بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

میں آپ سبھی برادران و خواہران عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں جنھوں نے زحمت کی اور اتنا طویل راستہ طے کر کے یہاں تشریف لائے اور اپنی موجودگی سے اس امام بارگاہ کو رونق، معنویت اور جلا بخشی۔ میں یہیں سے تبریز کے تمام عوام، آذربائیجان کے تمام عوام، عزیز عوام اور غیور عوام کی خدمت میں درود و سلام بھیجتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ حقیقی معنی میں، جیسا کہ آپ نے اس خوبصورت ترانے میں پڑھا، عشق و حمیت کا مظہر آذربائیجان ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے، آذربائیجان حمیت کا مظہر ہے، محبت و الفت کا مظہر ہے، ایمان کا مظہر ہے، ایمانی و اسلامی جوش و جذبے کا مظہر ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ہم نے آذربائیجان اور تبریز کی تاریخ میں بھی پڑھی ہے اور جدوجہد کے زمانے سے لے کر آج تک کے ان طویل برسوں کے دوران خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھی ہے۔

میں شعبان کی عیدوں کی مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حقیقت میں شیعہ دلوں کے لیے یہ ایام ولادت، یہ عیدیں خاص طور پر پندرہ شعبان کا مبارک دن، بڑی مسرتوں اور شادمانیوں کے مواقع ہیں۔ میں 22 بہمن (11 فروری) کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جلوسوں میں بھرپور شرکت پر ملت ایران کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ملک میں ہر جگہ، تمام صوبوں میں، تمام شہروں میں، یہاں تک کہ دیہی علاقوں اور دور دراز کے مراکز میں بھی عوام نے اپنے جوش اور گرمی حیات کا مظاہرہ کیا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے دل میں ملت ایران کی پژمردگی کی آرزو رکھتے ہیں، یہ لوگ مبہوت رہ گئے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی آرزو تھی اور ہے کہ ایرانی قوم رفتہ رفتہ 22 بہمن (11 فروری) کو بھول جائے، یہ بھونچکا رہ گئے۔ اس سال عوام نے حقیقی معنی میں 22 بہمن (11 فروری) کے دن اپنے انقلاب کی سرفرازی کو دنیا کو دکھا دیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ البتہ عزیز عوام کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی، ان لوگوں کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے پورے ملک میں ہر جگہ نکلنے والے ان جلوسوں کی حفاظت کو اللہ کی مدد سے یقینی بنایا۔ یہ جو حفاظت ہے، یہ کچھ مجاہد اور ایثار پیشہ افراد کی کوششوں، زحمتوں، فداکاری اور دن رات کی محنتوں سے حاصل ہوتی ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ البتہ عوام کی یہ بھرپور مشارکت اور موجودگی، عہدیداروں کو بھی جوش اور محرک عطا کرتی ہے، ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے، یہ بات بھی سبھی کو معلوم ہونی چاہیے تاہم ہمارے عہدیداران بحمد اللہ پرعزم ہیں، ذمہ داری محسوس کرنے والے ہیں، پرجوش ہیں اور اپنی پوری توانا‏ئی کے ساتھ کام کر رہے ہیں لیکن یہ عوامی مشارکت اور عوامی موجودگی ان کے جوش و جذبے میں اضافہ کر دیتی ہے، انھیں مزید حوصلہ عطا کرتی ہے، انھیں پوری طاقت سے کھڑا رکھتی ہے اور جیسا کہ محترم امام جمعہ نے اشارہ کیا، سماج، قوم، عہدیداران اور انقلاب کی رگوں میں خون کی گردش تیز کر دیتی ہے۔

جہاں تک 18 فروری کی بات ہے تو 18 فروری 1978 کے بارے میں بارہا باتیں کی گئی ہیں اور مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے اس کے بارے میں بتایا گیا ہے، آج میں بھی اس سلسلے میں کچھ باتیں بیان کروں گا اور پھر جو باتیں عرض کروں گا، اس کا ایک نتیجہ بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ یقینی طور پر 18 فروری 1978 کا واقعہ، تاریخ رقم کرنے والا واقعہ تھا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ تاریخ رقم کرنے والا واقعہ یعنی وہ واقعہ ایسا نہیں ہے کہ شروع ہو اور پھر ختم ہو جائے، بات ختم، نہیں! وہ واقعہ شروع ہوتا ہے، جاری رہتا ہے، پھیل جاتا ہے، بہترین نتائج حاصل کرتا ہے اور تاریخ کا ورق پلٹ دیتا ہے، تبریز کا واقعہ اس طرح کا تھا۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ شہید تجلائی، لوگوں کے سامنے آنے، سڑکوں وغیرہ پر عوام کے آ جانے کا بہانہ بن گئے۔ مرحوم میرزا حسن انگجی صاحب، مرحوم شہید قاضی، مرحوم شیخ عبدالحسین غروی جیسے بزرگ علماء اور دیگر علماء نے دستخط کر کے ایک بیان جاری کیا تھا، یہ ساری باتیں مؤثر تھیں، انھوں نے لوگوں کو ترغیب دلائی لیکن جو واقعہ رونما ہوا، وہ ان سب باتوں سے بڑا تھا۔ اس واقعے نے کیا کیا؟ تبریز کے واقعے نے قم کے 9 جنوری1978 کے واقعے کے اثر کو، جسے شاہی حکومت چھپانا چاہتی تھی، دسیوں گنا زیادہ بڑھا دیا، قم کے واقعے کو پورے ملک تک پہنچا دیا، تبریز کا واقعہ ایسا تھا۔ جب استقامتی جذبہ، انقلابی جوش اور قیام پورے ملک تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے تقریبا ایک سال بعد بائیس بہمن (11 فروری، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دن) کا واقعہ رونما ہوتا ہے اور ایران پوری طرح سے بدل جاتا ہے، تاریخ رقم کرنے والے واقعے کا مطلب یہ ہے۔

