1392/03/06 ہجری شمسی مطابق 27/5/2013 پیر کی صبح قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی کے دورے پر گئے جہاں آپ نے کیڈٹس کی تقریب میں شرکت کی۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں پہنچنے کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے سب سے پہلے مقدس دفاع کے شہیدوں کے مزار پر جاکر فاتحہ خوانی کی اور شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے وہاں موجود جانبازوں (مقدس دفاع کے دوران وطن عزیز کی حفاظت کے لئے لڑتے ہوئے زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہوجانے والے افراد) سے انتہائی مشفقانہ انداز میں ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس موقع پر پاسنگ آؤٹ پریڈ کا معائنہ کیا اور پھر اپنے خطاب میں آئندہ انتخابات کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ چودہ جون کے انتخابات ميں ملت ايران کي بھر پور اور پرجوش شرکت، اسلامي انقلاب اور اسلامي نظام کي عظيم کاميابيوں کا پيش خيمہ ثابت ہوگي - آپ نے فرمايا کہ خدا کے فضل و کرم سے اس ملک اور قوم کا مستقبل اتنا تابناک ہے کہ يہ قوم تمام ملکوں اور اقوام کے لئے نمونہ عمل بنے گي -
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے پولنگ ميں حصہ لينے کے لئے عوام کے جوش و جذبے کو کم کرنے کي غرض سے ايراني قوم کے بدخواہوں کے پروپيگنڈوں کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ ان وسيع پروپيگنڈوں کي وجہ يہ ہے کہ عوام ميدان عمل ميں موجود ہوں اور جوش وجذبے کا مظاہرہ کريں تو دشمنوں کے لئے يہ بات ناقابل برداشت ہوتي ہے -آپ نے ايران کے انتخابات کے بارے ميں امريکي حکام کے بيانات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ ايران کے انتخابات کے بارے ميں وہ باتيں کر رہے ہيں جن کي گوانتاناموں جيل، پاکستان اور افغانستان کے محروم ديہي علاقوں پر جن کے ڈرون حملے، علاقے ميں جنگ افروزي اور صيہوني حکومت کي بلا قيد و شرط حمايت ان کي رسوائي کا سبب اور ان کی پیشانی پر بد نما داغ بني ہوئي ہے -
آپ نے اسي کے ساتھ اميدواروں کو بھي چند نصيحتيں کيں اور فرمايا کہ اميدواروں کو بھي چاہئے کہ جٍذبہ مجاہدت اور غيرت و حمیت کے ساتھ اور کوئي مسئلہ کھڑا کئے بغير پرجوش انداز میں تشہيراتي مہم چلائيں- آپ نے فرمایا کہ عوام انتخابی مہم کی روش، پرچار کرنے والے کارکنوں کے طرز عمل اور انتخابی مہم پر کئے جانے والے خرچے اور فضول خرچی کو، فیصلے کے وقت یقینا مد نظر رکھیں گے اور جو لوگ انتخابی مہم چلانے کے لئے بیت المال کا پیسہ یا دوسروں کا مشتبہ حرام مال استعمال کریں گے وہ کبھی بھی عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے تو میں مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ تمام نوجوانوں کی خدمت میں کہ آپ حفاظت و پاسبانی کے عظیم میدان میں قدم رکھ رہے ہیں، ان عزیز طلبہ کو جو آج فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اور ان طلبہ کو بھی جو تعلیم کے میدان میں وارد ہو رہے ہیں۔ اس پرافتخار اسٹیڈیم میں آپ عزیز نوجوانوں سے میری یہ ملاقات ہمیشہ کی طرح بڑی خوش کن اور مسرت بخش رہی۔
