پندرہویں صدی عیسوی میں دنیا میں مسلمان اور مسیحی طاقتوں کے درمیان ایک طرح کا بنیادی توازن پایا جاتا تھا۔ یعنی مادی طاقت کے لحاظ سے ان دونوں تمدنوں میں سے کسی کو بھی دوسرے پر واضح برتری نہیں تھی لیکن بعد میں یہ توازن بگڑ گیا۔ سولہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جو تبدیلیائي آئيں ان کے تحت مغربی دنیا کو مادی طاقت کے لحاظ سے برتری حاصل ہو گئي۔ دور سے وار کرنے والے ہتھیاروں، بندوق، توپ وغیرہ کی ایجاد، توازن کی اس تبدیلی کا بنیادی سبب تھی۔ فزکس اور ریاضی جیسے علوم کا فروغ اور سائنسی علوم کا دوسری راہ پر چل پڑنا - وہ راستہ جسے نیوٹن نے شروع کیا اور ریاضی دانوں اور فزکس دانوں نے اسے جاری رکھا - فطرت پر مغربی دنیا کے زیادہ تسلط میں مؤثر ثابت ہوا۔

20 ویں صدی، سنہ 1979 تک کہ جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سال ہے، دنیا میں مسلمانوں کی ناکامیوں کی صدی ہے۔ سیاہ اور تلخ صدی، مسلسل شکستوں کی صدی اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے زوال کی صدی ہے۔

20 ویں صدی میں خاص طور پر اس کے نصف دوم میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی ممالک کو ظاہری خودمختاری حاصل ہو گئی لیکن ان تبدیلیوں سے عالم اسلام کو عملی طور پر کوئي بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ یعنی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیاں، دنیا میں کسی بھی جگہ اسلامی طاقت کی بحالی پر منتج نہیں ہوئيں۔ بیسویں صدی میں عالم اسلام میں جو سب سے اہم واقعہ رونما ہوا وہ عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ ایک ایسی طاقت تھی جس کے قبضۂ اختیار میں آج کا پورا مشرق وسطی، شمالی افریقا اور خلیج فارس و بلقان کے کچھ حصے تھے اور یہ طاقت یورپ میں ویانا کے دروازے تک پہنچ چکی تھی لیکن پہلی جنگ عظیم میں اسے شکست ہوئي اور پھر وہ واقعہ رونما ہوا جس کے نتائج آج بھی مسلمان بھگت رہے ہیں۔

یونیورسٹیاں، خاص طور بشریات کی یونیورسٹیاں مغربی نظریوں کے کنٹرول میں تھیں اور کوئي بھی اسلامی ملک، مغربی تمدن میں پیدا ہونے والے اور اسلامی ملکوں میں انڈیل دئے جانے والے بشریات کے علوم کے علاوہ یونیورسٹی میں کسی دوسری طرح کے انسانی علوم کو تیار کرنے کی فکر اور جذبہ نہیں رکھتا تھا۔

اس موضوع کی اہمیت کو بہتر طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے میں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کے ایک حصے کو چنا ہے جو انھوں نے 9 ستمبر سنہ 1964 کو قم میں کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں: "مسلمان وہ تھے جن کی عظمت پوری دنیا پر چھائی ہوئي تھی، ان کا تمدن، تمام تمدنوں پر بھاری تھا، ان کی معنوی چیزیں، تمام معنویات سے بالا تھیں، ان کی ہستیاں، تمام ہستیوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھیں، ان کی مملکت کی توسیع، تمام ملکوں سے زیادہ تھی، ان کی حکومت کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلا ہوا تھا، ان لوگوں نے دیکھا کہ اس دائرۂ حکومت اور اسلامی حکومتوں کے اس اتحاد کی وجہ سے ان پر وہ چیزیں مسلط نہیں کی جا سکتیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ان کے خزانوں پر، ان کے کالے سونے پر، ان کے پیلے سونے پر اور دوسری چیزوں پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا، تو انھوں نے اس کے لیے چارہ اندیشی کی۔ طریقہ یہ تھا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تفرقہ پیدا کر دیں۔

