انیس بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق 8 فروری سنہ 1979 عیسوی کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے تین دن قبل فضائیہ کے پائلٹوں کی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کے انتہائی شجاعانہ اور عظیم فیصلہ کن اقدام کی سالگرہ کی مناسبت سے فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کے سالانہ اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اس واقعے کو اسلامی انقلاب کی تاریخ کا ناقابل فراموش اور درخشاں باب قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس تاریخی واقعے سے ملنے والا ایک اہم پیغام بروقت عمل، پائيداری، جدت عملی اور اقدام کا پیغام ہے جو معاشرے اور ملک پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سنہ تیرہ سو ستاون ہجری شمسی کے بہمن مہینے کی یادوں کو دوہراتے ہوئے فرمایا کہ ان حالات میں فضائيہ کے پائلٹوں کی ایک جماعت کا آکر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر لینا بڑا عظیم واقعہ تھا، جس نے اپنا گہرا اثر مرتب کیا اور امور کی تبدیلی کے عمل کو سرعت عطا کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس واقعے سے ایک اور اہم سبق یہ ملتا ہے کہ ماضی میں الجھ کر رہ جانے کے بجائے بھرپور جذبہ امید کے ساتھ مستقبل کی جانب قدم بڑھانا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی ملک اپنا وقار اور تشخص حاصل کرنا اور اپنے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے تو اسے مربوط مساعی اور تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں پھیلی اسلامی بیداری کی لہر کو ایران کے اسلامی نظام کی پیشرفت سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ آج ملت ایران کے نعرے پورے علاقے میں گونج رہے ہیں اور جو ممالک اب تک استبکاری محاذ کے تابع تھے، ملت ایران کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی زبان پر ایرانی عوام کے نعرے سجائے ہوئے ملت ایران کے اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ علاقے کے تغیرات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تین عشروں میں ملت ایران اپنے ہمنوا، ہم خیال اور حامی و مددگار تیار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

آپ تمام عزیز بھائیوں اور جوانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ان بابرکت اور یادگار ایام کی مبارک باد پیش کرتا وہں، پیغمبر اکرم اور حضرت امام صادق علیہما السلام کو یوم ولادت با سعادت کی عید، بائیس بہمن (جشن انقلاب) اور انیس بہمن ( آٹھ فروری سنہ انیس سو اناسی کو انقلاب کی فتح سے تین روز قبل فضائیہ کے کمانڈروں کی جانب سے امام خمینی کی بیعت کے تاریخی واقعہ) کی مبارکباد جو ناقابل فراموش واقعہ اور انقلاب کے دنوں کے نورانی اوراق کا درخشاں نقطہ سمجھا جاتا ہے۔
انیس بہمن کے واقعے کی سالانہ تقریب پر ہماری خاص تاکید رہتی ہے اور ان گزشتہ برسوں میں ہر سال اس دن ہم نے فضائیہ کے عزیز اہلکاروں سے ملاقات کی۔ گفت و شنید کی نشست کا اہتمام کیا۔ اس کا مقصد ایک تاریخی واقعے کی یاد کی تازہ رکھنا ہی نہیں ہے، اگرچہ اس واقعے کی یاد کو تازہ رکھنا بھی بہت اہم اور قابل قدر عمل ہے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ اہمیت دو نکتوں کی ہے۔ ایک نکتہ ماضی سے درس اور عبرت حاصل کرنے کا ہے۔ جب ہم مثال کے طور پر انیس بہمن کے واقعے کی ورق گردانی کرتے ہیں تو اس سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے اور اس سے جدت عمل، اقدام، استقامت، بروقت عملی کارروائی اور معاشرے اور ملک پر اس کے گہرے اثرات کا سبق ملتا ہے، یہ ایک اہم سبق ہے۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ انقلاب ے قبل فوج کا ڈھانچہ طاغوتی ڈھانچہ نہیں تھا۔ اس کے اعلی عہدیداران بیشک بد عنوان تھے لیکن اس کا ڈھانچہ قوم کا ہی ایک حصہ تھا۔ یہ بات بالکل واضح تھی۔ روز اول سے ہی ہمیں اس کا علم تھا۔ برسوں کے طویل عرصے میں عوام الناس کے لئے بھی یہ بات واضح ہو چکی تھی لیکن عوام دوستی کا یہ پہلو اور عوامی تحریک کے تناظر میں فوج کا یہ کردار بالکل الگ شئے تھی۔ اگر خود فوج کے اندر سے یہ چشمہ نہ ابلتا تو یہ ممکن نہیں تھا۔ انیس بہمن کو یہی واقعہ رونما ہوا۔ آج جب آپ انیس بہمن کے واقعے پر نظر ڈالتے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا غیر معمولی واقعہ معلوم نہ پڑے لیکن ہم لوگ جو ان دنوں کے چشم دید گواہ ہیں، میں خود اس واقعے کے وقت موجود تھا۔ مدرسہ علوی میں فضائیہ سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کے بیچ میں بھی پہنچا تھا اور ان کے شجاعانہ اقدام کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس واقعے کے تعلق سے میرے تاثرات اور مجھ جیسے دیگر افراد کے تاثرات جنہوں نے اس واقعے کو قریب سے دیکھا ہے بالکل مختلف ہیں۔ انیس بہمن کا واقعہ ایک عظیم جدت عملی تھی، بڑا عظیم کارنامہ تھا۔ فضائیہ کے اعلی افسران اور پائلٹ آکر آشکارا طور پر انقلاب کی آواز سے اپنی آواز ملاتے ہیں اور طاغوتی حکومت کے پہرے داروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو جاتیں ہیں! یہ بہت عظیم اقدام تھا جس کا گہرا اثر پڑا۔ اس بروقت اور برمحل اقدام نے وہ کمال کیا جو سرد مہری میں ڈوبے جذبات سے کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ ہر شعبے اور پلیٹ فارم پر جدت عملی کی تاثیر بہت زیادہ عمیق ہوتی ہے۔ اس وقت یہی سب سے اہم میدان تھا۔ جنگ کے زمانے میں میدان جنگ سب سے اہم تھا اور آج ایک الگ میدان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہر دور میں اور ہر اہم میدان میں بروقت قدم رکھنا اور برمحل اقدام کرنا ایسا ہی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ تو رہا ایک درس۔
اس واقعے سے دوسرا اہم درس جو ہمیں ملتا ہے وہ مستقبل کے تعلق سے ہے۔ ہمیں ماضی کی سرحدوں میں قید ہوکر نہیں رہ جانا چاہئے۔ سماجوں، جماعتوں، قوموں اور گروہوں کے لئے ایک بڑی خطرناک چیز ماضی کے قابل فخر کارناموں کے قصیدہ خوانی میں گم ہوکر پیش قدمی کے عمل کو فراموش کر دینا ہے۔ بس بار بار ماضی کے ان کارناموں کا تذکرہ کریں، ان پر نازاں رہیں لیکن زمانہ حال میں اسی معیار کے کارنامے انجام دینے کی کوشش نہ کریں۔ البتہ آج ہماری فضائیہ اور فوج کا ان شروعاتی ایام کی صورت حال سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ بڑے عظیم اقدامات انجام پائے ہیں، بڑے پائیدار کام انجام دیئے جا چکے ہیں۔ اس میں کوئی شب و شبہ نہیں ہے لیکن پھر بھی ہماری نظر مستقبل پر مرکوز رہنی چاہئے۔ یہ مستقبل بہت اہم ہے، یہ بڑی با ارزش شئے ہے۔ اگر کوئی ملک اپنے وقار کی، اپنے تشخص کی، اپنی سیکورٹی کی اور اپنے مفادات کی فکر میں ہے تو اسے کام کرنے کی ضرورت ہے، جدت عملی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں ہی غفلت میں پڑے رہنے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنے سے تو بلند اہداف تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ آج جو آپ اسلامی معاشرے کو، اسلامی ممالک کو دو سو سال تین سو سال کی طولانی پسماندگی میں مبتلا ہیں اور آج اسی وجہ سے جگہ جگہ مار کھا رہے ہیں۔ یہ سب ہماری غفلتوں کا نتیجہ ہے۔ یہاں ہمارے مغربی خطے میں اسلامی ممالک کے اندر حکومتوں کی ظاہری شان و شوکت تو تھی لیکن زمانہ حال اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق حرکت اور عمل کا فقدان تھا۔ دوسروں نے علم و دانش کی وادیوں کی سیاحی کی، نئے نئے تجربات حاصل کئے، ٹکنالوجی کو چوٹیوں کو فتح کیا اور دنیا کو فتح کرنے کی مہم پر نکل پڑے اور ہم ان کے جال میں پھنس گئے۔ سب کچھ گنوا کر بیٹھ گئے۔ ہم سے مراد صرف ایران نہیں ہے، ایران کے ساتھ ہی علاقے کے دیگر ممالک، شمالی افریقا کے ممالک، ہمارے مشرق میں واقع ممالک پورا عالم اسلام غفلت و جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبتا چل گیا۔ غفلت کا شکار ہو جانے، ظاہری جاہ و حشم پر خوش ہوکر بیٹھ رہنے، سعی و کوشش کا دامن چھوڑ دینے اور مستقبل کو سنوارنے کی فکر ذہن سے جھٹک دینے کے یہی نقصانات ہیں۔
البتہ اب قومیں بیدار ہو چکی ہیں، یہ بیداری اپنے ساتھ عمل کا جذبہ بھی بیدار کرتی ہے تاہم اس میں کبھی وقت درکار ہوتا ہے اور کبھی یہ عمل جلدی انجام پا جاتا ہے۔ یہ تحریکیں ممکن ہے کہ بڑی تیز رفتار ثابت ہوں اور دنیا کی اوسط رفتار سے زیادہ سرعت کے ساتھ آگے بڑھ جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری رفتار بہت کند ہو اور ہم دوسروں سے پیچھے رہ جائیں کیونکہ وہ دوسرے افراد بیکار تو بیٹھیں گے نہیں۔ بیشک ہم کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں، ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کر رہے ہیں، حالات کو سنوار رہے ہیں لیکن کیا دوسرے افراد ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں؟ ہمارا حریف محاذ بھی اپنا کام کر رہا ہے، محنت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری یہ کوشش ہونا چاہئے کہ ہمارے مجموعی اقدامات سے ہمیں اتنی رفتار مل جائے جو حریف محاذ سے زیادہ ہو۔ ایسی صورت میں ہم مستقبل سے اپنی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔
ملک کے نوجوانوں سے یہ میری دائمی سفارش ہے اور آج میں فضائیہ سے تعلق رکھنے والے آپ عزیزوں اور فوج اور دیگر مسلح فورسز کے افراد سے یہی سفارش کروں گا۔ انتظامی امور میں بھی، ضرورت کے ساز و سامان کی ساخت میں بھی، تربیتی امور میں بھی اور اخلاقی اقدار میں بھی اس اصلی عنصر یعنی روحانیت کی تقویت کے لئے دوگنی کوشش کیجئے۔ سب کو چاہئے کہ اپنی محنت و لگن میں اضافہ کریں حکومت، عہدیداران، ملک کے مختلف ادارے منجملہ مسلح فورسز جو ملک کے محوری ستونوں کا درجہ رکھتے ہیں، سب یہ کام کریں۔ یہ مساعی باہدف، پرمغز اور ٹھوس انداز کی ہوں۔
خوش قسمتی سے آج کے دور میں اسلامی جمہوریہ کے ذریعے اپنائے گئے راستے کی حقانیت آشکارا ہو گئی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جو نعرے کل تک ملت ایران کی زبان سے بلند ہوتے تھے، آج اس پورے علاقے میں گونج رہے ہیں۔ وہ ممالک جو استکباری طاقتوں کے مہرے اور بند بے دام ہوا کرتے تھے آج وہاں کے عوام کی بلند ہمتی کے نتیجے میں وہی ممالک ملت ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور انہی اہداف کی سمت بڑھ رہے ہیں اور وہی نعرے ان کی زبانوں سے نکل رہے ہیں۔ یہ آپ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تین عشروں کے دوران ملت ایران اہنے ہمنوا اور ہم خیال تیار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ عوامی انقلابات ہم نے برپا کئے ہیں۔ یہ منطقی بات نہیں ہے لیکن یہ کہنا بھی منطقی نہیں ہوگا کہ اس عظیم جوش و جذبے کے ساتھ رونما ہونے والی قوم کی بیداری کا دوسروں کی بیداری میں کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا۔ اس کو تو سب مانتے ہیں۔ آج دنیا میں اسی نکتے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ یہ خیال پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلامی بیداری اور اسلامی تحریک کا چشمہ یہیں سے جاری ہوا ہے۔ ان دنوں غیر ملکی تجزیہ نگاروں کے جو تبصرے برقی اور پرنٹ میڈیا میں اور مختلف ویب سائٹوں میں نظر آتے ہیں ان میں اس نکتے پر خاص توجہ ہوتی ہے۔ یہ ہماری تحریک کی حقانیت کی علامت ہے۔
اسلامی نظام کی تحریک، اسلامی جمہوری نظام اور انقلابی لہر جس نے یہ نئی فضا قائم کی ہے، ایک پائیدار، مستحکم، دائمی، حملوں سے محفوظ ایک حقیقی تشخص، اسلامی شناخت، توکل علی اللہ، مسلمان ہونے پر احساس فخر، اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور توانائیوں پر تکیہ، خواہ وہ ہمارے اندر فردا فردا پائی جانے والی شخصی صلاحیتیں ہوں یاعظیم قومی توانائیاں، افرادی اور قدرتی وسائل اور دنیا کو معنوی و روحانی اقدار کی دعوت جیسے اہداف کی جانب بڑھ رہی ہے۔ مادیت میں غرق ہوکر دنیا کوئی منفعت حاصل نہیں کر سکی، دنیا نے جنسیات کے بے لگام بناکر کچھ بھی حاصل نہیں کیا، یورپ میں جو مادہ پرستانہ تحریکیں چلیں، معنویت سے دوری اور الہی اصولوں اور ضوابط سے بے اعتنائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نہ مساوات و انصاف قائم ہو سکا، نہ رفاہ عامہ کو یقینی بنایا جا سکا، نہ سلامتی کی ضمانت مل سکی، نہ کنبہ و خاندان تحفظ پا سکا اور نہ آئندہ نسلوں کی تربیت کی فریضہ ہی درست طریقے سے ادا ہوا۔ ان تمام شعبوں میں نا قابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مٹھی بھر صنعت کاروں، بینکوں کے مالکان اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے سربراہوں کو بے پناہ دولت حاصل ہو گئی۔ یہ تو ہوا لیکن مغرب کی مادہ پرست تہذب سے کوئي انسانی منفعت حاصل نہیں ہوئی، وہ اپنا مقدر نہیں سنوار سکے اور نہ ہی وہ معاشرے خوش قسمت ثابت ہوئے جنہوں نے ان کی تقلید کی اور ان کے زیر سایہ زندگی گزاری۔
اسلامی انقلاب کا پیغام بدبختی و مفلوک الحالی کا باعث بننے والی اس روش سے رہائی کا پیغام ہے۔ روحانیت پر توجہ، اخلاقیات پر توجہ اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی ضرورتوں کی فکر در حقیقت اعتدال پسندی ہے اور اسی کو اسلام میں متعارف کرایا گیا ہے۔ نہ یہاں کیتھولک اور آرتھوڈاکس کلیسائی کی زیادہ روی اور سخت گیری ہے اور نہ ہی مغربی معاشروں کا وہ بے لگام طرز زندگی ہے جو مادہ پرستانہ تحریک کے نتیجے میں رائج ہوا ہے۔ ان میں کوئی بھی درست نہیں ہے، دونوں غلط ہیں۔ اسلام کا راستہ اعتدال پسندی کا راستہ ہے، انصاف کا راستہ ہے۔ انصاف میں بڑی گیرائی پائی جاتی ہے۔ ہر شعبے میں انصاف مد نظر رہے یعنی ہر شئے کو اس کے صحیح مقام پر رکھا جائے۔ یعنی اعتدال پسندی کا انسانی راستہ۔ «وكذلك جعلناكم امّة وسطا لتكونوا شهداء على النّاس».(1)
