طے یہ تھا کہ امریکا، سرمایہ داری، جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے اپنے نام نہاد کارناموں کو دنیا کے دوسرے ممالک کے سامنے پیش کرے گا اور خودمختار، جمہوری اور آزاد اقوام کی تخلیق کرے گا لیکن اکیسویں صدی میں رونما ہونے والے عالمی حالات نے دکھا دیا کہ یہ دعوی کس حد تک بے بنیاد ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس دعوے پر شک کرنے لگے(1) اگرچہ بش سینیر نے بھی فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے اور ہینٹنگٹن کے تمدنوں کے ٹکراؤ کے نظریے کا ساتھ دیا اور امریکا کی چیمپیئن والی شبیہ کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بہت سے دوسرے لوگوں نے اسی وقت امریکا کے زوال کی علامتوں کو محسوس کر لیا تھا۔ نوآم چامسکی ان پہلے افراد میں تھے جنھوں نے ان علامتوں کا اعلان کیا اور دنیا پر امریکا کی برتری کے تصور کو خوش فہمی قرار دیا۔ کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے رکن پروفیسر ٹیڈ گیلن کارپینٹر نے پہلی بار "دیمکوں والے زوال" کی اصطلاح استعمال کر کے متعدد جنگیں بھڑکانے اور اپنے حریفوں سے پچھڑ جانے کے سبب امریکی طاقت کے تدریجی زوال کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ خود ٹرمپ نے اس زوال کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور امریکی عظمت کی بحالی کو اپنا انتخابی نعرہ قرار دیا۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی اقتدار میں خود ان کی موجودگي، امریکا کے زوال کی واضح نشانیوں میں سے ایک ہے۔

ایک طرف زوال شروع ہو گیا لیکن دوسری طرف امریکا نے دنیا میں اپنی طاقتور امیج بچانے کے لیے ہالی ووڈ کا سہارا لیا جو خواب فروخت کرنے میں ماہر ہے۔ امریکی اپنی خیالی امیج، فلم کی صورت میں پیش کرتے تھے اور دنیا سے تعاون حاصل کرتے تھے۔ البتہ حقیقی دنیا میں مغربی ایشیا میں امریکا کی خونریز جنگوں کا نتیجہ، سیاسی و سماجی حتی معاشی بحرانوں، ٹرمپ جیسے صدر کے سامنے آنے اور کورونا کے زمانے میں مختلف طرح کی سماجی مشکلات کی شکل میں سامنے آیا اور امریکا کی اس تصوراتی امیج پر متعدد سوالیہ نشان لگ گئے۔ 

امریکی جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے قبضے نے امریکی ساکھ مٹی میں ملا دی
حالانکہ آج دنیا امریکا کے زوال کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر رہی ہے اور اس کے تسلط کی شکست کا مشاہدہ کر رہی ہے لیکن اس سے پہلے کے برسوں حتی سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے سے بھی پہلے دنیا کے اس حصے میں، اسلامی انقلاب کے ذریعے امریکا کی آمریت کو ایک نیا چیلنج پیش کر دیا گيا تھا اور اس میں اصل کردار صرف ایران کا تھا۔ اگرچہ امریکا نے بظاہر یہ طے کر رکھا تھا کہ وہ ایران کے انقلابیوں اور پہلوی حکومت کے تنازعے میں شامل نہیں ہوگا اور ایران کے شاہ کو پناہ دینے جیسے مسئلے کو وہ انسانی حقوق کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کرتا تھا لیکن تہران میں اس کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے اور اسلامی انقلاب کے خلاف اس کے معاندانہ اقدامات کے دستاویز سامنے آنے کے بعد سبھی پر یہ بات واضح ہو گئي کہ ایران کا زیادہ بڑا دشمن کون ہے اور کس طرح  ایرانی قوم کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے؟ یہ چیز اس سے پہلے انیس اگست 1953 کی بغاوت میں بھی دیکھی جا چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام جمہوریہ ایران کے بانی اور اسلامی انقلاب کے پہلے قائد، حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس واقعے کو دوسرے انقلاب کا نام دیا اور کہا کہ یہ انقلاب، پہلے انقلاب سے بھی بڑا ہے کیونکہ اس نے زیادہ بڑے دشمن سے جنگ کی ہے۔ 

