بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
آپ تمام محترم حضرات، پورے ملک سے آنے والے برادران عزیز اور ایک انتہائي حساس اور بہت اہم مرکز میں کام کرنے والے آپ حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ کئي سال -دو تین سال- بعد ایک بار پھر آپ حضرات کی قریب سے زیارت ہوئي۔ میں عید غدیر سے لے کر روز مباہلہ، سورۂ 'ہل اتی' اور 'آيت ولایت' کے نزول تک اہلبیت علیہم السلام سے متعلق ایام اور اس ہفتے کے تقریبا ہر دن پائي جانے والی برکات کے اس موقع پر اس نشست کے انعقاد کو فال نیک سمجھتا ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم پیغمبر اکرم اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کی برکت سے ان شاء اللہ ہمیں ان کی سمت میں اور ان کی راہ میں ثابت قدم رکھے اور ان شاء اللہ ہمیں اس راہ پر چلنے کی توفیق حاصل ہو۔
مباہلے کا دن بہت اہم دن ہے، مباہلہ کا دن نبوت کا بھی دن ہے اور ولایت کا بھی دن ہے۔ مباہلے کا واقعہ، نبوت کے لیے بھی دلیل و برہان ہے اور ولایت و امامت کے لیے بھی دلیل و برہان ہے۔ اس لحاظ سے یہ کافی اہم دن ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم ہمیں اس مبارک راستے پر ثابت قدم رکھے گا۔
میں جناب الحاج علی اکبری کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، انھوں نے جو کام کیے ہیں ان کے لیے بھی اور یہاں جو باتیں انھوں نے بیان کی ہیں ان کے لیے بھی۔ یہاں انھوں نے جو بھی باتیں بیان کیں وہ بالکل صحیح ہیں۔
میں نے کچھ باتیں لکھی ہیں، کچھ چیزیں نوٹ کی ہیں جنھیں میں آپ برادران عزیز کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات، نماز جمعہ کی اہمیت اور مقام کے بارے میں ہے اور خود ہمیں جو امام جمعہ ہیں، اس کام کی اہمیت کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ جب انسان کو کسی کام اور کسی منصب کی اہمیت کے بارے میں علم ہو جاتا ہے تو وہ اسے دوسرے کاموں پر ترجیح دیتا ہے اور اس سے متعلق چیزوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے، خود ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے اور دوسروں کو بھی جاننا چاہیے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے اور متعلقہ عہدیداروں کو بیان کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ نماز جمعہ، صرف کسی مسجد میں پڑھی جانے والی ایک نماز جماعت نہیں ہے بلکہ یہ کسی شہر کی ایک بہت بڑی اور اہم چیز ہے۔ میں اس کی کچھ خصوصیات کی طرف اشارہ کروں گا۔ سب سے پہلے تو میں اسے عرض کروں گا اور پھر اس بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا کہ ہماری آج کی نماز جمعہ اور جیسی نماز جمعہ ہونی چاہیے، اس میں کتنا فاصلہ ہے؟ فاصلہ ہے بھی یا نہیں؟ یقینی طور پر فاصلہ ہے۔ اس فاصلے کو ہم کیسے دور کریں، یہ اہم بات ہے۔ بحمد اللہ ملک میں ایک ہزار یا نو سو سے کچھ زیادہ مقامات پر نماز جمعہ ہوتی ہے اور یہ بڑی اہم تعداد ہے، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں۔ انھیں بہت اہم اور زبردست کام کرنا چاہیے۔ اگر ہماری نماز جمعہ - جو آج ہم قائم کر رہے ہیں - وہی چیز ہو جو نماز جمعہ کی تعریف کے تحت آتی ہے اور جس چیز کی نماز جمعہ سے توقع ہے تو صورتحال اس سے قدرے بہتر ہونی چاہیے، مطلب یہ کہ کچھ فرق ہونا چاہیے۔ بنابریں یہ بھی ایک مسئلہ ہے جس کے بارے میں، میں اپنی گفتگو کے دوران کچھ باتیں عرض کروں گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ فاصلہ کم سے کم ہو جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کوشش کسے کرنی چاہیے؟ اس کا کچھ حصہ خود امام جمعہ کے ذمے ہے۔ خود امام جمعہ کو یہ کوشش کرنی چاہیے، کچھ حصے کی ذمہ داری ان محترم ذمہ داروں پر ہے جو تہران یا دیگر علاقوں کی نماز جمعہ سے متعلق پالیسی سازی اور اجتماعی نظم و نسق کے مراکز میں موجود ہیں۔
جہاں تک نماز جمعہ کی اہمیت اور اس کے مقام کی بات ہے تو میں ایک جملے میں عرض کروں کہ نماز جمعہ اپنی خصوصیات کے حساب سے سو فیصدی ایک غیر معمولی فریضہ ہے۔ نماز جمعہ جیسی چیز ہمارے یہاں کوئي نہیں ہے۔ حج ایک بہت بڑا مجموعہ ہے لیکن جب ہم اس نماز جمعہ کی گہرائي میں، نماز جمعہ کی انتہائی اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ تمام خصوصیات حج سے بھی بڑھ کر ہیں۔ میں ان خصوصیات کے بعض نمونے عرض کرتا ہوں، آپ غور کیجیے، آپ کو مزید خصوصیات نظر آئيں گي خاص طور پر اس لیے بھی کہ آپ خود اس فریضے میں دخیل ہیں۔
ایک خصوصیت یہ ہے کہ حیات طیبہ کے دو بنیادی عناصر کو نماز جمعہ نے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے، یہ دو عناصر کیا ہیں؟ ایک ذکر خدا اور دوسرا عوامی موجودگي۔ فَلَنُحیِیَنَّہُ حَیاۃً طَیِّبَۃ (2) اس حیات طیبہ کے کچھ ارکان ہیں لیکن اس کے سب سے اہم دو ارکان ہیں: ایک، خدا پر توجہ، خدا کی طرف رخ کرنا، حضرات کے بقول "یلی الربی"(3) دوسرا عنصر ہے عوام کی موجودگي اور عوام کا اجتماع، یہ دونوں باتیں نماز جمعہ میں اکٹھا ہو گئي ہیں۔ البتہ بعض دوسرے واجبات میں بھی یہ ہے لیکن جب ہم بقیہ خصوصیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نماز جمعہ غیر معمولی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ نماز جمعہ میں یہ دونوں خصوصیات ایک ساتھ پائی جاتی ہیں، یا أیُّھَا الَّذینَ آمَنوا بھی ہے اور فَاسعَوا اِلى ذِکرِ اللّہ(4) بھی ہے۔ یہ 'صلاۃ' بھی ہے اور جُمُعہ بھی ہے، صلاۃ، اللہ کا خالص ذکر ہے، جُمُعہ، لوگوں کا اجتماع ہے۔ مطلب یہ کہ یہ صلاۃ جمعہ کی خصوصیات میں سے ایک اور شاید اس کی پہلی نمایاں خصوصیت ہے۔