آج ملت ایران اس تحریک کا ہراول دستہ ہے۔ ہم معاشرے کی تشکیل انجام دے رہے ہیں، ہم نظام کی داغ بیل رکھ رہے ہیں، ہمارے پاس عوامی تحریک ہے۔ انقلاب کو تینتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی انقلاب کی سالگرہ کا جشن اس طرح عوامی سطح پر نہیں منایا جاتا۔ یہ ہمارے انقلاب کا طرہ امتیاز ہے کہ ہر سال بائیس بہمن مطابق گیارہ فروری کو عوام جشن انقلاب برپا کرتے ہیں۔ ملک بھر میں دسیوں لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، جلوس کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، یہ چیز کسی بھی انقلاب میں آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ بہت بڑے بڑے انقلاب آئے، بعض انقلابوں کے واقعات تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور بعض انقلابوں کی تاریخ پڑھی ہے۔ ان انقلابوں کی سالگرہ پر چند افراد کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک گروہ ان کے سامنے پریڈ کرتا ہے، فوجی سلامی ہوتی ہے۔ بس اسی انداز سے انقلاب کی سالگرہ کا جشن برپا ہوتا ہے۔ عوام انقلاب کی سالگرہ کا جشن برپا کریں، یہ چیز اسلامی انقلاب سے مختص ہے۔ ہر سال بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری) کو اس سردی کے موسم میں، کبھی برفباری ہوتی ہے، کبھی چاروں طرف برف جمی ہوتی ہے، سردی کی حدت ہوتی ہے لیکن عوام باہر نکلتے ہیں۔ اس سال بھی فضل پروردگار اور ہدایت الہی اور قدرت خداوندی کے نتیجے میں عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔ یہ تحریک عوامی تحریک ہے اور یہ توفیق الہی ہے۔ یہ ملک میں اٹھنے والی ایک عوامی لہر ہے اور اس عوامی لہر کا ایک اہم حصہ مسلح فورسز پر مشتمل ہے۔
میں مسلح فورسز اور فضائیہ سے تعلق رکھنے والے اپنے تمام عزیز جوانوں کی سفارش کروں گا کہ تہذیب نفس پر توجہ دیں، روحانیت پر توجہ دیں، تربیتی امور کی سطح کو، ڈسپلن کو، اطلاعات کو، باہمی اخوت و جذبہ ہمدردی کو ہر شعبے میں تقویت پہنچائیں۔ یہ اسلامی اور دینی فوج کی خصوصیت ہے۔ آپ کے اندر ڈسپلن پایا جاتا ہے، اخوت و برادری بھی ہے، مختلف دستوں اور شعبوں، فنی، سپورٹنگ اور آپریشنل شعبوں میں مثبت اور تعمیری رقابت پائی جاتی ہے اور رقابت کے ساتھ ساتھ برادری، امداد باہمی اور اخلاص کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہی اسلامی نظام کے مختلف شعبوں کی خصوصیات بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان کا جذبہ ایثار و فداکاری ہے۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی دشمن محاذ میں نہیں ہے۔ مقدس دفاع کے برسوں میں بھی ہمارے جوانوں نے اسے عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ جنگ کے بعد بھی تا حال جہاں بھی ضرورت پڑی انہوں نے اپنے اس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ہمیشہ جاں بکف میدان میں حاضر رہے۔ ان چیزوں کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ اس جذبہ استقامت و ایثار اور توکل کی صفت کو قائم رکھئے۔ طہارت و پاکیزگی اور تقوائے الہی میں اضافہ کیجئے۔ انشاء اللہ خداوند عالم آپ کی ہر پہلو سے مدد کرے گا۔
ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ فضائیہ کے عہدیداروں، جوانوں، ان کے خاندانوں، ان کے بچوں اور ازواج کو اپنے فضل و الطاف کے سائے میں رکھے۔ یہ توفیق عطا کرے کہ اس عظیم، انتہائی اہم اور فیصلہ کن ادارے کے جس شعبے میں بھی وہ مصروف کار ہیں اپنے فرائض منصبی کو بنحو احسن انجام دیں۔
 

والسّلام عليكم و رحمةاللّه وبركاته‌

1) بقره: 143