بیروت کے ضاحیہ علاقے میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں متعدد علماء اور دینی شخصیات نے شرکت کی اور کتاب کے مترجم شیخ احمد عبداللہ ابوزید کو رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ایک تحفہ دے کر خراج تحسین پیش کیا گيا۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل اور لبنان میں امام خامنہ ای کے وکیل شرعی شیخ نعیم قاسم نے اس پروگرام میں اپنے خطاب میں اس کتاب کو امام خامنہ ای کے فقہی نظریات کی گہرائی کی عکاس بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے 76 فقہی نشستوں میں 300 حدیثوں کا جائزہ لیا۔ انھوں نے کہا کہ ولایت فقیہ، اصل اسلام کا تسلسل ہے اور رہبر انقلاب سے حزب اللہ کے دینی اور عقیدتی رشتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اس کتاب کو ایک اہم اور غیر معمولی کتاب بتایا اور کہا کہ اس سے امام خامنہ ای کی شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ انھوں نے ملک اور امت کے امور کے انتظام کی مصروفیات اور پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام ذمہ داریوں کے باوجود انھوں نے یہ دروس دیے ہیں اور فقہ کے ان 76 دروس میں 300 حدیثوں کا جائزہ لیا اور حدیثوں کی تفصیلات، ان کے اسناد کے جائزہ، گزشتہ فقہاء کے آراء کے مطالعے کے لیے بہت گہری، جامع اور دشوار تحقیق کی ضرورت تھی۔

انھوں نے غنا اور موسیقی کے موضوع پر امام خامنہ ای کی توجہ کو ان کی فقہی جدت عمل کا ایک نمونہ بتایا اور کہا کہ امام خامنہ ای نے اس مسئلے میں لوگوں کی شرعی حدود اور شرعی ذمہ داری کے تعین کی ضرورت کو محسوس کیا کیونکہ لوگ فن و ہنر کو پسند کرتے ہیں اور ان پر فن و ہنر کا اثر پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایسے فقیہ کے روبرو ہیں جنھوں نے اسلامی فقہ کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ امام خامنہ ای محمد و آل محمد علیہم السلام کے راستے پر چل رہے ہیں اور آج وہ اس کے تمام حیاتی میدانوں کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں اور ہم اس چشمے سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ امام خامنہ ای، ہمارے ولی امر اور ہمارے آئيڈیل ہیں تو درحقیقت اسلامی بصیرت کی اسی بنیاد پر ہم بیعت کرتے ہیں اور ہر کسی کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے انتخاب کی بنیاد پر اپنا راستہ چنے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس موضوع کا، حب الوطنی کے مفہوم سے کوئي تعلق نہیں ہے کیونکہ محب وطن ہونے کا مطلب، سب کا ایک طرح سے سوچنا نہیں بلکہ دیگر ہم وطنوں کے ساتھ ایک سماجی سمجھوتے کی پابندی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ہم حزب اللہ والے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی زندگي کی راہ کے تناظر میں امام خامنہ ای کی ہدایات سے استفادہ کریں اور یہ تناظر، اللہ کے حضور ہماری ذمہ داریوں کو ہلکا کرتا ہے۔ بنابریں ولی فقیہ سے ہمارا رشتہ، اسلام، عقیدے، ایمان، عقل و روح اور اپنی راہ کے انتخاب کے ہر انسان کے قانونی حق سے نکلنے والا رشتہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ امام خمینی کے بعد امام خامنہ ای، غاصب صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور خطے میں ہمارے علاقوں اور وقار کی بحالی کے جذبے کے پھیلاؤ میں ایک بڑا اور عظیم کردار رکھتے ہیں۔

انھوں نے ان لوگوں کے جواب میں جو ایران سے حزب اللہ کو ملنے والی حمایت پر تنقید کرتے ہیں، کہا کہ ہم اس ایرانی حمایت پر فخر کرتے ہیں، اگر یہ پشت پناہی نہ ہوتی تو جنوبی لبنان آزاد نہ ہوتا، مسلحانہ انتفاضہ وجود میں نہ آتا، صیہونی خطرے کے مقابلے میں ایثار کا یہ جذبہ پیدا نہ ہوتا اور یہ حقیقت عالمی سطح پر اتنی نہ پھیلتی کہ اسرائيل ایک ناسور اور خبیث وجود ہے جو انسانیت کے لیے سنجیدہ خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران نے ہم سے کچھ بھی طلب کیے بغیر ہماری مدد کی اور ایران سے رشتہ، ایک الزام نہیں بلکہ ایک افتخار ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرم الشیخ میں جو ڈرامہ کیا، وہ کوئی امن منصوبہ نہیں ہے، کہا کہ ہم ٹکراؤ کے ایک مرحلے میں ہیں جو بے زیادہ تکلیف اور ساتھ ہی امید سے بھرا ہوا ہے کیونکہ صیہونی حکومت اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکی اور آگے بھی حاصل نہیں کر سکے گی۔

