قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ سال فلسطینی تنظیموں کے نمائندوں سے اپنی ملاقات میں علاقے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق تغیرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے جو حقائق مقدر کر دئے ہیں ان کی بنیاد پر نیا مشرق وسطی معرض وجود میں آئے گا اور یہ مشرق وسطی اسلام کا مشرق وسطی ہوگا۔
اس وقت مصر میں جاری تبدیلیوں کے مد نظر ہم قائد انقلاب اسلامی کے مختلف بیانات کے اقتباسات کی روشنی میں اسلامی ممالک کی تبدیلیوں کا جائزہ لیں گے۔
اس خصوصی مضمون کے پہلے حصے میں مصر کے عوام اور حکومت کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی کے مختلف مواقع کے بیانات کے اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں؛
 

مصری قوم اپنے حکام کی خیانتوں کو برداشت نہیں کرے گی
امریکا بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔ امریکا عرب حکومتوں کو شرمناک مذاکرات کے لئے ایک میز پر جمع کرکے در حقیقت ان حکومتوں کو جو ان مذاکرات میں شریک ہوئی ہیں ان کے عوام کی نظروں میں اور بھی نفرت انگیز بنا رہا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ عرب ملکوں کے عوام اپنے حکام کو یہ اجازت دے دیں کہ وہ فلسطینی قوم کا گھر دوسروں کو بیچ دیں؟ اگر (معاہدے پر) دستخط ہوئے تو ان حکام کا ان کی قوموں سے فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے گا۔ یہ حرکت ان کی قوموں کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔ مصری قوم کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔ وہ لاچار مصری اٹھتا ہے اور کاسہ گدائی ہاتھ میں لئے امریکا پہنچ جاتا ہے تاکہ ایران کی شکایت کرے! اس بیچارے کے پاس جاکر شکایت کر رہا ہے جو خود ایران سے پہلے ہی بہت چراغ پا ہے!
تم ایران کی کیا شکایت کر رہے ہو؟ جاؤ اسلام کی شکایت کر دو! اپنی مسلمان قوم کی شکایت کر دو! اسے اگر کسی کی شکایت کرنی ہے تو جاکر مصری قوم کی شکایت کر دے کیونکہ مصر کی قوم مسلمان قوم ہے، ملت مصر کا ماضی اسلامی ماضی ہے، ملت مصر اسلامی افکار اور اسلامی جد و جہد کے سلسلے میں درخشاں کارکردگی کی مالک ہے۔ یہ قوم غیور قوم ہے۔ یہ طے ہے کہ یہ قوم اپنے حکام کی خیانت کو برداشت نہیں کرے گی، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔
مصری عوام کی مزاحمت کا ہم سے کیا رابطہ ہے؟ (یہ رابطہ ہے کہ) مسلمان اگر کہیں بھی بیدار ہوتے ہیں تو ہم کو خوشی ہوتی ہے، اگر کہیں بھی مسلمان اپنے دین کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جاتے ہیں تو ہمیں اس پر خوشی ہوتی ہے۔ اگر کہیں مسلمانوں پر افتاد پڑتی ہے تو ہم غمگین ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم خود میدان میں اتریں اور مصری قوم کو اس کے فرائض سے آگاہ کریں، یہ قوم خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے، اسے معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور اس نے صحیح ادراک کیا ہے۔ مصری قوم نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ مصری نوجوانوں نے صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انہیں اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے جو اسلامی امنگوں کے سلسلے میں، فلسطین کی امنگوں کے سلسلے میں اسلامی ممالک کی سرنوشت کے سلسلے میں خیانت کر رہی ہے۔ یہ ہم نے نہیں سمجھایا ہے، اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے۔ ان (مصری حکام) کی غلطی یہ ہے کہ اسلام کی طاقت اور تاثیر سے بے خبر ہیں۔

