علاقے کی بیدار اقوام کی انقلابی تحریکوں کے پیش نظر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای کی سائٹ www.khamenei.ir نے اسلامی بیداری کے عنوان سے ایک خصوصی صفحہ تیار کیا ہے۔ مندرجہ ذیل عبارت در حقیقت حالیہ برسوں میں عرب حکام اور حکومتوں کو قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے دئے جانے والے انتباہات کے اقتباسات کا مجموعہ ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ہے۔
صدام کے انجام سے عبرت لینا چاہئے!
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
12/2/1387 ہجری شمسی مطابق 1/5/2008 عیسوی
رسول خدا کو آپ کیا منہ دکھائیں گے؟!
اس ہولناک المئے کا درد ہر مسلمان بلکہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہنے والے با ضمیر انسان کے لئے بہت گراں اور بھیانک ہے لیکن اس سے بھی زیادہ غم کی بات مسلمان ہونے کی دعویدار بعض عرب حکومتوں کا (صیہونیوں کی) حوصلہ افزائی کرنے والا سکوت ہے۔ اس سے بڑا کیا المیہ ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان حکومتیں جنہیں غاصب اور کافر حربی صیہونی حکومت کے مقابلے میں غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنی چاہئے، ایسی روش اختیار کئے ہوئے ہیں کہ مجرم صیہونی حکام گستاخانہ انداز میں انہیں بھی اس بھیانک المئے کی حامی اور اس سے متفق قرار دے رہے ہیں؟
ان ممالک کے حکام رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ اپنی قوموں کو جو یقینی طور پر اس المئے سے غمزدہ ہیں کیا جواب دیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل محاصرے اور نتیجے میں غذائی اشیاء اور دواؤں کی شدید قلت کے بعد اس قتل عام پر مصر، اردن اور دیگر مسلم ممالک کے عوام کے دل خون ہیں۔
غزہ کے عوام کے قتل عام پر قائد انقلاب کے پیغام کا اقتباس 8/10/87 ہجری شمسی مطابق 28/12/2008 عیسوی
خائن و غدار عرب حکام کا انجام
عرب غداروں کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ ان کا انجام بھی جنگ خندق کے یہودیوں سے زیادہ بہتر نہيں ہوگا کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے وانزل الذین ظاھروھم من اھل الکتاب ومن صیاصیھم اور اس نے کفارکی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے نیچے گھسیٹ لیاـ قومیں غزہ کے عوام اور جانبازوں کے ساتھ ہيں۔ جو بھی حکومت اس کے برخلاف قدم اٹھائے گی وہ اپنے عوام سے دور ہوتی چلی جائے گی اور اس طرح کی حکومتوں کا انجام واضح ہے۔ وہ بھی اگر اپنی حیات اور آبرو کی فکر میں ہيں تو انھیں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے اس فرمان کو یاد کرنا چاہئے جس میں آپ نے فرمایا تھا الموت فی حیاتکم مقھورین والحیاۃ فی موتکم قاہرین
حماس کی منتخب حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے نام پیغام کا ایک اقتباس 27/10/87 ہجری شمسی مطابق 16/1/2009
ذلیل و خوار، اغیار کی پٹھو اور تابعدار حکومتوں کا عبرت ناک انجام
