۔ البتہ ہمارے ملک کی تاریخ میں اقتدار کی ایک سے دوسرے کو منتقلی، سلاطین کے سلسلوں کے بر سر اقتدار آنے اور ایوان اقتدار سے بے دخل ہونے میں عوام کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا۔ تاہم ہمارے ملک کے انہیں سلطنتی نظاموں کی تاریخ میں جب بھی کسی حکومت نے عوام سے رابطہ قائم کیا اور عوام سے خود کو قریب کیا ہے اس کی پائیداری اور مضبوطی میں اضافہ ہوا ہے، ملک کا کامیابی سے نظم و نسق چلانے اور قومی وقار کے حصول میں مدد ملی ہے۔ جو حاکم بھی عوام سے کٹ کر رہا اس نے سب کچھ گنوا دیا۔ اس کی واضح مثال قاجاریہ سلسلہ حکومت اور حالیہ منحوس پہلوی سلسلہ حکومت ہے۔ ماضی قریب میں ہمیں ایک مثال آئینی انقلاب کی ملتی ہے اور ایک مثال تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک کی ہے۔ ان دونوں تحریکوں میں عوام شامل ہوئے، عوام نے شراکت کی اور دونوں تحریکوں کو کامیابی عوام نے دلائی لیکن عوام کو الگ کر دیا گیا۔ آئینی انقلاب کے دوران برطانیہ نے اپنے مکر و فریب سے، اپنی چالوں اور سازشوں سے حالات کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور عوام اور رہنماؤں کو حاشئے پر ڈال دیا اور آئینی انقلاب کا نتیجہ رضاخان کی جابرانہ حکومت کی صورت میں نکلا۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک میں بھی سنہ انیس سو پچاس کے عشرے کی شروعات میں عوام نے اہم کردار ادا کیا، بہت موثر انداز میں کام کیا، عوام کی شراکت نتیجہ بخش ثابت ہوئی لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ عوام سے کنارہ کشی کر لی گئی، عوام سے منہ پھیر لیا گيا، نتیجے میں امریکہ کی شہ پر بغاوت ہوئی اور سارے امور اور پورا ملک استبدادی نظام کے اختیار میں چلا گیا۔
ہماری پوری تاریخ میں اسلامی انقلاب کی فتح اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات جیسے دوسرے واقعات کہیں نظر نہیں آتے جن میں عوام کا براہ راست کردار رہا ہو۔ اسلامی انقلاب میں عوام آگے بڑھے، پوری قوم، ہر طبقے کے لوگ، شہروں کے لوگ، قریوں کے لوگ، عورتیں اور مرد، پیر و جواں، تعلیم یافتہ، ناخواندہ افراد سب کے سب ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر آگے آئے۔ انہوں نے طاقت استعمال نہیں کی، اسلحہ کو ہاتھ نہیں لگایا، ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے اور اگر تھے بھی انہیں استعمال نہیں گیا گيا لیکن پھر بھی وہ سر سے پیر تک ہتھیاروں سے لیس اور استکباری طاقتوں کی حمایت یافتہ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارے انقلاب کا اساسی نکتہ یہ تھا کہ انقلاب کامیاب ہو جانے کے بعد بھی عوام کا کردار ختم نہیں ہوا۔ یہ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی حکیمانہ نظر اور اس مرد خدا رسیدہ کی دور اندیشی کا نتیجہ تھا۔ آپ نے ایرانی قوم کو پوری طرح پہچان لیا تھا، انہیں ملت ایران کی صلاحیتوں پر پورا یقین ہو گيا تھا، ملت ایران کی توانائیوں، عزم راسخ اور صداقت پر پورا ایقان تھا۔ ان دنوں بعض افراد ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ٹھیک ہے، اب انقلاب کامیاب ہو گیا ہے تو عوام اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پائيداری کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور آپ نے امور کو عوام کے سپرد کیا۔ یعنی انقلاب کی فتح کے پچاس دن بعد ملک کا سیاسی نظام استصواب رائے کے ذریعے معین کیا گیا۔ آپ دنیا کے دیگر انقلابات کا جائزہ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس بات کی کیا اہمیت ہے؟! انقلاب کی فتح کے پچاس دن بعد تک عوام یہ طے کر چکے تھے کہ انہیں کس نوعیت کا نظام مملکت درکار ہے۔ وہ خود پولنگ مراکز پر جاتے ہیں اور حیرت انگیز انداز میں تاریخی ووٹنگ ہوتی ہے، یہ طے پاتا ہے کہ عوام کو اسلامی جمہوری نظام چاہئے۔ حالیہ دو صدیوں میں عظیم انقلاب رونما ہوئے ہیں تاہم کسی بھی انقلاب میں ایسا دیکھنے میں نہیں آتا کہ اتنی کم مدت میں براہ راست عوام کے ذریعے، کسی اور عامل کے ذریعے نہیں، نئے نظام کا تعین عمل میں آ جاتا ہے۔ اس کے بعد فورا عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) آئین کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ انقلاب کی فتح کے تین چار مہینے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انقلابی کونسل کو جو ہم لوگوں پر مشتمل تھی، ایک اہم کام کے لئے قم بلایا۔ ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں پہنچے۔ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس خشمگیں چہرے کو کبھی نہیں بھول سکتا، میں نے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو اس حالت میں بہت کم ہی دیکھا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) یہ فرما رہے تھے کہ آپ لوگ آئین کی فکر میں کیوں نہیں ہیں۔ یہ ایسے عالم میں تھا کہ ابھی انقلاب کو کامیاب ہوئے تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اسی اجلاس میں فیصلہ کیا گيا کہ ماہرین کی کونسل کے انتخابات کرائے جائیں۔ ملک کے حکام نے جو عبوری حکومت میں شامل تھے انتخابات کرائے۔ عوام نے ملک گیر سطح پر انتخابات میں شرکت کی اور آئین کی تدوین کے لئے ماہرین کی کونسل کے ارکان کا انتخاب کیا۔ ماہرین کی کونسل نے بھی تندہی کے ساتھ چند مہینے کے اندر آئین کی تدوین کا عمل پورا کر لیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پھر ہدایت کی کہ اب جب آئین کی تدوین مکمل ہو گئی ہے تو اسے پھر عوام کے سامنے توثیق کے لئے رکھا جانا چاہئے۔ حالانکہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے تیار کیا تھا لیکن پھر بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا کہ نہیں، اسے عوام کے سامنے توثیق کے لئے رکھا جانا چاہئے۔ لہذا آئین پر ریفرنڈم کرایا گیا اور عوام نے بہت بڑی اکثریت سے آئین کی حمایت کی۔ معلوم یہ ہوا کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد عوام کا کردار ختم نہیں ہوا۔ ملک کے انتظامی امور میں بھی عوام کا یہ کردار جاری رہا۔ انقلاب کی فتح کو ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آئین کے مطابق صدر جمہوریہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس کے چند مہینے بعد پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی تشکیل پائی۔ اس دن سے لیکر آج تک ان بتیس برسوں میں باقاعدگی سے ماہرین کی کونسل کے ارکان، صدر جمہوریہ، پارلیمنٹ کے ارکان اور بلدیاتی کونسل کے ارکان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔ عوام خود فیصلہ کرتے ہیں، شرکت کرتے ہیں، انتخاب کرتے ہیں۔ امور عوام کے ہاتھ میں ہیں۔ عوام کا کردار اس طرح کا نمایاں کردار ہے۔
ان برسوں کے دوران مختلف حکومتیں اور مختلف سیاسی فکر کے افراد بر سر اقتدار آئے، پارلیمنٹ کے اندر بھی اور مجریہ میں بھی۔ بعض افراد تو ایسے بھی آئے جو اسلامی نظام کے بنیادی اصولوں سے بھی پوری طرح متفق نہیں تھے لیکن نظام کا عظیم ظرف باعث بنا کہ ذرہ برابر عدم تحمل کا مظاہرہ نہیں ہوا اور یہ سارے مسائل حل ہوتے رہے، نظام ان تمام مشکلات کو اپنے اندر ہی رفع کر دینے میں کامیاب ہوا۔ عوام کی شراکت کی وجہ سے، عوام الناس کے ایمان کی وجہ سے، اسلامی نظام سے عوام کے گہرے لگاؤ کی وجہ سے یعنی اس وجہ سے کہ وہ خود کو اس ملک کا مالک سمجھتے ہیں۔ پہلے یہ مقولہ بہت رائج تھا کہ کشور صاحب دارد ملک کا ایک مالک ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ یا حاکم اس ملک کا مالک ہے۔ اس میں عوام کا کہیں کوئي کردار نہیں ہوتا تھا، عوام کا کسی کام سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا تھا۔ آج اسلامی انقلاب کی برکت دیکھئے کہ عوام جانتے ہیں کہ اس ملک کا مالک ہے اور وہ ملک خود عوام ہیں۔
جب ہم اسلامی انقلاب کے ان بتیس برسوں کے تجربات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مدبرانہ صلاحیتوں اور گہری حکیمانہ نظر کا بہتر طریقے سے اندازہ ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مانند جو نظام حکومت بھی اعلی اہداف رکھتا ہے، بین الاقوامی سامراجی طاقتوں اور بے انصافیوں کی مخالفت میں آواز اٹھاتا ہے، دنیا بھر میں شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے بڑی طاقتیں اس کی دشمن بن جاتی ہیں۔ اس کے سامنے مشکلات کھڑی کرتی ہیں، چیلنجز پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اب ایسا نظام اگر اپنا دوام چاہتا ہے تو اس کی حفاظت کے لئے ایک عظیم طاقت کی پشتپناہی ضروری ہے تا کہ یہ نظام استقامت کا مظاہرہ کر سکے، تاکہ یہ نطام پیشرفت کر سکے اور اس کی پیش قدمی کا عمل نہ رکے۔ اسلامی انقلاب میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے تدبر کی بدولت جس کا سرچشمہ اسلامی تعلیمات تھیں یہ طاقت وجود میں آئي ہے جو عبارت ہے عوام کے عزم و ارادے سے اور عوام کی شراکت و حمایت سے۔ اسی وجہ سے اسلامی نظام چیلنجز کو عبور کرتا گیا، مشکلات پر قابو پاتا گیا۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ اب تک سامنے آنے والی تمام چھوٹی بڑی مشکلات پر غالب آیا ہے اور نصرت پروردگار سے، فضل الہی سے، ہدایت خداوندی سے آئندہ بھی چیلنجز کا کامیابی سے سامنا کرتا رہے گا۔