دوسرے یہ کہ اجتماعی طور پر کیا جانے والا ذکر اس بات کا موجب بنتا ہے کہ ذکر کی برکتیں اور اس کے اثرات، پورے اجتماع پر نازل ہوں۔ اللہ کے ذکر کے کچھ اثرات، جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گيا ہے: "اَلا بِذِکرِ اللَّہِ تَطمَئِنُّ القُلوب"(5) یہ چیز نماز جمعہ کے پورے اجتماع میں پھیل جاتی ہے، جب سب مل کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ میں نے ایک بار "وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّہِ جَمیعاً وَ لا تَفَرَّقُوا"(6) کی آيت کے ذیل میں عرض کیا تھا کہ اللہ کی رسی کو پکڑنا بھی، جمیعا یعنی اجتماعی طور پر ہونا چاہیے۔ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّہِ جَمیعاً، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں، اسلام میں یہ اجتماع، لوگوں کا اکٹھا ہونا ایک الگ ہی چیز ہے، خود لوگوں کا اکٹھا ہونا اور عوامی شراکت ہی ایک اہم چیز ہے، یہیں پر آپ کو پوری طرح سے چوکنا ہو جانا چاہیے۔ اگر آپ کی اس ہفتے کی نماز جمعہ میں مثال کے طور پر ایک مہینے پہلے کی نماز جمعہ سے کم مجمع ہے تو آپ کو تشویش ہونی چاہیے کیونکہ کام کی بنیاد ہی عوام کی شراکت ہے۔ جب ہم مل کر ذکر خدا کرتے ہیں تو اس کی برکتیں اور اس کے اثرات اجتماع پر نازل ہوتے ہیں، مجمع پر نازل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے: فَاِنَّ الذِّکرىٰ تَنفَعُ المُؤمِنین(7) یہ نفع اور فائدہ سب کا ہوتا ہے۔ جی ہاں! جب آپ اکیلے نماز شب پڑھتے ہیں، کمرے میں، اکیلے تب بھی خدا اس کے لیے آپ کو نفع اور فائدہ پہنچاتا ہے لیکن یہاں یہ نفع، اجتماعی اور عمومی ہے، پورے اجتماع کو فائدہ ہوتا ہے۔ یا "فَاذکُرونی اَذکُرکُم"(8) "اَذکُرکُم" اللہ کی یہ خاص عنایت، ذکر پر منحصر ہے، یہاں ذکر، اجتماعی ذکر ہے، تو وہ عنایت بھی اجتماع سے مربوط ہوتی ہے۔ یا وَاذکُرُوا اللّہَ کَثیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحون(9) اور دوسری متعدد آیتیں جو قرآن مجید میں ہیں اور میں بس اتنا ہی المعجم المفہرس سے نکال سکا، یہی کچھ آيتیں فی الحال میرے ذہن میں آئيں اور میں انھیں نوٹ کر لیا۔ اگر آپ اس کتاب کو دیکھیں تو ذکر کی برکتوں کے بارے میں بہت ساری آيتیں ملیں گی۔ تو یہ بھی ایک خصوصیت ہوئي، اجتماعی ذکر اور اس کی برکتیں۔
اگلی خصوصیت اس کا دوام اور تسلسل ہے، ہفتہ وار اجتماع۔ حج پوری عمر میں ایک بار ہے -ایسا ہی تو ہے نا- لیکن نماز جمعہ ہر ہفتے ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں اور میں نے اس سلسلے میں کچھ تحقیق کی ہے، کسی بھی مذہب میں، کہیں بھی روحانیت سے جڑا ہوا ہفتہ وار اجتماع نہیں ہے کہ ایک شہر کے عوام یا بڑی تعداد میں ایک شہر کے لوگ ہر ہفتے کسی جگہ، کسی مرکز میں اکٹھا ہوں، اس اجتماع میں کیا کیا ہوگا، یہ اگلا مسئلہ ہے، یہ بہت اہم خصوصیت ہے۔ یہیں سے اور اسی بنا پر حج پر بھی اس کی ترجیح کا اندازہ ہوتا ہے۔ یعنی پے در پے، لگاتار، اس ہفتے، اگلے ہفتے، اس کے اگلے ہفتے، اس کے بعد والے ہفتے، مسلسل۔ تو یہ اسی چیز کا مصداق ہے جو ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں: حَتّىٰ تَکونَ اَعمالى وَ اَورادى کُلُّھا وِرداً واحِداً وَ حالى فى خِدمَتِکَ سَرمَدا(10) یہ ہفتہ وار اجتماع اس طرح کا ہے۔ یہ 'حالى فى خِدمَتِکَ سَرمَدا' کو عملی جامہ پہناتا ہے۔
تو جب اس طرح کا ایک اجتماع موجود ہے جس میں ایک شہر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک معینہ جگہ پر اکٹھا ہوتی ہے تو یہ چھاؤنی ہو سکتی ہے اور کسی معاشرے کے تمام اہم موضوعات کو پیش کرنے کے لیے ایک اہم مرکز ہو سکتی ہے۔ جب یہ طے ہے کہ سبھی اکٹھا ہوں گے تو لوگوں کے ذہن میں کوئي چیز آتی ہے، کوئي بات آتی ہے، معاشرے کی کچھ ضرورت ہے، کوئي واقعہ ہے، فکری مسائل سے لے کر سماجی خدمات، عوامی تعاون، فوجی تیاری اور فوجی لام بندی سے لے کر ہر چیز تک کو اس مسلسل منعقد ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس پروگرام میں اتنی اہم اور عظیم گنجائش پائي جاتی ہے۔ بنابریں یہ ایک بڑا خزانہ ہے، ایک غیر معمولی موقع ہے جو ہمیں اور آپ کو دیا گيا ہے۔
نماز جمعہ میں پائي جانے والی ایک دوسری خصوصیت، روحانیت و سیاست کی آمیزش ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو اہل دنیا اور حقائق پر غور نہ کرنے والوں کے لیے تقریبا ناممکن بات ہے۔ کہاں سیاست اور کہاں روحانیت اور خدا پر ایمان؟ سیاست کے کچھ بنیادی اصول ہیں جو ظاہری طور پر سب کے سب خدا پر توجہ وغیرہ کے منافی ہیں۔ اب سیاست اور معنویت کو ایک فریضے میں ایک ساتھ جوڑ دینا، اسلام کا آرٹ ہے، یہ اسلام کا ہنر ہے۔ امام رضا علیہ السلام کی اس روایت میں کہا گيا ہے: یُخبِرھُم بِما وَرَدَ عَلَیھِم مِنَ الآفاقِ وَ مِنَ الاَھوالِ الَّتی لَھُم فیھَا المَضَرّۃُ وَ المَنفَعَۃ(11) (خطیب جمعہ لوگوں کو ان باتوں سے آگاہ کرے جن کا اللہ نے انھیں حکم دیا ہے اور جن سے روکا ہے اور انھیں ان باتوں کی خبر دے جو ان کے فائدے اور نقصان میں ہیں۔) ہائل کا مطلب ہے ایک بہت بڑا اور اہم کام، وہ مسائل جو دنیا میں پیش آ رہے ہیں اور ہمارے معاشرے سے کسی حد تک ربط رکھتے ہیں، یا فائدے کے طور پر یا نقصان کے طور پر، خطیب جمعہ کو یہ چیزیں عوام سے بیان کرنی چاہیے۔ فرض کیجیے کہ ایٹمی مسئلہ یا یوکرین کی جنگ - یہ ایک مسئلہ ہی تو ہے، دنیا میں پیش آيا ہے - یا مشرق و مغرب کے گوناگوں مسائل، یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے ملک سے، ہمارے معاشرے سے، ہماری زندگي سے اور ہماری سیاست سے ربط رکھتی ہیں، خطیب جمعہ یہ چیزیں لوگوں کے سامنے رکھتا ہے، ان کی تشریح کرتا ہے، بیان کرتا ہے، صحیح طریقے سے، صحیح اور مکمل معلومات کے ساتھ یعنی وہ اس سیاست کو روحانیت سے جوڑ دیتا ہے۔ وہ اتقوا اللہ (اے لوگو! اللہ سے ڈرو) بھی کہتا ہے - کہ نماز جمعہ کے خطبوں میں تقوی کا حکم ضرور ہونا چاہیے - اور ساتھ ہی سیاست کو، اس طرح کی سیاست کو، عالمی سیاست کو، ان سیاسی مسائل کی اہم باتوں کو بھی عوام کے سامنے بیان کرتا ہے۔ یہ بھی ان خصوصیات کے سلسلے میں ایک نکتہ تھا۔ میں نے عرض کیا کہ کچھ اور بھی خصوصیات ہیں لیکن میں نے اختصار سے کام لیا ہے۔