تبریز کے عوام نے اپنے فریضے کو بر وقت پہچانا اور فریضے کے تحت بروقت قیام کیا جس کی طرف میں نے اسی مناسبت کی ایک نشست میں اشارہ کیا تھا۔(2) واقعے کی اہمیت یہ ہے کہ ہم جب کوئی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں تو پہلے تو یہ کہ اسے بروقت محسوس کریں اور وقت ضائع نہ کریں، دوسرے یہ کہ جب ہم نے ذمہ داری کو محسوس کر لیا تو فریضہ سمجھ کر قیام کریں، توابین کے ماجرے کی طرح نہ ہو، توابین کربلا نہیں پہنچے بلکہ انھوں نے اس کے بعد قیام کیا اور سب کے سب شہید بھی ہوئے لیکن کیا اثر ہوا؟ انھوں نے تاریخ پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا کیونکہ انھوں نے بروقت قیام نہیں کیا تھا، جس وقت انھیں آنا چاہیے تھا، نہیں آئے، انھیں عاشورا کے دن کربلا میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں تھے۔ تبریز کا واقعہ، بروقت ذمہ داری کا احساس کیا گيا اور بروقت رونما ہوا اور قیام بھی بالکل صحیح وقت پر ہوا، یہی وجہ تھی کہ اللہ نے اس واقعے کو برکت عطا کی، جب ہم اس طرح کا قیام کرتے ہیں، اَن تَقوموا لِلَّہِ مَثنیٰ‌ وَ فُرادىٰ(3) تو اس قیام میں برکت ہوتی ہے، خداوند عالم اس قیام کو برکت عطا کرتا ہے اور اس نے برکت عطا کی اور یہ واقعہ جاری رہا یہاں تک کہ بائیس بہمن (11 فروری) تک پہنچ گیا۔

یہ باتیں ماضی کی ہیں۔ اس نشست میں موجود آپ لوگوں میں سے زیادہ تر نے نہ اس دن کو دیکھا ہے، نہ اس دن کی آپ کی کوئی یاد ہے، آپ لوگ آج کے مرد میدان ہیں، آئندہ کل کے مرد میدان ہیں۔ کسی دن تبریز کے لوگوں نے ایک ضروری اور اہم قدم اٹھایا جس کا اثر دنیا نے دیکھا، جس وقت وہ واقعہ ہوا تھا، اس وقت دنیا سمجھ نہیں رہی تھی لیکن بعد میں جب وہ واقعہ اپنا اثر دکھانے لگا تو دنیا ہل گئی، تاریخ کا ورق پلٹ گیا، کسی دن یہ کام ہوا تھا لیکن وہ دن گزر گیا۔ 18 فروری 1978 کا دن، خدائی ایام میں سے ایک تھا، آج بھی الہی ایام میں سے ایک دن ہے، آئندہ کل بھی خدا کے دنوں میں سے ایک دن ہے، ہمیں سبق لینا چاہیے، جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم ماضی سے اپنے آج کے لیے اور اپنے کل کے لیے سبق حاصل کریں۔

تو 22 بہمن 1357  ہجری شمسی (11 فروری 1979) کا دن، انقلاب کا یوم پیدائش تھا، یہ ایک غیر معمولی اور جوش و جذبے میں ڈوبا ہوا دن تھا۔ بائیس بہمن سے لے کر آج تک جتنا بھی عرصہ گزرا ہے، اس میں بائیس بہمن کو پیدا ہونے والا یہ مولود (اسلامی انقلاب) زیادہ بڑا ہوا ہے، زیادہ مضبوط ہوا ہے، اس کی ہڈیاں زیادہ مضبوط ہوئی ہیں، اس کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے، اس کی بینش زیادہ راسخ ہوئی ہے۔ وہ مولود آج پینتالیس سال کا ہو چکا ہے، تجربات، حوادث، جنگیں، کافروں سے ٹکراؤ، منافقین سے ٹکراؤ، سیاسی دشمنوں سے ٹکراؤ، طرح طرح کے فتنے اور سازشیں ان پینتالیس برسوں میں سامنے آئی ہیں اور انقلاب نے ان سب کا سامنا کیا ہے۔ انقلاب کا کیا مطلب ہے؟ انقلاب یعنی وہ چیز جو آپ کے دل میں ہے، انقلاب یعنی آپ لوگ، انقلاب یعنی عوام، انقلاب یعنی حکمراں نظام نے ان حادثات کا سامنا کیا ہے، ان سے دو بدو ہوا ہے اور دشوار گزار اور سخت راہوں کو عبور کر چکا ہے۔

