ملت اسلامیہ کا شفابخش نسخہ

’’اتحاد‘‘ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے نقطۂ نگاہ سے کوئی ٹیکٹک یا حکمت عملی نہیں بلکہ ایک اہم اسلامی اصول ہے، اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’اتحاد کو ایک ٹیکٹک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے؛ اتحاد ایک اسلامی اصول ہے‘‘۔ (1) ہبر معظم کا یہ بیان اتحاد اور اس کی دینی بنیاد کی حقیقت  بیان کرنے کے علاوہ اس طرح کے لوگوں کے نظریات کا جواب بھی ہے جو اتحاد کو صرف ایک ٹیکٹک یا حکمت عملی قرار دیتے ہیں ، لہذا آپ نے اتحاد کو دین مبین اسلام کے واجبات اور دینی ضروریات کے طور پر پیش کیا ہے، کہتے ہیں: (اسلامی مذاہب کو باہم قریب لانے والی تنظیم )’’تقریب کانفرنس‘‘ لازم و واجب اور ضروری ہے اور ہم اس کو اسلامی نظام کے مقاصد  کی راہ میں سمجھتے ہیں‘‘۔(2) اور ایک دوسری گفتگو میں وضاحت فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے درمیان اتحاد سیکڑوں دلیل کے تحت واجب اور سیکڑوں دلیل کے تحت ممکن ہے‘‘۔(3)  اور عالم اسلام کے دردوں  کے علاج کیلئے شفا بخش واحد نسخہ ہے‘‘۔(4)

اس موضوع کی ضرورت و اہمیت اور تقریب مذاہب اسلامی کے اہتمام کے ساتھ ہر جہت سے عالم اسلام کے مسائل پر اُن کے کامل احاطے کے سبب فرماتے ہیں: ’’مجھ بندے کی آرزو یہ ہے کہ میری حیات مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں صرف ہو؛ اور میری موت بھی مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں آئے‘‘۔(5) اتحاد کے موضوع کی اہمیت پر  توجہ دیتے ہوئے اس کا صحیح اور دینی تعلیمات کے مطابق مطلب بیان کرنا اور سطحی نگاہ سے دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہئے، بنابریں (اسلامی) اتحاد اور ’’تقریب (مذاہب اسلامی) کی اصطلاحوں سے صحیح مطلب نکالنا اسلامی مذاہب کی قربت کو آسان بنانے میں خاص کردار ادا کرسکتا ہے۔

 

اسلامی اتحاد کی اصل و حقیقت

رہبر انقلاب اسلامی نے اتحاد کے لئے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں منجملہ اُن کے’’ اتحاد یعنی دشمن سے مقابلہ اور آپس میں ہم دلی و یکجہتی‘‘ (6) ’’مشترکات پر اعتماد‘‘(7) ’’مسلمان فرقوں کا ایک دوسرے سے تعاون اور ان میں موجود اختلافی باتوں میں لڑنے جھگڑنے سے پرہیز‘‘(8) ’’برادری اور بھائی چارگی کا احساس ‘‘(9) ’’اپنے عقیدے کے اثبات سے انکار نہیں ، لڑائی جھگڑے سے انکار ‘‘(10)  اور ’’دشمن کے مقابلے میں سیاسی اور جذباتی وابستگی‘‘(11) کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اتحاد کےبارے میں  آپ کا فکری زاویۂ نگاہ، مکرر طور پر اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد پر عمل درآمد ضروری ہونے اور ہر طرح کا اختلاف اور تفرقہ آرائی ملت اسلامیہ کے لئے مہلک زہر ہونے کی تاکید پر استوار رہا ہے۔