جب ہم ان ساری خصوصیات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلامی نظام کی سافٹ پاور کی کڑیوں میں نماز جمعہ ایک بہت ہی اہم کڑی ہے، کیونکہ آج جو چیز بند راستے کھولنے والی اور کارگر ہے، وہ سافٹ پاور ہے، ہارڈ پاور، بندوق، گولی اور اس طرح کی چیزیں آج دوسرے درجے پر آتی ہیں۔ سافٹ پاور، دلوں، ذہنوں اور جذبات پر اثر انداز ہونا، یہ اہم ہے۔ البتہ ہمارے سافٹ پاور کی زنجیر بڑی لمبی اور طویل ہے۔ نماز جمعہ، سافٹ پاور کی اس زنجیر کی سب سے اہم کڑیوں میں سے ایک ہے، جب ہم ان خصوصیات پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔
خیر اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسلامی جمہوریہ میں نماز جمعہ کو اس اعلی مقام پر پہنچا سکے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ ہم سے کوتاہیاں ہوئي ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس مسئلے میں، میں بھی آپ کا رفیق کار ہوں، ہم سے اس سلسلے میں کوتاہیاں ہوئي ہیں۔ کمر کس لینی چاہیے، ہم سب کو کمر کس لینی چاہیے کہ ان کوتاہیوں کو دور کریں۔ میں نے عرض کیا کہ ان میں سے کچھ کام خود ائمۂ جمعہ کا ہے، بعض ائمۂ جمعہ کے سلسلے میں پالیسی تیار کرنے والوں کا ہے، ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ جو ہم نے کہا کہ اس میں سے کچھ حصہ ائمۂ جمعہ کے ذمے ہے تو اس میں سے کچھ، امام جمعہ کی روش سے متعلق ہے۔ ان میں سے بعض خصوصیات، جن کا لحاظ کیا جانا چاہیے تاکہ نماز جمعہ اپنے صحیح مقام پر پہنچ جائے، امام جمعہ کی روش، انداز اور طرز زندگي سے متعلق ہیں جن میں سے دو تین کا میں ذکر کرنا چاہوں گا۔ کچھ چیزیں خطبوں سے متعلق ہیں، ان کا روش اور انداز وغیرہ سے کوئي تعلق نہیں ہے، خطبوں میں جو باتیں پیش کی جا رہی ہیں وہ ایسی ہو سکتی ہیں جو نماز جمعہ کو اس کے صحیح راستے پر لے آئيں۔
جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جو امام جمعہ کی روش سے متعلق ہیں تو میرے بھائيو! محترم عزیزو! امام جمعہ، جمعے کے دن لوگوں کو اپنی زبان سے تقوے کی سفارش کرتا ہے، میں کہتا ہوں کہ آپ سنیچر، اتوار، پیر، منگل، بدھ اور جمعرات کو لوگوں کو اپنے عمل سے تقوے کی دعوت دیں ورنہ اگر ہم نے جمعے کو تقوے کی دعوت دی لیکن سنیچر کو ہم نے کوئي ایسا کام کر دیا جو تقوے سے میل نہیں کھاتا تو یہ پورے عمل کو باطل کر دے گا اور صرف باطل نہیں کر دے گا بلکہ اس کا بالکل الٹا نتیجہ نکلے گا، سننے والا کہے گا کہ "یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟!" وہ جو کم ترین کام کرے گا وہ یہ ہے کہ اس کے بعد نماز جمعہ میں نہیں آئے گا، وہ کم سے کم جو کام کرے گا وہ یہ ہے، اس سے زیادہ بھی کرتے ہیں۔ بنابریں ایک مسئلہ یہ ہے۔ تقوے کی سفارش کرنے والے کو اپنے اندر بھی تقوی پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ دیکھیے، میں نے معجم المفہرس میں دیکھا ہے - افسوس کہ اب میرے پاس ان کاموں کی فرصت نہیں ہے، پہلے ان کاموں کو میں زیادہ یکسوئي سے انجام دیتا تھا، لیکن اب فرصت نہیں ہے، میں نے ایک سرسری نظر ڈالی - میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں تقریبا ساٹھ بار "اتقوا" (تقوی اختیار کرو) لفظ آيا ہے، تقریبا ساٹھ بار خداوند عالم مجھ سے اور آپ سے کہہ رہا ہے اتقوا لیکن ان میں سے دو جگہیں ایسی ہیں جو ہلا دینے والی ہیں۔ ایک جگہ وہ ہے جہاں سورۂ آل عمران میں کہا گيا ہے: "اِتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقاتِہ"(12) ویسا تقوی اختیار کرو جو تقوے کے شایان شان ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ دوسری جگہ وہ ہے جہاں سورۂ تغابن میں کہا گيا ہے: "فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا استَطَعتُم"(13) اس "مَا استَطَعتُم" سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جتنا ہو سکے اتنا تقوی اختیار کرو، نہیں، مطلب یہ ہے کہ اپنی پوری استطاعت کے ذریعے، اپنے تمام امکانات کے ذریعے تقوی حاصل کرو۔ یہ چیزیں ہم جانتے ہیں، انھیں بیان کرتے ہیں، خداوند عالم ہمارے دلوں کو تیار کرے، نرم کرے تاکہ ہم ان چیزوں پر عمل کر سکیں۔ فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا استَطَعتُم۔ تو پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہم جو نماز جمعہ کے خطبے میں تقوے کی سفارش کرتے ہیں، ہمیں خود اپنے اندر تقوے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، جتنا ہو سکے اتنا مشکوک باتوں سے اجتناب کریں، "وَ نَھَى النَّفسَ عَنِ الھَوىٰ"(14) کریں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جو بے شمار ہیں۔ یہ ایک خصوصیت ہے جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ ہم ائمۂ جمعہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
دوسرے سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت کا سلوک ہے۔ آپ کی نماز جمعہ میں ہر طرح کے لوگ شرکت کرتے ہیں، سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت کا سلوک رکھیے، سبھی آپ کے بچے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو کسی انقلابی نوجوان، مجاہد اور جدوجہد کرنے والے نوجوان سے زیادہ لگاؤ ہو - حق بھی یہی ہے، اس میں کوئي برائي نہیں ہے - لیکن وہ جو ایسا نہیں ہے، وہ بھی آپ کا بیٹا ہے، وہ بھی آپ کا بچہ ہے، سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت رکھیے۔ اپنے گھر کے اندر بھی ممکن ہے کہ کبھی انسان کو کسی وجہ سے اپنے کسی ایک بچے سے زیادہ لگاؤ ہو لیکن اسے اپنی پدرانہ شفقت دوسرے بچوں سے سلب نہیں کرنی چاہیے۔ سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت کا رویہ، وہ سبھی آپ کے بچے ہیں۔ تہران میں منعقد ہونے والا یہ جشن غدیر(15) بہت حیرت انگیز تھا، مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے دیکھا یا نہیں، میں نے خود ٹی وی پر دیکھا اور بعض لوگوں نے جو وہاں گئے تھے، ہمیں آ کر بتایا۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح دسیوں لاکھ لوگوں کے اس جشن میں، ہر طرح کے افراد نے شرکت کی؟ یہ لوگ دین کے حامی ہیں، یہ دین کو پسند کرتے ہیں۔ ایک بار ایک صوبائي دورے میں، اس صوبے کے محترم علمائے دین کے ساتھ میری ایک نشست تھی، میں نے کہا کہ آج یا کل جب میں آ رہا تھا تو گاڑی کے آس پاس، ان لوگوں کے درمیان جو مجھ سے اظہار محبت کر رہے تھے، کچھ رو بھی رہے تھے - بہرحال لوگ آتے ہیں اور محبت کا اظہار کرتے ہیں - کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ اگر آپ ان کو دیکھتے تو شاید آپ کو لگتا کہ دین پر ان کا عقیدہ نہیں ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے، وہ دین پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں، مجھے بہت سی باتیں کہنی ہیں اور میں نے بہت سی باتیں کہی بھی ہیں۔ اب یہاں پر زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت کا رویہ رکھیے اور سبھی کو روحانیت اور دین و شریعت کے دسترخوان پر بٹھائيے۔ یہ دوسری بات تھی۔
ایک دوسری بات یہ ہے کہ امام جمعہ کا برتاؤ عوامی ہونا چاہیے۔ عوامی برتاؤ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ عوام کی ایک فرد کی حیثیت سے لوگوں کے درمیان جائیے، ان سے بات کیجیے، لوگوں سے فاصلہ نہ بنائيے، صرف ایک خاص اور ممتاز گروہ سے نشست و برخاست نہ کیجیے۔ اگر کبھی ضروری ہوا تو لوگوں کے گھر جائیے، ان کی چھت کے نیچے، ان کے فرش پر بیٹھیے، ان سے ان کا حال پوچھیے۔ عوام کے درمیان جانا خود ہی ایک اہم کام ہے۔ کچھ لوگ عہدیداروں کی عوام سے بڑی گرانقدر ملاقاتوں کے بارے میں کچھ نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں، یہ غلط ہے، یہ حقیقت میں صحیح راہ سے انحراف ہے۔ عوام کے درمیان پہنچنا، ان سے باتیں کرنا، ان کی باتوں کو سننا، کافی اہم ہے۔ ممکن ہے کہ عوام میں سے کوئي، ایسی بات کہے جسے آپ تسلیم نہ کرتے ہوں، لیکن سنیے، اس میں کوئي برائي نہیں ہے کہ سننے کے بعد آپ کہیے کہ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، کوئي بات نہیں، لیکن اسے بولنے دیجیے۔ تو یہ عوام کے درمیان جانے کی بات ہوئي۔ البتہ لوگ آتے ہیں، امام جمعہ سے کچھ باتوں کی توقع رکھتے ہیں، امام جمعہ اس کا ذمہ دار نہیں ہے، اس کی ذمہ دار کسی حکومتی ادارے پر ہے، عدلیہ کے کسی ادارے پر ہے، وہ شخص وہاں جانے کے بجائے، امام جمعہ کے پاس آتا ہے جس سے ملنا اس کے لیے آسان ہے، یہ ہوتا ہے، میں جانتا ہوں، میں خود بھی رہا ہوں، میں نے دیکھا ہے، امام جمعہ کے لیے پریشانیاں کھڑی کر دیتے ہیں لیکن لوگوں سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ میرا کام نہیں ہے، اس کے معینہ عہدیدار ہیں، مگر جب کوئي آئے تو اس کی بات سنیے۔ البتہ ہم یہ بھی ضرور کہیں کہ آج تک امامان جمعہ کا نیٹ ورک، سب سے زیادہ عوامی انقلابی اداروں میں رہا ہے، یہ بھی واضح رہنا چاہیے، یعنی جب انسان انقلابی اداروں پر نظر ڈالتا ہے - بحمد اللہ جن کی برکتیں زیادہ ہیں - تو ائمہ جمعہ کا نیٹ ورک، سب سے زیادہ عوامی نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔
ایک اور سفارش، جو بہت زیادہ اہم ہے، نوجوانوں سے رابطے کی ہے۔ اس کام کے لیے بیٹھیے اور وسائل فراہم کیجیے، مطلب یہ کہ جوانوں سے رابطہ ایسے نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیے کہ جوانو آؤ اور وہ اٹھ کر آ جائيں! اس کام کے لیے آپ کو بیٹھنا ہوگا، سوچنا ہوگا، راستے اور وسائل تلاش کرنے ہوں گے۔ آج پورے ملک میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے، گمنام، انتہائي کم خرچ میں کام کرنے والے اور کسی طرح کا کوئي دعوی نہ کرنے والے گروہ ہیں جو ثقافتی کام کر رہے ہیں، سماجی کام کر رہے ہیں، سروسز دے رہے ہیں، ملک میں ہر جگہ ہیں۔ مجھے چونکہ اس طرح کے گروہوں سے محبت ہے - کبھی وہ لوگ رابطہ کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں، کوئي چیز مانگتے ہیں - اس لیے میں جانتا ہوں کہ پورے ملک میں اور تقریبا ہر شہر میں، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں اس طرح کے گروہ موجود ہیں، انھیں اپنے شہر میں تلاش کیجیے، ان کی مدد کیجیے، ان کے سروں پر دست شفقت پھیریے، یہ جوان گروہ ہیں، یونیورسٹی کے جوان کے ساتھ، دینی مدارس کے جوان کے ساتھ - آج ہمارے زیادہ تر شہروں میں یونیورسٹی بھی ہے اور دینی تعلیمی مرکز بھی ہے، یہ سب جوان ہی تو ہیں - ان جوانوں کے ساتھ بیٹھیے، بات کیجیے، ان کے گروہوں میں پہنچیے، ان کے مدارس میں جائيے، ان کی یونیورسٹیوں میں جائيے، ان سے بات کیجیے، انھیں بلائيے، مطلب یہ کہ جوانوں کے ساتھ رابطہ، خود امام جمعہ کے لیے بھی مفید ہے اور اس میں معنوی فائدہ ہے کیونکہ نسلیں عموما فطری طور پر نئي زبان، نئي سوچ اور نئے ادب ایجاد کرتی ہیں - اس کی فطرت یہی ہے - جوانوں کے اس نئے قدم سے دور نہ رہیے۔ جب آپ ان کے درمیان پہنچ گئے اور ان سے انسیت پیدا ہو گئي تو پھر آپ ان کی زبان، ان کے ادب اور ان کی اصطلاحات سے زیادہ آشنا ہوں گے، یہ چیز ان سے رابطہ قائم کرنے میں آپ کی بہت مدد کرے گي۔ خاص طور پر رضاکار گروہوں کے ساتھ، تمام صوبوں اور شہروں میں موجود ان اچھے جوانوں سے نشست و برخاست کیجیے۔
ایک اور پہلو جس کی ہم سفارش کرنا چاہتے ہیں، اجتماعی عوامی خدمات میں شرکت ہے اور واقعی بہت سے محترم ائمۂ جمعہ نے اس میدان میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ زلزلے کے وقت، سیلاب کے دوران، کورونا کے معاملے میں، سماجی خدمات کو منظم کرنے میں، عوامی امداد میں، مومنانہ امداد میں، دیگر گوناگوں مسائل میں ائمۂ جمعہ میدان میں آئے اور انھوں نے کام کیا۔ یہ بھی ان کاموں میں سے ایک ہے جو ہمارے خیال میں بہت اچھا ہے۔ محروم طبقوں کی مدد اور مستضعف و محروم لوگوں کی مدد بھی آپ کے ضروری کاموں میں سے ہے، یعنی ہم انصاف کے حامی ہیں، انصاف کا پرچم بلند کرتے ہیں لیکن انصاف کا مستضعف و محروم طبقے کی مدد کے بغیر کوئي مطلب نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے ادارے میں، گروہ میں محروم طبقوں کی کوئي مدد کر سکیں تو یہ بہترین کاموں میں ہے۔