آپ کہتے ہیں "مہدی باکری صاحب" باکری نے کیا کیا؟ باکری جیسوں کا، جو ایک بیس پچیس سالہ نوجوان تھے، اور اس راہ کے دوسرے بزرگوں کا آج صرف نام لیا جاتا ہے جبکہ ان کے کام کی تفصیلات، ان کی کوشش، ان کی مجاہدت، وہ بھرپور ایثار، وہ تدبیر، وہ سوچ اور وہ طاقت ہمارے ذہن میں آنی چاہیے اور ہمیں ان کو پہچاننا چاہیے، کچھ ذمہ داریاں ہیں جنھیں ہمیں سمجھنا چاہیے اور ان پر عمل کرنا چاہیے، میری آج کی عرض یہ ہے۔ آج میں دو بنیادی فرائض کا ذکر کروں گا جن میں سے ہر ایک سے دسیوں فرائض سامنے آتے ہیں۔ ایرانی قوم کے لیے، میرے اور آپ کے لیے، خاص طور پر آپ نوجوانوں کے لیے دو بنیادی فریضے ہیں۔ یہ دو بنیادی فریضے کیا ہیں؟ ایک "خود پر نظر" اور دوسرا "دشمن پر نظر" یہ دو فریضے ہیں۔ اب میں بتاؤں گا کہ "خود پر نظر" کے فریضے کا کیا مطلب ہے۔

"خود پر نظر" یعنی خود کو پرکھنا، خود کو سمجھنا اور یہ دیکھنا کہ ہم کیا ہیں، ہمارا وزن کیا ہے، ہم خود کو فراموش نہ کریں۔ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے: "نَسُوا اللَہَ فَاَنساھُم اَنفُسَھُم"(4) انھوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انھیں سزا دی، ان کی سزا کیا تھی؟ یہ تھی کہ وہ خود ہی کو بھلا بیٹھے۔ اگر ہم اپنے آپ کو پرکھ نہ سکیں اور اپنے آپ کو صحیح طریقے سے نہ سمجھ سکیں تو یہ بہت بڑی مصیبت ہے، اس مریض کی طرح جو ایک خطرناک اور جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے اور اسے اس کی خبر ہی نہیں ہے، اسے پتہ ہی نہیں ہے، اس کا کیا انجام ہوگا یہ پوری طرح واضح ہے۔ اگر وہ نجات حاصل کرنا چاہتا تو اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ اسے کون سی بیماری ہے تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکے۔ یہ ایک بات ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ صرف عیوب کو ہی نہیں جاننا چاہیے، اچھی باتوں اور مضبوط نکات کو بھی جاننا چاہیے۔ میں آپ عزیز برادران و خواہران کی خدمت میں اس سلسلے میں کچھ باتیں اختصار سے اور فہرست وار پیش کروں گا۔ اگر ہم اپنے آپ پر، "اپنے آپ" پر یعنی اپنے انقلاب پر، اپنے نظام پر، اپنے کردار پر، اپنے تشخص پر، ایک گہری نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ کچھ مضبوط نکات موجود ہیں، کچھ کامیابیاں موجود ہیں۔ انقلاب کے کچھ اہداف تھے، وہ اہم اہداف کے ساتھ میدان میں آیا تھا جن میں سے بعض اہداف کو ہم حاصل کر چکے ہیں اور جو اہداف ہم نے حاصل کیے ہیں وہ اہم بھی ہیں، بعض اہداف ابھی ہم حاصل نہیں پائے ہیں، بعض جگہوں پر مضبوط پہلو ہیں اور بعض جگہوں پر کمزور پہلو ہیں۔ ہمیں مضبوط پہلوؤں کی تقویت کرنی چاہیے، ان کی حفاظت کرنی چاہیے، ان کی قدر سمجھنی چاہیے اور کمزور پہلوؤں کو دور کرنا چاہیے۔ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ مضبوط پہلوؤں کی قدر سمجھنی چاہیے؟ اس لیے کہ ایک سازش ہے کہ آپ اپنے مضبوط پہلوؤں کو بھول جائیں، آپ کو پتہ نہ چلے کہ آپ میں یہ صلاحیت ہے، یہ ایک معاندانہ چال ہے جو پائی جاتی ہے، اس لیے مضبوط پہلوؤں کو پہچاننا چاہیے۔

