اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں؛
ان دنوں ہماری یہ حالت تھی کہ ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ اس زمانے میں ہم تو تمام سرگرمیوں میں شریک تھے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہم انقلابی کونسل کے بھی رکن تھے لہذا دائمی طور پر ہر معاملے میں موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سب پر حیرانی کی کیفیت طاری تھی۔ میں ایک بات عرض کروں، اس پر شاید آپ کو بڑی حیرت ہوگی۔ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری) کا دن گزر جانے کے ایک عرصے بعد تک بارہا میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر خواب دیکھ رہا ہوں تو کسی صورت سے بیدار ہو جاؤں۔ یعنی اگر میں نیند میں یہ سنہری خواب دیکھ رہا ہوں تو اس خواب کا سلسلہ رکے۔ تو یہ معاملہ ہمارے لئے اس درجہ باعث حیرت تھا۔
سجدہ در راہ؛
اس لمحہ جب ریڈیو سے پہلی دفعہ نشر ہوا صدائے انقلاب اسلامی یا اسی سے مشابہ کوئی فقرہ، تو اس وقت میں ایک کارخانے کا دورہ کرکے گاڑی سے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اقامت گاہ کی جانب جا رہا تھا۔ ایک کارخانہ تھا جہاں کچھ آشوب پسند عناصر نے جمع ہوکر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ وہ انقلاب کے اوج کا زمانہ تھا، میرے خیال میں اس وقت بختیار ملک کے اندر ہی موجود تھا۔ شاید چھے یا سات فروری تھی، ابھی مشکلات جوں کی توں باقی تھیں اور کوئی کام مکمل نہیں ہو پایا تھا، ان عناصر نے باج خواہی کی کوشش کی۔ ایک کارخانے میں جمع ہوکر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ ہم وہاں گئے کہ گفت و شنید کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ واپسی میں ریڈیو سے یہ فقرہ نشر
ہوا صدائے انقلاب اسلامی۔ میں نے وہیں گاڑی روکی اور نیچے اتر کر زمین پر سجدے میں گر گیا۔ یعنی یہ کامیابی ہمارے لئے اس درجہ ناقابل یقین اور ناقابل تصور تھی۔ اس وقت کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر تغیرات کا گویا ایک سمندر سموئے ہوئے تھا۔ میں اگر انقلاب کی فتح کے قبل و بعد کے بیس دنوں کی تمام یادیں بیان کرنا چاہوں تو ہرگز بیان نہیں کر پاؤں گا، ان چند دنوں کے دوران ہمارے ذہن اور ہماری زندگی میں جو کچھ گزر رہا تھا وہ قابل بیان نہیں ہے۔
امام خمینی کی آمد!
امام خمینی کی آمد والے دن، آپ کی آمد کے دن ہم یونیورسٹی سے جہاں ہم نے دھرنا دیا تھا، گاڑی میں جا رہے تھے آپ سے ملنے۔ یہ پورا ماجرا میں نے ایک دفعہ خود امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے بھی بیان کیا۔ سب مسرت میں ڈوبے ہوئے تھے، شادماں تھے۔ مجھے یہ تشویش
تھی کہ امام خمینی کے لئے کوئی ناگوار واقعہ نہ ہو جائے، اسی خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل رہے تھے، معلوم نہیں تھا کہ امام خمینی کے ساتھ کیا واقعہ ہو سکتا ہے! کیونکہ کچھ خطرات تو تھے ہی۔ ہم ایئرپورٹ پہنچے اور پھر ان تمام مراحل کے بعد امام خمینی نے سرزمین وطن پر قدم رکھے۔ امام خمینی کے چہرے پر سکون و طمانیت دیکھ کر ساری تشویش اور سارا اضطراب ختم ہو گیا۔ امام خمینی نے اپنے اس پرسکون چہرے سے میری اور مجھ جیسے بہتوں کی ہر تشویش اور اندیشے کو دور کر دیا۔ برسوں کی طویل مدت کے بعد امام کو دیکھا تو اب تک کی ساری سختیاں اور جدوجہد کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ آپ کو دیکھ ایسا محسوس ہو رہا
تھا کہ ساری آرزوئیں اور ساری تمنائیں آپ کی صورت میں مجسم ہو گئی ہیں اور تمام آرزوئیں مقتدرانہ انداز میں پوری ہوئی ہیں۔ جب ہم ایئرپورٹ سے شہر کے اندر پہنچے اور اس درمیان جو کچھ ہوا اس کے آپ سب گواہ ہیں، بحمد اللہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں وہ سارے مناظر نقش ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ امام خمینی شام کے وقت بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) سے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ نام بھی ذکر کر دوں کہ برادر عزیز جناب ناطق نوری صاحب امام خمینی کو اغوا کرکے ایک محفوظ مقام پر لے گئے، کیونکہ عقیدتمندوں اور عشاق کا ایک بیکراں سمندر تھا جو امام خمینی کے ارد گرد متلاطم تھا۔ امام خمینی گزشتہ شب پیرس سے روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد پورے دن آپ نے بالکل آرام نہیں فرمایا تھا۔ لہذا ضرورت تھی کہ امام خمینی کو کچھ استراحت کا موقع ملے۔
