کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے ایران اور مغرب کی تاریخ کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایران اور مغرب کے تعلقات میں مختلف اسباب کی بنا پر بہت زیادہ نشیب و فراز رہا ہے جن میں معاشی، سیاسی، ثقافتی اور عسکری پہلو شامل ہیں۔ انھوں نے ایران اور مغرب کے تعلقات کو پانچ تاریخی ادوار میں تقسیم کیا اور کہا کہ پہلا دور، قدیمی ایران کا دور ہے جب ہخامنشی، اشکانی اور ساسانی سلطنتیں ایران پر حکمفرما تھیں اور ایک مضبوط تمدن کی حامل تھیں جبکہ مغرب میں یونانی اور رومی تمدن تھا۔ اس دور میں، تمدن کے یہ دو بڑے محور، عالمی طاقت کے اصل مراکز شمار ہوتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ اس دور میں ایران کے پاس بہت مضبوط سیاسی اور فوجی طاقت تھی، اس لیے مغرب کبھی بھی اس پر تسلط حاصل نہیں کر سکا، اگرچہ فریقین کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ایران پر مغرب کے پائیدار تسلط پر منتج نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر لاریجانی نے مغرب کی تسلط پسندی کے تاریخی اسباب و علل کے بارے میں کہا کہ ایسے عالم میں جب مشرق، اسلامی ممالک اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ایران کے تجارتی تعلقات مضبوط ہو چکے تھے، مغرب برسوں تک ایران کا سب سے بڑا تجارتی حلیف تھا تاہم سیاسی اور سیکورٹی میدانوں میں اس کے تسلط پسندانہ رویے نے تعاون کو بحران میں مبتلا کر دیا۔
انھوں نے اسلامی انقلاب کے بعد مغرب کے رویے کے بارے میں کہا کہ ایران کے رہنماؤں نے کبھی یبھی مغرب کے سلسلے میں علی الاعلان معاندانہ موقف اختیار نہیں کیا بلکہ یہ مغرب کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تھا جس نے اسلامی انقلاب کو بحران کا ہدف بنایا، مغرب چاہتا تھا کہ ایرانی قوم کی خود مختاری کو ایک نئے نعرے کے ساتھ ہائی جیک کر لے تاہم اسے امام خمینی کی دہاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر لاریجانی نے مغرب کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا سے تعلقات کے سلسلے میں چوکنا رہنے کے سلسلے میں رہبر انقلاب کی سفارش، امریکیوں کی تسلط پسندانہ فطرت کی وجہ سے ہے، رہبر انقلاب نے ہمیشہ ہی علمی، سائنسی اور معاشی لین دین اور مفید پروجیکٹس کو سراہا ہے لیکن جب مغرب نے ایران پر تسلط کے لیے اپنی معاشی، ثقافتی یہاں تک کہ عسکری طاقت کو استعمال کیا تو رہبر انقلاب پوری طاقت سے اس کے سامنے ڈٹ گئے، ایرانی قوم نے بھی حالیہ جنگ میں اسی استقامت کے ساتھ اپنی خود مختاری کی حفاظت کی۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ ایرانی قوم نے انقلاب کے بعد، ملک کو کمزور بنانے کی امریکا اور مغرب کی سازشوں کے خلاف استقامت دکھائي اور رہبر انقلاب پوری طاقت سے ان سازشوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا کے موجودہ صدر، "طاقت کے بل پر امن" کے نعرے کے ساتھ دراصل اقوام کی خودمختاری کے اصل دشمن ہیں۔ وہ بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کو روند کر طاقت کو قانون کا متبادل بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کوشش کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ممالک سرینڈر ہو جائيں یا پھر جنگ کے لیے تیار رہیں۔ یہ وہی پالیسی ہے جس پر مغرب صدیوں سے عمل کر رہا تھا اور ٹرمپ نے بس اسے آشکار کر دیا ہے۔