تو ہماری یعنی انقلاب کی کچھ کامیابیاں رہی ہیں۔ جب ہم "ہماری" کہتے ہیں تو اس سے مراد افراد نہیں ہیں، بلکہ پورا انقلاب ہے، یعنی ایرانی قوم، اسلامی جمہوری نظام، مختلف عہدیداران، عوام، سبھی ان کامیابیوں میں حصہ دار ہیں۔ تو ہماری کچھ کامیابیاں رہی ہیں۔ یہ کامیابیاں کیا ہیں؟ ان میں سرفہرست ایک بے ایمان، حق پامال کرنے والے ظالم اور آمرانہ نظام کا خاتمہ ہے یعنی سلطنتی نظام کا، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے۔ وہ سلطنتی نظام جس نے ملک میں جڑیں پھیلا رکھی تھیں، ایک ایسا نظام تھا جو عوام کو کوئی اہمیت دیتا تھا نہ ان کا احترام کرتا تھا، نہ ملک چلانے میں ان کے لیے کسی کردار کا قائل تھا اور نہ ہی عوام کی فکر میں تھا۔ مجھے بلوچستان میں جس جگہ جلاوطن کیا گیا تھا(5) وہاں کے گورنر نے، حالانکہ وہ ایک نسبتاً بڑا شہر تھا، کبھی وہاں کا معائنہ نہیں کیا تھا! آج ملک کا صدر، دور دراز کے علاقوں کا اور چھوٹے شہروں اور دیہاتوں تک کا دورہ کرتا ہے اور عوام کے درمیان جاتا ہے، ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، عوام کا کوئی کردار نہیں تھا۔ کس کو اہمیت دی جاتی تھی؟ برطانیہ کے سفارتخانے کو، امریکا کے سفارتخانے کو۔ میں نے کچھ دن پہلے یہیں ایک نشست میں کہا تھا(6) کہ امریکی ایجنٹ، امریکی فوجی افسر آتا تھا اور ایران کے جنگی طیارے میں ائیرپورٹ کے اندر سے سوار ہوتا تھا اور جا کر ویتنام پر بمباری کرتا تھا اور لوٹ آتا تھا، ملک کے شاہ کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اجازت نہیں لیتے تھے، نہیں، بلکہ خبر تک نہیں دیتے تھے! لوگوں کی زندگی اس طرح کی تھی۔ اس ملک میں تقریبا چالیس پچاس ہزار امریکی، کھاتے تھے، سوتے تھے، حکم چلاتے تھے اور فیصلے کرتے تھے، عوام کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ امریکی بتاتے تھے کہ تیل کسے اور کس قیمت پر بیچا جائے، کسے بیچا جائے اور کیسے نہ بیچا جائے۔ فلاں جگہ گورنر ہو، فلاں شخص رکن پارلیمنٹ ہو اور فلاں شخص نہ ہو، یہ سفارتخانے بہت زیادہ معاملوں میں مداخلت کرتے تھے، فیصلے کرتے تھے اور اعلان کرتے  تھے جس پر عملدرآمد ہوتا تھا، وہ اس طرح کا نظام تھا۔ اسلامی انقلاب آیا اور اس نے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، ختم کر دیا اور اسے ایک عوامی نظام میں بدل دیا۔ اس نظام میں عوام، نظام کے مالک ہیں، سب کچھ ہیں، وہ منتخب کرتے ہیں، وہ طے کرتے ہیں، وہ ووٹ دیتے ہیں۔ اس کئی ہزار سالہ آمرانہ نظام میں عہد قاجار کے آخری دور میں اور پورے پہلوی دور میں، اغیار پر انحصار بھی بڑھ گیا تھا، اس کے علاوہ جنسی بے راہروی، مالی بدعنوانی، اخلاقی بے راہ روی وغیرہ بھی بہت زیادہ تھی۔ تو انقلاب آیا اور اس نے اس نظام کو ایک عوامی نظام میں بدل دیا، یعنی بالکل اس کے برخلاف، قانون سازوں کا انتخاب عوام کرتے ہیں، رہبر کا انتخاب بھی وہ بالواسطہ طور پر اور ماہرین اسمبلی کے ذریعے کرتے ہیں، شہری کونسل اور ملک کے فیصلے کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اہم عہدیداروں کا انتخاب بھی عوام ہی کرتے ہیں، یہ سب سے اہم کام تھا جو انجام پایا۔ یہ ایک کامیابی ہوئی۔

اگلا کام مختلف قومی کاموں کے لیے ایرانی قوم میں قومی خود اعتمادی پیدا کرنا ہے۔ یعنی علم میں، ٹیکنالوجی میں، سیاسی کام میں، آرٹ میں اور مختلف طرح کے دوسرے کاموں میں ایرانی قوم، خود اعتمادی محسوس کرتی ہے، وہ قدم اٹھا سکتی ہے، کام کر سکتی ہے، اس کی آنکھیں دوسروں کی مدد پر نہیں ٹکی ہوئی ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ماضی میں، طاغوتی حکومت کے زمانے میں، ہمارا گیہوں امریکا سے آتا تھا اور ہمارے غلے کے گودام سابق سوویت یونین والے آ کر بناتے تھے، ہمارے ڈاکٹر ہندوستان سے آتے تھے، پورے ملک میں کئی ہزار ہندوستانی اور بنگلادیشی ڈاکٹر تھے۔ ایرانی قوم، ایرانی نوجوان، اپنے اندر صلاحیت محسوس نہیں کرتا تھا، مطلب یہ کہ اس احساس کو اس کے اندر کچل دیا گیا تھا، دبا دیا گیا تھا، یہ احساس، صلاحیت و استعداد میں بدل گیا۔ آج ہمارے نوجوانوں نے بڑے بڑے کام انجام دیے ہیں جن کے بارے میں آپ نے سنا ہے اور آپ جانتے ہیں، بعض شعبوں میں ان کا اعلان کیا گیا ہے اور انھیں دیکھا گیا ہے جیسے فوجی شعبہ اور ایسے ہی دوسرے شعبے جن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں، بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں ہونے والے بڑے بڑے کاموں سے لوگ بے خبر ہیں، جیسے صنعتی شعبہ، ایٹمی صنعت کا شعبہ، میڈیکل کا شعبہ، دواؤں کا شعبہ اور ایسے ہی دوسرے شعبے ان میں جو بڑے بڑے کام ہوئے ہیں انھیں کس نے انجام دیا ہے، انھیں نوجوانوں نے۔ یہ قومی مسائل میں خود اعتمادی ہے۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی معاملوں میں خود اعتمادی، ایرانی قوم اور ایرانی قوم کے نمائندے آج، بڑی طاقتوں کا سامنا کرنے میں کمزوری محسوس نہیں کرتے، حقارت محسوس نہیں کرتے، پہلے ایسا نہیں تھا، اُس وقت فلاں ملک میں وزارت خارجہ کے چنندہ سیاسی نمائندوں کے پاس، مجھے ان کے ذاتی مسائل سے غرض نہیں ہے کہ جو بہت ہی برے مسائل تھے، سیاسی مسائل میں کوئی جدت عمل نہیں تھی، وہ اس طاقت کے تابع فرمان تھے جس کا ان پر اثر تھا، مثال کے طور پر برطانیہ کی طاقت، امریکا کی طاقت، فرانس اور دوسروں کی طاقت۔ تو عالمی مسائل میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور انقلاب کی فکر اور اقدار کو پھیلانا بھی، جس کی نشانیاں آج آپ خطے میں دیکھ رہے ہیں، انقلاب کی کامیابیوں میں شامل ہے۔ انقلابی اقدار کو فروغ حاصل ہوا ہے، ہم نے اس کے لیے الگ سے کام نہیں کیا ہے، یہ خود انقلاب کی خصوصیت ہے۔

