تین خرداد مطابق چوبیس مئی کو آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران فتح المبین آپریشن کے نتیجے میں عراق کی بعثی حکومت کے فوجیوں کے قبضے سے خرم شہر کی آزادی کے فیصلہ کن واقعے کی سالگرہ کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی میں کیڈٹس سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن یہ بات جان لیں کہ ایران کے عوام اور حکام توسیع پسندی اور بیجا مطالبات کے سامنے ہرگز نہیں جھکیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 30 اردیبہشت 1394 ہجری شمسی مطابق 20 مئی 2015 کو اپنے خطاب میں ملت ایران کے بدخواہوں اور خلیج فارس کے علاقے کے بعض حکام کی جانب سے نیابتی جنگ ایران کی سرحدوں کے اندر تک لے جانے کی کوششوں سے متعلق خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شر انگیزی کی گئي تو اسلامی جمہوریہ ایران کا جواب بہت سخت ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات میں فریق مقابل کے بیجا مطالبات کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے فوجی مراکز کے معائنے اور ایرانی محققین اور سائنسدانوں سے باز پرس کے مطالبے کا حوالہ دیا۔ آپ نے دو ٹوک انداز میں کہا: پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ کسی بھی فوجی مرکز کے کسی بھی طرح کے معائنے اور اسی طرح جوہری سائنسدانوں اور دوسرے شعبوں کے ماہرین سے بات چیت کی اجازت جو ان کے وقار کو مجروح کرنے کے مترادف ہے، ہرگز نہیں دی جائے گی۔قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ میں قطعی اجازت نہیں دوں گا کہ اغیار آئیں اور اس قوم کے عزیز و ممتاز سائنسدانوں اور فرزندوں سے گفتگو اور پوچھ گچھ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌ (1)
و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین‌

مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ تمام عزیز جوانوں کو، آپ ملت ایران کے نور چشم اور فرزندوں کو۔ ان جوانوں کو بھی جو فارغ التحصیل ہوکر پاسدار (پاسداران انقلاب فورس کے رکن) کی وردی زیب تن کر رہے ہیں اور ان جوانوں کو بھی جو نئے نئے اس پر افتخار میدان میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس گراؤنڈ پر جو بامعنی، پرکشش اور جدت عملی پر مبنی پروگرام پیش کیا گيا، اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میدان میں (دستوں کی) جو آرائش تھی وہ بھی اور جو پروگرام پیش کیا گیا وہ بھی بہت پرکشش تھا، پرمغز اور اپنے اندر جدت لئے ہوئے تھا۔ زندگی کے تمام امور میں، علم و دانش میں، انتظامی اقدامات میں، طرز زندگی میں، انقلابی اقدار کی حفاظت و پاسداری میں، جملہ اہم مسائل میں، یہ چند نکات ضروری بھی ہیں اور ان پر عمل کرنا ممکن بھی ہے۔ تمام کاموں میں جدت عملی کو بھی سنجیدگی سے ملحوظ رکھنا چاہئے اور کشش اور خوبصورتی کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے، اسی طرح ان کے پرمغز ہونے پر بھی توجہ رہنی چاہئے۔ زندگی کے تمام اہم مسائل اور تمام اہم ملکی امور میں سطحی اقدامات سے اجتناب کرنا چاہئے، ہمیشہ گہرے، بامعنی اور پائیدار کاموں اور اقدامات پر توجہ دینی چاہئے۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ 'شجرہ طیبہ' یعنی پاسداران انقلاب اسلامی فورس آج توانائی، پیشرفت اور فکری و عملی بلوغ کے اعتبار سے اطمینان بخش مقام پر پہنچ چکی ہے۔ بحمد اللہ آپ نے مسلسل ترقی کی۔ ظاہر و باطن ہر سطح پر روز بروز آپ نے اپنے اندر تکامل پیدا کیا۔ خود یہ یونیورسٹی بھی پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے ارتقائی سفر کی مثال ہے۔ میرے عزیز جوانو، میرے پیارے بچو! آپ یاد رکھئے کہ آپ کی یونیورسٹی کی پونجی خرم شہر کی آزادی ہے، فتح المبین آپریشن ہے، فاؤ آپریشن ہے، کربلائے پنج آپریشن ہے۔ آج کی ان ترقیوں کے لئے زمین ان مجاہدتوں، ان قربانیوں اور ان درخشاں انوار سے ہموار ہوئی ہے جو جنگ کے محاذوں پر آپ کے پیشروؤں سے ساطع ہوئے، جن سے آنکھیں خیرہ ہو گئیں، ملک متحرک ہوا اور اسلامی جمہوریہ ایران کا ماحول اور اس ملک کے عزیز عوام کی زںدگی کا ماحول اہداف اور اعلی مقاصد کے رنگ میں رنگ گیا۔
عظیم اسلامی انقلاب کا یہ ارتقائی عمل اور پرچم آج آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کون سا پرچم؟ جدید اسلامی فکر کا پرچم جو انسانیت کی سعادت و کامرانی کا راستہ دکھانے والا اور گرہوں کو کھولنے والا ہے۔ یہ بات سب جان لیں کہ اسلامی فکر تمام انسانوں کے لئے اور پوری انسانیت کے لئے رہنما فکر ہے۔ یہ فکر آج کے نوجوانوں کے اختیار میں ہے۔ یہ جدید اور پرکشش و جاذب فکر ہمارے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے ذریعے پیدا ہوئی اور اس قوم کو ملی۔ اس قدرداں، ہوشیار اور دانشمند قوم نے اسے حاصل کیا، اس کی قدر و قیمت پہچانی اور اب تک اس کی بخوبی حفاظت کی۔ ملت ایران کی فداکاری و قربانی نے جس کا ایک اہم ترین مظہر مقدس دفاع ہے، آج اس پرچم کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
اس پرچم کے مقابلے میں، اس فکر کے مد مقابل، دنیا کی موجودہ جاہلیت کی فکر ہے۔ اسلامی فکر انصاف کی طرفدار ہے، آزادی بشر کی طرفدار ہے، استکبار و استعمار کے ذرائع اور اسباب کو مٹا دینے کی طرفدار ہے، ساری دنیا سے توسیع پسندانہ نظام کی بساط سمیٹ دئے جانے کی طرفدار ہے۔ یعنی دنیا توسیع پسند طاقتوں اور تسلط کا شکار ریاستوں میں تقسیم نہ رہے۔ یہ ہے اسلامی نظام کی فکر۔ یہی پرچم آج آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی مخالف سمت میں ایک ظالمانہ، متکبرانہ، خود پسندانہ اور مستبدانہ فکر ہے جس کا تعلق دنیا کی توسیع پسند اور ہر چیز پر اجارہ داری قائم کرنے کی خواہاں طاقتوں سے ہے جو دنیا کے بڑے اقتصادی مراکز سے وابستہ ہیں۔ یہ طاقتیں ہمیشہ دنیا میں موجود رہی ہیں، آج بھی موجود ہیں۔ ماضی میں یہ طاقتیں ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آشکارا طور پر اپنی حقیقت ظاہر کر دیتی تھیں۔ مگر آج پرکشش الفاظ کی آڑ میں، انسانی حقوق، عدم تشدد وغیرہ جیسے خوبصورت نعروں کی آڑ لیکر منافقانہ اور ریاکارانہ طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں۔ مگر قوموں کی تیز بیں نگاہیں حقیقت پہچان لیتی ہیں۔ ان دونوں متضاد فکروں کو سمجھ سکتی ہیں۔ ایک فکر ظلم کرنے اور قوموں اور مظلوموں کو کچلنے کی بات کرتی ہے اور دوسری فکر مظلومین کی مدد کرنے اور ظالموں کے خلاف آواز اٹھانے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ دونوں فکریں ایک ساتھ کیونکر جمع ہو سکتی ہیں؟ ایک دوسرے سے کیسے قریب ہو سکتی ہیں؟ آج دنیا کو اس صورت حال کا بخوبی علم ہے۔ دنیا اسے جانتی ہے۔
ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران الگ تھلگ ہو گيا ہے۔ اسلامی جمہوریہ تنہا نہیں ہے، بلکہ اپنی تشکیل کے وقت سے لیکر اب تک اسلامی جمہوریہ کو ہمیشہ قوموں کے دلوں میں جگہ ملی ہے۔ جہاں پروپیگنڈہ بہت زیادہ ہے، بڑے پیمانے پر تصویر مسخ کی گئی ہے اور خراب شبیہ پیش کی گئی ہے وہاں ممکن ہے کہ کچھ حقائق پوشیدہ رہ گئے ہوں، لیکن حقیقت بہت محدود مدت تک ہی چھپتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ اوائل انقلاب سے اب تک اسلامی جمہوریہ ایران کا جو صدر بھی دوسرے ملک کے دورے پر گیا اور قوموں سے روبرو ہوا ہے اس کے سامنے قوموں نے اپنی قلبی وابستگی اور محبت کا اظہار عمل اور بیان دونوں سطح پر کیا ہے۔ شمالی افریقا میں بھی، وسطی افریقا میں بھی اور مغربی ایشیا میں بھی جسے یورپی ممالک مشرق وسطی کا نام دینے پر مصر ہیں، اسی طرح مشرقی ایشیا کے علاقے میں بھی اور بر صغیر میں بھی۔ یہاں تک کہ یورپی ملکوں کے پڑوس میں واقع ممالک میں بھی جب اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر گئے اور انھیں عوام سے ملنے کا موقع ملا تو ان ملکوں کے عوام نے اپنے والہانہ عشق کا برملا اظہار کیا۔ آج بھی ساری دنیا میں یہی حالت ہے۔
آج دنیا میں، قوموں کے درمیان اور دنیا کے حریت پسند انسانوں کے درمیان آپ کا نام، ملت ایران کا نام بہت بلند اور مایہ فخر ہے۔ حکومتوں کے اندر کیا تاثرات ہیں؟ حکومتوں کے اندر بھی یہی تاثرات ہیں۔ کیونکہ حکومتیں بھی انسانوں کے ذریعے تشکیل پاتی ہیں۔ جو لوگ بہت زیادہ سادہ لوح نہیں ہیں، جو بالکل ہی بدبخت اور رو سیاہ نہیں ہیں، جو لوگ شہوت و لذت میں غرق نہیں ہیں، جنھوں نے دل و جان سے سامراج کی غلامی قبول نہیں کی ہے، جو دل سے سامراج کی فرمانبرداری تسلیم نہیں کی ہے، وہ بھی ملت ایران کی عظمت اور اس قوم کو اس منزل پر پہنچانے والے نظام کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، اس کا اقرار کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو اجتماعات ہوئے، خواہ اسلامی کانفرنس تنظیم او آئی سی کی کانفرنس ہو (2) یا ناوابستہ تحریک کا اجلاس ہو (3)، دنیا کے بیشتر ملکوں کے سربراہان اور اعلی حکام یہاں جمع ہوئے اور اپنے لگاؤ کا اظہار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایران الگ تھلگ پڑا گيا ہے! تنہا تو وہ لوگ ہیں جو صرف طاقت کے ذریعے اور پیسے اور ڈالر کی مدد سے کچھ دلوں کو اپنی جانب مائل کر لیتے ہیں۔ ان کے پیغام میں، ان کے بیانوں میں اور ان کے عمل میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ میرے عزیز نوجوانو! ملت ایران کے عزیز فرزندو! اس مقام پر آپ اس پرچم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں اور اسی طرح ملک بھر میں مختلف شعبوں کے اندر ہمارے نوجوان اس راستے پر ایمان و عقیدے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہم نے اسلام کے ذریعے، اسلامی انقلاب کے ذریعے، انقلابی عمل کے ذریعے، انقلابی نقطہ نگاہ اور انقلابی اہداف کے ذریعے جو وقار حاصل کیا ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ آج دشمن مشکلات ایجاد کرنے میں مصروف ہیں، اسلامی جمہوریہ کے سامنے آئے دن نئی مشکل ایجاد کر دینے کے در پے رہتے ہیں، مگر ہمیں کوئی ڈر نہیں ہے، ہمیں کسی طرح کا خوف نہیں ہے۔ اگر ہم بھی بے جان اور بے حرکت جسم کی مانند ہوتے تو ہمارے سامنے مشکلات کھڑی نہ کی جاتیں۔ مگر ہم متحرک ہیں، ہم زندہ ہیں، ہم نمو کی منزلیں طے کر رہے ہیں، اس لئے ہمیں یہ توقع رکھنی چاہئے کہ ہمارے سامنے مشکلات کھڑی کی جائیں گی۔ ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے، اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل یقین کے ساتھ، خود اعتمادی اور بھرپور توانائی کے ساتھ ان مشکلات کو عبور کر لیں گے۔ ہمارے دشمنوں سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے، وہ ملت ایران کو پہچان نہیں سکے ہیں، اسلامی جمہوریہ کے حکام کو سمجھ نہیں سکے ہیں، اسی لئے دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ایٹمی مسائل سے متعلق مذاکرات میں بھی طاقت کی نمائش کرتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انھوں نے ملت ایران کو پہچانا نہیں ہے، اس بات کی علامت ہے کہ ہماری حکومت کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہماری حکومت ہرگز جھکنے والی نہیں ہے۔ ہماری حکومت اسی قوم کا جز ہے۔ اسی قوم سے نکلی ہے۔ اسی قوم کے اندر سے نمودار ہوئی ہے۔ انھیں اعلی اہداف کے ساتھ آگے بڑھی ہے اور انھیں امنگوں کے ساتھ پیشرفت کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ اگر کوئی قوم، کوئی حکومت اور کچھ حکام اس دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرتے ہیں تو یہ دشمن اتنا ہی سر پر سوار ہو جائے گا۔ یہ توسیع پسندانہ خو کے لوگ ہیں۔ وہ استکباری و استعماری مقاصد کے حصول اور قوموں کو چنگل میں جکڑ لینے سے کم کسی چیز پر اکتفا کرنے والے نہیں ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو وہ چڑھتے چلے آئیں گے۔ ان کے سامنے عزم و توکل اور قومی اقتدار اعلی کی فولادی دیوار قائم کر دینے کی ضرورت ہے۔
موجودہ مذاکرات کے اندر پھر نئی باتیں شروع کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر معائنے کا مسئلہ ہے۔ ہم نے کہہ دیا ہے کہ ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ اغیار ہمارے کسی بھی فوجی مرکز کا کسی طرح کا بھی معائنہ کریں۔ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں آکر آپ کے سائنسدانوں کا انٹرویو کرنا ہوگا، یعنی در حقیقت باز پرس کرنی ہوگی۔ ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کی شان میں یا دوسرے اہم اور حساس شعبوں کے سائسندانوں کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی ہو۔ میں اجازت نہیں دوں گا کہ اغیار آئيں اور ہمارے سائنسدانوں سے، ملت ایران کے عزیز اور ممتاز فرزندوں سے جنھوں نے اس ٹیکنالوجی کو اس مقام تک پہنچایا ہے، بات کریں۔ ساری دنیا میں کوئی بھی عقلمند انسان اس کی اجازت نہیں دے گا، کوئی بھی حکومت اجازت نہیں دیگی۔ وہ اپنے سائنسدانوں کو پوشیدہ رکھتے ہیں، ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں ہو پاتا۔ یہ ڈھیٹ اور پست دشمن یہ توقع کر رہا ہے کہ اسے اجازت مل جائے گی، اس کے لئے راستے کھل جائیں گے، وہ آئے گا اور ہمارے سائنسدانوں سے، ہمارے اساتذہ سے، ہمارے محققین سے، بات کرے گا۔ کس چیز کے بارے میں؟ ملک کے اندر مقامی طور پر ہونے والی کسی اہم پیشرفت کے بارے میں۔ یہ اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ یہ بات دشمن بھی سن لیں اور وہ لوگ بھی سن لیں جو یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بارے میں کیا فیصلہ کرے گا۔
ہمارے عزیز حکام جو پوری شجاعت کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، وہ بھی یاد رکھیں کہ پست دشمن کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ پختہ عزم اور عدم پسپائی ہے۔ انھیں چاہئے کہ مذاکرات میں ملت ایران کی عظمت اور ملت ایران کے پیغام کی ترجمانی کریں۔ ہم سب کے سب جس عہدے پر اور جس مقام پر بھی ہیں، اسلامی انقلاب کی برکت سے ہمیں یہ عہدہ حاصل کرنے کی توفیق ملی ہے۔ آپ نوجوان طالب اور بلند آرزوئیں رکھنے والے نوجوان ہیں، مختلف شعبوں میں آپ کے پیشروؤں کو یہ افتخار حاصل رہا کہ اسلامی نظام کے لئے اور اعلی اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے محنت کریں، خدمات انجام دیں۔ ہم سب خدمت گار ہیں۔ یہ حقیر بھی آپ کا خادم ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ دشمن کی منہ زوری کے سامنے، دشمن کی پست حرکتوں کے سامنے، دشمن کے بیجا مطالبات کے سامنے اور دشمن کی سازشوں کے سامنے پوری توانائی اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہیں۔