ایک دوسری بات، نماز جمعہ قائم کرانے والے سینٹرز کی نگرانی کی ہے۔ البتہ میں ان سینٹرز کا واقعی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نماز جمعہ کے یہ سینٹرز پورے ملک میں بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، بہت کام کرتے ہیں، بہت کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہیے اور ان کے کاموں کو دیکھیے، ان کے کاموں کی نگرانی کیجیے اور ان کے صحت و درستگی کی طرف سے اطمینان حاصل کیجیے۔ البتہ یہ بہت اچھے ہیں، اچھے لوگ، مومن لوگ لیکن بہرحال ہر جگہ کچھ چیزیں ممکن ہیں دیمک کی طرح گھس جائيں، ان کی طرف سے بھی چوکنا رہیے۔
ایک دوسری بات اور دوسری سفارش، جسے میں پہلے بھی بارہا بیان کر چکا ہوں، یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں داخل ہونے سے پرہیز کیجیے، یہ سوچ صحیح نہیں ہے کہ چونکہ ہماری نماز جمعہ کو پیسوں کی ضرورت ہے، آمدنی کی ضرورت ہے، ہماری کوئي آمدنی نہیں ہے اس لیے ہمیں مثال کے طور پر فلاں اقتصادی کام انجام دینا چاہیے۔ بعض محترم ائمۂ جمعہ معاشی میدان میں اترے اور چونکہ وہ اس کے ماہر نہیں تھے، اس لیے شکست کھا گئے، دوسروں نے غلط فائدہ اٹھایا اور اس کام کا بوجھ اور مصیبتیں، نظام کے سر آ گئيں جن میں سے بعض اب تک جاری ہیں۔ معاشی اور اقتصادی مسائل میں بالکل بھی داخل نہ ہوں۔ علمائے دین کا نظام عوام کے ذریعے چلتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ دینی مدارس کا خرچہ عوام سے چلتا ہے، یہ بے عزتی نہیں، افتخار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں حکومتوں اور طاقتوں کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی خصوصیت ہے۔ اس طرح علمائے دین سکون سے عوام کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ آپ دیکھیے مختلف معاملوں میں دینی تعلیمی مدارس عوام کے ساتھ آئے، ان کے ساتھ رہے تو انھیں حکومتوں اور طاقتوں سے کوئي جھجھک نہیں ہے۔ اگر علمائے دین کے درمیان کچھ لوگ ایسے تھے جن کا کسی موقوفہ جائیداد یا کسی جگہ سے کوئي تعلق تھا تو وہ عوام کے ساتھ نہیں رہ سکے اور پچھڑ گئے۔ ہم عوام کے 'مرتزقہ'(16) ہیں، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے۔ نماز جمعہ بھی ایسی ہی ہے، لوگوں کو مدد کرنی چاہیے اور وہ کر رہے ہیں۔ جب آپ کوئي معاشی کام کرتے ہیں، دکان بنا لیتے ہیں، بزنس کرتے ہیں اور ایسے ہی دوسرے کام کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ "ٹھیک ہے، ان کے پاس تو ہے" نہ صرف یہ کہ وہ آپ کی مدد نہیں کرتے بلکہ انھیں آپ سے کچھ توقعات بھی ہو جاتی ہیں۔ خیر تو یہ امام جمعہ کی روش اور اس کے انداز کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔
کچھ باتیں، نماز جمعہ کے خطبوں کے بارے میں بھی عرض کروں۔ سب سے پہلے تو اس بات پر توجہ رہے کہ نماز جمعہ کا خطبہ اور نماز جمعہ کا خطیب، اسلامی انقلاب کا ترجمان ہے، کسی کو بھی خطیب جمعہ سے اس کے علاوہ اور کوئي توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ وہ اسلامی انقلاب کا ترجمان ہے، انقلاب کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے والا ہے، انقلاب کے مطالبات کو پیش کرنے والا ہے، اس کا تعلق انقلاب سے ہے، ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے، پوری تاریخ میں ایسا ہی رہا ہے۔ خطیب جمعہ کا بڑا ہنر یہ ہے کہ وہ وقت کی ضرورت کے مطابق انقلاب کی تعلیمات اور مفاہیم کو نئي شکل میں پیش کرے۔ انقلاب کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے ہم کبھی نعرے لگایا کرتے تھے، ان کے لیے کوشاں بھی تھے اور اب بھی ہیں لیکن انھیں باتوں کو آج نئی شکل میں، آج کے مناسب الفاظ میں بیان کیا جانا چاہیے، نئي شکل میں پیش کیا جانا چاہیے۔ امام جمعہ کا فن یہ ہے کہ وہ انصاف کے مسئلے کو، خودمختاری کے مسئلے کو، کمزوروں کی مدد کے مسئلے کو، شریعت کی پیروی کے مسئلے کو، ان چیزوں کو جو انقلاب کے بنیادی اصول اور تعلیمات میں شامل ہیں، ان اعلی مفاہیم کو نئي شکل دے اور آج کی زبان میں اور نوجوان نسل کی زبان میں پیش کرے۔ وہ انقلاب کا ترجمان ہے۔
خطبے پرمغز ہوں، سبق آموز ہوں، ان میں عوامی سوالات کے جوابات ہوں، کچھ ایسے سوالات ہیں، جن کی طرف اشارہ کیے بغیر ہی آپ خطبوں میں ان کا جواب دے سکتے ہیں کیونکہ وہ سوالات عوام کے ذہن میں ہیں۔
خطبے کا انداز گرمجوشی والا ہونا چاہیے، اپنائيت بھرا ہونا چاہیے، اتحاد قائم کرنے والا ہونا چاہیے، امید افزا ہونا چاہیے، خطبے کی زبان، امید پیدا کرنے والی ہونی چاہیے۔ خطبے میں آپ جو بھی لفظ استعمال کرتے ہیں، وہ اس آيت کا مصداق ہو سکتا ہے: "ھُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَۃَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایماناً مَعَ ایمانِھِم"(17) اسی طرح وہ اضطراب اور تشویش کا بھی مصداق ہو سکتا، تشویش بری نہیں ہے لیکن آپ کے الفاظ اضطراب، فکری انتشار، صورتحال سے بدگمانی اور مستقبل کی طرف سے مایوسی وغیرہ کا بھی مصداق ہو سکتے ہیں، دونوں طرح سے بات کی جا سکتی ہے۔ خطبہ امید پیدا کرنے والا ہو، بصیرت پیدا کرنے والا ہو۔ وہ ہنگامہ مچانے والا بھی ہو سکتا ہے، ہم کوئي ایسی بات کہیں جو آپ کے دشمن اور آپ کے مخالف کو ایک بہانہ عطا کر دے جسے ہاتھ میں لے کر وہ آپ کے خلاف باتیں کرے۔