برتر ثقافت کی حیثیت سے مغربی ثقافت کے پھیلاؤ کو کسی حد تک روکنا، انقلاب سے پہلے ایسا ہی تھا، مغربی تمدن کو برتر تمدن سمجھا جاتا تھا۔ البتہ یہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے لیکن بڑی حد تک اس کی اصلاح ہو گئی ہے۔ قومی خدمات کو سینٹر کی اجارہ داری سے باہر نکالنا، انقلاب سے پہلے زیادہ تر سروسز، بنیادی مسائل، عوامی خدمات، تہران اور کچھ بڑے شہروں تک ہی محدود تھیں۔ آج انقلاب نے وہ کام کیا ہے کہ یہ سروسز پورے ملک میں اور ملک کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ رہی ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور آگے بڑھے گا۔

عالمی سطح کے دانشوروں اور سائنسدانوں کی تربیت، ایسے سائنسداں جو پوری دنیا میں مشہور ہیں، اچھے سرجن، اچھے انجینیر، نمایاں ایٹمی سائنسداں، یہ لوگ دنیا میں جانے پہچانے ہیں، دنیا میں ان کی عزت کی جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آج ایک تشویش، جو بجا بھی ہے، ہمارے بعض ماہرین کا بیرون ملک جانا ہے، ڈاکٹروں وغیرہ کا، کہ اس چیز نے بعض لوگوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے اور البتہ ان کی تشویش حق بجانب ہے۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ دنیا کو ہمارے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ایک زمانے میں ہمیں بنگلادیشی ڈاکٹروں کی ضرورت تھی، آج دنیا کو ہمارے ڈاکٹروں کی، ہمارے انجینیروں کی، ہمارے پائلٹوں کی ضرورت ہے، ان کی تربیت کی گئی ہے، انقلاب نے انھیں تیار کیا ہے اور وجود بخشا ہے۔

عوامی گروہوں کا خود سے سامنے آنا، یہ بھی انقلاب کی ایک کامیابی ہے۔ آج ہمارے یہاں عوامی زندگی کے تمام مختلف شعبوں میں، خود بخود وجود میں آنے والے عوامی گروہ پائے جاتے ہیں۔ آرٹ میں، ادب میں، صنعت میں، عسکری مسائل میں، مختلف کاموں میں ایسے عوامی گروہ پائے جاتے ہیں جو لوگوں نے خود سے بنائے ہیں۔ ایسے نوجوان ہیں جو نہ حکومت کے لیے اخراجات کے حامل ہیں، نہ انھوں سرکاری عہدیداروں سے کوئی توقع ہے بلکہ وہ خود ہی اپنے درمیان بڑے بڑے کام کرتے ہیں اور لوگ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ مضبوط پہلو ہیں اور ایسے پہلو ہمارے یہاں بہت سے ہیں۔ اگر ہم خود پر نظر رکھنا جاری رکھیں تو اس طرح کے مضبوط پہلو ایرانی قوم میں اور انقلاب سے پیدا ہونے والے، بے شمار ہیں۔ خیر تو یہ مضبوط پہلو اور مضبوط نکات ہوئے۔

کیا ہمارے کمزور پہلو نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، کم ہیں؟ نہیں، کمزور پہلو بھی ہیں۔ ہم ایک مضبوط قومی معیشت بنانے میں پیچھے ہیں۔ ہم سماجی انصاف، عدالتی انصاف، معاشی انصاف نافذ کرنے میں، پیچھے ہیں۔ انصاف، انقلاب کے سب سے برتر نعروں میں سے ایک تھا، انقلاب کے سب سے بڑے اہداف میں سے ایک تھا۔ ہم سماجی مسائل کو جڑ سے ختم کرنے میں پیچھے ہیں، طلاق کے مسئلے میں، نشے کی لت میں، اخلاقی مسائل میں ہم اتنا آگے نہیں بڑھے ہیں جتنا بڑھنا چاہیے تھا، ہم پیچھے ہیں۔ آپ سائبر اسپیس پر ایک نظر ڈالیے، آپ وہاں اخلاقی مسائل کا مشاہدہ کریں گے، یہ پیچھے ہونا ہے، ہم پیچھے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے میں پیچھے ہیں۔ اسلام نے کہا ہے کہ فضول خرچی نہ کیجیے، ہم فضول خرچی کرتے ہیں، اسلام نے کہا ہے کہ عیش و عشرت کو ترک کیجیے، ہمارے مختلف طبقوں میں، کچھ لوگ جو عیش پرستی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں، کچھ لوگ عیش پرستی کی تقلید کرتے ہیں، وہ عیش پرستی نہیں کر سکتے، ان کے پاس اس کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں لیکن وہ قرض لیتے ہیں تاکہ اپنے بچے کے لیے خرچیلی شادی کر سکیں، کیوں؟ یہ ہماری کمیاں ہیں، یہ ہماری پسماندگی ہے۔