منجملہ اُن ضرورتوں کے جو رہبر معظم کے ارشادات میں بیان ہوئی ہیں ان مقامات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے؛ اتحاد ’’ایک اسلامی اور قرآنی اصول ہے ‘‘(12)’’کلمنۂ اسلام  کی بلندی و سرافرازی کی اصل شرط ہے‘‘۔(13)’’ایک مقدس شرعی و عقلی فریضہ ہے‘‘،(14)’’تمام اچھے کاموں کیلئے  زمین فراہم کرتا ہے‘‘،(15)’’ملت اسلامیہ کی کامیابی اور اقتدار کا راز ہے‘‘،(16) اور ’’اسلام کا سب سے بڑا سیاسی پیغام ہے‘‘(17)

تمام نبیوں اور الہی رہنماؤں کا اصل مقصد، دینی حکومت کی تشکیل کے ذریعے لوگوں کو سعادت و کامرانی تک پہنچانا  رہاہے، اسلام وہ دین ہے کہ اس کے پیرو اگر اس کے احکام و فرامین پر متحد ہوجائیں اور ساختہ و پرداختہ دشمنی اور مقابلہ آرائی سے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بڑی طاقتوں کی تفرقہ انگیز سامراجی مشینریوں کی ایجاد کردہ ہیں خبردار رہیں تو وہ اتحاد کے پرچم تلے ایک امت اسلامیہ تشکیل دینے کے اہداف کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں، آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے متعدد مواقع پر اتحاد کے مقاصد اور فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے کہ منجملہ ان کے ’’ایک جدید اسلامی تہذیب کی تخلیق اور بنیاد رکھنے‘‘ (18)’’دشمن کے بچھائے ہوئے سیاسی اور اقتصادی جال سے نکل آنے‘‘(19)’’بڑی استکباری طاقتوں کے تسلط سے امت اسلامیہ کے نجات پانے‘‘(20)’’اسلام کی حکمرانی اور خدمت کی راہ میں اتحاد سے فائدہ اٹھانے‘‘(21)’’بڑی اسستکباری قوتوں کے مقابلے میں مسلمان قوموں اور حکومتوں کے کسی طرح دبنے اور مرعوب نہ ہونے‘‘،(22)’’ایک امت واحدہ تشکیل دینے‘‘(23)’’اسلامی اقدار و معیارات کے عالمی بنانے ‘‘(24)’’عالمی میدانوں میں مسلمانوں کے فعال کردار ادا کرنے‘‘(25)’’کامیابی کی سمت ملت اسلامیہ کے نقش آفریں قدم اٹھانے‘‘(26)’’اسلام اور ملت اسلامیہ کے مخالف مورچوں کے مقابل موثر عمل انجام دینے‘‘(27) کی مانند بہت سے دیگر اہداف کی تکمیل ممکن ہے کہ جن کی طرف رہبر معظم نے اپنے مختلف بیانات میں اشارہ کیا ہے۔

اتحاد مخالف درونی محرکات

اسلامی مذاہب کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنے والے بہت سے اسباب و محرکات، جن میں بعض محرکات درونی اور بعض دوسرے محرکات بیرونی عوامل سے متاثر ہیں، آج اسلامی مذاہب میں پھوٹ پڑنے کا سبب بن رہے ہیں  اور قوموں کی بیداری اور اسلامی حکومتوں کی خود اعتمادی کے ذریعے عالم اسلام میں فتنہ کی اس آگ کو شعلہ ور ہونے اور تفرقہ ایجاد کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی نظر میں تفرقہ ایجاد کرنے والا اہم ترین درونی محرک ، شیطان کی پیروی کرنا ہے‘‘،(28) عالم اسلام ایک خدا اور ایک پیغمبر ؐ کا پیرو اور ایک کتاب کا حامل ہے لیکن شیطان مسلمانوں کے قلوب و افکار میں اپنے وسوسوں کے ذریعے اتحاد آفریں ان ہی اسباب کو تفرقے کے اسباب میں تبدیل کردیتا ہے۔