خطبوں کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ وہ دشمن کی جانب سے مسلسل پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا مقابلہ کر سکے۔ میں نے عرض کیا کہ آج میدان جنگ، سافٹ پاور کی جنگ کا میدان ہے اور دشمن کا سافٹ پاور، شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں پھیلانے کا کام کرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ایک قوم ہے جو اپنے عقیدے اور بھرپور ایمان کے ساتھ انقلاب کے لیے ڈٹ گئي، اس نے جان دی، بہت مشکلات اٹھائيں، اپنے آپ کو زحمت میں ڈالا، انقلاب کو کامیاب کیا، اس کے بعد ایک مسلط کردہ جنگ میں آٹھ سال تک استقامت کا مظاہرہ کیا، پھر آج تک سر اٹھانے والے فتنوں کے سامنے ڈٹی رہی، جہاں بھی ضرورت پڑی، میدان میں آ گئي، عوام ایسے ہی تو ہیں۔ تو اگر دشمن اس مضبوط قلعے کو تباہ کرنا چاہے یا اس میں دراڑ ڈالنا چاہے تو اسے کیا کرنا ہوگا؟ اسے اس ایمان کو مشکوک بنانا ہوگا، اس ایمان کو کمزور کرنا ہوگا، یہ چیز شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں سے ممکن ہو سکتی ہے۔ ان چیزوں کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسے لوگ رہے ہیں جو نیزوں اور تلواروں کے سامنے ڈٹ گئے لیکن شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کے سامنے مات کھا گئے، استقامت نہیں دکھا سکے، ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں۔ جنگ کے میدان میں پوری طاقت اور پوری شجاعت کے ساتھ ڈٹے رہے لیکن ان کے سامنے کوئي شبہہ اور کوئي غلط فہمی آئي تو وہ اسے حل نہیں کر سکے اور مات کھا گئے، شبہہ اور غلط فہمی ایسی ہی ہوتی ہے۔
شبہہ پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو، جو ملک کی اصلی طاقت ہیں اور عوام کے ایمان کو، جو ملک اور اسلامی نظام کی حفاظت کا اصلی عنصر ہے، متزلزل کر دیا جائے۔ یہ دشمنی کی وجہ سے کیا جا رہا ہے، مطلب یہ کہ اسلامی جمہوریہ نے مغرب کے مقابلے میں ایک بڑا کام کیا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کبھی بیان کی جاتی ہیں، دوہرائي جاتی ہیں اور ذہن سے نکل جاتی ہیں یعنی بات کی اہمیت پر صحیح توجہ نہیں دی جاتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انھیں اچھے طریقے سے بیان نہیں کیا جاتا لیکن ایک حیرت انگیز حقیقت پائي جاتی ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ نے اپنے وجود اور اپنے تعاون سے مغرب کے دو تین سو سالہ دعوے کو باطل کر دیا ہے۔
مغربی تمدن کی ماہیت کا مرکزی نقطہ دین اور ترقی کی ایک دوسرے سے بیگانگی ہے۔ اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے: اگر آپ ترقی و پیشرفت کرنا چاہتے ہیں تو دین کو الگ رکھ دیں۔ اگر آپ ذاتی زندگی میں کوئي عقیدہ رکھتے ہوں تو کوئي بات نہیں لیکن اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو زندگي کے مسائل میں مذہب کو دخیل نہیں کرنا چاہیے، یہ مغربی تمدن کی ماہیت کا مرکزی اور بنیادی نقطہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے ٹھیک اسی نقطے پر نشانہ لگایا، فائر کر دیا اور اسے اڑا دیا۔
اسلامی جمہوریہ دین کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئي، اس نے اپنی حفاظت کرنے کے ساتھ ہی ترقی بھی کی، اس منطق کو فروغ بھی دیا، اس کی جڑوں کو مضبوطی بھی عطا کی، اَلَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃ(18)، یہی آیت جس کی تلاوت کی گئي۔ اسلامی جمہوریہ نے اپنے وجود سے، اپنی موجودگي سے مغربی تمدن کے مرکزی تشخص کو باطل کیا ہے، اسے چیلنج کیا ہے۔ اسی وجہ سے دشمن طیش میں ہیں، تلملائے ہوئے ہیں۔ مغربی طاقتوں کا مافیا، جس میں سب سے اوپر صیہونی اور بڑے یہودی تاجر اور ان کے تحت کام کرنے والے سیاستداں ہیں اور امریکا ان کا شوکیس ہے اور یہ ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں، مغرب کی طاقت یہ ہے، وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے اور ہر دن یہ سوچتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کریں، اسلامی جمہوریہ کو کوئي چوٹ پہنچائیں۔
میں ایک مثال دوں جو اتفاق سے آج کل سرخیوں میں ہے: اسلامی معاشرے میں عورت کا مسئلہ۔ البتہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی یہ لوگ عورت کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں، بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ہیں کہ ایرانی عورت کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔ حالیہ دنوں میں حجاب وغیرہ کے بہانے سے ایک بار پھر عورت کا مسئلہ اٹھایا ہے اور ان ہی ناکام کوششوں کو پھر سے دوہرا رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک نشست میں کسی نے مجھ سے پوچھا کہ عورت کے سلسلے میں مغرب کے مقابلے میں آپ کے پاس کیا دفاع ہے؟ تو میں نے کہا تھا: "میرے پاس دفاع نہیں ہے، میرے پاس حملہ ہے۔ دفاع تو انھیں کرنا چاہیے، انھیں جواب دینا چاہیے۔ ان لوگوں نے عورت کو ایک سامان بنا کر رکھ دیا ہے۔ دفاع؟ میں دفاع نہیں کروں گا۔ عورت کے معاملے میں ہم مدعی ہیں۔ خیر! تو عورت کا مسئلہ ہے کیا؟ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اچانک ہی امریکا، برطانیہ، دوسری جگہوں پر اور ان کے پٹھوؤں کے سرکاری میڈیا اور ذرائع ابلاغ اچانک کسی خاص زمانے میں عورت کے مسئلے میں حملہ آور ہو جاتے ہیں اور انھیں کوئي بہانہ بھی مل جاتا ہے جیسے حجاب کا مسئلہ اور ایسی ہی دوسری چیزیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ کیوں یہ کام کرتے ہیں؟ کیا واقعی یہ لوگ عورت اور ایرانی عورت کے حقوق کے حامی ہیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو ایرانی قوم پر پانی بند کر دیتے؟ کیا انھیں ایرانی عورت سے ہمدردی ہو رہی ہے؟ انھوں نے خطرناک بیماری 'ای بی' میں مبتلا بچوں کی دواؤں پر پابندی لگا رکھی ہے، ایرانی قوم پر ہمہ گير پابندی لگا رکھی ہے، انھیں ایرانی عورت سے ہمدردی ہے؟ کیا کوئي اس پر یقین کر سکتا ہے؟!
