رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے جمعرات 7 نومبر 2024 کو رہبر انقلاب کا انتخاب کرنے والے ماہرین کی اسمبلی 'مجلس خبرگان' کے ارکان سے ملاقات میں حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل کی شہادت کے چہلم کے ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: "مرحوم سید حسن نصر اللہ اور ان ایام میں شہید ہونے والے ان دیگر عزیز شہیدوں نے واقعی اسلام کو عزت عطا کی، مزاحمتی محاذ کو بھی عزت عطا کی، اسے دوہری طاقت و توانائي عطا کی، ان سبھی نے، جن کا ہم نے نام لیا، ان میں سے ہر ایک نے اپنی حد تک اور کسی نہ کسی شکل میں یہ کام کیا۔ ہمارے عزیز سید تو شہیدوں کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو گئے اور اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچ گئے لیکن انھوں نے اس دنیا میں اپنی ایک لازوال یادگار بھی چھوڑی ہے اور وہ حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ نے سیّد کی شجاعت، بصیرت، صبر اور حیرت انگیز توکل کی برکت سے رشد و نمو پایا، غیر معمولی رشد و نمو پایا اور حقیقت میں ایک ایسی تنظیم میں بدل گئي کہ مختلف طرح کے مادی، بیانی، تشہیراتی اور پروپیگنڈہ ہتھیاروں سے لیس دشمن اس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکا اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا۔ مرحوم سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کو ایک ایسے وجود میں، ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔ اس وقت کچھ لوگ خود لبنان میں اور دوسری جگہوں پر یہ سوچ کر کہ حزب اللہ کمزور ہو گئي ہے، اس کے کاموں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، وہ غلطی کر رہے ہیں، وہ وہم میں مبتلا ہیں۔ حزب اللہ مضبوط ہے اور لڑ رہی ہے۔ جی ہاں! جناب سید حسن نصر اللہ یا جناب سید ہاشم صفی الدین وغیرہ جیسی نمایاں اور اہم شخصیات ان کے درمیان نہیں ہیں لیکن یہ تنظیم اپنے افراد کے ساتھ، اپنی معنوی طاقت کے ساتھ، اپنے جذبے کے ساتھ بحمد اللہ موجود ہے اور دشمن اس تنظیم پر غلبہ حاصل نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی کر سکے گا۔" ان شاء اللہ دنیا اور خطہ وہ دن دیکھے گا جب صیہونی حکومت واضح طور پر اللہ کی راہ کے ان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھائے گي، ان شاء اللہ۔ اس مضمون میں شہید حسن نصر اللہ کے اس عظیم ورثے کے مختلف پہلوؤں اور اس کی جڑوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حزب اللہ کی شکست کا سراب
حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کے شدید اور مسلسل حملے شہید فؤاد شکر کے قتل سے شروع ہوئے، پھر پیجرز اور وائر لیس سیٹس میں دھماکوں کا واقعہ پیش آيا جس میں لبنان میں دسیوں عام لوگ اور مزاحمتی تنظیم کے اراکین شہید ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس کے بعد ایک غم انگیز شام کو بیروت پر صیہونی حکومت نے امریکا کے دیے ہوئے دسیوں بموں سے حملہ کیا جس میں حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ اور ان کے کئي ساتھی شہید ہوئے۔ اس کے کچھ ہی دن بعد اسی طرح کی بمباری میں سید ہاشم صفی الدین کو شہید کیا گيا۔ ان واقعات کے بعد خطے میں اور خطے کے باہر ایسی آوازیں اٹھنے لگيں جن میں حزب اللہ کے خاتمے کی بات کہی جا رہی تھی۔ بیروت میں امریکی سفیر نے لبنان کی بعض شخصیات کو اکٹھا کیا اور کہا کہ لبنان کو اگلے مرحلے کے لیے تیار ہونا چاہیے جو حزب اللہ کے خاتمے کے بعد کا مرحلہ ہے۔ البتہ اس طرح کے بیانوں اور موقف پر بہت زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پچھلے دو مہینے میں حزب اللہ نے جن چیزوں کا سامنا کیا ہے وہ ایک مزاحمتی گروہ تو کیا ایک پوری حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے کافی تھا۔
گہری شناخت اور ایک پیش گوئي