جہالت اور غلط فہمی، اسلامی مذاہب کے اتحاد کو نقصان پہنچانے والا ایک اور محرک ہے جس پر رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا تاکید کی ہے، آپ فرماتے ہیں:’’ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ سنی اختلاف کا ہمیشہ سامراج سے تعلق رہا ہے، جی نہیں !یا خود مسلمانوں کےجذبات بھی اسمیں دخیل رہے ہیں کچھ جہالتیں کچھ تعصبات کچھ جذبات و احساسات اور کچھ غلط فہمیاں دخیل رہی ہیں، لیکن جس وقت سامراج نے مداخلت کی اس ہتھیار  سےزیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے‘‘(29) دینی تعلیمات کے حقائق سے جہالت سبب بنتی ہے کہ ایک سبق کی مختلف تفسیر یں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی بالکل مخالف تفسیریں پیش کی جائیں اور ان مختلف تفسیروں کی تحت ہی بعض سادہ اندیش افراد اپنے مخالف گروہ کی تکفیرشروع  کردیتے ہیں اور خود کو حق سمجھتے لیتے  ہیں ، یہی وہ منزل ہے تکفیر کے لئے زبان کھلتی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی اساس و بنیاد پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح غرور و تکبر اور خود کو بالاتر سمجھنا، قومی و مذہبی تعصبات، فرقہ واریت عالم اسلام میں بے پناہ جنگ افروزیوں کا سبب بنی ہے، دوسرے لفظوں میں مذہبی اعتقادات اور قومی رسم و رواج کی توہین، اسلامی معاشروں میں تفرقہ ایجاد کرنے کا ایک بنیادی محرک ہے، لہذا رہبر انقلاب اسلامی نے اس کو اسلامی نظام کیلئے سرخ نشان کے عنوان سے پہچنوایا اور تاکید کی ہے کہ: ’’سرخ نشان، اسلامی نظام کی نگاہ سے اور ہماری نگاہ سے ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرنے سے عبارت ہے، وہ لوگ جو انجانے میں، بے توجہی کے تحت اور بعض اوقات بے جا قسم کے اندھے مذہبی تعصبات کے تحت ،وہ چاہے سنی ہوں چاہے شیعہ ہوں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں، نہیں سمجھتے کیا کررہے ہیں دشمن کیلئے بہترین وسیلہ یہی سب ہیں،  دشمن کے ہاتھ میں بہترین ہتھیار یہی سب ہیں یہ سرخ نشان ہے‘‘۔(30)

اتحاد مخالف بیرونی محرکات

اتحاد کو توڑنے والے بہت سے بیرونی محرکات ہیں، ’’بڑی اور سامراجی طاقتیں تفرقہ  ایجاد کرنے، جاری رکھنے اور اس کو بڑھاوا دینےمیں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہیں‘‘(31) غیروں سے وابستہ بعض اسلامی حکومتیں اور حکام  جان بوجھ کر یا انجانے میں تفرقہ ایجاد کرنے اور اس مہلک زہر کے پھیلانے میں جو کردار ادا کرتی ہیں اس کو بھی اتحاد کے لئے بیرونی نقصانات میں شمار کیا جانا چاہئے، رہبر انقلاب اسلامی، اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ ’’اسلامی سرزمینوں کا ایک  حصہ شرک و کفر و استکبار کے مزدوروں کے وجود اور تصرف سے آلودہ ہوچکا ہے اور اسلامی ملکوں کے بعض حکمرانوں کی  خباثت  اور بد انتظامی کے تحت نئے اختلافات اور مسلمانوں کے درمیان برادر کشی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی، یہ وہ چیز ہے جس نے اسلام کی عزت اور مسلمانوں کے اتحاد پر ایمان رکھنے والے ہر غیرتمند مسلمان کے قلب کو مجروح کردیا ہے‘‘۔(32)

اسی طرح ’’عالمی استکبار کے ہاتھوں ڈھالے ہوئے تکفیری گروہ  اور تحریکیں  جو بعض اسلامی معاشروں میں اس طرح اپنے ہاتھ پیر پھیلائے ہوئے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی وہ سب دشمن کے مقاصد پر عمل درآمد کے لئے پیدل فوج کا کردار ادا کررہی ہیں‘‘(33) منجملہ اسلامی دنیا کے جعلی مذاہب میں وہابیت ہے جس نے آخری صدی کے دوران عالم اسلام میں جنم لیا ہے اور اسلامی دنیا کے بعض سادہ اندیشوں کو بھی اپنے ساتھ وابستہ کرلیا ہے۔