انقلاب کے اوائل میں ہی ایک بڑا چیلنج جو سامنے آیا یہی آٹھ سالہ جنگ تھی۔ اس ملک پر مسلط کر دی جانے والی آٹھ سالہ جنگ کوئی مذاق نہیں ہے! انقلاب کے شروعاتی دور میں آمادگی کی جو کمی رہتی ہے اس کی وجہ سے کوئی بھی نظام ہو اتنا بڑا چیلنج سامنے آ جانے پر شکست سے دوچار ہو جاتا ہے لیکن ہمارا وطن عزیز اور ہمارا مقدس اسلامی جمہوری نظام فتحیاب ہوا، شکست سے محفوظ رہا۔ جنگ کے امور عوام نے سنبھالے۔ فوج، پاسداران انقلاب فورس اور دیگر دفاعی ادارے سب کو بھروسہ عوام کی پشتپناہی پر تھا، عوام کے ایمان پر تھا، عوام کے عشق و محبت پر تھا، عوام کے صفائے باطن پر تھا۔ فرنٹ لائن سے لیکر دیگر محاذوں تک اور دفاعی امور سے وابستہ متعدد ذمہ داریوں تک ہر جگہ عوام مثالی اور ناقابل فراموش صداقت و اخلاص عمل کے ساتھ ایثار و فداکاری کے لئے ہر لمحہ تیار نظر آئے۔ کتنا اچھا ہے کہ ان بے مثال اور ممتاز حیثیت رکھنے والے واقعات کو بار بار یاد کیا جائے۔
اسی کرمان شاہ کے بارے میں مجھے بتایا گيا کہ جعفر آباد پر بمباری ہوئي تھی۔ ایک خاندان ملبے کے نیچے دب گيا تھا۔ گورنر ہاؤس سے لوگوں نے جاکر ان افراد کو ملبے سے باہر نکالا۔ خاندان کے بزرگ بعد میں گورنر ہاؤس آئے تھے اظہار تشکر کے لئے۔ انہوں نے آکر شکریہ ادا کیا کہ ان کی مدد کی گئی۔ گورنر ہاؤس کے عہدیداروں نے ان بزرگ سے کہا کہ آپ کا جو کچھ نقصان ہوا ہے اس کی فہرست ہمیں دیں تاکہ ہم اس کی تلافی کر دیں۔ کہتے ہیں کہ اس سن رسیدہ شخص نے کہا کہ یہ کیسی بات آپ کر رہے ہیں؟ کیا میں یہاں دنیوی مال و منال کی شکل میں مردار لینے کے لئے آیا ہوں؟ آپ دیکھئے کہ یہ ایک کرمانشاہی شخص ہے اور اس کے یہ الفاظ عظیم انسانوں میں پائے جانے والے جذبہ ایثار و قربانی کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کے شہر اور صوبے میں اس طرح کی مثالیں بے شمار ہیں۔ دفاعی آپریشن کے مغربی، جنوب مغربی اور شمال مغربی علاقوں میں اس کی مثالیں آپ کو کثرت سے ملیں گی۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو دیگر قوموں میں نظر نہیں آئیں گي۔ ایسے عظیم نمونے وہ بھی اس کثرت کے ساتھ آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔ پوری جنگ عوام کے بلبوتے پر لڑی گئی، یہ ذمہ داری عوام نے سنبھالی۔
بڑے چیلنجوں میں اسی طرح اقتصادی پابندیوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آج پابندیوں کی باتیں کی جا رہی ہیں تو یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انقلاب کی فتح کے بعد پہلے ہی سال میں امریکہ اور یورپی ممالک نے یکطرفہ طور پر پابندیاں عائد کر دی تھیں اور جنگ کے دوران یہ پابندیاں اپنے اوج پر پہنچ گئيں۔ میں یہ بات بیان کر چکا ہوں کہ ہم بیرون ملک سے خاردار تار امپورٹ کرنا چاہ رہے تھے۔ خاردار تار کی یہ کھیپ سوویت یونین سے گزر کر آنے والی تھی تو وہ اجازت نہیں دے رہا تھا کہ یہ سامان اس کی حدود سے گزرکر ایران پہنچے۔ حالانکہ یہ نہ تو کوئي فوجی ساز و سامان تھا، نہ کوئي ہتھیار تھا، خاردار تار تھا۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں لیکن آپ عوام کے صبر و بصیرت کی مدد سے اسلامی جمہوری نظام نے ان پالیسیوں اور پالیسی سازوں کو شکست سے دوچار کیا۔
ہم ان پابندیوں کو مواقع میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہی پابندیوں کی وجہ سے ہم اختراعات و ایجادات کے میدانوں میں، تمام شعبوں میں ایسی پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ علاقے کے ممالک برسوں گزر جانے کے بعد بھی یہ پیشرفت حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ہماری قوم، ہمارے عوام، ہمارے نوجوان علم و دانش کے شعبے میں آگے بڑھے۔ دنیا کے انقلابوں کے تعلق سے میرے ذہن میں متعدد مثالیں ہیں تاہم انہیں بیان کرنے کا وقت نہیں ہے، شاید بعد کی تقاریر میں ان کا ذکر کروں۔ سنہ انیس سو ستر کے عشرے میں یعنی ہمارے اسلامی انقلاب سے چند سال قبل بعص ممالک میں جو انقلاب آئے ان کی حالت بہت افسوسناک ہو گئی۔ ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں رہا۔ جبکہ ہمارا عظیم انقلاب مسلسل پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
ایک اور بڑا چیلنج جو کچھ زیادہ ہی پیچیدہ تھا وہ فتنے اور شر پسندی کا بحران تھا جو اٹھارہ تیر سنہ تیرہ سو اٹھہتر ہجری شمسی مطابق نو جولائي انیس سو ننانوے عیسوی اور سنہ تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق سنہ 2009 عیسوی میں تہران میں پیش آیا۔ دشمنوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ ان فتنوں سے اسلامی نظام کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائيں گے، بھاری ضرب لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن نتیجہ الٹا نکلا۔ اٹھارہ تیر مطابق نو جولائی کو اٹھنے والے فتنے میں یہ ہوا کہ پانچ دن بعد یعنی تیئیس تیر چودہ کو عوام نے تہران ہی نہیں بلکہ دوسرے سبھی شہروں میں بھی ریلیاں نکالیں۔ سنہ تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق سنہ دو ہزار نو عیسوی کے فتنے میں بھی یہ ہوا کہ عاشورا کے دن پیش آنے والے واقعات کے دو دن بعد نو دی تیس دسمبر سنہ دو ہزار نو عیسوی کا عظیم عوامی کارنامہ سامنے آیا۔ اسی وقت غیر ملکی مبصرین نے جنہوں نے حالات کا نزدیک سے مشاہدہ کیا تھا اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا اور ہم نے خود پڑھا کہ انہوں لکھا تھا کہ نو دی مطابق تیس دسمبر کو ایران میں جس طرح عوام باہر نکلے اس کی مثال امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تشییع جنازہ کے علاوہ کسی اور موقعے پر نہیں ملتی۔ یہ کارنامہ عوام نے خود انجام دیا۔ عوام کی شراکت اسے کہتے ہیں۔
