قائد انقلاب اسلامی نے 30 فروردین سنہ 1393 ہجری شمسی مطابق 20 اپریل 2014 ہفتے کے روز بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے دانشور اور ممتاز خواتین کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ عورت اور خاندان کے مسئلے میں ہمہ جہتی اور قابل عمل حکمت عملی کے لئے تین عوامل کا ہونا ضروری ہے؛ عورتوں کے سلسلے میں غلط، روایتی رجعت پسندانہ مغربی افکار کو مرکزیت اور ماخذ کی حیثیت دینے سے مکمل اجتناب، خالص اسلامی تعلیمات اور معارف پر تکیہ کرنا اور ان مسائل پر توجہ دینا جو حقیقی معنی میں عورتوں کے اصلی مسائل سمجھے جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں کے سلسلے میں اسلام کا انسان دوستانہ نقطہ نگاہ اپنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ روحانی منزلوں کا سفر طے کرنے جیسے بہت سے مسائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے مگر اس کے پیرائے الگ الگ ہیں اور یہی حقیقت اس بات کی متقاضی ہے کہ جہاں کچھ مشترکہ میدان ہیں وہیں ایک دوسرے سے مختلف کچھ شعبے بھی موجود ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌

سب سے پہلے تو میں تمام خواتین کو خوش آمدید کہتا ہوں اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، خواتین سے منسوب اس ہفتے اور ماں کی قدردانی کے دن کی تہنیت پیش کرتا ہوں۔ جیسا کہ محترمہ(1) نے فرمایا ملک کی اس اہم سماجی مناسبت کا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت سے وابستہ ہونا، ایک عظیم موقعہ ہے، اس عظیم ہستی کی زندگی کو سمجھنے اور اس سے درس لینے کا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا روحانی مرتبہ و مقام بشریت کی چنندہ ہستیوں میں بھی بڑا نمایاں اور بلند مقام ہے۔ آپ معصوم ہیں۔ عصمت بنی نوع بشر کے برگزیدہ بندوں میں بھی گنے چنے افراد کو ہی عطا کی گئی ہے اور شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان میں سے ایک ہیں۔ اس حقیقی مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ خاتون نے اپنی تقریبا بیس سالہ عمر میں، روایتوں میں اختلاف ہے اور آپ کا سن مبارک اٹھارہ سے پچیس سال تک ذکر ہوا ہے، بہرحال اس مختصر سی عمر میں ایک نوجوان خاتون اتنے عظیم روحانی مدارج طے کرکے اولیاء و انبیاء اور ان جیسی ہستیوں کی صف میں کھڑی ہو جائے اور اولیائے الہی سے سیدہ نساء العالمین کا لقب حاصل کرے!!! اس عظیم روحانی مرتبے کے ساتھ ساتھ نمایاں اور ممتاز خصوصیات و صفات کا ظہور اور آپ کی شخصی زندگی کی عظیم حصولیابیاں یہ سب سبق اور درس ہے۔ آپ کا تقوی، آپ کی عفت و طہارت، آپ کی مجاہدت، شوہر کی اطاعت، بچوں کی تربیت، سیاسی شعور، اس زمانے کے انسان کے تمام حیاتی شعبوں میں بھرپور شراکت، بچپن میں بھی نوجوانی میں بھی اور شادی کے بعد کے ایام میں بھی، یہ سب سبق ہے۔ صرف آپ خواتین کے لئے سبق نہیں بلکہ تمام بشریت کے لئے سبق ہے۔ تو یہ موقعہ ہمارے لئے سنہری موقعہ ہے، اس موقعے پر حضرت فاطمہ زہرا کی زندگی پر غور کرنا چاہئے، نئے زاویہ فکر سے اس زندگی کو دیکھنا اور سمجھنا چاہئے اور حقیقی معنی میں اسے اپنا نمونہ عمل قرار دینا چاہئے۔
جہاں تک ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور اسلامی نظام میں عورت کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس طرح کی مناسبتوں پر جب بھی میں مسلم خواتین، صاحب ایمان اور اعلی تعلیم یافتہ مستورات کو دیکھتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ واقعی اسلامی نظام کے عظیم افتخارات میں ہے کہ اسلامی نظام کے زیر سایہ اتنی بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ، اچھی فکر رکھنے والی، فرزانہ اور فکری و عملی لحاظ سے ممتاز خواتین ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ یہ بہت بڑی نعمت اور ہمارے لئے مایہ افتخار ہے۔ آج تو صرف ایک صاحبہ نے ہی تقریر کی، اس سے پہلے بہت سی نشستوں میں ہم نے دیکھا کہ متعدد خواتین نے تقریریں کیں، سب نے اپنی گفتگو میں کوئی نیا دریچہ وا کیا، کوئی نئی فکر پیش کی۔ جس سے انسان کے ذہن میں ایک نیا زاویہ فکر پیدا ہوا۔ اس کثرت کے ساتھ ممتاز اور نمایاں صلاحیتوں کے مالک اور اچھی فکر کے حامل افراد کی تربیت کرنا اسلامی نظام کے اہم افتخارات کا جز ہے۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے ملک کی خواتین کے نام گوناگوں موضوعات کی کتابوں، سائنسی کتب، تحقیقاتی کتب، تاریخی کتب، ادبی کتب، سیاسی کتب، فن و ہنر کے موضوعات پر لکھی جانے والی کتب ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کی اہم ترین تحریروں میں، خواہ وہ مقالات ہوں یا کتب، خواتین کی تصنیفات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے بڑے افتخار کی بات ہے۔ یہ ہماری پوری تاریخ میں عدیم المثال ہے۔ ہم نے مختلف ادوار دیکھے ہیں، ملک کی علمی و ثقافتی فضا سے ہماری آشنائی رہی ہے، ہم نے کبھی بھی دینی علوم کے میدان میں اور یونیورسٹیوں کے میدان میں کبھی بھی مختلف شعبوں کے اندر اس کثرت کے ساتھ مفکر اور اہل قلم نہیں دیکھے۔ اور پھر ان حالات میں ایرانی خاتون کا بالکل الگ اور نمایاں ظہور، الگ تشخص اور الگ شناخت کے ساتھ سامنے آنا، مجاہدتوں کے میدان میں، مقدس دفاع کے میدان میں اور پھر اس کے بعد آج تک شہدا کی بیویاں، جنگ کے زخمیوں کی ازواج، شہدا کی مائیں، راہ خدا میں اپنی جان قربان کر دینے والوں کے پسماندگان، اپنے عزم محکم، پختہ ارادے، صبر و ضبط کے سامنے ہر کسی کو سر تعظیم خم کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں جب بھی ان عظیم خواتین کو دیکھتا ہوں تو ان کے سامنے تواضع سے سر جھک جاتا ہے۔ شہداء کی ماؤں سے، شہدا کی ازواج اور جنگ کے زخمیوں کی ازواج سے میری ملاقات ہوتی رہتی ہے، یہ ایثار پیشہ خاتون جس نے جنگ میں زخمی ہوکر معذور ہو جانے والے اپنے شوہر کی زندگی کو چلانے اور سنبھالنے کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی، یہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے، اسے زبانی طور پر بیان کر دینا تو آسان ہے۔ وہ ماں جس نے اپنے دو بیٹے، تین بیٹے اور چار بیٹے راہ خدا میں قربان کر دئے اور پھر بھی ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور ہمیں بھی استقامت کی دعوت دیتی ہے، انسان کا سر تعظیم سے اپنے آپ اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کی صنف نسواں کی حقیقت، جو بہت افتخار آمیز اور باعظمت حقیقت ہے۔ یہ ہمارے ملک میں خواتین کے باب کا روشن پہلو ہے۔
آج کی دنیا میں اور خود ہمارے ملک میں عورت کا مسئلہ ان اہم ترین مسائل میں ہے جن پر مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی وجہ تو یہی ہے کہ دنیا کے ممالک کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ کیا طریقہ اپنایا جائے کہ یہ عظیم قوت وطن عزیز ایران اور ہر ملک کے مفاد میں صحتمندانہ انداز میں استعمال ہو؟ دوسری چیز یہ ہے کہ جنسیت کا مسئلہ خلقت کے حساس ترین اور ظریف ترین مسائل میں ہے، اسے کس طرح انسان کے ارتقاء کے لئے استعمال کیا جائے، بشریت کے انحطاط اور اخلاقی تنزل کے لئے نہیں؟ تیسری بات یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جو جنس کا فطری فرق ہے اس فرق کو سماجی اور خاندانی سطح پر کس طرح رائج کیا جائے کہ عورتوں پر ظلم و زیادتی کا سلسلہ ختم ہو؟ یہ بڑے اہم مسائل ہیں۔ اگر ہم انہی دو تین مسائل کو تفکر و تدبر اور غور و خوض کا محور قرار دیں تو تحقیقاتی اقدامات اور مساعی کا ایک سلسلہ شروع ہوگا۔ عورتوں پر مظالم کے مسئلے میں کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ یہ پسماندہ سماجوں اور غیر مہذب معاشروں سے مختص ہے۔ آج کے نام نہاد تہذیب یافتہ معاشروں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم دیگر سماجوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ یہ اہم مسائل ہیں، ان کا جائزہ لیا جانا چاہئے، ان پر بحث ہونا چاہئے۔