یہ یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں سے مختلف ہے۔ علم، تعلیم، فکری و عقلی نمو اور شخصیت کی تعمیر تو تمام یونیورسٹیوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں، ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں ان اہداف کے لئے کام کیا جاتا ہے لیکن اس یونیورسٹی میں انقلاب کی پاسداری و حفاظت کا ہدف بھی مد نظر رہتا ہے۔ ویسے تو ہماری پوری قوم اسلامی انقلاب کی حفاظت و پاسبانی کو اپنا فریضہ سمجھتی ہے، حکام بھی اور عوام بھی لیکن پاسداران انقلاب فورس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا طے شدہ نصب العین ہی انقلاب کی حفاظت ہے۔ آپ عزیز نوجوان عین شباب و نشاط کے عالم میں خود کو اس بات کے لئے آمادہ کر رہے ہیں کہ خدمت کے پورے دور میں، بلکہ پوری زندگی کے دوران آپ اسلامی انقلاب کے محافظ و پاسباں بن کر رہیں گے، جس طرح آپ سے پہلے کی نسل نے، آپ کے اسلاف نے پاسداران انقلاب فورس میں انتہائی دشوار حالات اور میدانوں میں یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ آج کے پروگراموں میں ایک بڑا اچھا منظر یہی تھا کہ پاسداران انقلاب فورس کی گزشتہ نسل سے تعلق رکھنے والے افراد، جنہوں نے مقدس دفاع کا دور دیکھا ہے، جنہوں نے انقلابی تحریک کا زمانہ دیکھا ہے اور دل و جان سے پرخطر میدانوں میں سرگرمیاں انجام دی ہیں، بڑی دلچسپی کے ساتھ یہاں آئے اور حفاظت و پاسبانی کے میدان میں نئے نئے وارد ہونے والے نوجوانوں سے روبرو ہوئے، پرچم کا تبادلہ ہوا، یہ ایک علامتی اور بہت بامعنی عمل تھا۔ ایک اور علامتی ملاقات میں ان شہیدوں کی ارواح کی منظر کشی کی گئی جنہوں نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران مختلف آپریشنوں میں اسی طرح مقدس دفاع سے قبل اور اس کے بعد جام شہادت نوش کیا۔ وہ جانباز سپاہی جنہوں نے اپنی جوانی اور صحت و سلامتی کو راہ خدا مین قربان کر دیا اور بڑے سخت لیکن بہترین انجام والے امتحان سے دوچار ہوئے، انہیں بھی آپ نے دیکھا۔ جو لوگ ان ایام میں آپ کی طرح عنفوان شباب میں تھے آج سفید داڑھی میں آپ کے سامنے ہیں، جنہوں نے اپنی عمر کے دسیوں سال خدمت میں گزارے ہیں۔ یہ بڑا اہم سبق آموز منظر ہے آپ نوجوانوں کے لئے جو اپنے انقلاب کی حفاظت کا عزم رکھتے ہیں۔
اس انقلاب نے ملک کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ تاریخ کے ظالم و جابر سلاطین نے صدیوں تک اس قوم پر گمراہانہ فکر اور طرز عمل مسلط کئے رکھا۔ انقلاب سے قبل کے ادوار میں انہوں نے اپنے استبداد اور خودسری پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اس پورے ملک اور پوری قوم کے وقار کو دشمنوں کے سامنے تار تار کیا۔ انقلاب آیا تو اس سے قوم کو اس تباہ کن دلدل سے نجات ملی۔ ہم صراط مستقیم پر پہنچ گئے۔ بیشک یہ صراط مستقیم ہمیں ہماری منزل تک پہنچائے گا، لیکن کب؟ کتنی مدت میں؟ کتنی محنت و مشقت کے بعد؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کتنی لگن سے کام کرتے ہیں، کتنی سنجیدگی سے آگے بڑھتے ہیں، کہاں تک صحیح پیش قدمی کرتے ہیں؟ اس کا انحصار ہماری ہمت پر ہے۔ تاہم انقلاب نے اس عظیم اور مظلوم قوم کے سامنے یہ راستہ پیش کر دیا ہے۔ آپ پر اسی انقلاب کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ انقلاب کو بخوبی پہچانئے۔ آپ عزیز نوجوانوں کا ایک اہم کام یہی ہے کہ انقلاب کی فکری بنیادوں کی گہرائیوں کو سمجھئے۔ ہم نے ایسے بھی کچھ افراد دیکھے جو جذبات میں آکر اس میدان میں اتر گئے، گہری فکری بنیاد ان میں نہیں تھی تو ہلکی سے آندھی انہیں اڑا لے گئی۔ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ اس وادی میں صرف وہی لوگ ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو انقلاب کی فکری بنیادوں کی گہرائی کا مکمل ادراک رکھتے ہوں۔ معصوم کا قول ہے: «المؤمن كالجبل الرّاسخ لا تحرّكه العواصف»؛ کوئی بھی طوفان اور گرباد مومنین کے پائے ثبات میں جنبش پیدا نہیں کر سکتا، بس شرط یہ ہے کہ ان کے اندر چند خصوصیات موجود ہوں۔ ایک خصوصیت ہے صحیح عقیدہ اور انقلاب کی فکری بنیادوں کا درست ادراک۔ یہ آپ سب کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ انقلاب جن تجربات سے گزرا ہے یعنی ان برسوں میں انقلاب کا یہ نظریہ جس طرح عملدرآمد کے مراحل طے کرتا ہوں آگے بڑھا ہے اور انقلاب کی جو تاریخ سامنے آئی ہے اسے آپ پڑھئے اور سمجھئے۔ یہ انقلاب دنیا میں ہمیشہ بیان کی جانے والی عام باتوں کی طرح نہیں ہے، اس کے اندر تجربات اور عمل کا وسیع میدان مضمر ہے۔ یہ آزمودہ انقلاب ہے۔ یہ وہ باتیں ہے جو عملی میدان میں صحیح ثابت ہو چکی ہیں۔ اگر ہمارے عزیز امام خمینی نے ہمیں یہ درس دیا کہ اللہ پر توکل کرنا چاہئے، اللہ کے وعدوں پر حسن ظن رکھنا چاہئے، مسلسل کوشش کرنا چاہئے، اگر وہ فرماتے تھے کہ یہ کام کیجئے آپ کو کامیابی ملے گی تو عملی طور پر یہی سب کچھ رونما ہوا۔ صدر اسلام میں بھی یہی سب کچھ رونما ہوا۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: «فلمّا رأى اللّه صدقنا انزل بعدوّنا الكبت و انزل علينا النّصر».(۱) اس قوم نے اپنی صداقت ثابت کر دی ہے، اپنی نیک نیتی ثابت کر دی ہے، یہ قوم میدان میں اتر پڑی اور اس نظرئے اور فکری اصول کا عملی طور پر اس نے تجربہ کیا۔ انقلاب کی تاریخ میں آپ اس حقیقت کو محسوس کیجئے!
غیر ملکی ذرائع ابلاغ ہماری معمولی خامیوں کو دوسروں کے سامنے ہی نہیں خود ہماری نظر میں، رائی کا پربت بنا دینے پر کیوں تلے رہتے ہیں، انہیں دس گنا بڑھا چڑھا کر کیوں پش کرتے ہیں؟! اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ کامیاب تجربہ ہمارے ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے ذہن سے یہ بات نکال دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنے فکری اصولوں اور نظریات کا عملی تجربہ کر لیا ہے اور میدان عمل میں اس کی افادیت و حقانیت کو پرکھ لیا ہے۔ آپ انقلاب کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرکے اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ میں جنگ سے متعلق واقعات کا مطالعہ کرنے پر جو اتنی تاکید کرتا ہوں، مقدس دفاع کے واقعات سے واقفیت پر زور دیتا ہوں، بیت المقدس آپریشن اور خرم شہر کی آزادی کے بارے میں حقائق سے آشنائی کی سفارش جو کرتا ہوں اس کی یہی وجہ ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ وہ مراحل ہیں جہاں اللہ تعالی نے «انزل بعدوّنا الكبت»، «انزل علينا النّصر»؛ ہم پر فتح نازل فرمائی۔
اس کے بعد تہذیب نفس کا مرحلہ ہے۔ سب کو چاہئے کہ اپنی شخصیت کو سنواریں۔ میں اپنی تہذیب نفس پر توجہ دوں اور آپ اپنی شخصیت کو سنواریں۔ البتہ مجھ جیسے افراد کے مقابلے میں آپ کا کام آسان ہے۔ کیونکہ آپ نوجوان ہیں، آمادہ ہیں، آپ کے وجود نورانی ہیں، آپ کے قلوب پاکیزہ ہیں، آپ بآسانی اسلام کے پسندیدہ اور قرآن کے مطلوبہ نمونے کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں۔ یہ آپ کا فریضہ ہے، البتہ اس سلسلے میں اس یونیورسٹی اور پاسداران انقلاب فورس کے دیگر اداروں کے عہدیداروں، اساتذہ اور ذمہ دار افراد کے دوش پر بھی ذمہ داری ہیں جہاں ہمارے عزیز نوجوان تعلیم میں مصروف ہیں۔ اگر یہ ذمہ داری ادا کر دی گئی اور بتوفیق الہی اور باذن پروردگا ضرور یہ فریضہ انجام پائے گا، تو مستقبل وہی ہوگا جس کا میں بار بار تذکرہ کرتا ہوں، اطمینان بخش اور یقینی مستقبل۔