میں نے کہا کہ خود پر نظر رکھنا، اپنے آپ کو پرکھنا، اپنے آپ کو تولنا، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو دیکھیں گے تو ہم اپنی کامیابیوں کو بھی جان لیں گے، ان پر ڈٹے رہیں گے، ان پر فخر کریں گے اور ان میں اضافہ کریں گے، اسی طرح ہم اپنی کمزوریوں اور کمیوں کو بھی جان لیں گے اور انھیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوئی نہ کوئی ذمہ داری ہے، حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ کی بھی ذمہ داری ہے، عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔

حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری اداروں کی کیا ذمہ داری ہے؟ ٹھوس عزم، لگاتار کام، ایمانداری سے کام، لوگوں کے ساتھ صداقت، ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح، یہ سب عہدیداروں کی ذمہ داریاں ہیں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آج بحمد اللہ ملک کے اعلی رتبہ حکام میں یہ خصوصیات موجود ہیں لیکن سرکاری، عدالتی اور دیگر شعبوں میں بھی تمام عہدیداروں میں یہ مثبت خصوصیات ہونی چاہیے اور ان میں پھیلاؤ آنا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ جو مسائل ہیں، اس کے لیے کون قصوروار تھا، وہ ایک الگ بات ہے، فی الحال ہم وہ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آج ہماری اور حکومت کی ذمہ داری کیا ہے۔

غیر معمولی صلاحیت والے لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کمیوں اور خلا کی شناخت کریں، خطرے کی راہوں کی شناخت کریں، خلا کو بھرنے اور خطرے کی راہوں کو بند کرنے کے طریقے تلاش کریں، جائزہ لیں اور حکومت کی فکری مدد کریں، پارلیمنٹ کی فکری مدد کریں، عہدیداران کی فکری مدد کریں، یہ غیر معمولی صلاحیت والوں کی ذمہ داری ہے۔ ایک زندہ اور بانشاط معاشرے میں، قوم کے غیر معمولی صلاحیت والے افراد، ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری یہ ہے۔

نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے، نوجوانوں کی ذمہ داری، البتہ ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں، پہلے مرحلے میں یہ ہے کہ وہ اپنے اندر مستقبل میں کردار ادا کرنے کے لیے ضروری صلاحیتیں پیدا کریں، جوان، کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ آج کتنے باصلاحیت اور ماہر جوان، جا کر حکومتی ڈھانچے میں کام کر رہے ہیں، انھیں اپنے اندر ان صلاحیتوں کو پیدا کرنا چاہیے، مختلف میدانوں میں شرکت کے لیے انھیں تیار ہونا چاہیے، خود کو بھاری بوجھ اٹھانے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ نوجوان پیش پیش رہنے والے ہیں، معاشرے کو آگے بڑھانے والے ہیں، انھیں ملک کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرنے کے لیے مختلف اخلاقی اور علمی صلاحیتوں کے لحاظ سے خود کو تیار کرنا چاہیے۔

عام لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ البتہ ذمہ داریاں مختلف ہیں، ایک دکاندار کی الگ ذمہ داری ہے، آفس میں کام کرنے والے ایک ملازم کی الگ ذمہ داری ہے، ایک عالم دین کی الگ ذمہ داری ہے، اس طرح کے سبھی لوگوں کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں لیکن عمومی ذمہ داری، عہدیداروں کی حمایت، خدمت کرنے والوں کی حمایت، اچھے کاموں کی حمایت ہے۔ مختلف ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے۔

ایک بنیادی اور اہم ذمہ داری، جو عوام کی بھی ذمہ داری ہے، عہدیداروں کی بھی ذمہ داری ہے، غیر معمولی صلاحیت والوں کی بھی ذمہ داری ہے، جوانوں کی بھی ذمہ داری ہے، اسٹوڈنٹس اور عالم دین وغیرہ کی بھی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ یہ یاد رکھیں کہ وہ سارے کام جو ہم کہہ رہے ہیں وہ انجام دیں، جہاد ہے۔ جہاد کا کیا مطلب ہے؟ جہاد کا مطلب وہ کوشش ہے جو ایک دشمن کے مقابلے میں کی جاتی ہے، جہاد کا یہ مطلب ہے۔ یہ جو کام ہم نے بتائے ہیں، جہاد ہے۔ ہم نے کہا کہ غیر معمولی صلاحیت والے فلاں کام کریں، مطلب یہ کہ اس بات کے پیش نظر کہ ایک دشمن نہیں چاہتا کہ یہ کام انجام پائے وہ یہ کام کریں تو یہ دشمن کے مقابلے میں ہے لہذا جہاد ہے، جوان یہ کام کریں، وہ جان لیں کہ دشمن نہیں چاہتا کہ یہ کام ہو، عوام، عہدیداروں کی حمایت کریں، اپنے اتحاد کی حفاظت کریں، وہ جان لیں کہ دشمن چاہتا ہے کہ یہ کام نہ ہو، اگر انھوں نے  یہ کام کیا تو انھوں نے جہادی عمل انجام دیا ہے، جہاد کا مطلب یہ ہے۔ دشمن، اسلامی جمہوری نظام میں ہونے والے ہر اچھے کام کا مخالف ہے، یہ صرف دعوی نہیں ہے، اس کی دلیل موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام، "لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون"(7) کا نظام ہے۔ قرآن نے ہم سے کہا ہے کہ لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون، نہ ظلم کرو اور نہ ظلم برداشت کرو، کسی بھی قیمت پر ظلم برداشت نہ کرو۔ یہ اسلامی جمہوری نظام ہے۔ تو وہ جن کی بنیاد ہی ظلم کرنے کے لیے رکھی گئی ہے، وہ اس طرح کے نظام کے مخالف ہیں، یہ بہت ظاہر سی بات ہے اس لیے اسلامی جمہوریہ میں ہونے والی ہر پیشرفت انھیں سیخ پا کر دیتی ہے۔ تو اس بات کے پیش نظر کہ آپ کے مقابلے میں دشمن ہے آپ یہ سارے کام کیجیے۔