محترمہ نے بڑے اہم نکات بیان کئے۔ انسان کے ذہن میں جو اہم نکات ہیں آپ نے بیان فرما دیئے۔ محترمہ نے فرمایا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ملک کے اندر عدلیہ، مقننہ اور مجریہ سے آزاد ایک الگ مرکز کی ضرورت ہے، جو اس مسئلے پر کام کرے، تحقیقات انجام دے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص عورت کے مسئلے کو خاندان اور کنبے کا مسئلہ نظر انداز کرکے زیر بحث لانا چاہتا ہے تو راہ حل کے ادراک اور تعین میں یقینا مشکلات سے دوچار ہوگا۔ یہ دونوں ہی چیزیں ایک ساتھ زیر بحث لائی جائیں حالانکہ یہ دونوں الگ الگ موضوعات ہیں۔ اس طرح کے مرکز کی ضرورت ہے جس کا ہنوز قیام عمل میں نہیں آ سکا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی اسٹڈی سنٹر نہیں ہے جو عورتوں کے مسئلے میں، ان موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کا ہم نے ذکر کیا اور اسی طرح دیگر اہم موضوعات کو نظروں کے سامنے رکھ کر ہمہ جہتی اور صحیح حکمت عملی تیار کرے، اس موضوع پر کام کرے، عملی اقدامات انجام دے۔ ایسا مرکز وجود میں آنا چاہئے، البتہ اس کے کچھ لوازمات اور تقاضے بھی ہیں۔
آج میں آپ کی خدمت میں دو تین نکتے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم اسی مرکز میں جس کا ذکر ہوا یا کسی اور جگہ پر یا ادارے میں بیٹھ کر عورت کے مسئلے پر صحیح انداز میں غور و خوض کرنا چاہتے ہیں اور صحیح انداز میں آگے بڑھنا اور غلطیوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اہل مغرب کی رٹی رٹائی باتوں سے اپنے ذہنوں کو پوری طرح خالی کرنا ہوگا۔ اہل مغرب عورت کے مسئلے میں بالکل غلط نتیجے پر پہنچے ہیں اور انہوں نے بالکل غلط انداز میں کام کیا ہے۔ یہی غلط نتیجہ، غلط سوچ اور خانماں سوز گمراہ کن طرز عمل وہ سکہ رائج الوقت کی طرح دنیا میں عام کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر کسی نے ان کی سوچ کے خلاف ایک لفظ بھی بول دیا تو ان کے بڑے بڑے تشہیراتی ادارے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کسی کو کچھ بولنے کا موقعہ ہی نہیں دیتے۔ اگر آپ عورت کے مسئلے میں درست حکمت عملی تک پہنچنا چاہتے ہیں اور اس کے ضروری لوازمات اور تقاضوں کی فراہمی کے ساتھ اس پر عملدرآمد کرنا اور دراز مدتی منصوبے کے تحت آگے بڑھنا اور منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہنوں کو مغربی افکار و نظریات سے خالی کیجئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل بے خبر رہیں۔ نہیں۔ ہم بے خبری اور لاعلمی کے حامی ہرگز نہیں ہیں۔ میں تو آگاہ اور باخبر رہنے پر تاکید کرتا رہا ہوں، لیکن ان نظریات اور افکار کو ماخذ اور محور قرار دئے جانے کا پوری طرح میں مخالف ہوں۔ عورتوں کے مسئلے میں مغرب والوں کے افکار، اہل مغرب کے نظریات ہرگز انسانی معاشرے کی صحیح ہدایت اور سعادت کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے افکار، مادہ پرستانہ اور غیر روحانی رجحان پر مبنی ہیں، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی خامی ہے۔ جو بھی علمی مکتب فکر مادہ پرستانہ عقیدے اور شناخت پر استوار ہوگا، فطری طور پر وہ غلط مکتب فکر ہوگا۔ کائنات اور قدرت کے حقائق کو دیکھنا اور سمجھنا ہے تو روحانی و الوہی نقطہ نظر کے ساتھ، وجود خدا پر اعتقاد کے ساتھ، قدرت الہیہ پر مکمل یقین کے ساتھ، اللہ کو ہر جگہ اور ہر آن حاضر و ناظر سمجھتے ہوئے اس کی ربوبیت کے عقیدے کی بنیاد پر دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ چونکہ اہل مغرب کی فکر و نظر کی بنیاد مادہ پرستی ہے لہذا غلط ہے۔ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت کے معاملے میں مغربی انداز اور اسٹریٹیجی جیسا کہ صنعتی انقلاب کی تاریخ میں انسان بخوبی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے، بالکل تاجرانہ اور مادہ پرستانہ ہے۔ یعنی یورپ میں جہاں عورت کے مالکانہ حقوق نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کے پاس جو کچھ ہوتا تھا مرد اور شوہر کی ملکیت سمجھا جاتا تھا، اسے خود اپنے مال میں کوئی تصرف کرنے کا حق نہیں ہوتا تھا، اسی طرح جب مغرب میں جمہوریت آئی تب بھی عورتوں کو رائے دہی کا حق نہیں تھا۔ اسی مغربی دنیا میں یکبارگی صنعتی انقلاب آتا ہے اور کارخانوں میں کم اجرت پر عورتوں کے کام کرنے کا مسئلہ، موضوع بحث بن جاتا ہے۔ تب اہل مغرب نے عورت کے لئے مالکانہ حقوق کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ تاکہ عورت کو کام کے لئے کارخانوں میں استعمال کیا جا سکے۔ عورت کو تنخواہ بھی کم دینا ہوتی تھی اور اس کے علاوہ جب عورت کام کے لئے آتی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے کچھ لوازمات اور نتائج بھی یقینی تھے جن کا آج تک ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ تو عورت کے معاملے میں اہل مغرب کی سوچ غیر روحانی اور مادہ پرستانہ ہے اور اس کے علاوہ اسی سوچ کی بنیاد پر جو پالسیاں وضع کی گئیں اور جن کی وجہ سے یورپ میں خاص طور پر مغرب میں بالعموم جو حالات پیدا ہوئے وہ سب مادہ پرستانہ اور تاجرانہ طرز عمل کی وجہ سے پیدا ہوئے۔
عورت کے مسئلے میں مغرب کے نقطہ نگاہ سے اجتناب کے ناگزیر ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ مغرب کے نقطہ نظر سے عورت شہوانی خواہشات کی تسکین کا ایک ذریعہ ہے، اس حقیقت کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی دعوی کرے کہ نہیں جناب حقیقت امر یہ نہیں ہے، مگر انسان ان کی زندگی پر نظر ڈالے تو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہی طرز فکر حکمفرما ہے۔ سماجی مقامات پر عورت کا لباس جتنا کم ہے اتنا ہی اچھا سمجھا جاتا ہے۔ وہ مردوں کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کرتے۔ رسمی پروگراموں میں مرد تو پورے لباس میں ہوتے ہیں کوٹ پینٹ، ٹائی اور نیک ٹائی پہنتے ہیں تب سرکاری اور رسمی تقاریب میں جاتے ہیں مگر انہی رسمی پروگراموں میں عورتوں کی وضع قطع کچھ اور ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے مرد کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کے علاوہ کوئی اور فلسفہ نہیں ہو سکتا۔ آج مغربی دنیا میں یہی ماحول ہے اور عورتوں پر مغربی ممالک میں جو مظالم ہو رہے ہیں ان میں بنیادی زیادتی اسی قسم کی ہے۔
میں 'اخبارات کے تراشے' رکھنے کا عادی نہیں ہوں مگر کل یا پرسوں میں نے اخبار میں ایک چیز دیکھی، مجھے محسوس ہوا کہ بہت اہم ہے تو میں اسے لے آیا کہ آپ کو سناؤں۔ امریکا کے سابق صدر جمی کارٹر کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے 'اقدام کا تقاضا' یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عورتوں کے خلاف وحشتناک زیادتیوں کے موضوع پر ہے۔ اس کتاب میں جمی کارٹر نے لکھا ہے؛ امریکا میں ہر سال ایک لاکھ لڑکیاں کنیز کے طور پر فروخت کی جاتی ہیں۔ طوائف خانوں کے مالک لڑکیوں کو جو عام طور پر لاطینی امریکا یا افریقا کے ملکوں کی ہوتی ہیں، ایک ہزار ڈالر کی قیمت پر خرید لیتے ہیں۔ جمی کارٹر نے کالجوں میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کا بھی ذکر کیا ہے، مگر اس طرح کے پچیس واقعات میں سے محض ایک واقعے کی شکایت درج کرائی جاتی ہے۔ کارٹر نے اسی طرح یہ بھی لکھا ہے کہ فوج میں جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں محض ایک فیصدی کے خلاف ہی کوئی قانونی کارروائی ہو پاتی ہے۔ یہ حالات دیکھ کر انسان سر پیٹ لیتا ہے! اس طرح کی خبریں آپ اخبارات میں کثرت سے دیکھتے ہیں، میں بھی پڑھتا ہوں، میں کبھی بھی ان خبروں کا حوالہ نہیں دیتا۔ مگر یہ بہرحال حقیقت ہے۔ جمی کارٹر ایک مشہور شخصیت ہے اور یہ کتاب جمی کارٹر کی تصنیف ہے۔ دنیا میں آخر یہ کیا حالات پیدا ہو گئے ہیں؟ یہ عورتوں کا کیسا احترام ہے؟ مغرب کا نامور قلمکار طوائف کے پیشے کو ایک باعزت پیشہ ظاہر کرنے کے مقصد سے ایک ناول لکھتا ہے جس کا فارسی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح فاحشاؤں کے دلال لاطینی امریکا کے ممالک سے لڑکیوں کو سبز باغ دکھا کر لے جاتے ہیں اور فروخت کر دیتے ہیں، اس کتاب میں یورپ کے حالات بتائے گئے ہیں، امریکا کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کتاب میں جنسیات کو ایک باعزت پیشے کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ہے عورت کے بارے میں مغرب کی ثقافت اور سوچ، یہ ہے ان کی نظر میں عورتوں کا احترام ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ عورت کے بارے میں ہماری فکر و نظر درست اور منطقی ہو تو اس کی اولیں شرط یہ ہے کہ ہم عورتوں کے بارے میں اہل مغرب جو باتیں کرتے ہیں، روزگار کے بارے میں، انتظامی امور کے بارے میں اور جنسی مساوات کے بارے میں ان سے اپنے ذہنوں کو پاک کریں۔ مغربی نقطہ نظر کی عورتوں کے بارے میں ایک بہت بڑی خامی یہی جنسی مساوات کا مسئلہ ہے۔ انصاف ہمیشہ برحق ہوتا ہے مگر مساوات کبھی مطابق حق ہوتی ہے اور کبھی باطل۔ آخر جس انسان کو فطری ساخت کے اعتبار سے، جسمانی اعتبار سے بھی اور جذبات و احساسات کے اعتبار سے بھی انسانی زندگی کے ایک خاص شعبے کے لئے بنایا گيا ہے، اس خاص شعبے سے اسے الگ کرکے ایک اور شعبے میں جو کسی اور ساخت والے افراد کے لئے اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے، گھسیٹیں؟ آخر کیوں؟ اس میں کون سی منطق ہے اور یہ کیسی ہمدردی ہے؟ مردوں کے کام عورتوں پر کیوں مسلط کئے جائيں؟ عورت کے لئے یہ کون سا افتخار ہے کہ وہ مردانہ کام سرانجام دے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بعض اوقات خود خواتین اس مسئلے کا دفاع کرتی ہیں۔ مردوں میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ بیشک بہت سی چیزوں کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام مرد و زن کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے انسانیت کے مسئلے میں، روحانی منزلیں طے کرنے کے مسئلے میں، بے پناہ فکری و علمی صلاحیتوں کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن دونوں کے قالب الگ الگ ہیں۔ ایک قالب کسی کام کے لئے اور دوسرا قالب کسی اور قسم کے کاموں کے لئے ہے۔ البتہ کچھ کام مشترکہ ہیں۔ کیا یہ بہت بڑی خدمت ہے کہ ہم ایک پیکر کو اس کے خاص شعبے سے باہر گھسیٹ کر دوسرے پیکر سے مخصوص شعبے میں پہنچا دیں؟ مغرب والے یہی کام کر رہے ہیں۔ ان کے بہت سے بین الاقوامی کنونشنوں کی بنیاد یہی ہے۔ اسی غلط سوچ کی بنیاد پر انہوں نے انسانی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ خود کو تباہ کر ڈالا اور اب دوسروں کو بھی برباد کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ محترم خواتین صاحب علم ہیں، صاحب فضل ہیں، ممتاز حیثیت کی مالک ہیں۔ میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ جب کسی نشست اور اجتماع میں خواتین تقریر کرتی ہیں تو مجھے بہت سی مفید باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ اسی جگہ جہاں اس وقت ہم جمع ہیں عورت اور خاندان کے سلسلے میں اسٹریٹیجک نظریات کی ایک نشست تھی۔ کچھ خواتین نے آکر تقریریں کیں۔ میں حقیقت عرض کر رہا ہوں کہ جو نکات انہوں نے بیان کئے میں نے ان سے استفادہ کیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر آپ عورت کے اساسی مسئلے، عورت کی مشکلات اور ہمارے وطن عزیز سمیت ہر جگہ صنف نسواں کو در پیش مسائل کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہتے ہیں تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ خود کو، اپنے ذہن کو ان مغربی افکار سے جو جدید نما غلط روایتی اور رجعت پسندانہ افکار ہیں، آزاد کیجئے۔ ان افکار سے نجات حاصل کیجئے جن کا ظاہر نیا مگر باطن رجعت پسندانہ، ظاہر ہمدردانہ مگر باطن خیانت آمیز ہے۔ مغربی افکار سے آزاد نظریہ قائم کیجئے۔
دوسرا اہم تقاضا یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور متون سے رجوع ہوئیے۔ قرآن سے، سنت پیغمبر سے، احادیث سے، دعاؤں سے، اسلامی متون اور ائمہ علیہم السلام کے رفتار و گفتار سے اصلی اصولوں اور بنیادوں کو اخذ کیجئے۔ یہ وحی ہے، وحی کلام خدا ہے اور اللہ ہی ہمارا اور آپ کا خالق ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دین کے نام پر لوگوں کی زبان سے جو سنئے قبول کر لیجئے۔ نہیں۔ ان دینی باتوں پر عمل کیجئے جو استنباط کی صلاحیت و اہلیت رکھنے والے افراد صحیح روش کے مطابق پیش کریں۔ کتاب خدا، سنت پیغمبر، ائمہ علیہم السلام کی روش اور اقوال کو ماخذ قرار دیا جائے اور اس کی بنیاد پر طے کیا جائے کہ ہمیں عورتوں کے مسائل میں کیا حکمت عملی وضع کرنا چاہئے اور کیا راستہ اپنانا چاہئے۔
میری نظر میں یہ دو بنیادی کام ہیں۔ تیسرا اہم کام یہ ہے کہ خواتین کے مسائل کا احاطہ کرنے کے عمل میں حقیقتتا بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے، دوسرے درجے کے فروعی مسائل پر نہیں۔ خاندان کا مسئلہ اور خاندان کے اندر عورت کے احترام، سکون و اطمینان اور تحفظ و سلامتی کا مسئلہ کلیدی مسائل میں ہے۔ کچھ اساسی مسائل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔
آپ دیکھئے اور جائزہ لیجئے کہ خاندان کے اندر عورت کا سکون اور طمانیت سلب کر لینے والے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اس کوشش میں رہئے کہ قانون کے ذریعے، تبلیغ کے ذریعے اور دیگر مختلف روشوں کی مدد سے ان اسباب کو کیسے برطرف کیا جائے؟ یہ مسئلے کا بنیادی پہلو ہے۔ عورت گھر کے اندر سکون و چین کا سرچشمہ ہے، شوہر، بچوں بیٹی اور بیٹے کی آسودہ خیالی کا ذریعہ ہے۔ اب اگر خود اس عورت کو فکری و ذہنی سکون و آسودگی میسر نہ ہو تو وہ گھر میں پرسکون ماحول کیسے پیدا کر سکے گی؟! جس عورت کو توہین آمیز برتاؤ کا سامنا ہے، جس پر کام کا شدید دباؤ ہے وہ مالکن اور گھر کی منتظمہ کیسے بن سکتی ہے؟ جبکہ عورت گھر کی منتظمہ ہوتی ہے۔ یہ کلیدی مسئلہ ہے۔ یہ ان اساسی مسائل میں ہے جن پر ہمارے ماحول اور سماج میں خواہ وہ قدیمی ماحول ہو یا آج کا جدید ماحول، کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جبکہ اس پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔
گھر کے اندر عورت کو دوسرے درجے کی شئے گردانا جاتا ہے جو دوسروں کی خدمت پر مامور ہے۔ یہ تصور بہت سے لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ بعض ہیں جو زبان سے اس کا اعتراف کرتے ہیں، برملا اظہار کرتے ہیں اور بعض لوگ ظاہر نہیں کرتے مگر دل میں ان کے بھی یہی سوچ ہے۔ یہ اسلام کی منشاء کے بالکل برخلاف ہے۔ میں نے یہ حدیث بارہا نقل کی ہے؛ «اَلمَرأَةُ رَیحانَةٌ وَ لَیسَت بِقَهرَمانَة»(2) عربی کی رائج اصطلاحات میں قھرمان، کارگزار کو کہتے ہیں، مثال کے طور پر اس طرح کہتے ہیں؛ «اَمَرَ قَهرِمانَهُ بِکَذا» یعنی فلاں سرمایہ دار اور دولتمند نے اپنے قھرمان یعنی املاک کے امور کی دیکھ بھال پر مامور کارگزار کو حکم دیا۔ تو اسے کہتے ہیں قھرمان۔ اس حدیث میں ارشاد ہوتا ہے؛ یہ تصور نہ کرو کہ عورت گھر کے اندر تمہاری کارگزار ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ گھر کے کام انجام دے۔ ایسا نہیں ہے۔ اب آپ دیکھئے یہ ایک مکمل باب ہے جس سے کئی فصلیں وا ہوتی ہیں؛ گھر کے اندر عورت کی محنت و جفاکشی کی اہمیت کا مسئلہ، اسے کاموں پر مجبور نہ کئے جانے کا مسئلہ، اس کے اس کام کی باقاعدہ اجرت ادا کرنے کا مسئلہ، یہ ساری فصلیں ہیں۔ یہ چیزیں اسلام میں ہیں، اسلامی فقہ میں موجود ہیں۔ جیسا کہ محترمہ نے اشارہ کیا واقعی ہماری فقہ بڑی ممتاز اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ فقہ ہے۔ مگر کچھ لوگ اس کی بعض باتیں لے لیتے ہیں اور بعض باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جبکہ کچھ چیزوں میں مغرب کے فرومایہ افکار سے ہم آہنگ کرنے کے لئے رد و بدل کر دیتے ہیں۔ یہ چیزیں ہم نے دیکھی ہیں۔
بعض لوگ مغرب والوں کی ناراضگی کے خوف سے بعض اسلامی احکامات کے حقائق میں، بالکل واضح اسلامی احکامات میں بھی تحریف کر دیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: وَ اِن تُطِع اَکثَرَ مَن فِى الاَرضِ یُضِلّوکَ عَن سَبیلِ‌اللهِ اِن یَتَّبِعونَ اِلّا الظَّنَّ وَ اِن هُم اِلّا یَخرُصُون؛(3) جہل و خرافات کی دنیا میں رائج افکار کی پیروی نہیں کرنا چاہئے، اسلامی افکار کی نشاندہی کرکے ان افکار کے مطابق چلنا چاہئے خواہ اس کی کچھ لوگ برائی ہی کیوں نہ کریں۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ تو ضروری ہے کہ اہم مسائل کی نشاندہی کی جائے۔ میری نظر میں ایک اصلی موضوع اور کلیدی مسئلہ گھر اور خاندان کا ہے۔ گھر کے ماحول میں عورت کا تحفظ، خاندان کے اندر عورت کو مواقع کی فراہمی، صلاحیتوں کو نکھارنے کے مقصد سے کی جانے والی گھرداری اس کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بننے پائے، اس کے مطالعے میں مخل نہ ہو، اس کے فہم و ادراک اور تحریر و تصنیف کے سد راہ نہ بنے۔ جو خاتون ان چیزوں کا شوق رکھتی ہے اسے سازگار ماحول اور حالات فراہم کرنا چاہئے۔ یہ ایک اساسی چیز ہے۔
عورتوں کی ملازمت اور روزگار کا مسئلہ کلیدی اور اصلی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہم عورتوں کے روزگار اور ملازمت کی مخالفت نہیں کرتے۔ میں نہ تو ان کی ملازمت کا مخالف ہوں، نہ اعلی عہدوں پر فائز ہونے کی مخالفت کرتا ہوں، مگر اس وقت تک جب تک یہ ملازمت ان اصلی اور کلیدی مسائل سے متصادم نہ ہو جائے۔ اگر متصادم ہو تو پھر ترجیح اسی اصلی اور کلیدی مسئلے کو حاصل ہوگی۔ اس تیسرے میدان میں جس کا ہم نے ذکر کیا جو اہم کام انجام پانا چاہئے وہ یہ ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ ان اوصاف اور خصوصیات کی مالک خواتین کے لئے مناسب پیشے اور کام کون سے ہیں؟ بعض پیشے ایسے ہیں جو صنف نسواں کے لئے مناسب نہیں ہیں تو وہ ان کی طرف نہ جائیں۔ اسی طرح تعلیم کے دوران ان پیشوں کی طرف لے جانے والے سبجیکٹ خواتین پر مسلط نہ کئے جائیں۔ یہ جو یونیورسٹی اور تعلیم کے مسئلے میں بعض لوگ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں کہ تعلیم میں بھی تفریق و امتیاز ہے تو حقیقت یہ ہے کہ تفریق ہر جگہ بری نہیں ہوتی۔ تفریق وہاں بری ہے جہاں ناانصافی کا باعث بنے۔ ورنہ آپ فرض کیجئے کہ آپ کسی فٹبال ٹیم میں ایک کھلاڑی کو اسٹرائیکر کی جگہ رکھتے ہیں، کسی کھلاڑی کو ڈیفنس کے لئے رکھتے ہیں، کسی کھلاڑی کو گول کیپر بناتے ہیں، یہ بھی تفریق ہے۔ اگر ڈیفنس کرنے والے کو آپ اسٹرائیکر بنا دیں تو ٹیم شکست کھا جائیگی، جو اسٹرائیکر ہے اگر اسے آپ گول کیپر بنا دیں جو اس کی مہارت نہیں رکھتا تو ٹیم کو شکست ہوگی۔ یہ بھی تفریق ہے مگر یہ تفریق انصاف کے مطابق ہے۔ کسی کو کسی مقام پر اور دوسرے کو کسی اور مقام پر رکھا جاتا ہے۔ تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ دراز مدتی اہداف کے پیش نظر کون سے سبجیکٹ اور موضوعات خواتین کے لئے مناسب اور مفید ہیں وہی موضوعات انہیں دئے جائیں۔ لڑکیوں کو مجبور نہ کیا جائے کہ آپ چونکہ داخلے کے امتحان میں فلاں پوزیشن حاصل نہیں کر سکیں اور آپ کو اتنے نمبر نہیں ملے لہذا آپ فلاں سبجیکٹ نہیں پڑھ سکتیں، آپ کو تو بس فلاں موضوع ہی دیا جائے گا، حالانکہ وہ موضوع نسوانی مزاج سہ مطابقت رکھتا ہے نہ ہی اعلی اہداف کے لئے سازگار ہے اور نہ ہی اس موضوع کی تعلیم کے نتیجے میں جو کام اس طالبہ کو ملنے والا ہے وہ اس کے لئے مناسب ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں میرے اعتبار سے ان چیزوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے کہ عورت وہ سارے کام نہیں کر سکتی جو کام مرد انجام دیتا ہے۔ بالکل نہیں۔ عیب تو اس پیشے اور کام میں ہے جو عورتوں کی خداداد فطرت و طبیعت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ تو یہ میرے معروضات ہیں، البتہ میں نے کچھ اور چیزیں بھی نوٹ کی تھیں مگر آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
عورتوں کا مسئلہ بڑا اہم ہے اور اس مسئلے کو بہترین انداز سے خود خواتین ہی حل کر سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں اعلی تعلیم یافتہ، اچھی فکر کی مالک، با صلاحیت، اچھا قلم اور اچھا اسلوب بیان رکھنے والی خواتین کی کمی نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک میں ما شاء اللہ ایسی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم نے یہ عرض کیا کہ وطن عزیز کی پوری تاریخ میں کبھی بھی اتنی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ، نمایاں صلاحیتوں کی مالک خواتین نہیں رہیں۔ نہ دینی علوم کے شعبے میں اور نہ یونیورسٹیوں کے اندر۔ اس کثیر تعداد میں اہل قلم خواتین، اتنی شاعرات، اس کثرت کے ساتھ محقق خواتین، مختلف شعبوں میں تحقیقاتی کام انجام دینے والی خواتین پہلے نہیں تھیں مگر اسلامی نظام کی برکت سے آج ہمارے پاس یہ نعمت ہے۔ یہ سب اسلام کی برکت ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کی برکت ہے، عورت کے سلسلے میں امام خمینی کے روشن نقطہ نگاہ کی برکت سے ہے جس کا ذکر محترمہ (4) نے کیا۔ یہ صورت حال ہمارے ملک میں پہلے کبھی نہیں رہی۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، اس کی توفیقات پر سجدہ ریز ہونا چاہئے اور توفیقات میں اضافے کی دعا کرنا چاہئے، ان توفیقات پر بار بار شکر ادا کرنا چاہئے۔ شکر ادا کرنے کا طریقہ وہی جو ہم نے عرض کیا کہ اللہ کی جانب سے ملنے والی تعلیمات پر توجہ دی جائے اور مادہ پرستانہ ہدایات سے جو اہل مغرب اور امریکیوں کی جانب سے آ رہی ہیں، جنہیں وہ بڑی ڈھٹائی سے پیش کر رہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں، روگردانی کی جائے۔ ان کی ان ہدایات کے خلاف کوئی لب کشائي کرے تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، لیکن ان کی اس تشہیراتی یلغار پر توجہ نہیں دینا چاہئے بلکہ اپنے راستے پر آگے بڑھنا چاہئے۔
والسّلام علیکم ورحمةالله و برکاته‌

۱) خانم شهیندخت مولاوردى (معاون رئیس جمهور در امور زنان و خانواده)
2) نهج‌البلاغه، مکتوب نمبر‌۳۱
3) سوره‌ انعام، آیه‌ ۱۱۶
4) محترمہ مولاوردى‌