البتہ جو لوگ حزب اللہ کے سلسلے میں گہری اور مکمل شناخت رکھتے تھے، ان کا کچھ اور ہی خیال اور نظریہ تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل کی شہادت کی مناسبت سے اپنے تعزیتی پیغام میں زور دے کر کہا تھا: "عالم اسلام نے ایک عظیم شخصیت کو، مزاحمتی محاذ نے ایک نمایاں علم بردار کو اور حزب اللہ نے ایک بے نظیر قائد کو کھو دیا ہے لیکن ان کے دسیوں سالہ جہاد اور تدبیر کی برکتیں کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی۔ انھوں نے لبنان میں جو بنیاد رکھی اور مزاحمت کے دیگر مراکز کو جو سمت عطا کی وہ نہ صرف یہ کہ ان کے جانے سے ختم نہیں ہوگي بلکہ ان کے اور اس واقعے کے دیگر شہیدوں کے خون کی برکت سے اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ صیہونی حکومت کے کمزور ہو چکے اور زوال پذیر ڈھانچے پر مزاحمتی محاذ کے حملے، اللہ کی مدد و نصرت سے شدیدتر ہوں گے۔ پست صیہونی حکومت کو واقعے میں فتح حاصل نہیں ہوئي ہے۔ سیدِ مزاحمت، ایک شخص نہیں تھے، وہ ایک راہ اور ایک مکتب تھے اور یہ راستہ بدستور جاری رہے گا۔" (2024/09/28)
مقبوضہ علاقوں پر حکمرانی کرنے والا مجرم گینگ اور اس کے اصل حامی یعنی امریکا اور دیگر مغربی ممالک جو چیز نہیں جانتے اور سمجھ بھی نہیں سکتے، وہ حزب اللہ کی ماہیت اور تشخص ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کا سامنا صرف ایک چھاپہ مار اور فوجی گروہ سے نہیں ہے بلکہ ان کے سامنے عقیدے اور آئيڈیالوجی کی حامل ایک حقیقی تنظیم ہے جو صیہونی حکومت کو خطے اور عالم اسلام کی مشکلات اور خطروں کا سب سے بڑا سبب سمجھتی ہے اور اسی نظریے کی بنیاد پر "شہادت یا فتح" کو ایک اسٹریٹیجی سمجھتی ہے۔
امام خمینی؛ حزب اللہ کے معنوی پدر
صیہونی حکومت نے فلسطینی مجاہدین سے مقابلے کے بہانے جو بے گھر ہو گئے تھے اور لبنان میں رہ رہے تھے، سنہ 1982 کے موسم گرما میں لبنان پر حملہ کیا۔ اس حملے کے خلاف کوئي خاص مزاحمت نہیں ہوئي اور جارح صیہونی فوج بڑی تیزی سے بیروت تک پہنچ گئي اور اس نے لبنان کے دارالحکومت پر بھی قبضہ کر لیا۔ لبنان کی دسیوں نمایاں شخصیات کو قتل کر دیا گيا اور اس ملک کے عوام کی حقیقی معنی میں تذلیل کی گئي۔ ایسے حالات میں لبنان کے بعض شیعہ بزرگ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس ملک کے موجودہ اور سرگرم مزاحمتی گروہ، ضروری افادیت نہیں رکھتے اور ایک نئے گروہ کی تشکیل کی ضرورت ہے جو نئي خصوصیات کے ساتھ وجود میں آئے۔ یہ گروہ اگرچہ پوری طرح لبنانی تھا لیکن عقیدے اور راہ کے لحاظ سے اس نے ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کو نمونۂ عمل بنایا تھا۔ سید حسن نصر اللہ، حزب اللہ اور ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی نسبت کے بارے میں کہتے ہیں: "ہم اس وقت امام خمینی سے متاثر تھے اور اب بھی ہیں۔ ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرتے کہ ایران کے اسلامی انقلاب اور سنہ 1979 میں اس کی کامیابی نے پوری امت پر گہرا اثر ڈالا۔ ہم بھی اس امت کا ہی ایک حصہ تھے اور اس کامیابی سے ہمارے اندر بھی عمل اور ردعمل پیدا ہوا۔ یقینی طور پر ہم بڑی شدت سے امام خمینی کے افکار، امام خمینی کے نظریات، امام خمینی کے جذبے، امام خمینی کی شادابی اور قطعی نتیجے کے طور پر ان کی پوری کارکردگی سے متاثر تھے۔ امام خمینی حزب اللہ کے بارے میں بات کرتے تھے اور فطری طور پر وہ حزب اللہ کے وسیع معنی کے بارے میں بات کرتے تھے، نتیجے کے طور پر اسلام پر عقیدہ رکھنے والا ہر گروہ اور اس راہ پر عقیدہ رکھنے والا ہر مجاہد، اپنے آپ کو "حزب اللہ" کہہ سکتا تھا۔ تو ہم نے بھی کہا کہ ہم اپنا نام "حزب اللہ" رکھتے ہیں اور دوسرے ناموں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ شاید دوسروں نے انھیں استعمال کیا ہو یا شاید وہ اس مرحلے کے بارے میں، جس میں ہم اس وقت تھے اور جس کا ہمیں مقابلہ کرنا تھا، ہمارے عقائد کو بالکل صحیح طریقے سے نہ سمجھا پائے۔"
اس راستے پر چلنا پاگل پن ہے!
