آپ نے تسلط پسند اور زر اندوزی کرنے والی دنیا کی طاقتوں کے ہاتھوں علم و فن کے غلط استعمال کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغرب علم و فن کو اور دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ کو انسانیت کے انحطاط کے لئے استعمال کر رہا ہے اور مغرب کی سائنس و ٹکنالوجی سے عراق و افغانستان کے عوام کے حصے میں صرف بم اور کیمیاوی ہتھیار آئے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے پست اور گمراہ نمونوں کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرنے کی عالمی استبدادی نظام کی کوششوں کو صیہونی حلقوں کی سازش کا ایک حصہ قرار دیا اور فرمایا کہ ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے پیش کئے جانے والے یہ نمونے مخصوص طے شدہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران کے عوام کو نااہل ثابت کرنے اور ان کی تحقیر پر مبنی استعمار کی قدیمی پالیسی کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ گزشتہ بتیس سال کے دوران قوم کے نوجوانوں اور ممتاز شخصیات نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں اپنی حیرت انگیز پیشرفت سے اس ایران مخالف پالیسی پر خط بطلان کھینچ دیا۔ آپ نے ایک بار پھر فرمایا کہ ایرانیوں کی استعداد کی شرح عالمی استعداد کی شرح سے بہتر ہے۔ آپ نے علم و دانش کے تعلق سے ایران کی درخشاں تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس زمانے میں مغرب علم و دانش کے لحاظ سے گہری تاریکیوں میں سرگرداں تھا ایران اسلامی ممالک میں علمی لحاظ سے میر کارواں بنا ہوا تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالمی تحقیقاتی مراکز کی ان رپورٹوں کا حوالہ دیا جن کے مطابق دنیا میں علمی پیشرفت کی اوسط رفتار کی نسبت ایران کی رفتار کئی گنا زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
 
یہ جلسہ بہت اچھا اور یادگار تھا۔ اس جلسے میں بیان کئے جانے والے متنوع خیالات سے میں واقعی بہرہ مند اور مستفید ہوا۔ یہ جلسہ اسی طرح اس بات کا بھی باعث بنا ہے کہ مجھ جیسے لوگوں میں صوبہ کرمانشاہ، یہاں کی ممتاز ہستیوں اور استثنائی ذہانت رکھنے والے جینیس افراد کی تیاری میں صوبے کی استعداد کی شناخت اور معرفت میں اضافہ ہو۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ یہ صوبہ ایران کا چوڑا سینہ ہے۔ کتنی خوبصورت اور بامعنی تعبیر ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کے اس کے ساتھ ہی یہ صوبہ ایران کا خوبصورت چہرہ بھی ہے۔ علم و ہنر، ادب، انقلابی سعی و کوشش، کھیل کود، دلاوری، الحمد للہ اس صوبے میں سب کچھ ایک ساتھ موجود ہے۔
میں انقلاب سے پہلے بھی اس صوبے کی بعض ممتاز ہستیوں سے واقف تھا۔ جیسے ید اللہ بہزاد مرحوم جو ہمارے پرانے دوست تھے۔ وہ مشہد آتے تھے۔ بہزاد مرحوم بہت اچھے شاعر تھے، خاص طور پر، قطعہ اور قصیدے میں واقعی ملک میں ممتاز تھے۔ شاعر ہونے کے ساتھ ہی ان کے اندر، کرمانشاہ کے دلاوروں کے عادات و اطوار بھی موجود تھے۔ وہ ایک بار ایسے وقت مشہد آئے تھے جب پولیس اور سیکورٹی فورس میرے تعاقب میں تھی، میں مشہد سے نکل کے دور دراز کے ایک علاقے میں چلا گيا تھا۔ ایک بار دیکھا جناب بہزاد، مشہد کی ادبی انجمن کے کچھ دوستوں کے ساتھ مجھ سے ملنے آ گئے، جبکہ یہ کام بہت خطرناک تھا۔ وہ مجاہدت کے کام میں اس طرح نہیں تھے لیکن دوستی محبت اور خلوص انہیں وہاں لایا تھا۔ یہ قابل تعریف ہیں۔