ایٹمی مسئلہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ مستحکم سہارا جس نے حکام کو جرئت عطا کی ہے، انہیں یہ قوت دی ہے کہ ایٹمی مسئلے میں دشمن کی زور زبردستی کا مقابلہ کریں وہ عوام کا عزم و ارادہ ہے۔ یہ عوام کی پشت پناہی ہے، عوامی حمایت ہے جس نے ملک کو اتنی بڑی کامیابی دلائی ہے۔
ایک اور اہم ترین میدان جس میں عوام نے موثر کردار ادا کیا ہے اور جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس شعبے میں بھی عوام کا اتنا اہم کردار ہو سکتا ہے وہ سائنس و ٹکنالوجی کا میدان ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ہمارے نوجوان اس انداز سے میدان عمل میں اتریں گے؟ جیسے ہی یونیورسٹی کی ممتاز شخصیات اور چنندہ افراد کے ساتھ علم کی پیداوار اور علمی مہم کی بحث کا آغاز ہوا، ایک ایسا ماحول بنا کہ یہ بحث ہمہ گیر موضوع میں تبدیل ہو گئی۔ آج پورے ملک میں، مختلف صوبوں میں، چھوٹے بڑے شہروں میں، خاص طور حساس علمی مراکز میں ہمارے نوجوان سائنس و ٹکنالوجی کے لحاظ سے انتہائی اہم اور حساس سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بعض کام ایسے ہیں جو پوری طرح نتیجہ بخش ثابت ہو چکے ہیں جبکہ بعض پروجیکٹ ایسے ہیں جن پر کام جاری ہے۔ ان کے نتیجے بھی ملت ایران کی نظروں کے سامنے آئیں گے۔ یہ علمی کارنامے ملت ایران کی خود اعتمادی میں اضافہ کریں گے، معاشی رونق کا باعث بنیں گے۔ نفع بخش تجارت سائنسی پیشرفت کی رہین منت ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان اس میدان میں وارد ہو چکے ہیں اور اس کی تصدیق عالمی اعداد و شمار بھی کر رہے ہیں۔ حکام نے بھی اس سلسلے میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
میں اپنے ان معروضات سے دو نتیجے اخذ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ پوری دنیا اب یہ جان لے، ہمارے مغربی دشمن یہ سمجھ لیں کہ عوام کی بھرپور شراکت کی وجہ سے یہ نظام انتہائی مقتدر اور مستحکم نظام ہے۔ مغربی ممالک ایران کو ان ممالک کے زمرے میں نہ ڈالیں جہاں انقلاب تو آئے لیکن بعد میں مغرب کی خواہش کے مطابق ہی انقلاب کا راستہ تبدیل ہو گیا۔ یہاں سابقہ عوام سے ہے۔ مختلف سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام اور ملک کا عوامی ڈھانچہ اس انقلاب میں شریک ہے، اپنی رائے سے اور اپنے عزم و ارادے سے اس پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی عہدیدار بھی کجروی میں مبتلا ہو جاتا ہے، انقلاب کے مد مقابل آکر کوئي اقدام کرنا چاہتا ہے تو عوام اسے بھی ہٹا دیتے ہیں۔ یہ بات دنیا بھر کے لوگوں کو اور مختلف ممالک کے پالیسی سازوں کو سمجھ لینی چاہئے۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ سب اس سے واقف ہیں، اسے محسوس بھی کر چکے ہیں۔ یہی آج کے اجتماع کی مانند آپ عزیز عوام کی شراکت سے نظام کو استحکام و قوت ملی ہے۔ ان سڑکوں پر آپ کی اس محبت آمیز اور اپنائيت بھری موجودگی پر مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور ساتھ ہی آپ سے معذرت خواہی بھی کرنا چاہئے۔ میں واقعی پسند نہیں کرتا کہ استقبال کے لئے لوگ اس طرح زحمتیں اٹھائيں، تکلیف برداشت کریں۔ (1) تو عوام کی اس زبردست شراکت سے پہلا نتیجہ جو ہم نے اخذ کیا وہ یہ ہے کہ دنیا والوں کو معلوم ہو جانا چاہئے، استکباری طاقتوں اور غیر استکباری طاقتوں سب کے پالیسی سازوں کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ ایران کیا ہے۔ یہاں عوام سامنے ہیں، قوم سامنے ہے، قومی عزم و ارادہ سب کچھ ہے۔