وہ اس وقت کی خاص صورتحال اور اپنے وجود میں آنے کے وقت سے ہی حزب اللہ کے سامنے موجود رہے سخت چیلنجز کے بارے میں بھی کہتے ہیں: "ابتدائي سال بڑے سخت اور تھکا دینے والے تھے لیکن چونکہ عزم تھا، ایمان تھا، ارادہ تھا اور راہ کے صحیح ہونے پر یقین اور اطمینان تھا، اس لیے ہم ان طاقت فرسا سختیوں کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ میں، راہ کے صحیح ہونے پر یقین کی بات کیوں کر رہا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بالکل ابتدائي دنوں سے ہی بعض لوگ کہتے تھے کہ اس راہ پر چلنا، پاگل پن ہے! تم لوگ اسرائيل سے لڑنا چاہتے ہو؟ تم تو صرف کچھ جوان ہو، تمھارے پاس کچھ خاص وسائل بھی نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی راہ کے صحیح ہونے پر پورا یقین تھا، ایمان تھا اور ہم اسی ایمان کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔"
حزب اللہ نے دکھا دیا کہ اگرچہ دشمن کاغذ پر اور صرف مادی حساب کتاب کے لحاظ سے پوری طرح برتری رکھتا ہے لیکن ایسے دشمن کو بھی شکست دی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ مجاہدین جو اس کے مقابلے میں صف آرا ہیں اگر صرف جنگ کے مادی اسباب پر بھروسہ نہ کریں اور ایمان و عقیدے کے عنصر کو بھی جنگ کے میدان میں لے آئيں۔ یہ لائحۂ عمل اور جنگ کی نئي حکمت عملی، جو صرف جنگ سے ہی مخصوص نہیں تھی اور "مزاحمت" کے نام سے ایک زیادہ وسیع اور عمیق مفہوم سے موسوم ہو گئي تھی، قابل شکست نہیں تھی، چاہے دشمن کتنا ہی طاقتور اور وحشی کیوں نہ ہو۔ شہید سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کی قیادت کے اپنے طویل دور میں مزاحمت کو ایک دلکش مفہوم میں تبدیل کر دیا، ایک ایسا مفہوم جو صرف شیعہ معاشرے تک محدود نہیں تھا اور لبنان کے غیر شیعہ یہاں تک کہ اس ملک کی سرحد سے باہر رہنے والے آزاد منش لوگ بھی اس کی طرف کھنچے چلے آ رہے تھے۔
لازوال پرندہ
حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران جنگ کی صورتحال نے دکھا دیا کہ جس طرح سے رہبر انقلاب نے زور دے کر کہا تھا، نہ صرف یہ کہ حزب اللہ کمزور پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ اس کے پاس دشمن کو چونکانے والی نئي چیزیں بھی ہیں، اتنی چونکانے والی کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کا بیڈ روم بھی اس کے لیے کچھ زیادہ محفوظ نہیں رہ گيا ہے۔ حزب اللہ اپنے سید عزیز اور دیگر کمانڈروں کو کھونے کے گہرے صدمے سے باہر نکل چکا ہے اور ایک نئے اور ناشناختہ ڈھانچے کے ساتھ اسرائيل کی جعلی حکومت کے لیے بدستور ایک مہلک خطرہ ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو صیہونی میڈیا کی نظروں سے بھی پوشیدہ نہیں رہ گیا ہے اور حال ہی میں ان میں سے ایک نے اعتراف کیا: "ہم سے کہا گيا تھا کہ حزب اللہ کو شکست ہو گئي ہے اور وہ تباہ ہو چکی ہے لیکن حزب اللہ نے گولانی بریگيڈ کے اڈے پر حملہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی مہلک ہو سکتی ہے۔"