تو پھر بات کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ باعزت و باصلاحیت ایرانی خاتون نے، مغربی تمدن پر ایک بڑی کاری ضرب لگائی ہے۔ اس سے وہ لوگ سخت برہم ہیں۔ یہ کام عورتوں نے کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے مجموعی اقدامات کے علاوہ، خاص طور پر ایرانی عورت نے، مغرب کے دعووں اور اس کی جھوٹی باتوں پر ایک زبردست اور بڑی کاری ضرب لگائی ہے۔ کس طرح؟ - دو سو سال سے- وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عورت اخلاقی و شرعی بیڑیوں سے آزاد نہیں ہوئي تو وہ پیشرفت نہیں کر سکتی، وہ اعلی علمی، سائنسی، سیاسی اور سماجی مقام تک نہیں پہنچ سکتی، وہ اس طرح کہہ رہے ہیں۔ اعلی سیاسی و سماجی مقامات تک پہنچنے کی شرط یہ ہے کہ عورت ان اخلاقی بیڑیوں کو توڑ دے۔
ایرانی عورت نے عملی طور پر اسے غلط ثابت کر دکھایا، ایرانی خاتون ہر میدان میں پوری کامیابی، سربلندی اور حجاب کے ساتھ سامنے آئي ہے۔ یہ رجز خوانی نہیں ہے، یہ ہمارے سماج کے بدیہی حقائق ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں پچاس فیصد یا اس سے کچھ زیادہ داخلہ طالبات کا ہوتا ہے، ہماری خواتین کا ہوتا ہے۔ اہم اور حساس سائنسی مراکز میں، جن میں سے بعض کا میں ذاتی طور پر معائنہ کر چکا ہوں، ہماری ماہر خواتین اور خاتون سائنسداں کردار ادا کر رہی ہیں۔ کھیل کے مقابلوں کے میدان میں – اکثر ہم ان لوگوں کی اس طرح تعریف و ستائش نہیں کر پاتے جس کی وہ حقدار ہوتی ہیں- ایرانی لڑکی، مقابلوں میں پہلے نمبر پر آئي ہے، دنیا میں ٹی وی پر دیکھ رہے کروڑوں ناظرین کی آنکھوں کے سامنے ایران کا پرچم لہرایا جاتا ہے، ایران کا قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور وہ لڑکی حجاب میں ہوتی ہے، اس مرد سے مصافحہ نہیں کرتی جو اسے میڈل دینے آيا ہے، یعنی شرعی ذمہ داری پر عمل کرتی ہے، کیا یہ کوئي کم چیز ہے؟ سیاسی میدان میں، میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ سابق سوویت یونین کے زمانے میں دو ملکوں کے درمیان سب سے اہم سیاسی پیغام رسانیوں(19) میں سے ایک میں، امام خمینی نے ایک تین رکنی وفد بھیجا جس کی ایک رکن، ایک خاتون (20) تھی۔ ایک مضبوط خاتون، اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔ ملک کا انتظام چلانے کی ذمہ داریوں میں، ہماری خواتین نے حجاب کے ساتھ، چادر پہن کر اپنے شعبے کا بہترین انتظام چلایا ہے۔ علمی و سائنسی مسائل میں، ادبیات میں، ریڈیو اور ٹی وی کی بہترین اینکرز۔ مختلف میدانوں میں ایرانی خاتون پہنچی ہے اور اس نے اعلی ترین پوزیشن حاصل کی ہے، اسلامی حجاب کے ساتھ، حجاب کی پابندی کرتے ہوئے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ یہ چیز مغرب کی دو تین سو برس کی کوششوں پر پانی پھیرنے والی ہے، وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے، طیش میں آ جاتے ہیں، سرتوڑ کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو کریں، ایک بار پھر وہ حجاب کے مسئلے کا راگ الاپنے لگتے ہیں، کسی ایک معاملے پر اٹک جاتے ہیں اور اسی کا پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔ دیکھیے، یہ شبہے پھیلانے کا جو محرک ہے، وہ یہ ہے اور دشمن جس چیز کا دکھاوا کر رہا ہے، اسے تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ بہرحال یہ اہم چیزیں ہیں۔
ہمیں جو رپورٹ دی گئي ہے اس کے مطابق، بہت سارے مقامات پر نماز جمعہ کے خطبوں میں حجاب کے مسئلے پر بات کی گئي۔ حالیہ دنوں میں جاری ان ہی مسائل کے بارے میں جو آج کل سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں، بعض اخبارات کی سرخیوں میں بھی ہیں، بہت سے خطبوں میں بھی بیان کیے گئے۔ اس سلسلے میں بہت ٹھوس اور منطقی طریقے سے اور بےجا جذباتیت سے دور ہتے ہوئے متانت سے بات کرنی چاہیے۔ جذبات اچھی چیز ہیں، بری چیز نہیں ہیں لیکن جذبات کو استعمال کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ آپ کو اس طرح کے مواقع پر، مغربی سامراج کی اس سوچ کو، جو فتنے کی آگ بھڑکنے کا سبب ہے اور وہ اس کام میں مصروف ہے، فاش کیجیے، اسے ٹھوس دلیلوں کے ساتھ عوام کے سامنے بیان کیجیے۔ مغرب والے اپنے بڑے سرکاری ذرائع ابلاغ کی سطح پر بھی اور اپنے ان حقیر پٹھوؤں کی سطح پر بھی، کچھ کام کر رہے ہیں، کوئي بات نہیں، آپ ان کے سامنے نہ آئيے، ان سے مقابلہ نہ کیجیے، مگر آپ اصل بات کو عوام کے سامنے بیان کرنے کے لیے رکھیے۔ البتہ یہ بنیادی سفارش ہے۔ یہ جو میں نے عرض کیا کہ متانت کا رویہ اپنایا جائے اور افراط سے کام نہ لیا جائے، یہ دوسری چیزوں میں بھی ہے۔ کچھ نامناسب باتیں ہوتی ہیں، جنھیں امام جمعہ جس وجہ سے بھی ضروری سمجھے، پیش کر سکتا ہے۔ شہر، عوام اور ان کی ذہنیت کی صورتحال کی شناخت اسے اس نتیجے تک پہنچاتی ہے تو کوئي بات نہیں! لیکن بات پیش کرنے کا طریقہ، امام جمعہ کی پوزیشن کے مطابق ہونی چاہیے، مطلب وہی متانت۔
تشریح کے جہاد کو سنجیدگي سے لیجیے، لوگوں کے ذہن سے شبہوں کو دور کرنے کی بات کو سنجیدگي سے لیجیے۔ شبہہ ان چیزوں میں سے ہے جن کے بارے میں، میں نے عرض کیا کہ دیمک کی طرح ہیں، دشمن نے ان دیمکوں سے امید لگا رکھی ہے۔ شبہہ وائرس ہے، اسی کورونا وائرس کی طرح، جب یہ آ گيا تو اسے باہر نکالنا مشکل ہے، متعدی بیماریوں میں سے بھی ہے، ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ البتہ یہ جو میں نے کہا کہ بعض لوگ تیر اور تلوار کے سامنے تو ڈٹ گئے لیکن شبہے کے مقابلے میں مات کھا گئے، اس میں کسی حد تک دنیا پرستی کا بھی دخل ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا کیا ہے؟ ہر کسی کی دنیا الگ ہوتی ہے، کسی کی دنیا مال ہے، کسی کی دنیا منصب ہے، کسی کی دنیا جنسی خواہشات ہیں، یہ مختلف افراد کی دنیائيں ہیں، یہ سب دنیا ہے، ممکن ہے کہ وہ اپنے لیے اس دنیا پرستی کا صحیح جواز بھی پیش کرے لیکن بہرحال یہ دنیا پرستی ہے، ان کا بھی اثر ہے۔