انھوں نے کہا کہ جس چیز کو خطے میں ایک نئی بات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ سیاسی ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امریکا کوشش کر رہا ہے کہ سیاسی حربوں سے اس چیز کو عملی جامہ پہنا دے جسے اسرائيل جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا۔ انھوں نے کہا کہ عالمی سامراجیوں کے تعاون کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا کیونکہ یہ حکومت، ایک جارح اور مجرم وجود ہے جو نسل کشی اور تباہی کے درپے ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ جب نیتن یاہو، گریٹر اسرائيل کے خیال کی بات کرتے ہیں تو یہ منصوبہ گریٹر امریکا کی خدمت کے لیے ہے کیونکہ ہم پوری دنیا میں ٹرمپ کے اقدامات کے شاہد ہیں۔ انھوں نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کو تباہ کرنے اور اسے گریٹر اسرائيل کا ایک حصہ بنانے کی دھمکی دینا بند کرو۔ انھوں نے کہا کہ لبنان کا استحکام اسی وقت عملی جامہ پہنے گا جب اس سے پر اسرائیل کا منحوس سایہ ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ لبنان کو ایک آزاد، خودمختار، مستحکم، طاقتور اور باصلاحیت ملک کی حیثیت سے باقی رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے سے مسئلہ ختم ہو جائے گا وہ سخت غلط فہمی میں ہیں کیونکہ حزب اللہ کے ہتھیار، لبنان کی طاقت کا ایک حصہ ہیں اور دشمن نہیں چاہتا کہ لبنان طاقتور رہے۔ انھوں نے اسی کے ساتھ زور دے کر کہا کہ ہم پر دھمکیوں کا کوئي اثر نہیں ہوتا۔

اس پروگرام میں بیروت میں امام علی علیہ السلام دینی تعلیمی مرکز کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید علی حجازی نے دینی تعلیمی مراکز کے بارے میں امام خامنہ ای کے نظریات پر اختصار سے روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ وقت میں اور خاص طور پر سائنسی پیشرفت کے بعد اجتہاد کے طریقوں اور روشوں پر نظر ثانی اور ان میں فروغ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی اور اسی تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی نے دینی تعلیمی مراکز کے تدریسی نظام میں جدت عمل پر زور دیا تاکہ عصری ضروریات تشنۂ جواب نہ رہ جائيں تاہم انھوں نے اسی کے ساتھ اس بات پر بھی تاکید کی کہ روایتی طریقوں کو، جو اب بھی کارآمد ہیں، کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے اور عصری ضروریات کے مطابق علماء کی نئی نسل تیار کرنے کے لیے علمی استحکام اور ضروری گہرائی کو برقرار رکھا جائے۔

اس پروگرام میں اسی طرح امام خامنہ ای کے تحریری و تقریری آثار کے تحفظ اور نشر و اشاعت کے ادارے کے نمائندے سید کمیل باقر نے کہا کہ آج تمدنوں کے ٹکراؤ کے زمانے میں ہماری ذمہ داری، مغربی تمدن کے وحشیانہ تجربے سے گزر چکی انسانیت کے سامنے نئے اسلامی تمدن کے عناصر کو پیش کرنا ہے اور یہ ذمہ داری، اعلی دینی تعلیمی مراکز کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی دینی تعلیمی مراکز کے نام اپنے پیغام میں اس پر زور دیا ہے۔

یاد رہے کہ کتاب "غنا اور موسیقی" رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے فقہ کے دروس خارج کو مدون کر کے تیار کی گئي ہے۔ یہ دروس سنہ 2008 سے سنہ 2010 کے درمیان دیے گئے تھے اور ان میں رہبر انقلاب نے غنا اور موسیقی کے موضوع پر گفتگو کی تھی۔