امام خمینی مدرسہ رفاہ میں؛
ہم لوگ مدرسہ رفاہ گئے تھے جہاں ہمارے کام انجام پاتے تھے۔ امام خمینی کی تشریف آوری سے قبل ہم سب وہاں اپنے برادران گرامی کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور امام خمینی کے قیام اور آپ کی آمد کے بعد کے ضروری انتظامات کے بارے میں ہماری کچھ گفتگو بھی ہوئی تھی اور ایک پروگرام ترتیب دیا جا چکا تھا۔
ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں کچھ خبریں وغیرہ شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اسی مدرسہ رفاہ سے نکلا کرتا تھا۔ اس کے کچھ شمارے شائع ہوئے۔ البتہ ہڑتال کے زمانے میں ہم نے وہاں سے بھی ایک رسالہ نکالا اور اس کے بھی دو
تین شمارے شائع ہوئے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہم سب وہاں جمع تھے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ گزار رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امام خمینی کسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جہاں آپ تھوڑا آرام کریں گے۔ غالبا آپ نے ظہرین کی نماز نہیں پڑھی تھی اور غروب کا وقت ہونے والا تھا۔ لہذا آپ نماز وغیرہ سے فارغ ہونا چاہتے تھے۔ اندھیرا ہو گیا اور رات گزرنے لگی، میں آنے والے دن کے لئے رسالے کی خبریں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔ رات کے تقریبا دس بجے ہوں گے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ مدرسہ رفاہ کے داخلی صحن میں کہ جس کا ایک دروازہ بغل والی گلی میں کھلتا تھا، کچھ لوگوں کے بات چیت کرنے کی آواز آ رہی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میری نظر امام خمینی پر پڑی۔ آپ اکیلے دروازے سے اندر داخل ہوئے، آپ کے ہمراہ کوئی بھی نہیں تھا۔ محافظین، یعنی ہمارے یہی برادران عزیز جو اس وقت محافظت کے کام پر مامور تھے، انہوں نے امام خمینی کو اچانک اپنے سامنے پایا تو سب بوکھلا گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا
تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ سب نے امام خمینی کا حلقہ کر لیا۔ امام خمینی نے دن بھر کی تھکن کے باوجود سب سے، بڑی خوشروئی اور خندہ پیشانی سے گفتگو کی۔ سب آپ کے ہاتھوں کے بوسے لے رہے تھے۔ کل دس پندرہ لوگ رہے ہوں گے۔ اسی عالم میں صحن سے گزر کر سب زینے کے قریب پہنچے جو پہلی منزل پر جاتا تھا۔ یہ زینے اسی کمرے کے پہلو میں تھے جس میں میں موجود تھا۔ میں کمرے سے نکل کر ہال میں آ گیا کہ امام خمینی کو قریب سے دیکھ سکوں۔ امام خمینی ہال میں داخل ہوئے، وہاں کچھ بچے بھی تھے سب امام خمینی کی طرف دوڑے انہیں گھیر لیا اور ہاتھوں کے بوسے لینے لگے۔
میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ امام خمینی کے ہاتھ چوموں لیکن میں نے سوچا آپ تھکے ہوئے ہیں، اس تھکن میں مجھے اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لئے لاکھ دل چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنے جذبات کو دبایا اور کنارے کھڑا ہو گیا۔ امام خمینی دو میٹر کے فاصلے سے میرے سامنے سے گزرے۔
میں قریب نہیں گیا، کیونکہ آپ کے ارد گرد لوگ جمع تھے اور میں اس ازدہام میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی خیال ایئرپورٹ پر بھی میرے ذہن میں تھا۔ ایئرپورٹ پر سب امام خمینی کی طرف جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھ رہے تھے، دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا کہ دوڑ پڑوں لیکن میں نے اپنے آپ کو روکا، میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی یہی بات سمجھائی۔
امام خمینی اندر آئے اور زینوں سے اوپر تشریف لے گئے، اسی اثنا میں زینے کے نیچے چالیس پچاس لوگ جمع ہو گئے تھے۔ امام خمینی زینے طے کر چکے تھے، اچانک آپ پلٹے اور زینے پر جمع لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، ان افراد میں سے کسی صاحب نے خیر مقدم کے چند جملے کہے۔ اس کے بعد امام خمینی نے مختصر گفتگو کی اور اوپر تشریف لے گئے اس کمرے میں جو آپ کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک ایک لمحہ بڑے یادگار انداز میں گزرا۔
عشرہ فجر کی مناسبت سے ہفتہ وار میگزین کے لئے دئے گئے انٹرویو کے اقتباسات؛ 24/10/1362ہجری شمسی مطابق 14/1/1984 عیسوی