بنابریں خطبے کے بارے میں، میں نے عرض کیا کہ نماز جمعہ کا خطبہ، انقلاب کے اہم مسائل کو پیش کرنے کے لیے، ایک مضبوط اور مستحکم مرکز ہونا چاہیے، جیسے انصاف کا مسئلہ۔ انصاف کا مسئلہ بہت اہم ہے، انصاف کے مسئلے پر غور کیجیے، کام کیجیے، بات کیجیے۔ اسی طرح خودمختاری کے مسئلے پر کام کیجیے، خودمختاری اہم مسئلہ ہے۔ مستضعفین کی حمایت کا مسئلہ، عالم اسلام کے اتحاد کا مسئلہ، یہ سارے مسائل بہت اہم ہیں۔ عوام کو بصیرت عطا کیجیے۔
البتہ یہ باتیں اور یہ سفارشیں جو ہم نے عرض کیں، محرم کی تقاریر کے بارے میں بھی، جو سامنے ہی ہے، صحیح ہیں اور ایسی ہونی چاہیے کہ ان کا نتیجہ آپ کو نماز جمعہ کے اجتماع میں دکھائي دے، یعنی اگر وہ کام جو آپ کر رہے ہیں، کامیاب کام ہو تو اسے آپ کی نماز جمعہ کے اجتماع میں دکھائي دینا چاہیے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ یہ جو آپ نے کام کیا ہے، اس کا سامع پر کوئي اثر نہیں ہوا ہے تو جان لیجیے کہ کام میں کوئي کمی ہے، اس کمی کو تلاش کیجیے اور برطرف کیجیے۔ عدم توجہ کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ مثال کے طور پر دینی مسائل اور اسی طرح کی باتوں پر لوگوں کا عقیدہ کمزور ہے، جی نہیں۔ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں! واقعی ایسا لگتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بات کی جا رہی ہے کہ جناب لوگوں کا دین ایسا ہو گيا ہے، ان کا عقیدہ کمزور ہو گيا ہے، جی نہیں! بالکل کمزور نہیں ہوا ہے۔ آپ غدیر کے اسی جشن کو دیکھیے، مختلف شہروں میں محرم و صفر کی مجلسوں کو دیکھیے، جو لوگ شرکت کرتے ہیں، وہ کون ہیں؟ وہ یہی لوگ ہی تو ہیں۔ مرثیہ خوانی، مجالس اور نوحہ خوانی کی مجلسوں کو دیکھیے، اربعین مارچ کو دیکھیے، یہ کون لوگ ہیں؟ یہ، یہی لوگ تو ہیں۔ لوگوں کا دین، لوگوں کا ایمان، لوگوں کی دینداری کمزور نہیں ہوئي ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہوئي ہے لیکن ممکن ہے کہ میری مجلس یا میری نماز ایسی ہو کہ میں ان مومن لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کر سکوں، اسے لوگوں کی بے دینی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ ایسے ہی تو کہتے ہیں کہ جناب لوگ ایسے ہو گئے ہیں، ویسے ہو گئے ہیں، مثال کے طور پر ان کے عقائد کمزور ہو گئے ہیں، جی نہیں! کمزور نہیں ہوئے ہیں، عوام بدستور، انقلاب سے پہلے کی طرح - ہم نے انقلاب سے پہلے دیکھا ہے - آپ میں سے زیادہ تر نے انقلاب سے پہلے کا زمانہ نہیں دیکھا ہے- ان کے اجتماعات بھی بہتر ہیں، دینی تعلیمی مراکز کے لیے ان کی مالی امداد بھی کئي گنا بڑھ گئي ہے، اجتماعی مذہبی خدمات میں ان کی موجودگي بھی پہلے سے زیادہ اور اہم ہو گئی ہے۔ لوگ میدان میں ہیں، ہم خود میدان سے باہر نہ نکلیں۔
اے پروردگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ! جو کچھ ہم نے کہا اور سنا، اسے اپنے لیے اور اپنی راہ میں قرار دے، ہمیں اخلاص عطا کرے، اسے قبول کر لے۔ اے پروردگار! ہمیں اپنی کہی ہوئي باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا کر، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پاکیزہ روح کو، جس نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا ہے اور ہمارے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو، جنھوں نے اس راہ میں مجاہدت کی ہے اور اپنی عمر کے سرمائے کے ذریعے خدا سے سودا کیا، صدر اسلام کے شہداء کی پاکیزہ ارواح اور ائمۂ ہدی علیہم السلام کے ساتھ محشور کر، ہمیں بھی ان کے ساتھ ملحق کر دے۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں، ائمۂ جمعہ کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین الحاج علی اکبری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) سورۂ نحل، آيت 97، یقینی طور پر ہم اسے ایک پاکیزہ زندگي کے ذریعے، حقیقی حیات عطا کریں گے۔
(3) علم عرفان میں "یلی الحق" کی اصطلاح کی طرف اشارہ جو انسان کے وجود کی حقیقت اور اس کے معنوی پہلو اور تمام الہی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
(4) سورۂ جمعہ، آيت 9، اے ایمان لانے والو! ذکر خدا کی طرف دوڑ پڑو۔
(5) سورۂ رعد، آيت 28، جان لو کہ ذکر خدا سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
(6) سورۂ آل عمران، آيت 103، تم سبھی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور منتشر نہ ہو۔
(7) سورۂ ذاریات، آيت 55، بے شک ذکر (خدا اور نصیحت) مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
(8) سورۂ بقرہ، آيت 152، تو مجھے یاد رکھو تاکہ میں تمھیں یاد رکھوں۔
(9) منجملہ، سورۂ انفال، آيت 45 اور سورۂ جمعہ، آيت 10، اور خدا کو بہت یاد کرو کہ شاید تم فلاح پا جاؤ۔
(10) مصباح المتہجد، جلد 2، صفحہ 849، تاکہ میرے تمام اعمال اور ورد تیرے لیے ہی ہوں اور میرے حالات ہمیشہ تیری خدمت کے لیے وقف رہیں۔
(11) وسائل الشیعہ، جلد 7، صفحہ 344
(12) سورۂ آل عمران، آيت 102،
(13) سورۂ تغابن، آيت 16
(14)سورۂ نازعات، آيت 40، اور اس نے اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے روکے رکھا۔
(15) تہران کی ولی عصر اسٹریٹ پر عید غدیر کے عوامی جشن کی طرف اشارہ جو دس کلو میٹر کے جلوس کی صورت میں منعقد ہوا۔ یہ جلوس ولی عصر چوراہے سے لے کر پارک وے چوراہے تک نکالا گيا اور اس میں تیس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔
(16) وہ لوگ جنھیں کھانے کے پیسے دیے جاتے ہیں۔
(17) سورۂ فتح، آيت 4، وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو جائے۔
(18) سورۂ ابراہیم، آيت 24، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح مثال دی ہے: اچھی بات کہ جو اچھے درخت کی طرح ہے۔
(19) امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخی خط سوویت یونین کے آخری رہنما میخائیل گورباچوف کے حوالے کیا جانا۔
(20) محترمہ مرضیہ حدیدچی دباغ