روز اول سے تاحال اس انقلاب نے جو بھی قدم اٹھایا ہے وہ آئندہ کے بڑے قدم کی خوشخبری ثابت ہوا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سارے راستے بند ہو گئے ہوں، ہم کبھی مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوئے، ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ ہمارے سامنے کھل گیا۔ کبھی کبھار ایسا تو ہوا کہ ہم نے غفلت سے کام لیا، سستی دکھائی اور تیزی سے پیش قدمی نہیں کی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سارے راستے بند ہو گئے ہوں، ہمارا ہر قدم آگلے قدم کی نوید ثابت ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میں آپ عزیزوں کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ چند دن بعد یعنی الیکشن والے دن ملت ایران جو قدم اٹھانے جا رہی ہے یہ بھی انہی بشارت دہندہ قدموں میں سے ایک ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کون امیدوار منتخب ہوگا، ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالی دلوں کو کس کی جانب موڑے گا، لیکن ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پولنگ والے دن عوام کثیر تعداد میں باہر نکلیں گے جو در حقیقت انقلاب کی امنگوں کی جانب قوم کی مقتدرانہ پیش قدمی سے عبارت ہے۔ اس دن ملک کی کامیابیوں میں ایک اور اضافہ ہوگا، اس سے ملک کا استحکام بڑھے گا، وقار بڑھے گا، عالمی ساکھ بڑھے گی، آپ کے دوست خوش ہوں گے اور دشمنوں کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
دو تین ہفتے بعد انتخابات ہیں۔ دشمن نے بہت پہلے سے اور اس وقت بڑی شدت کے ساتھ یہ کوشش کی ہے کہ عوام میں انتخابات کے سلسلے میں سردمہری پیدا ہو جائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر عوام میں جوش و خروش رہا اور وہ اس میدان میں پرشکوہ انداز میں وارد ہوئے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کی تو دشمن کو بڑا نقصان پہنچے گا۔
وہ ہمارے الیکشن کے بارے میں نظریہ پردازی کرتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ماتھے پر گوانتانامو کا کلنک لگا ہوا ہے، پاکستان اور افغانستان کے پسماندہ دیہی علاقوں پر ہونے والے ڈرون حملے جن کی پیشانی اور دامن کے بدنما داغ ہیں، ہمارے علاقے کے دو مسلم ملکوں میں جنگ کی آگ اور ان پر غاصبانہ قبضہ جن کی بدنامی اور رسوائی کا باعث بنا ہے۔ وہ لوگ کہ جرائم پیشہ صیہونی حکومت کے لئے جن کی بے دریغ حمایت و وکالت ان کی شرمندگی اور شرمساری کا باعث بنی ہے، 'بشرطیکہ ان کو اس کا احساس ہو' یہ لوگ پروقار اور سربلند اسلامی جمہوریہ ایران پر تنقید کرتے ہیں! ان کے بیان جواب دینے کے قابل نہیں ہیں، ملت ایران اور اس قوم کے باوقار حکام کے لئے لائق اعتنا نہیں ہیں۔ البتہ یہ چیز ملت ایران اور ہم سب کے لئے سبق آموز ہے کہ ہمارے یہ انتخابات ان کے لئے کتنے اہم اور حساس ہو گئے ہیں۔ یہ صرف اسی دفعہ کے انتخابات کی بات نہیں ہے بلکہ تیس سال سے زیادہ عرصے کے دوران ہمارے یہاں جب بھی الیکشن ہوا ہے انہوں نے یہی ہنگامہ آرائی کی، شیطنت کی اور ہمیشہ منہ کی کھائی، کس سے؟ عظیم ملت ایران سے۔ توفیق الہی سے اس بار بھی انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔
بہرحال ہمیں اپنا کام منظم کرنا چاہئے۔ عوام انتخابی میدان میں اترنے والے امیدواروں کے بیانوں اور تقریروں پر توجہ دیں، غور کریں اور تشخیص دیں کہ کون سا امیدوار انقلاب کے لئے، ملک کے لئے، مستقبل کے لئے، قومی وقار کے لئے، مشکلات کے حل کے لئے، دشمنوں کے سامنے شجاعانہ اور مقتدرانہ انداز میں استقامت کی نظر سے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو دنیا کے مستضعفین کی نگاہوں میں رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں زیادہ محنت اور کامیاب کارکردگی انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ممکن ہے کہ کسی ایک شخص کی تشخیص دوسرے کی تشخیص سے مختلف ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ میں آپ سب کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کسی امیدوار