اس وقت عالم اسلام میں کوئی بھی شخص اگر مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور مقامی مسئلہ تصور کرتا ہے تو وہ در حقیقت اسی خواب غفلت کا شکار ہے جس نے قوموں کی درگت بنا ڈالی۔ غزہ کا مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، یہ پورے علاقے کا مسئلہ ہے۔ سر دست اس مقام پر حملہ کیا گيا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اگر دشمن کو اس جگہ کامیابی مل گئی تو وہ علاقے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا۔ اس علاقے کے اطراف میں واقع مسلم ممالک کی حکومتیں جو مدد کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود مدد نہیں کر رہی ہیں حالانکہ یہ ان کا فرض ہے، وہ غلطی کر رہی ہیں، بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل کی جڑیں جیسے جیسے مضبوط ہوں گی خطے پر سامراج کا تسلط بڑھتا جائے گا اور ان حکومتوں کی کمزوری اور بد بختی میں بھی اضافہ ہوتا جائےگا۔ وہ سمجھ کیوں نہیں رہی ہیں؟ یہ حکومتیں اپنے ساتھ قوموں کو بھی ذلت و رسوائی کی جانب گھسیٹ رہی ہیں۔ ذلیل و حقیر و دوسروں پر منحصر حکومت اپنی قوم کو بھی ذلیل و تابع و حقیر بنا دیتی ہے۔ لہذا قوموں کو ہوش میں آ جانا چاہئے۔
مقدس شہر قم کے لوگوں سے خطاب کا ایک اقتباس 19/10/87 ہجری شمسی مطابق 8/1/2009 عیسوی
امتحان کے وقت عرب حکومتوں کی انتہائی ناقص کارکردگی
فلسطین کے سلسلے میں تمام حکومتوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ خواہ وہ مسلمان حکومتیں ہوں یا غیر مسلم حکومتیں۔ جو حکومت بھی انسانیت کی پاسبانی کی دعویدار ہے اس پر ذمہ داری ہے۔ تاہم مسلمانوں کی ذمہ داریاں زیادہ سنگین ہیں۔ اسلامی حکومتوں کا فریضہ ہے اور انہیں اپنا یہ فریضہ پورا کرنا چاہئے۔ جو حکومت بھی فلسطین کے سلسلے میں اپنے فریضے پر عمل نہیں کرے گی نقصان اٹھائے گی کیونکہ قومیں بیدار ہو چکی ہیں اور حکومتوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ حکومتیں اس سلسلے میں مطالبات کو تسلیم کرنے اور کام کرنے پر مجبور ہیں۔
بہت سی عرب حکومتوں نے غزہ کے مسئلے میں اور اس سے قبل دیگر مسائل میں انتہائی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات ہوئی انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ عربوں کا مسئلہ ہے! لیکن جب عمل کرنے کا موقع آیا تو مسئلہ فلسطین ان کے ایجنڈے سے یکسر غائب ہی ہو گیا۔ انہوں نے فلسطین اور فلسطینیوں کی مدد کرنے کے بجائے، اپنے عرب بھائیوں کا ہاتھ تھامنے کے بجائے کنارہ کشی کر لی۔ اگر اسلام پر ان کا عقیدہ نہیں ہے تو عرب قومیت کا ہی کچھ پاس و لحاظ کرتیں! انہوں نے بڑی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاریخ میں ان کا یہ عمل یاد رکھا جائے گا۔ سزا و جزا صرف آخرت سے مختص نہیں ہے۔ اسی دنیا میں بھی سزا و جزا ملتی ہے۔ اسی طرح آپ کے سلسلے میں نصرت الہی بھی صرف آخرت سے مختص نہیں ہے۔
عرب حکومتوں کا سخت امتحان
عرب حکومتوں کے سامنے بڑے سخت امتحان کی گھڑی ہے۔ بیدار عرب قومیں ان سے ٹھوس اور پرعزم اقدام کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کو غزہ کی ناکہ بندی کے مکمل خاتمے، غرب اردن کےعلاقے میں فلسطینیوں کے مکانات اور زمینوں پر جارحانہ کارروائی کی بندش اور نیتن یاہو اور ایہود باراک جیسے مجرموں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہونا چاہئے۔
غزہ کے ساحلی علاقوں میں صیہونی حکومت کے بھیانک جرائم کے بعد قائد انقلاب کے پیغام کا ایک اقتباس 11/3/89 ہجری شمسی مطابق 1/6/2010
امریکیوں کے دروازے آپ کے لئے بند ہیں!