میں اس بحث سے دوسرا نتیجہ جو احذ کرنا چاہتا ہوں اس کی بنا پر ملک کے محترم حکام سے کہوں گا کہ جہاں جہاں ملک کے حکام عوام کی توانائیوں کی شناخت حاصل کرنے اور انہیں بروئے کار لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ہمیں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ جہاں کہیں بھی ناکامی کا سامنا ہوا ہے اس کی وجہ یہی رہی ہے کہ ہم اس میدان میں عوام کی شراکت اور تعاون حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ملک کے گوناگوں مسائل میں حکام کو چاہئے کہ پوری مہارت کے ساتھ، پوری توجہ کے ساتھ، جدت عمل سے کام لیتے ہوئے عوام کی شراکت کا راستہ ہموار کریں۔ جیسا کہ جنگ کے انتہائی دشوار موقعے پر یہی عمل اختیار کیا گيا اور راستے کھلتے چلے گئے، عوام نے بند راستے کھول دیئے۔ بنابریں راستہ کھلا رہنا چاہئے تاکہ ہر نوجوان، ہر بوڑھا، ہر مرد، ہر عورت جو اس عظیم عمل میں شریک ہونا چاہے اس کے لئے راستہ کھلا رہے۔ یہ مختلف شعبوں میں ہو سکتا ہے۔ معیشت میں بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی معیشت، ملک کی قومی پیداوار عوام کی بلند ہمتی کے نتیجے میں، عوام کے سرمائے کی بدولت، عوام کی خلاقی صلاحیتوں کے نتیجے میں اور عوامی جذبات کی مدد سے کئی گنا کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے (نجکاری سے متعلق) دفعہ چوالیس کے تحت جو پالیسیاں بنائي ہیں ان کی بنیاد یہی نکتہ ہے۔ ملک کے مستقبل کے لئے کچھ اہداف کا تعین ہوا ہے۔ ہم نے اس عشرے کو ترقی و مساوات کا عشرہ قرار دیا ہے۔ ہم نے دفعہ چوالیس کے تحت پالیسی سازی کی ہے۔ ہم نے بیس سالہ منصوبہ تیار کیا ہے۔ ہم نے پانچ سالہ ترقیاتی پروگراموں کی پالیسیاں وضع کی ہیں۔ پالیسی سازی کا یہ سارا عمل حقیقت پسندانہ نقطہ نگاہ پر مبنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چند لوگ بیٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے تصورات کی بنیاد پر پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام یا بیس سالہ سند تیار کر لی ہو۔ بالکل نہیں، اسے حقائق کو سامنے رکھ کر طے کیا گيا ہے۔ یہ ملک کے حقائق سے پوری ہم آہنگی رکھتا ہے۔
یہ طے شدہ اہداف ہیں۔ اگر ان راستوں اور ان اہداف کے لئے عوام کی شراکت اور عوام کا تعاون یقینی بنا لیا جائے تو یہ اہداف معینہ مدت پوری ہونے سے پہلے ہی حاصل ہو جائیں گے۔ عوام کی شراکت کیسی ہے؟ یہ انتہائی کلیدی نکتہ ہے۔ اس موقعہ پر ملک کے حکام کو چاہئے کہ عملی فارمولوں کا، عوام کے لئے قابل فہم نمونوں کا تعارف کرائیں جن سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ یہ کام ہر شعبے میں کیا جا سکتا ہے۔ مجریہ بھی، مقننہ بھی اور عدلیہ بھی تینوں اپنے اپنے انداز سے اس سمت میں کام کر سکتے ہیں۔ ہمارے عوام کی خلاقانہ صلاحیتوں سے، عوام کی فکری توانائیوں سے، عوام کے جوش و خروش سے، ملک کے سب سے بڑے طبقے یعنی نوجوان نسل کی نوجوانی کے ایام کے جوش و جذبے سے استفادہ کریں۔ یہ ایسی مہم ہے جسے حکام کو شفاف طریق کار کے ذریعے انجام دینا ہے۔ تا کہ ایک نوجوان، ایک بوڑھے، ایک صنعتکار اور ایک موجد کو یہ معلوم ہو کہ اس عمومی مہم میں اس کا مقام کیا ہے۔ اس طرح کے طریق کار سے تمام امور اپنی اصلی نہج پر پہنچ جائیں گے۔ بیشک عوام کو کچھ توقعات ہیں اور یہ بالکل بجا توقعات ہیں۔ حکام کو چاہئے کہ عوام کے قدرداں بنیں۔ عوام کا ہمیشہ پیش پیش رہنا، ان کی دائمی آمادگی بہت بڑی نمعت ہے جس کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ حکام کے اندر خدمت کی پرخلوص نیت ہونی چاہئے۔ عوام کو حکام خاص طور پر اعلی رتبہ عہدیداروں سے یہ توقع ہے کہ ان کے درمیان آپس میں ہمفکری اور تعاون رہے، اتحاد اور امداد باہمی کا جذبہ ہو، اعلی سطح پر بھی اور درمیانی سطح کے حکام کے درمیان بھی، ملک کی ترجیحات پر ان کی توجہ مرکوز رہے، اصلی امور کو پہلے آگے بڑھائیں، جزوی اور فروعی باتوں میں الجھ کر نہ رہ جائیں، تندہی کے ساتھ کام کریں۔ لوگوں کو صداقت کی توقع ہے، وعدوں کے ایفاء کی توقع ہے، تنازعات سے اجتناب کی توقع ہے، فروعی اور جزوی باتوں میں الجھنے سے گریز کی توقع ہے، دیانتداری و پاکدامنی کی توقع ہے، بد عنوان افراد اور خیانت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی توقع ہے، یہ عوام کے مطالبات میں سر فہرست ہیں۔ اگر ہم ملک کے حکام کبھی کوئی کام پورا کرنے میں ناکام رہ جائیں، اب وہ کوئی سڑک، کوئی ڈیم یا کوئی اقتصادی کام ہو تو ہمیں آکر عوام کو مطلع کرنا چاہئے کہ یہ کام ہم انجام نہیں دے پا رہے ہیں، عوام کی نظر میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر ملک کے حکام آکر کہہ دیں کہ اس کام کے لئے وسائل و امکانات فراہم نہیں ہیں لہذا ہم یہ کام انجام نہیں دے پا رہے ہیں تو عوام کو کوئي اعتراض نہیں ہوگا۔ عوام کو اعتراض اس پر ہوگا کہ ہم بد عنوان افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں کوتاہی سے کام لے رہے ہیں، انصاف قائم کرنے کی کوششوں میں غفلت برت رہے ہیں، عوام اسے پسند نہیں کرتے۔ عوام ان باتوں سے خشمگیں ہوتے ہیں۔ مدبرانہ انداز میں عمل، عزم راسخ، انصاف پسندی، محکمہ جاتی بد عنوانیوں کا سد باب، مالی بد عنوانیوں کا سد باب، یہ سب بہت اہم ہیں۔ یہی بینک میں ہونے والے غبن کا مسئلہ جو پیش آیا اس پر سب کی توجہ مرکوز ہو گئی، میں دیکھ رہا ہوں اور اس کا گواہ ہوں کہ تینوں شعبے (عدلیہ، مقننہ اور مجریہ) آپس میں بہت اچھا تعاون کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ بھی، انتظامیہ بھی اور عدلیہ بھی ایک دوسرے سے مل کر کام کر رہے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات مکمل ہوں۔ انہیں چاہئے کہ اس مسئلے میں کارروائی کریں، تحقیقات کو نتیجے تک پہنچائیں، جو بھی بد عنوانی میں مبتلا ہے، خواہ وہ کوئي بھی ہو کیفر کردار تک پہنچے تا کہ یہ دوسروں کے لئے درس عبرت رہے۔ البتہ بد عنوانی سے نمٹنے کا جہاں تک مسئلہ ہے تو سب سے پہلے تو پیشگي روک تھام پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اگر پیشگی روک تھام میں کوئی کوتاہی ہو گئی اور بد عنوانی کا کوئی واقعہ رونما ہو گیا تو اب چارہ کار یہ ہے کہ اس پر کارروائی کی جائے، اس سلسلے میں کوئی غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ انشاء اللہ غفلت نہیں ہونے پائے گی اور اس پر پوری توجہ رکھی جائے گی۔
اسلامی ثقافت اور انقلابی اقدار کا مسئلہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں بھی عوام کو کچھ توقعات ہیں۔ ملک بھر میں میں جہاں جہاں گیا، صرف شہدا کے خاندانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے بیشتر افراد کو یہی توقع ہے اور یہی مطالبہ ہے کہ معاشرے میں اسلامی ثقافت اور اسلامی وضع قطع کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ خاص طور پر حکام اس کا خیال رکھیں۔
روزگار کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے جس کا میں نے ذکر بھی کیا۔ البتہ اس صوبے میں اور اسی طرح بعض دیگر صوبوں میں روزگار کا مسئلہ اور زیادہ اہم ہے۔ بعض جگہوں پر بہت اچھا کام ہوا ہے اور انشاء اللہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے گا۔ داخلی پیداوار کو تقویت پہنچانے کا مسئلہ، زراعت کا مسئلہ، صنعت کا مسئلہ، یہ سب اہم ہیں جن کے سلسلے میں محنت کی جانی چاہئے۔
میں انتخابات کے سلسلے میں بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا جو نزدیک آ رہے ہیں۔ عوام کی شراکت کے اہم نمونوں میں سے ایک، انتخابات ہیں۔ البتہ انتخابات کو ابھی تین چار مہینے کا وقت ہے اور اگر زندگی رہی اور موقعہ ملا تو عوام کی خدمت میں اپنی باتیں آئندہ بھی عرض کروں گا۔ آج جو بات کہنی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دفعہ انتخابات کے انعقاد سے ملک کی رگوں میں تازہ لہو دوڑنے لگتا ہے، ملک کے پیکر میں نئي جان پڑ جاتی ہے۔ اسے آپ ہمیشہ یاد رکھئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان برسوں کے دوران دشمن ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ انتخابات کا جوش و جذبہ ختم ہو جائے۔ کسی دفعہ بھی انتخابات کے موقعے پر ایسا نہیں ہوا کہ دشمن نے پہلے ہی سے ایران میں انتخابات کو متاثر کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر تشہیراتی مہم نہ چلائي ہو۔ ہر دفعہ انتخابات کے وقت مختلف شکلوں میں یہ کام انجام دیا گيا ہے۔ آپ باشعور ہیں، سمجھدار ہیں، آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ انتخابات کا جوش و خروش ختم کرنے کے لئے، انتخابات کے لئے عوام میں پائي جانے والی دلچسپی کو ختم کرنے کے لئے کیا کیا باتیں کی جاتی ہیں اور کیسے کیسے اقدامات کئے جاتے ہیں؟! آپ تین چار مہینے بعد پھر ان چیزوں کا مشاہدہ کریں گے۔ آپ یاد رکھئے کہ ملک کے لئے، نظام کے لئے، عوام کے لئے ہر دور کے انتخابات عظیم کامیابی کا درجہ رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ پورے ملک کی صورت حال کے تعلق سے خاص اثر رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ ملک میں اہم فیصلوں کا اصلی مرکز ہے۔ اس سے انتخابات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انتخابات میں دو مسئلے بہت اہم ہیں۔ ایک تو ہے عوام کی شرکت اور موجودگی جو بہت وسیع پیمانے پر ہونی چاہئے۔ دوسری چیز ہے انتخابات میں قانون کی بالادستی، قانون سے وفاداری، عوام کے ووٹوں کا احترام۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ انتخابات ہماری مرضی کے مطابق ہوں تب تو ہم انہیں قبول کریں اور اگر ہماری مرضی کے خلاف نتیجہ نکلے «و ان يكن لهم الحقّ يأتوا اليه مذعنين».(2) اگر وہی کامیاب ہوا جسے ہم چاہتے ہیں تو ہم قانون کو قبول کریں گے اور اگر جسے ہم چاہتے تھے وہ نہیں جیت سکا تو پھر ہم قانون کو ماننے والے نہیں ہیں، نہ ہم قانون کو دیکھیں گے اور نہ ہی عوام کے ووٹوں پر توجہ دیں گے۔ سنہ تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی ( مطابق 2009) کا فتنہ یہی تھا۔ دعوی کیا کہ ہم قانون کی بالادستی کو ماننے والے ہیں۔ عوام نے انہیں ووٹ نہیں دیئے، اکثریت کسی اور کو مل گئي تو ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ ایسا کیوں ہوا؟! ملک و قوم کو ایک عرصے کے لئے مصیبت میں ڈال دیا اور دشمنوں کا دل خوش کیا۔ البتہ سرانجام عوام کے سامنے انہیں مجبور ہوکر پسپائي اختیار کرنا پڑی۔
تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی ( مطابق 2009) کے فتنے کی آگ بھڑکانے والوں کا سب سے بڑا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے قانون کی بالادستی کو نہیں مانا۔ ایسا ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد کسی کو کوئي اعتراض ہو۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ قانونی طریقہ موجود ہے کہ کس طرح اس اعتراض کو پیش کیا جائے۔ اگر ہم قانون کی بالادستی کو مانتے ہیں تو ہمیں قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ یہ بھی بنیادی نکتہ ہے۔
ایک اور اہم بات باایمان دلسوز اور عوام سے دلچسپی رکھنے والے نمائندے کا انتخاب ہے۔ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے تاہم اس کے بیان کے لئے ابھی کافی وقت ہے۔ عوام کو چاہئے کہ ایسے افراد کا انتخاب کریں جو دولت و ثروت کے مراکز سے وابستہ نہ ہوں۔ ایسے لوگ ہوں جن سے واقعی عوام کو محبت ہے۔ اپنے ضمیر کے مطابق، اپنے دین کے مطابق اور اپنے انقلابی فرائض کے مطابق عمل کرنے والے ہوں۔ اس سلسلے میں پیش کرنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں۔
اور اب علاقے کے مسائل۔ آپ نے علاقے کے مسائل اور اسلامی ممالک، مصر، تیونس، لیبیا، یمن، بحرین اور دیگر ملکوں کے بارے میں بہت سی خبریں سنی ہیں، گوناگوں تجزیئے سنے ہیں۔ میں بھی اس سلسلے میں کئی دفعہ گفتگو کر چکا ہوں۔ آج میں اس سلسلے میں دو باتیں عرض کروں گا۔ ایک تو یہ کہ ان تحریکوں کا ایک سب سے نمایاں پہلو، مصر، تیونس اور دیگر اسلامی ممالک کے واقعات کا نمایاں عنصر استکبار کی پالیسیوں کی شکست ہے۔ یہ پورے قضیئے کی بنیادی ترین چیز ہے۔ امریکہ اس علاقے میں برسوں سے فرمانروائی کر رہا تھا۔ مصر کی حکومت، تیونس کی حکومت، حالیہ برسوں میں قذافی بھی جو بظاہر انقلابی لیڈر تھا اور جس کا انقلابی سرگرمیوں کا ماضی ہے، اسی طرح بعض دوسرے ممالک کے حکمراں امریکہ کے حلقہ بگوش تھے۔ اس علاقے میں امریکہ اپنی منمانی کرتا تھا۔ حالات یکسر دگرگوں ہو گئے، ایک نیا باب کھلا ہے۔ البتہ امریکی اپنا زور لگائے ہوئے ہیں کہ کسی صورت سے حالات ان کے قابو میں آ جائیں لیکن لا حاصل ہے۔ قومیں بیدار ہو چکی ہیں، قوموں کے اندر ہمت و جرئت پیدا ہو چکی ہے۔ کوئی بھی طاقت قوموں کی قوت ارادی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ پہلا اور اصلی نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پورے ملک میں عزیز عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک کے واقعات سے ان ممالک پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ان سب کی نگاہیں ہمارے ملک پر مرکوز ہیں۔ اگر ہم نے ترقی کی، اگر ہمارے یہاں امن و استحکام رہا، عمومی شراکت کا ماحول رہا، قومی خود اعتمادی کا جذبہ رہا، قومی اتحاد و یکجہتی رہی تو یہ ممالک بھی اسی سمت میں آگے بڑھیں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ ہمارے یہاں بد امنی پھیل جائے، ہمارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے، جمود کی کیفیت پیدا ہو جائے، تفرقہ پڑ جائے، یعنی وہی چیزیں جو دشمن ہمارے اندر دیکھنا چاہتا ہے تو ان ممالک میں مایوسی پھیلے گی، ان کا جوش و خروش ختم ہو جائے گا۔ لہذا اس سلسلے میں ہمارے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ملت ایران چونکہ نمونہ عمل کے طور پر انپی شناخت قائم کر چکی ہے لہذا ہمیں ایسا طرز عمل رکھنا ہوگا کہ ان قوموں کی نظر میں اس کی اہمیت ہو، ان میں امید و نشاط کا جذبہ پیدا ہو، انہیں مستقبل کے تعلق سے پرامید بناتا ہو۔
آخری نکتہ مغرب کے مسائل کے تعلق سے عرض کرنا ہے۔ امریکہ میں پیش آنے والا مسئلہ بہت اہم ہے۔ وال اسٹریٹ تحریک کی شکل میں جس چیز نے امریکہ کے عوام میں ہیجان برپا کر دیا ہے یہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے پہلے تو اسے معمولی چیز ظاہر کرنے کی کوشش کی اور اب بھی وہ اسے غیر اہم ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ یہی حضرات جو آزادی اظہار خیال کی بڑی طرفداری کرتے ہیں، اس تحریک کے شروع کے دو تین ہفتوں میں ( مہر بلب بیٹھے تھے) امریکہ کے تمام اہم اخبارات میں سے صرف ایک اخبار نے اس تحریک کی خبر شائع کی، بقیہ نے خاموشی اختیار کر لی۔ یہی افراد جو دنیا کے کسی بھی گوشے میں کوئي چھوٹا سے واقعہ رونما ہو جائے اور وہ ان کی پالیسیوں کے مطابق نہ ہو تو اسے رائي کا پربت بنا دیتے ہیں، اتنی بڑی تحریک پر مطلق خاموشی اختیار کئے بیٹھے رہے، اس کی بات ہی نہیں کی۔ لیکن آخرکار دیکھا کہ کوئي چارہ ہی نہیں ہے۔ خود وہی افراد جو وہاں جمع ہیں، یہ کئي ہزار افراد جو نیویارک میں وال اسٹریٹ پر جمع ہیں، اسی طرح امریکہ کے دیگر شہروں میں اور دیگر ریاستوں میں جو اجتماعات ہیں ان کے سامنے مجبور ہونا پڑا اور اب وہ اس واقعے کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ وہ اب بھی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ بہرحال یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے عوام کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کی بدعنوانیاں ایسی ہیں جنہیں وہ دیکھ رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس تحریک کو کچل دیا جائے لیکن اس تحریک کی جڑوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سرانجام ایک دن ایسا آئے گا کہ یہی تحریک اس طرح پھیلے گی کہ امریکہ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو زمیں بوس کر دے گی۔
بدعنوان سرمایہ دارانہ نظام صرف افعانستان، عراق اور دیگر ممالک کے عوام کے ساتھ ہی سفاکانہ رویہ نہيں اختیار کرتا بلکہ اسے اپنے عوام پر بھی رحم نہیں آتا۔ نیویارک میں ہزاروں افراد کے اجتماع اور مظاہرے کے دوران لوگوں کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ دکھائي دیئے جن پر یہ عبارت درج تھی کہ ہم ننانوے فیصدی ہیں۔ یعنی امریکی عوام کا ننانوے فیصدی حصہ، امریکی قوم کی اکثریت ایک فیصدی لوگوں کی محکوم ہے۔ یہی ایک فیصدی لوگ جنگ افغانستان و عراق کی آگ بھڑکاتے ہیں لیکن اس کے جانی و مالی نقصانات کی متحمل ننانوے فیصدی آبادی ہوتی ہے۔ اس چیز نے عوام کو بیدار کر دیا ہے، صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ البتہ امریکی حکام، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کی تشہیراتی مہم اور نفسیاتی جنگ کے طریقے بڑے بے رحمانہ ہیں۔ ممکن ہے کہ اس تحریک پر غلبہ حاصل کر لیں لیکن اتنا تو ہوا کہ حقیقت حال سامنے آ گئي اور حالات مزید واضح ہوں گے۔ اتنے لمبے چوڑے دعوؤں کے پس پردہ سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کی اصلیت یہ ہے۔
اسرائيل کی پشتپناہی یہی ایک فیصدی لوگ کر رہے ہیں ورنہ امریکہ کے عوام کو اسرائیل کی حمایت و پشت پناہی سے کوئي دلچسپی نہیں ہے کہ پیسے دیں، ٹیکس ادا کریں اور بجٹ صرف کریں تاکہ اسرائیل نامی سرطانی پھوڑا، جعلی اسرائیلی حکومت ایک علاقے میں اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ مظاہرین کے ساتھ برتاؤ کی نوعیت! پہلے تو اس کی پردہ پوشی کرنا اور پھر تشدد پر اتارو ہو جانا، وہاں بھی اور بعض یورپی ممالک میں بھی۔ برطانیہ میں تو ایسی قسی القلبی کا مظاہرہ کیا گيا کہ اس کا دسواں حصہ ان ممالک میں بھی نظر نہیں آتا جہاں ڈکٹیٹر حکومت کر رہے ہیں۔ اتنا سب کـچھ ہونےکے بعد وہ انسانی حقوق کے طرفدار بھی بنے بیٹھے ہیں، آزادی اظہار خیال کے علمبردار بھی ہیں، احتجاجی مظاہروں کی آزادی کے حامی بھی ہیں، تمام دنیا کے مالک بھی بنے بیٹھے ہیں۔ جو لوگ ہم کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی روش اختیار کریں، اس کے طور طریقے سیکھیں، ان پر عمل کریں، انہیں چاہئے کہ ان حقائق کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کیا ہے؟ پوری طرح بے دست و پا ہوکر رہ جانا۔ آج سرمایہ دارانہ نظام بے دست و پا ہوکر رہ گيا ہے۔ ممکن ہے کہ اس صورت حال کے نتائج پوری طرح کئی سال بعد سامنے آئيں لیکن بہرحال مغرب کا بحران بھرپور انداز میں شروع ہو چکا ہے۔
دنیا ایک تاریخی موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ ہماری عزیز قوم، مسلمان قومیں، عظیم الشان امت اسلامیہ اس موقعے پر موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسی موقعے پر اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی روش دنیا کے لوگوں کے درد کا مداوا کرے گی۔ یہی موقعہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام پوری دنیا کے سامنے خود کو قابل تقلید نمونے کی حیثیت سے متعارف کرا سکتا ہے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ملک کے حکام اور ملت ایران کی توفیقات میں اضافہ فرما۔ پروردگارا! تونے اپنے مخلص بندوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے تو ملت ایران کی نصرت فرما۔ پروردگارا! اس شہر اور اس صوبے کے لوگوں پر، ان پاکیزہ قلوب پر اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے نوجوانوں کا ہاتھ تھام لے۔ پالنے والے ہمیں ان افراد کے زمرے میں قرار دے جن کے بارے میں تونے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے «يحبّهم و يحبّونه».(3) پالنے والے! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔
والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته
1) مجمعے کے فلک شگاف نعرے «ما اهل كوفه نيستيم، على تنها بماند»، «خونى كه در رگ ماست، هديه به رهبر ماست»
2) نور: 49
3) مائده: 54