28/4/1993 کو ادارہ حج و زیارات کے عہدہ داروں سے خطاب کا ایک اقتباس

مسلمان تنہائی اور گوشہ نشینی میں تھے
افریقہ میں، ایشیا اور مشرق وسطی میں کتنے اسلامی ممالک ہیں جن میں ایک حکومت گئی اور دوسری آئی لیکن مسلمان تنہائی اور گوشہ نشینی میں رہے۔ مثال کے طور پر عراق ہے جہاں سلطنتی نظام تھا۔ ایک شاہی حکومت ختم ہوئی دوسری شاہی حکومت آ گئی۔ وہ بھی ختم ہوئی اور دوسرے لوگ اقتدار میں آ گئے۔ یہ لوگ گئے تو کچھ اور لوگ آ گئے، وہ بھی گئے اور پھر دوسرے لوگ آئے۔ یہاں تک کہ بعثیوں کی باری آ گئی۔ ان تمام تبدیلیوں میں جن کا کوئی عمل دخل نہیں رہا وہ مسلمان عوام تھے۔ عراق کی اکثریت مسلمان ہے لیکن ان تبدیلیوں میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں آتا۔ یا آپ مصر کی مثال لے لیجئے البتہ وہاں اخوان المسلمین نام کی تنظیم سرگرم عمل ہے۔ اس ملک میں تبدیلی آئی، شاہی حکومت ختم ہوئی، شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد انقلابی جمہوری حکومت قائم ہوئی جس کی نمایاں ترین شخصیت عبد الناصر تھے۔ عبد الناصر کے انتقال کے بعد کوئی دوسرا اقتدار میں آیا۔ وہ گیا تو ایک اور آیا۔ اس پورے عرصے میں البتہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل تک تمام تبدیلیاں اسلامی تحریک اور اسلام نواز افراد کے بغیر کسی کردار کے عمل میں آتی رہیں۔ اسلام نوازوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ مصر کے پہلے انقلاب میں اسلام نواز عناصر کا اہم کردار رہا لیکن جیسے ہی نئی حکومت تشکیل پائی انہیں حاشیئے پر ڈال دیا گيا۔ بعض کو جیل میں ڈال دیا گیا، بعض کو ہلاک کر دیا گيا، بعض کو سیاسی میدان سے باہر کر دیا گيا۔ تو یہاں بھی اسلام نواز حلقوں کا کوئی رول نہیں رہا۔

3/2/1995 کے خطبہ نماز جمعہ کا ایک اقتباس

ملت ایران جیسا نعرہ
مصر میں کچھ مسلم نوجوان، مسلمانوں کی ایک تعداد اٹھ کر اسلامی نعرے بلند کرتی ہے جبکہ عام طور پر رابطے کی جو صورت ہوتی ہے وہ ان میں اور ہمارے عوام میں نہیں ہے۔ لیکن ان کے نعرے ہمارے نعروں سے اتنے مماثل اور قریب ہیں کہ ان کا بد بخت و روسیاہ صدر کہتا ہے کہ ان لوگوں کو ایران کی جانب سے شہ مل رہی ہے! ہمارا ان سے کون سا رابطہ ہے؟! وہ خود بھی مسلمان ہیں، قرآنی نعرے بلند کر رہے ہیں، انہیں خود محسوس ہو رہا ہے کہ راہ خدا میں آواز بلند کرنی چاہئے، اقدام کرنا چاہئے، ویسے ہی جیسے ملت ایران نے (شاہ کے) طاغوتی دور میں امریکا اور عالمی استکبار و استبداد کے خلاف آواز بلند کی تھی اور آج تک اس کی یہ آواز بلند ہے۔

18/11/1992 کو ملک گیر عوامی رضاکار فورس کے کمانڈروں سے خطاب کا اقتباس

سامراج کی نظر میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
وہ تو بذات خود اسلام کا دشمن ہے۔ اس کے اس عناد میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ فلسطین اور مصر میں سنی انقلابیوں کی سامراج کس طرح سرکوبی کر رہا ہے۔ یہ تو شیعہ اثنا عشری نہیں ہیں۔ یہ سب ہمارے برادران اہل سنت ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کس طرح کچلا جا رہا ہے۔ استکبار کی نظر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ تو اسلام، مسلم عوام، ملت اسلام کا دشمن ہے۔ لیکن وہ کسی ایک فرقے کے موقف کو اپنا کر دوسرے فرقے کے خلاف کارروائی کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔

26/12/1989 کو علمائے کرام سے قائد انقلاب کے خطاب کا اقتباس

مصر میں مسلم گروہوں کی سرکوبی
مسلم گروہ جو اسلام کے دفاع میں آواز بلند کرتے ہیں، ان ملکوں کے حکام کے ہاتھوں بڑی آسانی سے ایذارسانی کا نشانہ بن رہے ہیں اور عالمی طاقتیں بھی ان حکام کی حمایت کرتی ہیں۔ مصر میں آج یہی ہو رہا ہے اور دنیا کے بہت سے دیگر ممالک میں بھی یہی مناظر نظروں کے سامنے ہیں۔

15-11-1989 کو جنگی معذوروں اور شہداء کے اہل خانہ سے خطاب کا اقتباس

مصر کی پٹھو حکومت اور امریکا کی حمایت
مصر میں مسلمانوں کی انتہائی روشن فکر نسل پر اس ملک کی نااہل اور بد عنوان حکومت شکنجہ کسے ہوئے ہیں اور اس بڑے ملک کی پٹھو حکومت کی امریکا حوصلہ افزائی اور مالی و فوجی مدد کر رہا ہے۔

18/5/1993 کو حجاج کرام کے نام قائد انقلاب اسلامی کے پیغام کا ایک اقتباس

مصری عوام محب اہل بیت رسول ہیں
آج مصر میں مسجد راس الحسین میں، جس کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ وہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک دفن ہے، مصر کے محبین اہل بیت کا مجمع رہتا ہے۔ مصری قوم بہت اچھی قوم ہے۔ ہمیں اس ملک کی حکومت سے کوئی مطلب نہیں لیکن یہاں کے عوام محب اہل بیت ہیں۔

16/6/1993 عیسوی کو علماء دینی طلبہ سے خطاب کا ایک اقتباس