شاید بہت سے لوگوں کو، آپ میں سے بعض کو عالمی جنگ یاد ہو، پہلی عالمی جنگ میں مسلمانوں اور بڑی عثمانی حکومت کے ساتھ کیا کیا گيا؟ سلطنت عثمانیہ ان حکومتوں میں سے ایک تھی کہ جو اگر سوویت یونین سے ٹکرا جاتیں تو عین ممکن تھا کہ اسے زمین بوس کر دیتیں۔ دوسری حکومتیں، میدان میں اس کی حریف نہیں تھیں۔ عثمانی حکومت، ایک اسلامی حکومت تھی جس کا دائرۂ اقتدار تقریبا مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس اسلامی حکومت کا، جو اتنی طاقتور ہے، کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا، اس کے خزانوں کو لوٹا نہیں جا سکتا۔ جب اس جنگ میں، اس طرح سے انھوں نے غلبہ حاصل کر لیا تو عثمانی حکومت کو بہت چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے بھی ہر ایک کے لیے یا تو امیر مقرر کر دیا، یا سلطان معین کر دیا یا پھر صدر طے کر دیا۔"

البتہ ناکامیاں، سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے تک محدود نہیں تھیں۔ تاہم سب سے اہم ناکامی عثمانی حکومت کا شیرازہ بکھرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام خمینی، عثمانی سلطانوں کے تمام کاموں کو اسلام کے مطابق مانتے تھے۔ ان باتوں سے الگ، امام خمینی کا ایک اور نظریہ تھا۔ ایک دوسرا واقعہ بھی رونما ہوا جو بیسویں صدی کا ایک دوسرا خسارہ تھا اور وہ روس میں مارکسسٹ انقلاب کی کامیابی اور سوویت یونین کا وجود میں آنا تھا جو اس بات کا سبب بنا کہ قفقاز، تاجکستان، ترکمنستان، قزاقستان، قرقیزستان اور وسطی ایشیا کے کروڑوں مسلمان، دین مخالف اور الحادی مارکسسٹ حکومت کے تحت آ جائيں اور اسلام اور عالم اسلام سے ان کا رابطہ ستّر سال کے لیے کٹ جائے۔

ایک دوسرا تباہ کن واقعہ، سن انیس سو اڑتالیس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطی میں اسرائيل کے نام سے ایک جعلی حکومت کا وجود میں آنا تھا جو ایک خنجر کی طرح عالم اسلام کے جسم میں گھس گيا اور جو امام خمینی کے الفاظ میں 'کینسر کا پھوڑا' تھا۔ اس جعلی و غاصب حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد کے ان برسوں میں، فلسطینی عوام، عربوں اور مسلمانوں پر کیا کیا مصائب ڈھائے گئے ہیں اور عالم اسلام کو کیا کیا مصیبتیں برداشت کرنی پڑی ہیں۔

عالم اسلام کے مشرق میں رونما ہونے والا ایک دوسرا واقعہ، مملکت پاکستان کا تشکیل پانا تھا۔ پاکستان کے بانیوں کی نیت یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان ملک بنائيں اور مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اقتدار میں پہنچائيں لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئي۔ افسوس کہ پاکستان ایک طاقتور اسلامی ملک میں تبدیل نہیں ہوا۔ ہندوستان سے پاکستان کی علیحدگي کے آغاز سے ہی دونوں ملکوں کی سرحدیں، امن کی سرحدیں نہیں تھیں بلکہ جنگ کی سرحدیں تھیں۔ کشمیر کا یہ پرانا زخم بدستور ٹکراؤ کا سبب ہے۔ دشمنوں نے نہیں چاہا کہ یہ مسئلہ حل ہو۔

ہندوستان، سوویت یونین کی طرف جھک گيا جبکہ پاکستان، امریکا کے جال میں پھنس گيا۔ اس کے بعد خود پاکستان کے بھی دو حصے ہو گئے، مشرقی پاکستان، بنگلادیش کے نام سے مغربی پاکستان سے الگ ہو گيا اور ایک بار پھر علیحدگي اور تفرقہ سامنے آیا۔

ان حالات میں عالم اسلام کے ایک بڑے ملک اور ایک نسبتا بڑی آبادی والے ملک یعنی ایران میں، قدیمی ایران میں، تاریخی ملک ایران میں مغربی دنیا کی مبہوت نظروں کے سامنے سنہ 1979 میں ایک عالم دین، ایک فقیہ اور ایک مرجع تقلید کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے نام سے ایک انقلاب کامیاب ہوا۔

