ہمارے ایک امام کو پچیس سال کے سن میں کیوں شہید کر دیا گیا؟ وقت کی ظالم حکومت اہل بیت پیغمبر کی اس عظیم ہستی ‏کو اس سے زیادہ برداشت کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئی؟ اس سوال کا جواب امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت اور زندگی ‏سے ہمیں ملتا ہے۔ وہ باطل کے خلاف جنگ کا آئینہ تھے، وہ حکومت الہی کے قیام کے داعی تھے، وہ خدا و قرآن کے لئے ‏محو پیکار رہتے تھے، وہ دنیاوی طاقتوں سے ہرگز ہراساں نہیں ہوتے تھے۔ ‏

‏8 ستمبر 1983‏

امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی نمونہ عمل ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت بے پناہ عظمتوں کی حامل تھی مگر ‏وہ پچیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ہم نہیں کہتے،غیر شیعہ مورخین نے بھی لکھا ہے کہ یہ عظیم ‏ہستی اپنی نوجوانی اور بچپن کے ایام میں ہی (خلیفہ وقت) مامون اور دنیا کی نظر میں خاص مرتبہ حاصل کر چکی تھی۔ یہ ‏بڑی اہم چیزیں ہیں۔ یہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔

‏ ‏27 اپریل 1998‏

اللہ کے اس صالح بندے کی مختصر سی زندگی کفر و طغیان سے جنگ میں گزر گئی۔ نوجوانی کے ایام میں آپ منصب امامت ‏پر فائز ہوئے۔ بہت کم مدت میں آپ نے دشمن خدا سے موثر انداز میں جہاد کیا۔ ابھی محض پچیس سال کا آپ کا سن تھا کہ ‏دشمنان خدا کو یقین ہو گیا کہ وہ اس وجود کو اب اور برداشت نہیں کر سکتے، چنانچہ زہر دیکر آپ کو شہید کر دیا گیا۔ ‏ہمارے سارے اماموں نے اپنے جہاد سے اسلام کی مایہ ناز تاریخ کا ایک باب رقم کیا۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے بھی اسلام ‏کے ہمہ گیر جہاد کے ایک اہم پہلو کو عملی جامہ پہنایا اور ہمیں درس دیا۔ وہ درس یہ ہے کہ جب منافق و ریاکار طاقتیں مد ‏مقابل ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ان طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام الناس کی بصیرت و ادراک میں اضافہ کریں۔ اگر دشمن ‏کھل کر عناد کر رہا ہے، ریاکاری اور دکھاوا نہیں کر رہا ہے تو اس سے مقابلہ آسان ہوتا ہے لیکن جب مامون جیسا شخص ‏دشمنی پر تلا ہو جو اسلام کی حمایت اور اپنے تقدس کا دعویدار ہو تو عوام الناس کے لئے اس کی حقیقت کو سمجھ پانا مشکل ‏ہو جاتا ہے ۔ ‏ ‏

10 اکتوبر 1980‏