مجھے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ ہمارے دشمن، خلیج فارس کے علاقے کے بعض احمق حکام، سارے حکام نہیں، ان میں سے صرف چند کے ساتھ مل کر نیابتی جنگ ایران کی سرحدوں تک لانا چاہتے ہیں۔ پاسداران انقلاب فورس اور قومی سلامتی کی حفاظت پر مامور مختلف ادارے پوری طرح بیدار اور ہوشیار ہیں۔ یہ بات سب جان لیں کہ اگر کوئی فتنہ انگیزی ہوئی تو اسلامی جمہوریہ کا جواب بہت سخت ہوگا۔
یہ روشن راستہ ہے، یہ کھلا ہوا وسیع راستہ ہے، ملت ایران کے سامنے یہ تابناک افق ہے۔ ملت ایران بحمد اللہ بھرپور جذبہ امید کے ساتھ یہ راستہ طے کر رہی ہے۔ البتہ اعلی اہداف تک رسائی کے سفر میں تھکان بھی ہوتی ہے، مشکلات بھی پیش آتی ہیں اور قیمت بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ تاریخ میں جن انسانوں کو با صلاحیت اور بالیاقت قرار دیا گيا ہے، جن قوموں کو تاریخ سے لیاقت و اہلیت کی سند ملی ہے، وہ ایسے لوگ اور ایسی قومیں ہیں جنھیں مشکلات تھکا نہیں پائیں، جنھیں مسائل جھکا نہیں سکے، جنھوں نے منہ زور دشمنوں کے سامنے اپنے پاؤں پیچھے نہیں کھینچے۔ جنھوں نے ہر طرح کی جارحیت و تجاوز کے سامنے، زبانی جارحیت، عملی جارحیت، سافٹ اور ہارڈ جارحیت کے سامنے قومی عزم و ارادے کے ذریعے محکم حفاظتی دیوار کھڑی کر دی۔ ملت ایران ایسی ہی قوموں کے زمرے میں آتی ہے۔ 35 سال سے ایرانی قوم اسی راستے پر گامزن ہے۔ آج آپ عزیز نوجوان، اس باغ کے تازہ ثمر ہیں۔ آپ حضرات، اسی طرح ملک بھر میں مصروف کار نوجوان جو محنت کر رہے ہیں، کسی کام میں لگے ہوئے ہیں یا زیر تعلیم ہیں، اس سنگین ذمہ داری کو اپنے دوش پر اٹھائیں اور اس امانت کو ہم سے زیادہ بہتر انداز میں، اپنے سے قبل والی نسل سے زیادہ بہتر طریقے سے بلندیوں کی طرف لے جائیں۔ نوجوان ہمارے عزیز اور عظیم شہیدوں کو بارگاہ خداوندی میں اور عالم ملکوت میں سرخرو کریں۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمارے گراں قدر شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اور ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرما۔ پروردگارا! ان نوجوانوں کے قلوب اور پاکیزہ انسانوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ پالنے والے! شعبان کے اس مہینے میں اور رمضان کے مہینے میں ان نوجوانوں کو روز افزوں بندگی کی توفیق اور اپنا تقرب عطا فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری اور امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی کے سربراہ ایڈمرل مرتضی صفاری نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) اسلامی کانفرنس تنظیم او آئی سی جو اب اسلامی تعاون تنظیم کہلاتی ہے اس کا سربراہی اجلاس 9 الی 11 دسمبر 1997 کو تہران میں منعقد ہوا جس میں 55 سے زائد ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔
۳( ناوابستہ تحریک کا سولہواں سربراہی اجلاس 26 الی 31 اگست 2012 کو تہران میں منقعد ہوا جس میں بڑی تعداد میں ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