 

تفرقہ کے آثار و نتائج

’’بلاشبہ اسلامی معاشروں میں تفرقے کے بہت برے آثار و نتائج پیدا ہوئے ہیں، شیعہ سنی جنگ دشمنان اسلام کے لئے بہت قیمت رکھتی ہے، ملت اسلامیہ کے درمیان اختلاف اور تفرقہ باعث بنتا ہے کہ آپ کی معنویت، تر و تازگی، اقتدار، شکوہ و عظمت اور قومی وابستگی درہم و برہم ہوجاتی ہے اور جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: ’’وَ َتذھَب رِیُحکم‘‘(34)،(35) تفرقہ سبب بنتا ہے کہ اسلامی دنیا کا اقتدار ڈھل کر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، اسلامی ملکوں پر دشمنوں کا تسلط اور سامراجی جال بھی مسلمان ملتوں کے درمیان تفرقہ کے نتائج میں سے ہے‘‘۔(36) دوسرے لفظوں میں اختلاف اور تفرقہ اسلامی معاشروں میں  دشمنوں کے اثر ورسوخ کی شاہراہ ہے جس کے ذریعے اب تک دشمنوں نے ملت اسلامیہ کے پیکر پر بہت زیادہ چوٹیں پہنچائی ہیں، لہذا رہبر مظم نے خبردار کیا ہے کہ : ’’آج ہمیشہ سے زیادہ مسلمانوں کے اتحاد کو اہمیت دینا چاہئے کیونکہ اختلاف نے ہمیشہ اسلامی معاشروں میں دشمنوں کے اثر و رسوخ کی راہ کھولی ہے‘‘۔(37)

’’مختلف سرزمینوں پر مذہبی اختلافات سے فائدہ اٹھاکر طاغوتی حکومتوں نے کوشش کی ہے کہ معاشرے کو لڑائی جھگڑے میں مشغول رکھے تا کہ وہ آسانی سے اُن پر تسلط حاصل کرلیں سامراج نے بھی عرصۂ دراز سے ’’تفرقہ پھیلاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے اصول سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے لہذا دشمن مسلمان ملتوں کے درمیان جب بھی تفرقہ دیکھتے ہیں، بلاشبہ مسلمانوں کے درمیان چوٹ پہنچانے کی ضرور کوشش کریں گے‘‘۔(38)

بعض اسلامی ملکوں میں دباؤ، بائیکاٹ ، تخریب کاری اور کمزوری اسلامی معاشرے میں تفرقہ کے سبب ہی پائی جاتی ہے۔(39)

نتیجہ

خلاصہ گفتگو یہ کہ رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں اتحاد کی اصل و بنیاد ملت اسلامیہ کے لئے لازم ترین و واجب ترین و ضروری ترین آرزو شمار ہوتی ہے، امام خامنہ ای ، زمانہ پر نظر اور اسلامی  دنیا کے حالات سے باخبر ہونے کے ساتھ کوشش میں ہیں کہ اسلامی معاشرے کو آگاہ و باخبر اتحاد کی راہ پر آگے بڑھائیں لہذا ملت اسلامیہ خصوصاً اس کے علما اور حکام کے لئے ضروری ہے کہ وہ  مسلمان ملتوں  کے لئے اس صحت بخش و حیات آفریں نسخے کے سلسلے میں اپنی معلومات کی سطح میں اضافہ کریں اور اس کو حقیقی اسلام کے ایک ترقی یافتہ اصول اور مسلمہ اصل و بنیاد کے عنوان سے قبول کرتے ہوئے ،اس ایمان کے ساتھ کہ جدید اسلامی تہذیب کا عملی وجود ملت اسلامیہ کے اتحاد و یکجہتی پر ہی موقوف ہے اپنی  تمام قوت اس پر عمل درآمد اور توسیع و اشاعت پر لگا دیں۔