کیوان سمیعی مرحوم بھی، حق یہ ہے کہ محقق اور بے نظیر انسان تھے۔ میں ان سے واقف تھا۔ انہوں نے سردار کابلی مرحوم کی شرح حال میں معروف کتاب کے علاوہ جو اگرچہ شرح حال کی کتاب ہے، تحقیق اور مضامین سے پر ہے، ان کی ایک کتاب اور بھی ہے۔ میں نے بہت سوچا مگر اس کا نام یاد نہ آیا۔۔۔(1) ہاں صحیح ہے، تحقیقات ادبی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ محمد قزوینی جیسی شخصیات کے زمرے میں آتے ہیں۔ تحقیق کے نقطۂ نگاہ سے ادبیات، تاریخ اور تمام شعبوں کی بہت وسیع معلومات ہیں۔ واقعی وہ ممتاز ہستی تھے۔
آقائے نجومی مرحوم، (رضوان اللہ علیہ) اوائل انقلاب میں ہم ان کی خدمت میں پہنچے اور ان سے واقفیت ہوئی۔ جامع شخصیت کے مالک تھے۔ فقیہ بھی، ادیب بھی، فنکار بھی، علماء میں بے نظیر ہستی تھی۔
میں ماضی میں، قم کے زمانے سے اس صوبے کے ممتاز علمائے کرام سے واقف تھا۔ مرحوم آقائے الحاج مجتبی حاج آخوند( رحمۃ اللہ علیہ) شہید الحاج آقای بہاء محمدی عراقی اور بعض دیگر احباب۔ اسی کے ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ کرمانشاہ کی علمی، فنی اور ادبی حیثیت اس طرح پہچانی نہیں جا سکی ہے جیسی ہے اور یہ مقام افسوس ہے۔ حق یہ ہے کہ ملک کے تشہیراتی ذمہ دار، ریڈیو ٹیلیویزن کا ادارہ کرمانشاہ کی ممتاز ہستیوں کو متعارف کرانے میں مدد کریں۔ ایک حصہ کرمانشاہ کے ماضی سے متعلق ہے اور ایک حصہ اس کے حال سے تعلق رکھتا ہے۔ آج خوش قسمتی سے استعداد بہت زیادہ ہے اور آج دوستوں نے یہ جو بیانات دیئے، ان میں صوبے کی اس اعلی استعداد کے کچھ نمونوں کا مشاہدہ ہوا۔ جناب پروفیسر شمسی پور جیسے افراد واقعی قابل فخر ہستیوں میں ہیں۔ یہ ہستیاں صرف اس صوبے کے لئے ہی قابل فخر نہیں ہیں بلکہ حق اور انصاف یہ ہے کہ یہ ہستیاں ملک کے لئے قابل فخر ہیں۔ یہ نوجوان جنہوں نے یہاں گفتگو کی، ان میں سے ہر ایک کی گفتگو نوید بخش ہے اور پورے ملک کے بہتر مستقبل کی نوید دیتی ہے۔
دو دن قبل بھی جب میں یونیورسٹی میں تھا، بعض نوجوانوں نے کچھ باتیں اور تجاویز پیش کیں جن سے واقعی طبیعت خوش ہوئی۔ ممکن ہے کہ ان نوجوانوں کے ذہن میں جو ہے اور ان کی بعض آرزوئیں، حقیقت سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، یعنی بلند پروازی سمجھی جائیں، لیکن یہ بات اچھی ہے کہ ہمارے نوجوان بلند پروازی کریں۔ اعلی ترین افق، نظر میں رکھیں اور ان کی جانب بڑھیں۔
آج خوش قسمتی سے ملک میں یہ ارادہ، یہ جذبہ موجود ہے اور اس کے لئے زمین ہموار ہے۔ کسی زمانے میں اس طرح ہموار نہیں تھی۔ شاہی حکومت کے دور میں صلاحتیوں اور استعداد کے ابھر کے سامنے آنے کے لئے زمین ہموار نہیں تھی۔ جن لوگوں کے اندر ذاتی طور پر، جذبے اور محرکات تھے، انہوں نے اپنے ذاتی محرکات کے مطابق عمل کیا۔ ہمیشہ یہی ہے۔ کسی وقت کارواں حرکت میں آتا ہے، قومی کارواں آگے بڑھتا ہے؛ اس کے لئے زمین اور فضا کا ہموار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ آج فضا ہموار ہے، کل نہیں تھی۔ لہذا ماضی میں ہماری جو علمی، ادبی، فنی اور دینی میدانوں میں قابل فخر ہستیاں ہیں، ان کے پیش نظر ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں، ہمارے نوجوانوں، مومن خواتین و حضرات کی کوششوں اور توفیقات الہی سے ماضی سے کئی گنا زیادہ قابل فخر ہستیاں پیدا ہوں گی۔