اب کچھ جملے اس دوسرے فریضے کے بارے میں بھی عرض کر دوں۔ پہلا فریضہ، خود پر نظر تھا، دوسرا فریضہ دشمن پر نظر ہے۔ خود پر نظر کی میں نے تشریح کر دی، دشمن پر نظر کا مطلب یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ دشمن ہے، دشمن سے غافل نہ ہوں، جان لیں کہ دشمن فریب، مکر، سازش، حربے اور ہتھکنڈے رکھتا ہے، دشمن کو کمزور اور ناتواں نہ سمجھیں: "دشمن نتوان ضعیف و بیچارہ شمرد"(8) ہم دشمن سے ڈریں نہیں، فتح کی اہم شرط یہ ہے کہ دشمن کو پہچانیں، اس کی صلاحیتوں کو جانیں لیکن اس سے ڈریں نہیں۔ اگر آپ ڈر گئے تو، ہار گئے۔ دشمن کی دھمکی سے  ڈرنا نہیں چاہیے، اس کی رجز خوانی سے گھبرانا نہیں چاہیے، اس کے دباؤ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، ان چیزوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ جو چیز دشمن کو اس طرح سیخ پا کر دیتی ہے اور اس پر دباؤ ڈالتی ہے وہ کیا ہے، وہی آپ کا مضبوط پہلو ہے، وہی ہمارا مضبوط پہلو ہے۔ ہم اگر کمزور ہوتے، ہم میں مضبوط پہلو نہ ہوتے تو دشمن اس طرح آگ بگولہ نہ ہوتا، اس طرح وہ دباؤ نہیں ڈالتا، اس طرح تگ و دو نہیں کرتا، اس طرح ہتھکنڈے استعمال نہ کرتا، اس طرح فریب دینے کی کوشش نہ کرتا۔ دشمن پر نظر کا مطلب یہ ہے۔ ہم اسلامی انقلاب کی کامیابیوں پر توجہ دیں، جان لیں کہ یہی چیزیں ہیں جو دشمن کو طیش میں لے آتی ہیں۔ تو دشمن سے ڈرنا نہیں چاہیے اور اس کے سامنے پسپا نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی کچھ لوگ دشمن کی جانب سے ان کی اہانت شروع ہوتے ہی، اپنے اندر حقارت محسوس  کرنے لگتے ہیں، پسپائی اختیار کرتے ہیں، نہیں! دشمن کی پالیسی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے پاس موجود قیمتی اثاثوں کی طرف سے مایوس اور بے اعتماد کر دے۔ دشمن کے مقابلے میں پسپا نہیں ہونا چاہیے۔ خیر تو یہ بات ان فرائض کے بارے میں تھی جو ہم عرض کرنا چاہتے تھے۔

مجھے ایک بات اور عرض کرنی ہے اور وہ انتخابات(9) کے بارے میں ہے۔ ہم انتخابات کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی محاذ ہمارے انتخابات کا مخالف ہے۔ کیوں مخالف ہے؟ کیونکہ ہمارا نظام "جمہوری اسلامی" سے عبارت ہے۔ اس کے دو حصے ہیں: وہ اس کی جمہوریت کے بھی خلاف ہیں، اور اسلامیت کے بھی۔ جمہوریت کا مظہر یہی الیکشن ہے۔ یہ انتخابات، جمہوریت کا مظہر ہیں۔ تو جب امریکا اسلامی جمہوری نظام کا مخالف ہے تو مطلب یہ ہے کہ وہ اصل میں انتخابات کا مخالف ہے، عوام کی مشارکت کا مخالف ہے، عوام کی رائے دہی کا مخالف ہے، انتخابات میں جو جوش و جذبہ ہے اس کا اور عوام کی زیادہ مشارکت کا مخالف ہے۔ انھوں نے، حالانکہ یہ لوگ اب نہیں کہتے، ایک بار ایک امریکی صدر نے الیکشن کے قریب ایرانی عوام کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہ لیجیے! اب مجھے صحیح سے یاد نہیں ہے کہ صدارتی الیکشن تھا یا پارلیمانی الیکشن تھا اس نے کہا تھا۔ مطلب یہ کہ وہ اس حد تک مخالف ہیں کہ امریکا کا اس وقت کا صدر یہ کئی سال پہلے کی بات ہے،  ایرانی قوم کو مخاطب کر کے کہے کہ اپنے الیکشن میں حصہ نہ لیجیے، البتہ وہ الیکشن ہمیشہ سے زیادہ شاندار رہا۔ مطلب یہ کہ اس امریکی صدر نے نادانستگی میں ایرانی قوم کی مدد کی، وہ چاہتا تھا کہ عوام ووٹ نہ ڈالیں، اس نے کہا کہ حصہ نہ لیجیے، عوام نے اس کی ضد میں زیادہ تعداد میں شرکت کی، یہ ہماری مدد تھی۔ اس کے بعد سے اب نہیں کہتے، کھل کر نہیں کہتے لیکن مختلف طریقوں سے کوشش کرتے ہیں کہ عوام کو الیکشن سے دور کر دیں، مایوس کر دیں، ناامید کر دیں، اس سلسلے میں ان کے پاس بہت سے طریقے ہیں۔

