1393/04/08 ہجری شمسی مطابق 25 جون 2014 کو منعقد ہونے والی اس نشست میں کلام پاک کے قاریوں، حافظوں اور قرآنی علوم کے اساتذہ نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں کلام اللہ کی تلاوت سے سماں باندھ دیا جبکہ الگ الگ گروہوں کی شکل میں بھی تلاوت اور مناجات کے پروگرام رکھے گئے۔
اس نورانی محفل میں قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی معاشرے کو قرآن فہمی اور قرآنی انس سے قریب کرنے کی قاریوں اور حافظوں کی مہم کو انتہائی گراں قدر مہم قرار دیا اور فرمایا کہ اس انداز سے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے کہ عوام الناس قرآن کے معانی و مفاہیم سے پوری طرح مانوس ہو جائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی معاشرہ قرآن سے روز افزوں انس کی وجہ سے باطنی اور داخلی استحکام حاصل کرے گا اور یہی اندرونی استحکام معاشروں کو پیش قدمی کرنے اور رکاوٹوں کو عبور کر جانے کی طاقت عطا کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین والصّلاة على رسوله و آله المیامین‌

اللہ تعالی کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے زندگی دی اور یہ توفیق عنایت فرمائی کہ ہم اس سال بھی رمضان کے اس مبارک مہینے کا آغاز اس نورانی محفل سے کریں۔ خوش امدید کہتا ہوں تمام محترم قاریوں اور حافظوں کو، خاص طور پر ان برادران عزیز کو جنہوں نے پروگرام پیش کیا اور نشست کے ناظم کو۔ اللہ تعالی آپ سب کو دنیا میں اصحاب قرآن میں قرار دے اور آخرت میں قرآن کے ساتھ محشور فرمائے۔
آج اہل قرآن ملک میں جو کام انجام دے رہے ہیں وہ میری نظر میں انتہائی اہم کام ہے۔ بیشک قرآن سے انسیت خود اس شخص کے لئے جو تلاوت کلام پاک کر رہا ہے اور قرآن سے مانوس ہے بلندی درجات کا باعث اور اس کی معرفت میں گہرائی پیدا ہونے کا سبب ہے، یہ چیز اپنی جگہ پر مسلمہ ہے، یعنی جو فیض قاریان قرآن اور کلام پاک کی تلاوت کرنے والوں کو پہنچ رہا ہے، وہ اپنی جگہ پر ایک اہم ثمرہ اور کامیابی ہے، مگر اس کامیابی کے علاوہ بھی کچھ ثمرات ہیں جن کا دائرہ وسیع تر ہے، یہ ثمرات ہیں اسلامی معاشرے کا قرآن فہمی اور قرآن سے انسیت کے قریب ہونا، خود قرآن کا قرب حاصل ہونا، یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ آج ہمارا قرآنی معاشرہ، قاری، حافظ اور دوسرے افراد جو اس راہ میں مصروف عمل ہیں، در حقیقت یہ انتہائی اہم کام انجام دے رہے ہیں، یہ بیحد اہم ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ بحمد اللہ گزشتہ چند سال کے عرصے میں قرآنی صنف نے قابل قدر پیشرفت حاصل کی ہے۔ ہم کئی سال سے یہ سالانہ نشست منعقد کر رہے ہیں۔ میں اپنے عوام کے اندر، اپنے نوجوانوں کے اندر اور دلچسپی رکھنے والے افراد کے اندر قرآن سے انسیت اور تلاوت قرآن کا شوق باقاعدہ محسوس کر رہا ہوں اور اس میں روز بروز زیادہ وسعت آ رہی ہے۔ اس پر ہمیں شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے، تاہم مطلوبہ منزل سے اب بھی ہم کافی دور ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا قاری شخصی طور پر یا قاریوں کی صنف مجموعی طور پر مطلوبہ سطح سے کمتر یا بہت نیچے ہے۔ یہ مراد نہیں ہے۔ بحمد اللہ ہمارے یہاں بہت اچھے قاری موجود ہیں جو تلاوت کے اعتبار سے، ترتیل یا خوش الحانی کے اعتبارسے، معانی و مفاہیم پر توجہ اور تلاوت کی کیفیت کے اعتبار سے اعلی سطحوں پر سامعین کے لئے قرآنی مفاہیم کی ترویج کرنے والے ہیں۔ اس اعتبار سے بحمد اللہ ہمیں بڑی ترقی ملی ہے۔ لیکن معاشرے کی عمومی سطح پر ہم مطلوبہ مقام تک ابھی نہیں پہنچ سکے ہیں، ابھی ہم بہت دور ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر اور ہمارے معاشرے کی سطح پر ایسے اقدامات اور انتظامات کئے جائیں کہ ہر آدمی قرآن سے مانوس ہو، سارے لوگ قرآنی آیات کے معانی و مفاہیم سے آشنا ہوں، قرآن سے رجوع ہونے کی عادت پڑے، چاہے قرآن کے مفاہیم کو اجمالی طور پر ہی سمجھیں۔ ہمیں اس منزل پر پہنچنا ہے۔ جن ملکوں کی زبان عربی ہے وہاں یہ مراحل آسانی سے طے پا جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی زبان چونکہ عربی نہیں ہے لہذا اس منزل تک پہنچنا ہمارے لئے دشوار ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ قرآنی الفاظ و کلمات سے ہم آشنائی رکھتے ہیں، قرآنی آیات کے معانی کو سمجھنا ہمارے عوام کے لئے بہت دشوار نہیں ہے۔ بس تھوڑی سی محنت اور مشق کی جائے تو ہمارا معاشرہ ان شاء اللہ اس مطلوبہ منزل تک پہنچ چائے گا۔
آپ برادران عزیز کو توجہ رکھنی چاہئے کہ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ قرآن سے روز افزوں انس رکھے تو داخلی طور پر اس کا استحکام بڑھتا ہے۔ داخلی استحکام اور مضبوطی ایسی چیز ہے جو معاشروں کو اپنا مطلوبہ سفر طے کرنے اور مطلوبہ منزل تک پہنچنے پر قادر بناتی ہے اور معاشروں کے اندر مشکلات و مسائل سے نمٹنے کی قوت پیدا کرتی ہے۔ اندرونی استحکام ہونا چاہئے اور یہ داخلی استحکام قرآن سے انس و رغبت کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ قرآن سے انسیت ایمان کو تقویت پہنچاتی ہے، اللہ پر توکل کے جذبے کو تقویت پہنچاتی ہے، اللہ کے وعدوں پر اعتماد و یقین میں اضافہ کرتی ہے، انسان کے اندر مادی مشکلات کے خوف و ہراس کو بہت کم کر دیتی ہے، انسانوں کو روحانی اور فکری طور پر مستحکم بناتی ہے، ان میں جذبہ خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، قرب خداوندی حاصل کرنے کے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ قرآن سے انس حاصل کرنے کے یہ فوائد اور ثمرات ہیں۔
قرآن کتاب معرفت اور کتاب نور ہے۔ وَ مَا جَالَسَ هَذَا القُرآنَ اَحَدٌ اِلّا قَامَ عَنْهُ بِزِیادَة اَو نُقصَانٍ زِیَادَةٍ فى هُدًى اَو نقصانٍ فى عمًى؛(۱) یہ قول حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منسوب ہے، آپ فرماتے ہیں : جو بھی قرآن کے ساتھ بیٹھا، اس نشست سے اس کے اٹھنے سے قبل اس کی ہدایت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی بے معرفتی اور ظلمت میں کمی آ چکی ہوتی ہے۔ یعنی اس کے اندر ایک اضافہ ہوتا ہے اور ایک چیز کم ہوتی ہے، اضافہ ہدایت اور معرفت میں ہوتا ہے اور کمی اس کی تاریکی اور گمراہی میں ہوتی ہے۔ یعنی انسان کی گمراہی دور ہوتی ہے۔ انسان کی ہدایت اس کے اندر علم و آگاہی میں اضافہ کرتی ہے۔ تو قرآن کی معیت اور اس کے ساتھ نشست و برخاست کا یہ اثر ہے۔ البتہ یہ چیز قرآنی آیات کے بارے میں تدبر سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کی تلاوت پوری توجہ کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اس بات پر ہماری توجہ رہنی چاہئے کہ صرف زبان سے الفاظ کا ادا کر دینا کافی نہیں ہے، ہمیں قرآن کے مفاہیم اور مقصود و مراد کو سمجھتے ہوئے تلاوت کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو اسلامی معاشرہ اپنا راستہ خود تلاش کر لیگا۔ اَللهُ وَلىُّ الَّذینَ ءامَنُوا یُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُماتِ اِلَى النُّور؛(2) خرافاتی باتوں کی تاریکی سے، گمراہی کی ظلمت سے، خوف کے اندھیرے سے، توہمات کی ظلمتوں سے انسان خارج ہوکر الی النور ہدایت کی روشنی کی طرف، معرفت کی روشنی کی طرف، تقرب الی اللہ کی درخشش کی طرف، اللہ تعالی سے انس کے اجالے کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو قرآن کی صحبت اختیار کرنے اور قرآن سے انس حاصل کرنے کے نتیجے میں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں اور ہمیں ان کی شدید احتیاج ہے۔ امت اسلامیہ کو آج اس چیز کی ضرورت ہے۔ اسلامی معاشرے کو آج سنجیدہ چیلنج در پیش ہیں، ہم نے بار بار عرض کیا کہ چیلنجوں پر توجہ دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ایسا سمجھیں کہ دشمن بہت قوی ہے اور ہم پر غالب آ جائے گا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اسلامی سماج کو چیلنج در پیش ہیں اور چیلنجوں کا سامنا اس بات کا اچھا موقعہ ہوتا ہے کہ بلندیوں کی جانب اسلام کے تاریخی سفر کے مراحل میں سے ایک مرحلہ طے پائے اور وہ ایک قدم آگے بڑھ جائے۔ آج اس طرح کی صورت حال ہے۔ اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل کے ادوار میں، اسلامی بیداری کی لہر اٹھنے سے پہلے کے زمانے میں، ہم دنیائے اسلام کو غفلت میں ڈوبا ہوا پاتے تھے۔ مگر آج دنیا‏ئے اسلام نے آنکھیں کھولی ہیں۔ عالم اسلام کی سطح پر جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ امت اسلامیہ کی بیداری و آگاہی کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں۔ ان سے ہماری آگاہی میں اضافہ ہوتا ہے، ہمارا راستہ اور بھی واضح ہوتا ہے اور ہمیں اپنے فرائض کا اور بھی واضح طور پر علم حاصل ہوتا ہے۔ مومنین اور امت مسلمہ کی اس آگاہی و بیداری سے دشمنان اسلام پر خوف طاری ہے۔ ہمیں اس بصیرت کو روز بروز اور بھی تقویت پہنچانا چاہئے۔ سب سے پہلا مرحلہ یہی ہے کہ ہمیں چیلنجوں اور مسائل کا علم ہو۔
عالم اسلام میں آج ہم یہ حالات دیکھ رہے ہیں کہ دشمنان اسلام،اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام پر حملے کر رہے ہیں۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ایک اصطلاح استعمال کی: خالص اسلام محمدی کے مقابلے میں امریکی اسلام (3)۔ امریکی اسلام ایسا اسلام ہے جو طاغوتی طاقتوں سے مفاہمت کر لیتا ہے، صیہونیوں کو بھی برداشت کر لیتا ہے، امریکی اہداف و مقاصد کی تکمیل میں مددگار بھی ہوتا ہے، اس کا ظاہری روپ اسلام جیسا ہے، اس کا نام بھی اسلام ہے، شاید اس میں بعض اسلامی اعمال اور عبادات بھی انجام دی جاتی ہیں، البتہ اس کی ہمیں مکمل اطلاعات نہیں ہیں، کہتے ہیں کہ یہ افراد جو اسلام کے نام پر اور انتہائی متعصبانہ انداز میں بعض ملکوں کے اندر، حالیہ دنوں عراق میں اور اس سے پہلے دیگر ممالک میں نمودار ہوئے ہیں، دینی و شرعی احکام کے بہت پابند بھی نہیں ہیں اور اپنے ذاتی و دینی فرائض پر عمل پیرا بھی نہیں ہیں، مگر اتنا طے ہے کہ اسلام کے ایک سو اسی درجہ مخالف سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسلام نے دشمنان دین کی معیت، دشمنان دین کی حکمرانی اور استکباری طاقتوں کی سرپرستی میں زندگی کو ان چیزوں میں قرار دیا ہے جن سے مومن انسان کو دور رہنا چاہئے؛ اَلَّذینَ ءامَنُوا یُقاتِلُونَ فى سَبیلِ‌الله وَ الَّذینَ کَفَرُوا یُقاتِلُونَ فى سَبیلِ الطّاغُوت؛(4) اگر آپ اسلام کے نام پر طاغوت کے راستے پر چل رہے ہیں تو یہ سمجھ لیجئے کہ یہ اسلام صحیح اور حقیقی اسلام نہیں ہے۔ یقینا کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرور ہے۔ آج یہی صورت حال ہے۔ البتہ انسان، دشمن کی ریشہ دوانیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ پورے یقین سے باور کر لینا چاہئے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی خفیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے خبیث ہاتھ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے معاملات اور آزمائش کے حالات پیدا کرنے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث ضرور ہیں۔ اس کے تار انہی سے جڑے ہوئے ہیں۔ انسان غور کرے تو دیکھ سکتا ہے، اس کے دلائل اور علامات بالکل واضح ہیں۔ اگر امت اسلامیہ کو قرآن سے انس رہے، باقاعدہ واقفیت رہے تو ایسے مسائل شاذ و نادر ہی پیش آئیں گے۔ اگر دلوں کا رابطہ اللہ تعالی سے ہو تو یہ رابطہ دلوں کو خیانت کے راستے پر جانے سے روکےگا۔ میری دعا ہے کہ اس طرح کی صورت حال پیدا ہو۔
آپ قرآنی نوجوان اور ایسے افراد ہیں جو قرآن کی راہ میں اپنی عمر، اپنی زندگی کے سال، اپنی نوجوانی کے ایام اور اپنی طاقت و توانائی صرف کر رہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیجئے۔ یہ بہت بڑی توفیق ہے کہ اللہ تعالی نوجوانوں کے دلوں میں قرآن کی انسیت پیدا کر دے اور وہ قرآن کا راستہ چن لیں۔ ماضی کے ادوار میں یہ چیز نہیں تھی۔ نوجوانوں میں قرآن کا یہ رواج نہیں تھا۔ آج بحمد اللہ نوجوانوں میں اس کی ترویج ہو رہی ہے اور آپ اس ترویج میں موثر عناصر کا رول ادا کر رہے ہیں۔ اس کی آپ قدر کیجئے۔ یہ کوشش کیجئے کہ جو لوگ قرآن سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف ہیں وہ عملی میدان میں بھی «کونوا دُعاةَ النّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم»(5) کے مصداق بنیں۔ یہ ثابت کریں کہ دینی احکامات اور مذہبی امور پر عمل آوری کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اسے ثابت کریں تاکہ قرآن کی تاثیر ان کے عمل میں دکھائی دے، عمومی برتاؤ میں، سلوک میں، باطنی طور پر بھی اور ظاہری عمل میں بھی۔ ظاہری انداز اسلامی ہو، دوسروں سے پیش آنے کا طریقہ اسلامی ہو، ان چیزوں کی رعایت کریں۔ اَلّذینَ اِذا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَ اِذا تُلِیَت عَلَیهِم ءایتُهُ زادَتهُم ایماناً؛(6) ان خصوصیات کی ایک علامت ان افراد میں نمایاں ہو جو قرآن سے مانوس ہیں۔ آپ جو عمل انجام دیں گے، ظاہر ہے کہ آج کوئی بھی قرآنی علامت قابل فخر علامت ہے، تو یہ عمل نوجوانوں کے لئے، نئی عمر کے لڑکوں کے لئے اور آپ کے مخاطب افراد کے لئے نمونہ ہو سکتا ہے۔ وہ آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ آپ یہ کوشش کیجئے کہ وہ آپ سے ایسی چیزیں سیکھیں جس سے انہیں قرب خداوندی نصیب ہو۔
پالنے والے! تجھے محمد وآل محمد کی قسم ہے ہمیں قرآن کے ساتھ زندہ رکھ، ہمیں قرآن کی ہم نشینی عطا کر، ہمیں قرآن کی راہ میں زندہ رکھ، ہمیں قرآن کی راہ میں موت دے، ہمیں قرآن کے ساتھ محشور فرما، قرآن کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ اس نشستت، اس پروگرام اور قرآن کی اس تلاوت کا ہدیہ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اور شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو عنایت فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں اسلام کے راستے میں، قرآن کے راستے میں، شہیدوں اور مجاہدین حق کی راہ میں ثابت قدم رکھ۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۱۷۶
2) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۵۷ کا ایک حصہ
3) منجمله، صحیفه‌ امام، جلد ۲۱، صفحہ ۱۲۰
4) سوره‌ نساء، آیت نمبر۷۶ کا ایک حصہ
5) بحارالانوار، جلد ۶۷، صفحہ ۳۰۹
6) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