ممتاز ہستیوں سے ملاقات عام طور پر میں، مختلف صوبوں میں اس قسم کی ملاقاتوں کا اہتمام ضرور کرتا ہوں، خود میرے لئے بہت مفید واقع ہوتی ہیں۔ پہلے درجے میں اس کا مقصد، ممتاز ہستیوں کی عزت و تکریم ہوتی ہے، ان کی خلاقیت کی قدردانی ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بات ہمارے معاشرے میں ایک روایت بن جائے کہ جو صاحبان دانش ہیں، خلاقیت کے مالک ہیں، جنہوں نے نمایاں کوششیں کی ہیں یا کرسکتے ہیں، ان کا احترام اور ان کی تکریم کی جائے۔ ایسے بہت سے لوگ جو اپنی علمی کاوشوں اور اپنی فکر سے ملک کو آگے بڑھاتے ہیں، وہ مادی انعام و اکرام کی توقع نہیں رکھتے، لیکن قدردانی کی امید رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ قدردانی ہو۔ یہ نہیں کہ صرف یہ حقیر قدردانی کرے، یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں ایک روایت بن جائے، لوگوں میں رائج ہو کہ اگر کہیں کسی فکر میں، سعی و کوشش میں اور مجاہدت میں ممتاز اور نمایاں نقطہ نظر آئے تو اس کی تکریم ہو۔ ہمارا پہلا مقصد یہ ہے۔
خوش قسمتی سے ملک کے سبھی خطوں میں یہ نمایاں نقاط موجود ہیں۔ میں نے بعض صوبوں میں دیکھا کہ کسی سائنسداں، کسی عالم اور کسی دانشور نے میرے پسندیدہ موضوعات میں سے کسی پر کوئی کتاب لکھی ہے، میں اگرچہ کتابیں پڑھتا ہوں اور عام طور پر جو کتابیں شائع ہوتی ہیں ان کتابوں سے واقف ہوں، لیکن اس کتاب کا نام بھی میرے کانوں تک نہیں پہنچا، حتی اس کے مصنف کا نام بھی میں نے نہیں سنا، مجھے تعجب ہوا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس ذخائر اور گنجینے بہت ہیں جو پنہاں ہیں، انہیں آشکارا کرنے اور سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نمایاں ہستیوں کو پہچاننا چاہئے، ہمارے عوام کو ان سے واقف ہونا چاہئے۔ یہ اطلاع اور یہ واقفیت، پہلے درجے میں، اس طرح ہوگی کہ ان کی قدردانی کی جائے۔ اس کے علاوہ وہ دوسرا نکتہ وجود میں آتا ہے جو ہمارے مدنظر ہے۔ ان جلسات کی تشکیل کا دوسرا مقصد، نمونہ عمل پیش کرنا ہے۔
آج مختلف معاشروں میں، مختلف شعبوں میں نمونہ عمل پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ درحقیقت اس کے پیچھے بعض سیاسی محرکات ہوتے ہیں۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی دو جنس والا فرد، کوئی غیر معمولی کام انجام دیئے بغیر، یکبارگی، تمام امریکی اور مغربی جرائد میں شہرت حاصل کر لیتا ہے، مشہور ہو جاتا ہے، مغربی دنیا کے کثیر الاشاعت اخبارات و جرائد میں اس کی تصاویر، اس کا زندگی نامہ، گوناگوں مردانہ اور زنانہ شکلوں میں اس کی مختلف عمر کی تصاویر شائع ہوتی ہیں، اس کو اتفاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچا سمجھا کام ہوتا ہے۔ یہ نسل انسانی کو منحرف کرنے کے لئے رول ماڈل پیش کئے جا رہے ہیں۔ صرف ایران ہی یلغار کے نشانے پر نہیں ہے۔ ان چیزوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ یہ اس پر عمل ہو رہا ہے کہ جو برسوں قبل صیہونی پروٹوکول کے نام سے دنیا میں شائع ہوا تھا اور جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا تھا۔ اس پروٹوکول میں ایک بات یہ کہی گئی تھی کہ نسل انسانی کو رائج انسانی راہ و روش سے دور کرنے اور اخلاقی بے راہ روی میں مبتلا کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اس کا مقصد کیا ہے، اس پر کافی بحث ہو سکتی ہے۔ اس انحرافی اور خطرناک صیہونی فکر کے بانیوں کے کاموں کا ایک اصول یہی تھا۔ شروع میں شاید انسان کے لئے قابل یقین نہ رہا ہو لیکن اب تدریجی طور پر یقین ہو رہا ہے کہ وہ نمونہ عمل اور رول ماڈل پیش کر رہے ہیں، یہ اس کی بدترین قسم ہے اور اس کی گوناگوں شکلیں ہیں۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی نئی نسل کے لئے، اپنے نونہالوں کے لئے، مختلف شعبوں میں نمونہ عمل پیش کریں۔ جو سائنس میں دلچسپی رکھتا ہے، جو فن و ہنر میں دلچسپی رکھتا ہے، جو ادبیات کا شوق رکھتا ہے، جو تاریخ میں دلچسپی رکھتا ہے، جو سائنسی اور علمی کاموں میں دلچسپی رکھتا ہے، جو زراعت، صنعت اور ٹکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہے، ہر ایک کو مناسب نمونہ عمل مل سکے۔ یہ ان ضروری کاموں میں سے ہے جو ہمیں انجام دینے ہیں اور اس قسم کے جلسے، اس کام میں ہماری مدد کرتے ہیں۔
ایک اور نکتہ جو اہم ہے، ملک و قوم کی ذاتی استعداد و صلاحیتوں کو سامنے لانا ہے۔ غیروں کے سامنے نہیں بلکہ خود اپنے سامنے۔ ایک چیز جو ہمارے لئے اپنی پوزیشن کے بارے میں متنبہ اور ہوشیار کرنے والی ہونی چاہئے یہ ہے کہ دسیوں سال یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ ایرانی کام نہیں جانتا، اس کو دوسروں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو دوسروں کی تقلید کرنی ہے۔ اس کو دوسروں کا دامن پکڑنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نوجوانی اور جوانی کے دور میں یہ باتیں بہت کہی جاتی تھیں۔ جیسے ہی کسی چیز کی بات ہوتی تھی کہتے تھے، یہاں یہ چیز نہیں بن سکتی۔ کسی شہر میں ایک سڑک پر پل بنانا چاہتے تھے تو انجینئر باہر سے آتا تھا، ڈیم بنانا چاہتے تھے تو کئی غیر ملکی کمپنیاں، انجینئر اور غیر ملکی ماہرین آتے تھے، ایک کمپنی ڈیم کی دیواریں بناتی تھی، دوسری ٹربائن تیار کرتی تھی اور ایک کمپنی دوسرے وسائل بناتی تھی۔ اس بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے، حتی اوائل انقلاب تک یہی فکر تھی۔ میں یہ بات بھول نہیں سکتا کہ کسی جگہ گیس سے چلنے والا بجلی گھر بنانا چاہتے تھے، انقلاب سے پہلے سے یہ کام ادھورا پڑا تھا۔ متعلقہ حکام سے کہتے تھے کہ یہ کام کریں، وہ میرے پاس آئے، میں اس وقت ملک کا صدر تھا، کہا جناب ممکن نہیں ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا۔ آج ہمارے ملک کے انجینئر، ہمارے نوجوان انواع و اقسام کے جدیدتریں بجلی گھر بنا رہے ہیں۔ آج ہم ایٹمی بجلی گھر بنانے پر قادر ہیں۔ یہ استعداد اور صلاحیتیں پہچانی نہیں گئی تھیں۔
طویل برسوں تک اس پر کام ہوا۔ تقریبا ڈیڑھ سوسال قبل جب تدریجی طور پر مغربی تہذیب، مغربی طور طریقے، مغربی مظاہر اور مغربی ٹکنالوجی ملک میں آنا شروع ہوئی اسی وقت سے اس سوچ نے اپنی جگہ بنالی ۔ اسے بیان کیا گیا اور اس پر تاکید کی گئی اور عمل میں بھی یہ ظاہر ہوا کہ ایرانی کوئی کام نہیں کر سکتا۔ یہ بات بھول گئے کہ ہماری تاریخ اور ہمارا ماضی علمی کارناموں سے سرشار ہے۔ جب مغربی دنیا میں کوئی خبر نہیں تھی، جب وہاں سائنسی پیشرفت اور سائنسی ایجاد پر جادو کا الزام لگا کے زندہ جلا دیا جاتا تھا، جس دور میں پورے یورپ پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، اس بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، اس زمانے میں ہمارا ملک اسلامی ملکوں کا پیشرو تھا۔ یہ ترقیاں اسلامی دنیا کی دین ہیں اور ایران اسلامی ملکوں میں پیشانی کی حیثیت رکھتا تھا۔ مختلف علمی پیشرفت کے میدانوں میں، فلسفے میں، معقولات میں، حتی دینی علوم میں، فقہ میں، حدیث میں، ان ادوار میں زیادہ کتابیں، چاہے وہ احادیث اہلسنت کی ہوں یا احادیث اہل تشیع کی، ایرانیوں کی ہیں، ایرانیوں نے لکھی ہیں۔ ایرانی محدثین، ایرانی فقہا، اس زمانے کے علوم طبیعیات، طب، دوا سازی، انجینئرنگ، نجوم اور تمام دیگر علوم کے ماہرین ایرانی تھے۔ یہ ہمارا ماضی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے اس جغرافیائی خطے میں، برتر استعداد اور صلاحیتوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ہم اس کو بھول کیوں گئے؟ ہم اس کو بھول گئے۔ آج ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔
البتہ زبانی طور پر میں نے بارہا کہا ہے اور اس بات کی تکرار کی ہے ۔ شاید شروع میں یہ نعرہ لگتا تھا جب کہتے تھے کہ ایرانی قوم کی استعداد متوسط بین الاقوامی انسانی استعداد سے زیادہ ہے۔ مجھے اس کی اطلاع تھی۔ بعض لوگ سوچتے تھے کہ یہ محض نعرہ ہے لیکن الحمد للہ اب یہ بات آہستہ اہستہ ثابت ہو رہی ہے۔
یہی علمی پیشرفت جس کی طرف اشارہ کیا گیا، میں نے بھی بارہا یہ بات کہی ہے، یہ ایک حقیقت ہے، یہ بین الاقوامی اعداد و شمار ہیں۔ صحیح ہے کہ ہم اس وقت علمی میدان میں جہاں ہیں، وہ بعض مراحل اور منازل میں دنیا سے پیچھے ہے۔ لیکن اس کی وجہ ہماری ماضی کی پسماندگی ہے۔ آگے کی جانب ہمارے بڑھنے کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ دنیا کی متوسط رفتار کی کئی گنا ہے۔ اگر ہم اسی رفتار کو باقی رکھیں، بلکہ اور تیز کر دیں تو یقینا سائنسی ترقیات کی سرحدوں تک پہنچ جائیں گے اور ان کو عبور کرکے آگے بڑھ جائيں گے۔ یہ ہوگا۔ ہمارے ملک کے نوجوان اس پر یقین رکھیں۔ اس یقین کا ایک راستہ یہی ہے۔ آج یہاں نوجوان آتا ہے، گفتگو کرتا ہے، نئی بات پیش کرتا ہے، بہت اعلی حوصلے کے ساتھ نیا نکتہ اور نئی تجاویز پیش کرتا ہے۔ علم، ہنر، خطاطی اور دوسرے شعبوں کے ممتاز اساتذہ اور ماہرین آتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں، نئی باتیں اور نئے نکات پیش کرتے ہیں۔ اس کو بیان کیا جائے تاکہ ہمارے ملک کے نوجوان یقین کریں۔
ایک اور نکتہ جو مجھے عرض کرنا ہے یہ ہے کہ ذہنی، فکری اور علمی میدانوں میں معاشرے کی ممتاز اور نمایاں صلاحیتیں انسان کی بلندی کے لئے کام میں آنی چاہئیں۔آج دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ آج دنیا میں نہ علم سے انسان کی بلندی کے لئے کام لیا جا رہا ہے، نہ ہنر سے اور نہ ہی دوسری چیزوں سے۔ ہنر کا ایک نمونہ سنیما ہے۔ سنیما کی دنیا کی بلندترین چوٹی ہالیوڈ ہے۔ دنیا میں اس ہنر سے انسانی اخلاق، انسانی معنویت اور انسان کے اندر امید پیدا کرنے کے لئے کتنا کام لیا جا رہا ہے؟ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کوششوں کو صفر قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ صفر سے نیچے یعنی منفی میں ہے۔ یعنی اخلاقی بنیادوں، فکری بنیادوں اور انسانی قدروں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں ہنر سے انسان کی بلندی کے لئے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔
علم بھی اسی طرح ہے۔ علم سے سرمایہ داری کی مدد کی جا رہی ہے۔ دولت و ثروت جمع کرنے والوں کی مدد کی جارہی ہے۔ انسانی دانش آج ان لوگوں کی خدمت کر رہی ہے جن کے پاس بڑی بڑی اقتصادی کمپنیاں ہیں۔ جنگیں یہ کرواتے ہیں۔ انسانوں کا قتل یہ کرتے ہیں۔ اجتماعی قتل عام یہ کرتے ہیں۔ علم سے ان کی خدمت کی جا رہی ہے۔ علم سے افغانستان کے محروم عوام کی خدمت نہیں کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں جو علم گیا ہے، وہ وہی ہوائی جہاز ہے جو ان کے سروں پر اڑتا ہے اور ان پر بمباری کرتا ہے۔ علم جب عراق آیا تو کیمیائی ہتھیار تھا جس نے حلبچہ کی وہ حالت کر دی۔ ان علاقوں میں علم اس شکل میں ہے۔ علم خود مغربی ملکوں میں بھی اسی شکل میں ہے۔ جی ہاں، ایک پوری قوم کی دولت و ثروت ایک اقلیت نے ہڑپ لی۔ خود وہی دولت علمی پیشرفت کا سبب بنی لیکن معاشرے میں نسلی امتیاز، عدم مساوات اور اجتماعی پسماندگی کا وسیلہ بن گیا۔ ہمیں ان حالات کو بدلنا ہے۔
علم بذات خود ایسا نہیں ہے۔ علم ذاتی اور فطری طور پر خدا کی عطا کردہ ایک عظیم شئے ہے۔ علم خدائی عطیہ اور نعمت الہی ہے۔ ہنراور آرٹ بھی اسی طرح ہے۔ ہنر کی استعداد اور یہ ذوق بھی اسی طرح ہے۔ یہ سب پرودگار کے عطا کردہ نعمتیں ہیں۔ یہ انسان کا انتخاب اور اختیار ہے کہ خدا کی عطا کردہ ان نعمتوں سے صحیح راستے میں کام لیتا ہے یا غلط راستے میں۔ خدا سے دور صنعتی تمدن کے مادی انسان نے ان چیزوں کو غیر خدا کی راہ میں قرار دیا ہے۔ خدا کو ماننے والا، دین پر اعتقاد رکھنے والا انسان، اسلامی جمہوریہ اور اسلامی دنیا، ان تمام چیزوں کو انسان کی خدمت کی راہ میں لگا سکتی ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں معاشرے کی نمایاں خصوصیات اور استعداد سے انسان کی معنویت و دینداری کے راستے میں کام لینا چاہئے۔
میں اپنی گزارشات کے آخر میں، چونکہ اذان کا وقت نزدیک ہے، جو بات کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ خوش قسمتی سے ہم پورے ملک میں، ممتاز ذہانت اور نمایاں نیز برتر استعداد کی علامتیں دیکھ رہے ہیں، اس کی قدر کرنی چاہئے۔ ملک کے حکام کے واجب ترین کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے۔ آج جو تجاویز پیش کی گئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ممتاز اساتذہ کو مرکزیت دی جائے، انہیں قابل توجہ جگہوں پر رکھا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔ یہ بالکل صحیح ہے۔ ممتاز نوجوانوں کے تعلق سے بھی یہی ہے۔ ممتاز ذہانت کے مالک افراد کے فاؤنڈیشن کو جو الحمد للہ اچھی کوششیں انجام دے رہا ہے، اسی طرح اپنی سعی و کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ ہمیں معاشرے کی خلاقیت کی تحریک کی جو حقیقی معنوں میں خلاقیت میں مصروف ہے، تقویت کرنی چاہئے۔ ان شاء اللہ یہ ہمارے ملک کے اچھے مستقبل پر منتج ہوگی۔
آج کی ملاقات سے مجھے خوشی ہوئی۔ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو خدا کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ ان کتابوں، تحریروں اور تمغے کے لئے جو آپ عزیزوں نے یہاں ہمیں عطا کیا، شکر گزار ہوں۔ دعا ہے کہ خدا کا لطف و کرم آپ سب کے شامل حال ہو۔
 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