سبھی کو انتخابات میں شرکت کرنی چاہیے۔ انتخابات، اسلامی جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہیں۔ ملک کی اصلاح کا ذریعہ انتخابات ہے۔ جو لوگ مشکلات کو دور کرنے، ان کی اصلاح کرنے کی فکر میں ہیں، انھیں انتخابات پر توجہ دینا چاہیے۔ صحیح راستہ الیکشن ہے۔ یہ ایک بات ہوئی۔

دوسری بات: لوگوں کو سب سے موزوں امیدوار کی تلاش کرنی چاہیے۔ البتہ پہلے مرحلے میں عوامی مشارکت ہے، اگلا مرحلہ سب سے موزوں امیدوار کا انتخاب ہے۔ سب سے موزوں امیدوار کا انتخاب یعنی جو لوگ سامنے آتے ہیں چونکہ وہ نگراں کونسل کی نظروں سے گزر چکے ہیں، اس لیے وہ سبھی موزوں ہیں تاہم ان کے درمیان سے، سب سے موزوں شخص کا انتخاب کرنا چاہیے، یہ بات عقل کہتی ہے۔ سب سے موزوں امیدوار کو کیسے پہچانا جائے؟ ایرانی قوم جہاں تک ممکن ہو جائے اور تحقیق کرے، جہاں وہ یہ کام نہیں کر سکتی، وہاں پر وہ جن لوگوں پر بھروسہ کرتی ہے، وہ لوگ متعارف کراتے ہیں، ان پر بھروسہ کرے اور سب سے موزوں امیدوار کو پہچانے۔

جو لوگ عوام سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور لوگ ان کی باتوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان پر یقین کرتے ہیں، وہ عوام کو الیکشن میں شرکت کے لیے ترغیب دلائیں۔ جو لوگ انتخابات کے میدان میں اترتے ہیں، انھیں دوسروں سے بدکلامی، بے عزتی اور توہین سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دیکھیے یہ وہ ضروری کام ہیں جو ہمیں انتخابات کے سلسلے میں کرنے چاہیے۔ جو ترغیب دلا سکتا ہے، وہ ترغیب دلائے، جو الیکشن میں حصہ لیتا ہے، بداخلاقی نہ کرے، سائبر اسپیس پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، بدکلامی کرنا، توہین کرنا، الزام لگانا، اس طرح کے کام انتخابات کی برکت کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ بعض لوگ، عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے، دوسروں پر کیچڑ اچھالیں، یہ غلط کام ہے، حقیقت کے برخلاف ہے، جھوٹ ہے اور ایسے شخص پر اللہ لطف و کرم نہیں کرتا۔

البتہ انتخابات کی شفافیت اور انتخابات کا صحیح و سالم انعقاد، ہمیشہ سے عہدیداروں سے ہمارا مطالبہ رہا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ان برسوں میں، ان عشروں کے دوران جو انتخابات ہوئے ہیں، میں نے، ایک ذمہ دار انسان کی حیثیت سے جو کبھی صدر تھا اور اب اس عہدے پر ہوں، اب تک کبھی بھی انتخابی دھاندلی، اس معنی میں، جو دشمن کہتے ہیں، نہیں دیکھی ہے، وہ بکواس کرتے ہیں۔ بعض مواقع پر کچھ لوگوں نے دعوے کیے کہ اس الیکشن میں، مختلف طرح کے انتخابات میں، گڑبڑ ہوئی ہے، ہم نے تحقیق کی، جانچ پڑتال کی، لوگوں کو بھیجا، انھوں نے تفتیش کی، پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے کہ الیکشن کے نتائج میں کوئی تبدیلی آئے، ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی گوشہ و کنار میں کچھ گڑبڑ ہوئی ہو لیکن اس سے الیکشن کے نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بحمد اللہ ہمارے ملک میں انتخابات ہمیشہ صحیح و سالم اور شفاف طریقے سے ہوئے ہیں، ان شاء اللہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔

میری آخری بات، ایرانی قوم کا اتحاد ہے۔ میرے عزیزو! ہم نے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ جدوجہد کی، اتحاد کی وجہ سے ہی ہم فتحیاب ہوئے، اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ہی ہم نے کام جاری رکھا ہے، اس کے بعد بھی ہمیں اتحاد کے ساتھ ہی آگے  بڑھنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات وغیرہ سے دشمن کے مقابلے میں ایرانی قوم کی قومی یکجہتی و اتحاد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں صوبۂ مشرقی آذربائیجان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم نے مختصر تقریر کی۔
  2. صوبۂ مشرقی آذربائیجان کے لوگوں سے ملاقات میں خطاب (18/2/2020)
  3. سورۂ سبا، آیت 46، تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
  4. سورۂ حشر، آیت 19
  5. ایرانشہر
  6. ایران کی فضائیہ کے کچھ کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں خطاب (5/2/2024)
  7. سورۂ بقرہ، آیت 279
  8. گلستان سعدی، پہلا باب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) دانی کہ چہ گفت زال با رستم گُرد؟  دشمن نتوان حقیر و بیچارہ شمرد (جانتے ہو کہ زال نے رستم پہلوان سے کیا کہا؟ یہ کہ دشمن کو حقیر اور بے بس نہیں سمجھنا چاہیے)
  9. مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے بارہویں دور کے اور ماہرین اسمبلی کے چھٹے دور کے انتخابات جو پہلی مارچ 2024 کو منعقد ہوں گے۔