امریکیوں نے اس غلامی کا صلہ بھی نہيں دیا۔ آج بھی اسے کوئي صلہ نہيں ملے گا۔ آج بھی وہ جیسے ہی مصر سے بھاگےگا، اسے یقین رکھنا چاہئے کہ سب سے پہلے اس کے لئے جو دروازہ بند ہوگا وہ امریکہ کا دروازہ ہوگا۔ وہ اسے گھسنے نہيں دیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے بن علی کو اپنے یہاں گھسنے نہيں دیا جیسا کہ محمد رضا کو اپنے ملک میں گھسنے نہيں دیا۔ یہ لوگ ایسے ہيں۔ جن لوگوں کا امریکہ سے دوستی اور اس کی تقلید کا بہت شوق ہے انہيں ان مثالوں کو دیکھنا چاہئے۔ یہ لوگ شیطانوں کی طرح ہيں۔ صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا میں آیا ہے کہ جب شیطان مجھے بہکا لے جاتا ہے تو پھر دوسری طرف دیکھنے لگتا ہے، وہ مجھے پر ہنستا ہے، مجھ سے منہ پھیر لیتا ہے، توجہ نہيں دیتا۔ یہ لوگ اس طرح کے ہیں۔ امریکی، اس طرح پست اور کمزور لوگوں کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہيں۔
تہران کی نماز جمعہ کے خطبوں کا ایک اقتباس 15/11/89 ہجری شمسی مطابق 4/2/2011 عیسوی
ایک خاص مدت تک استعمال میں آنے والے آمروں کا انجام
ان ملکوں اور دیگر ممالک کے سلسلے میں امریکہ ڈکٹیٹروں کی حمایت و پشت پناہی کرتا دکھائی دیا ہے۔ آخری لمحے تک جتنا ممکن تھا انہوں نے حسنی مبارک کی حمایت کی۔ جب دیکھا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا تو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ یہ امریکہ کی غلامی کرنے والے حاکموں کے لئے درس عبرت ہے کہ جب ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے اور ان کے استعمال کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو یہ مغربی ممالک انہیں کسی بوسیدہ کپڑے کی طرح دور پھینک دیتے ہیں اور پھر انہیں مڑکر دیکھتے بھی نہیں! انہوں نے جب تک ممکن تھا ڈکٹیٹر کی حمایت کی۔
فرزند رسول حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے روضہ اقدس میں خطاب کا ایک اقتباس 1390/1/1 ہجری شمسی مطابق 21/3/2011 عیسوی
سعودی عرب کی غلطی علاقے کے عوام کو متنفر کر دےگی
ہماری نظر میں سعودی عرب کی حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے، اسے یہ کام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس طرح علاقے میں وہ خود کو قابل نفرت بنا رہی ہے۔ امریکہ تو یہاں سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر اس علاقے میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات پائے جائیں تو یہ امریکیوں کے لئے اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن سعودی عرب تو اسی علاقے میں آباد ہے۔ اگر قومیں اس سے نفرت کرنے لگیں، وہ قوموں کی نگاہ میں منفور ہو تو یہ اس کے لئے بہت بڑا خسارہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بہت غلط قدم اٹھایا ہے۔ دوسرا بھی کوئی اگر یہ کام کرتا ہے تو بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوگا۔
فرزند رسول حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے روضہ اقدس میں خطاب کا ایک اقتباس 1390/1/1 ہجری شمسی مطابق 21/3/2011 عیسوی
وحشیانہ اقدامات سے آپ عوام کی نفرت اور بڑھا رہے ہیں
ہم نے اپنا موقف صریحی طور پر بیان کر دیا اور ہم دنیا کی بوسیدہ طاقتوں کی برہمی سے ذرہ برابر نہیں گھبرائے، ہم نے کوئی خیال نہیں رکھا اور ہم آئندہ بھی کسی کی برہمی کا خیال نہیں رکھیں گے۔ ہم حق بات کو اور حق بجانب موقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ بحرین کے عوام کو پورا حق ہے۔ وہ اعتراض کر رہے ہیں اور ان کا اعتراض بالکل بجا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی صاحب فکر کے سامنے اس مسئلے کے رکھئے، ان کی صورت حال کو بیان کیجئے، ان مظلوم عوام پر جس انداز سے حکمرانی کی جا رہی ہے اس کو بھی بتائیے، حکام نے اس چھوٹے سے ملک کو استعمال کرنے کے لئے جیسے جیسے کام کئے ہیں ان کی تشریح کیجئے پھر آپ دیکھئے کہ وہ شخص حاکم کی مذمت کرتا ہے یا نہیں؟ عوام سے لڑ رہے ہیں، یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ سختیاں کر لیں، وحشی پنے کے اقدامات انجام دیں، چند روز تک آپ دہکتے شعلے کو دبائے رکھیں لیکن یہ شعلہ خاموش ہونے والا نہیں ہے۔ اس سے عوام کا غیظ و غضب روز بروز اور شعلہ ور ہوگا۔ اچانک سارے معاملات آپ کے ہاتھ سے اس طرح نکل جائیں گے کہ پھر کسی رفوگری کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ جو لوگ باہر سے فوجیں بحرین بھیج رہے ہیں وہ بھی بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ ان اقدامات سے کسی قوم کی تحریک کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
صوبہ فارس کے عوام سے خطاب کا اقتباس 3/2/90 ہجری شمسی مطابق 20/4/2011