یہ انقلاب، اسلامی افکار کی بنیاد پر ایک ایسی تحریک تھا جو سامراج مخالف تھی، ظلم کے خلاف تھا، حریت پسندانہ تھی لیکن اپنے آپ پر منحصر تھی، فکری و ثقافتی لحاظ سے بھی اور جدوجہد کے طریقوں کے لحاظ سے بھی۔ یہ وہ انقلاب تھا جسے امام خمینی نے فتح سے ہمکنار کیا تھا اور جو مشرق و مغرب سے کسی طرح وابستہ نہیں تھا۔ 'لاشرقیہ و لاغربیہ' کا نعرہ اس انقلاب کی فکری و سیاسی خودمختاری کو اس وقت  کی حکمراں طاقتوں کے سامنے عیاں کر رہا تھا اور تمام اسلامی ملکوں کو بتا رہا تھا کہ یہ انقلاب، 'ازم' کے مختلف مغربی عناوین کے ساتھ اسلامی ملکوں میں سامنے آنے والے تمام قیاموں اور تحریکوں سے پوری طرح الگ ہے۔ یہ مشرقی کمیونزم کا بھی مخالف ہے اور مغربی سرمایہ داری کے بھی خلاف ہے۔

امام خمینی نے جدوجہد کی روش میں سرمایہ دارانہ مغرب اور کمیونسٹی مشرق میں رائج اور جانے پہچانے طریقوں کی پیروی نہیں کی؛ انھوں نے نہ تو مغرب کے پارٹی سسٹم کا اتباع کیا اور نہ ہی کمیونسٹ ملکوں کے مزدوروں، چھاپہ ماروں، کسانوں، نچلے طبقوں، انڈر گراؤنڈ رہ کر کام کرنے والوں اور مسلحانہ جدوجہد کی روش اپنائي۔ اللہ پر توکل کرنا، تمام عوامی گروہوں کی حمایت اور خالی ہاتھ جدوجہد، امام خمینی کی روش تھی۔ پھر جب انقلاب کامیاب ہو گيا تو انھوں نے فرمایا: "اسلامی جمہوریہ! نہ ایک لفظ کم، نہ ایک لفظ زیادہ۔"

ناامیدی سے بھری اس دنیا میں، ناکامیوں سے پر اس صدی میں، اس دور میں اسلامی دنیا کے افق پر جب کہیں سے کوئي بھی کرن مسلم نوجوان کے دل کی ڈھارس نہیں بن رہی تھی، امام خمینی کا کام یہ تھا کہ انھوں نے دنیا میں دینی حکومت کا احیاء کیا۔ یہ وہ نظریہ تھا جسے مغرب چار سو سال پہلے ختم شدہ اعلان کر چکا تھا اور اسے نظریات کی تاریخ کے حوالے کر چکا تھا۔ وہ  سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک بار پھر دین، مسند حکومت پر براجمان ہو جائے گا۔ امام خمینی نے، دینی حکومت کا اعلان کیا اور جہاد و شہادت کی ثقافت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ انھوں نے جہاد اور شہادت کے بھلائے جا چکے احکام کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔ انھوں نے جو کام کیا وہ اس ہمہ گير دین مخالف نظریے کی نفی تھی جو مشرق و مغرب اور اسلام ملکوں میں شرق و غرب زدہ افراد کے افکار پر چھایا ہوا تھا۔ امام خمینی نے اسلام کی سیاسی طاقت کا احیا کیا اور ساتھ ہی دینی حکومت کے نظریے کی تدوین کی اور اس نظریے میں عوام اور خدا کے رابطے، وحی اور احکام الہی کی پوزیشن، عوام کے مقام اور عوام کے کردار کو نظریاتی طور پر بیان کیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ انھوں نے عملی طور پر ایک حقیقی نمونہ ایجاد کیا۔ انھوں نے ایک حکومت کو وجود بخشا تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ یہ باتیں عملی جامہ نہیں پہن سکتیں اور صرف کاغذ پر ہیں اور کتابوں کی الماریوں کو زیب دیتی ہیں۔

اب دیگر مسلمانوں کے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ دین کے ساتھ حکومت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے؛ اب سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح  اپنے اپنے ملکوں میں یہ کام کر سکتے ہیں اور اس ممکن کام کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟

پابندیوں، دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی استقامت اور اسلامی جمہوریہ میں ہونے والی سائنسی و صنعتی پیشرفت اور مختلف طرح کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر نظاموں کی تشکیل، تمام مسلمانوں کے لیے پیغام ہے۔

 

معروف اسلامک اسکالر، نظریہ پرداز، مصنف اور سیاستداں ڈاکٹر غلام علی حداد عادل کی تقریر کے چند اقتباسات