کی حمایت کریں اور آپ کا دوست کسی اور امیدوار کو پسند کرے، یہ چیز آپ کے درمیان ٹکراؤ اور تصادم کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ ملک کے سب سے اعلی رتبہ اجرائی عہدیدار کے انتخاب کے لئے جو بہت حساس اور اہم عہدہ ہے، قانونی لائحہ عمل موجود ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ آپ کسی امیدوار کی حمایت کریں اور میری نظر میں کوئی دوسرا امیدوار زیادہ موزوں معلوم ہو، آپ اپنے پسندیدہ کینڈیڈیٹ کو ووٹ دیں اور میں اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دوں۔ ظاہر ہے، اکثریت اور اقلیت کا اصول ہے، باقاعدہ ضوابط موجود ہیں، قانون موجود ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ تو عوام کو چاہئے کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے اپنے دلوں میں کدورت نہ پیدا ہونے دیں، صرف اس بات پر کہ کوئی شخص کسی امیدوار کو پسند کرتا ہے اور دوسرا شخص کسی اور امیدوار کو بہتر سمجھتا ہے۔ محترم امیدواروں کو چاہئے کہ وہ بھی ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اپنی مہم کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ لیکن ہر طرح کی کدورت اور منافرت سے دور رہتے ہوئے آگے بڑھائیں۔ ظرافت تو یہی ہے کہ جمود اور سکوت نہ ہو، جوش و جذبہ اور نشاط و تحرک ہو، گفت و شنید کا سلسلہ بھی چلے، گرما گرم بحثیں بھی ہوں لیکن نفرت اور کدورت پیدا نہ ہونے پائے، ایسا کرنا ممکن بھی ہے۔ اس نکتے پر محترم امیدواروں کی توجہ رہے تو بہت اچھا ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انتخابی مہم اور پرچار پر ضرورت سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا اور فضول خرچی، ہمیں اور عوام کو اس امیدوار کی مستقبل کی روش کی طرف سے ہوشیار اور چوکنا کر سکتی ہے۔ جو شخص بیت المال کا پیسہ استعمال کر رہا ہے یا بعض سرمایہ داروں کی مشتبہ دولت خرچ کر رہا ہے وہ عوام کے نزدیک قابل اعتماد کینڈیڈیٹ نہیں ہو سکتا، ان چیزوں پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انتخابی مہم میں، انتخابی نعروں میں، یہ بات اہم ہے کہ انقلاب اور اسلامی نظام کے عزت بخش، صائب اور دانشمندانہ موقف اور پالیسیوں کی تقویت کو ضرور مد نظر رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے ان نعروں سے ملک کے باہر یا ملک کے اندر موجود بدخواہ عناصر کو گرین سگنل دے رہے ہوں۔ دشمن تو اپنا کام کر ہی رہا ہے، بعض افراد پر، خود انقلاب اور اسلامی نظام پر اور انتخابات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے اور ملک کے اندر کچھ بے تقوا آوازیں، زبانیں اور قلم دشمن کی انہی باتوں کو دہرا رہے ہیں جن کا مقصد عوام میں مایوسی پھیلانا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ ان باتوں کے فریب میں نہ آئیں۔ قوم کا مستقبل روشن ہے، اس انقلاب کا مستقبل پروقار اور عزت و اعتبار کا مستقبل ہے، اس قوم اور اس ملک کا مستقبل ایسا ہے جو توفیق خداوندی سے سب کے لئے نمونہ قرار پانے والا ہے۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ جوانوں کو جو اس میدان میں ہیں، ہمارے تمام جانبازوں کو، تمام رضاکار نوجوانوں کو، مسلح فورسز سے تعلق رکھنے والے تمام سپاہیوں کو جو مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہیں یا تعلیمی ادوار سے گزر رہے ہیں اس نورانی سفر میں پیش پیش رکھے۔ ہمارے شہیدوں کی پاکیزہ ارواح اور ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی روح مطہرہ کو ہم سب سے راضی و خوشنود رکھے اور ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته‌

۱) نهج‌البلاغه، خطبه‌ى ۵۶