***

 

1 افغانستان کے عبوری صدر جمہوریہ اور افغانستانی مجاہدین کے قائدین سے ملاقات میں خطاب 03/10/1989

2شہید بہشتی یونیورسٹی کے طلبہ کے سوال و جواب سے متعلق جلسہ میں خطاب  12/05/2003 

3 حج کے ملازمین سے ملاقات میں خطاب 04/03/1998

4 اسلامی ممالک کے حکام اور سفرا سے ملاقات میں خطاب 18/07//2015

5 پاکستان کے کچھ علمائے اہل سنت سے ملاقات میں خطاب  17/01/1994

6 اسلامی اتحاد کانفرنس میں شریک مہمانوں سے ملاقات میں خطاب 16/10/1989

7 اسلامی اتحاد کے مہمانوں اور حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات میں خطاب 19 / 01 / 2014

8اسلامی اتحاد کانفرنس کے مہمانوں سے ملاقات میں خطاب 26/08/1994

9 حوزات علمیہ اہلسنت کے علما سے ملاقات میں خطاب 26/12/1989

10 صوبۂ سرحد پاکستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام احکام اور کچھ شیعہ مومنین سے ملاقات میں خطاب 14/10/1989

11 حج کے ملازمین سے ملاقات میں خطاب 06/03/1997

12 افغانستان کے عبوری صدر جمہوریہ اور افغانستانی مجاہدین کے قائدین سے ملاقات میں خطاب 03/10/1989

13 عوام کے مختلف طبقات سے خطاب 27/09/1989

14 اسلامی اتحاد کانفرنس میں شریک مہمانوں سے ملاقات میں خطاب 26/08/1994

15 صوبۂ سیستان و بلوچستان کے منتظمین سے خطاب 06/11/2000

16  حضرت امام رضا علیہ السلام کے زائروں اور مجاورں کے عظیم اجتماع میں خطاب 25/03/2000

17حج کے ملازمین سے ملاقات میں خطاب 17/02/1999

18 اسکول اور کالج کے جوانوں سے ملاقات میں خطاب

19 اسلامی اتحاد کانفرنس میں شریک مہمانوں سے ملاقات میں خطاب

20 آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی اور علامہ شیخ محمود شلتوت کی یاد میں منعقد کانفرنس میں دئے گئے پیغام سے اقتباس

21 اسلامی اتحاد کے مہمانوں اور حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات میں خطاب

22 اسلامی ملکوں کے حکام اور سفیروں سے ملاقات میں خطاب

23 ملک کے حکام سے ملاقات میں خطاب

24علماؤ طلاب کے اعلان وفاداری اجلاس میں خطاب

25 نامیبیا، موزامبیک، جنوبی افریقہ اور سوٹو کے ائمہ جمعہ کے اجتماع سے خطاب

26 ملک کے حکام سے ملاقات میں خطاب

27 ملک کے حکام اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے ملاقات میں خطاب

28 خرم آباد کے عوامی اجتماع سے خطاب

29 علمائے شیعہ اور اہلسنت کی ہم فکری کانفرنس میں شرکت کرنے والوں سے خطاب

30 سقز کے عوامی اجتماع سے خطاب

31 ملک کے حکام اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے ملاقات میں خطاب

32 حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج سید احمد خمینی کا ایرانی حاجیوں کے سرپرست کے عنوان سے انتصاب

33 حوزات علمیہٗ اہل سنت کے علما کے ایک اجتماع سے خطاب

34 سورۂ انفال /46

35 زاہدان کے عوامی اجتماع سے خطاب

36امیرالمؤمنینؑ کے یوم ولادت پر عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

37 عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں خطاب

38 عالم اسلام کانفرنس میں شریک مندوبین سے خطاب

39 ملک کے حکام اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے ملاقات میں خطاب