امریکا کے سفارتخانے یا جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے بہت سے سیاسی، سیکورٹی حتی معاشی پہلو ہیں اور مختلف زاویوں سے اس واقعے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس واقعے کا ایک انتہائي اہم پہلو، دنیا میں امریکی تمدن پر سوالیہ نشان لگنا ہے۔ آپ سوچیے کہ وہ ملک جو یہ دعوی کرتا ہے کہ عالمی برادری کا نظام چلانے والا ہے اور پوری دنیا پر اس کا تسلط ہے، اسی ملک کو نوجوان طلباء کی جانب سے، جو کسی بھی طاقت سے وابستہ نہیں تھے، چیلنج کر دیا جائے، وہ بھی اس ملک میں جہاں ابھی ابھی انقلاب آيا ہو اور وہ بڑا متزلزل دکھائي دے رہا ہو، وہ بھی مغربی ایشیا کے علاقے میں، جسے امریکی ہمیشہ کمزور اور مغربی مینیجمنٹ کا محتاج بتاتے رہے ہوں! ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کا واقعہ امریکی عظمت کی عکاسی کرنے والی اس تصوراتی امیج کے لیے کتنا خطرناک سمجھا گيا ہوگا؟! ایک طرف اپنے یرغمالوں(2) کو چھڑانے کے لیے امریکا کی متعدد اور لگاتار کوششیں اور دوسری طرف دنیا کے دیگر ملکوں میں سفارتخانے میں طلباء کے داخل ہونے کی تصویروں پر زبردست سینسر وہ اقدامات تھے جو امریکا نے اپنی اس عالمی فضیحت کو روکنے کے لیے انجام دیے۔ امریکیوں نے شروع سے ہی یہ پروپیگنڈا کیا کہ معاملہ "ایران میں سفارت کاروں کو یرغمال بنائے جانے" کا ہے، تاکہ ایران کے انقلابیوں کو دنیا کے سامنے یہ حقیقت بے نقاب کرنے کا موقع نہ ملے کہ یہ امریکی"جاسوسی کے اڈے پر قبضہ" کئے جانے کا معاملہ ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ سفارتخانے کے کارکنوں کی گرفتاری پر ہنگامہ مچا کر، جن میں سے زیادہ تر سی آئی اے کے ایجنٹ تھے، جاسوسی اور ایک قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے معاملے کو انسانی حقوق کے نعروں کی آڑ میں چھپا دیں۔ امریکیوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے انھوں نے جو آپریشن شروع کیا تھا، وہ طبس میں کیسے ذلت آمیز طریقے سے ناکام ہوا(3) بلکہ انھوں نے کوشش کی کہ فریبکاری سے کام لے کر اور ہالی ووڈ کی طرز پر حقیقت کو برعکس دکھا کر دنیا میں اپنی برتری اور ہیرو والی  امیج کو باقی رکھیں۔ اس کے باوجود تاریخ جانتی ہے کہ عالمی رائے عامہ کے، امریکی حقیقت کو سمجھنے سے برسوں پہلے ایران کے انقلاب نے دنیا میں امریکا کی جھوٹی امیج کو تار تار کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔ 

امریکی تسلط کی شکست کیوں اہم ہے؟ 
امریکا نے اپنا تشخص، دنیا پر برتری سے جوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو کچھ بھی امتیاز دیے بغیر(4) اسے پوائنٹس ملیں تاکہ وہ دنیا پر حکمرانی کرتا رہے۔(5) قرآن مجید اس خصلت کو استکبار کا نام دیتا ہے(6) جسے آج کی زبان میں سامراج یا استعمار کہا جاتا ہے۔ استکبار کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اور اپنی اس بڑائی کو بچانے کے لیے دوسروں کو چھوٹا یا حقیر سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ کوشش کرتا ہے کہ دیگر اقوام کے مضبوط پہلوؤ‎ں کو تباہ کر دے۔(7) سامراج اپنی وسیع پروپیگنڈہ مشینری کے سہارے ایسے کام کرتا ہے کہ بڑی اقوام، اس کی بڑائي کو تسلیم کر لیں اور خود کو اس کے مقابلے میں ہیچ سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیں۔ استکبار سے مقابلے کا پہلا قدم، اس کی اسی تسلط پسندی پر وار کرنا ہے۔ پہلے کوئي ایسا کام ہونا چاہیے کہ اس کی یہ کھوکھلی عظمت زمیں بوس ہو جائے اور پھر اس کے بعد دھیرے دھیرے اس کی حقیقت سامنے آتی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے شروع سے ہی اپنا مقابل نہ صرف پہلوی حکومت کو بلکہ اس سے بڑے یعنی عالمی سامراج کو سمجھا اور شروع سے ہی اس سے مقابلے کی کوشش کی۔(8) اس نے دنیا کو تسلط پسندوں اور تسلط کا نشانہ بننے والوں میں تقسیم کرنے کے تسلیم شدہ اصول کو توڑ دیا۔(9) اگرچہ فروری 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس مقابلے کا پہلا قدم تھا لیکن اسلام اور سامراج کے درمیان زیادہ کھل کر لڑائی، امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے ساتھ شروع ہوئي اور اس بار وہ لوگ، جنھیں ہمیشہ چھوٹا سمجھا گیا تھا، امریکا کے مقابلے میں ڈٹ گئے جو ہمیشہ اپنے کو بڑا ظاہر کرتا رہا تھا اور ان لوگوں نے کھیل کا میدان بدل دیا۔(10) اس اقدام کا پہلا اثر یہ تھا کہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کو یہ پیغام ملا کہ وہ اپنے آپ کو سامراجی طاقتوں کے سامنے چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ وہ اپنی توانائیوں پر بھروسہ کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ سامراج کے مقابلے میں 

 اپنی توانائيوں پر یہی یقین ہے جس نے استقامت کے محاذ کو مضبوط بنا دیا ہے اور اس کے اراکین کو دنیا میں حق کے حصول کی خود اعتمادی عطا کی ہے۔

(1)https://aeon.co/essays/is-westernisation-fact-or-fiction-the-case-of-japan-and-the-us?utm_medium=feed&utm_source=rss-feed
 (2)http://www.wired.com/magazine/2007/04/feat_cia 
 (3)https://www.theatlantic.com/magazine/archive/2006/05/the-desert-one-debacle/304803/  
(4) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر، 1/8/2016
(5) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر، 19/5/2010
(6) سورۂ اعراف، آيت، 12
(7) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر، 20/9/2005
(8) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر، 17/2/2010
(9) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر، 20/3/2008
(10) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر،4/11/1990