انھوں نے حالیہ جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کی استقامت اور مسلح فورسز کی طاقت نے دشمنوں کو پیچھے ہٹنے اور بڑی تیزی سے جنگ کے خاتمے پر مجبور کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے کبھی بھی امریکا اور صیہونی حکومت کا چہرہ اتنا کریہہ اور نفرت انگیز نہیں ہوا تھا۔ ان کے حالیہ اقدامات نے ان کی سامراجی فطرت کو بے نقاب کر دیا۔ انھوں نے مذاکرات میں امریکا کے مکارانہ رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے امریکیوں کا مقصد، منصفانہ صلح نہیں بلکہ فریق مقابل کو سرینڈر کروانا ہے۔ کیا ایران، اس وقت مذاکرات نہیں کر رہا تھا جب اس کے خلاف جنگ شروع کی گئی؟ کیا اس سے بڑی ذلت ہو سکتی ہے کہ امریکی صدر کھلم کھلا کہے کہ میں نے ایرانی قوم کو دھوکا دیا؟
ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا کہ جنگ کے شروعاتی دنوں میں دشمنوں نے فوجی دباؤ اور بہت زیادہ پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو مایوس کرنے کی کوشش کی لیکن رہبر انقلاب نے پورے سکون سے اور ٹھوس طریقے سے عوام سے بات کی اور انھیں دشمنوں کی شکست کی خوش خبری دی۔ انھوں نے کہا کہ جنگ کے شروعاتی تین دن حادثات سے بھرے ہوئے تھے لیکن سپریم کمانڈر کی پلاننگ اتنی عمیق اور ذہانت سے بھری ہوئی تھی کہ اس نے میدان جنگ کا نقشہ بدل دیا۔ انھوں نے میدان جنگ میں موجود ایک ایک کمانڈر سے براہ راست رابطہ رکھا اور یہ بتایا کہ کس طرح کا ردعمل دکھانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ رہبر انقلاب کی تدبیریں تمام میدانوں کا احاطہ کیے ہوئے تھیں، جنگ، محاذ کے پیچھے، ضروری امداد اور خاص طور پر عوام کی ضروریات کی تکمیل پر توجہ، ان سب کے بارے میں انھوں نے ہدایات جاری کیں۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب کے ایک دوسرے حصے میں رہبر انقلاب کے تحریری و تقریری آثار کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے دفتر کے تحقیقی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر محمد اسحاقی نے کہا کہ رہبر انقلاب کے افکار اور ان کا کردار، قرآن اور سنت الہی کے فرامین پر مبنی ہے اور ان ہی بنیادوں کی وجہ سے ملک، سیاسی و سماجی بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ رہبر انقلاب نے تسلط پسندانہ نظام اور سامراج کو، مغربی تمدن کا حقیقی چہرہ بتایا ہے جو اقوام کو سرینڈر کرانے کی اپنی کوششوں کے باوجود، اسلامی انقلاب کی قرآنی قیادت سے شکست کھا گیا ہے۔
ہم اور مغرب کانفرنس کے سیکریٹری موسی حقانی نے اس تقریب سے اپنے خطاب میں موجودہ وقت کو، تاریخ کا ایک حساس وقت بتایا اور کہا کہ آج ہم تاریخ کے انتہائي حساس دور میں ہیں اور یہ کانفرنس اس صورتحال کو رہبر انقلاب اسلامی کے افکار و نظریات کی بنیاد پر بیان کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے واقعات اور آئندہ رونما ہونے والے واقعات، عالمی نظام میں تغیرات کے غماز ہیں۔ طوفان الاقصی اور بارہ روزہ جنگ اور اسی طرح روس اور یوکرین اور امریکا اور چین کے واقعات اور امریکی صدر کی سامراجی فطرت، یہ سب رونما ہونے والے اہم واقعات کی عکاسی کرتے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ رہبر انقلاب، کم از کم ہزار سالہ شیعہ عقلانیت کے وارث ہیں، کہا کہ ان کا تاریخ کا بہت گہرا مطالعہ ہے اور انھوں نے ایران اور یورپ دونوں کی تاریخ کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح وہ قریب ساٹھ سال سے مغرب سے مقابلے کے میدان میں ہیں جبکہ تیس سال سے زیادہ کے عرصے سے ایک انقلاب، ایک نظام اور مزاحمتی محاذ کی قیادت کر رہے ہیں۔
اس تقریب میں اسی طرح کانفرنس کے ایگزیکٹیو سیکریٹری موسی نجفی نے اپنی تقریر میں کہا کہ مغرب کی جانب سے تاریخ کے خاتمے کے نفی اور ایرانی و اسلامی فکر کی جانب سے نئی تاریخ کا فلسفہ پیش کیا جانا، انسانی تفکر و تمدن کی تاریخ کے ایک نئے دور کی شروعات کا غماز ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ آج دنیا کو ذہنوں کے استعمار، نرم جنگ اور میڈیا کے تسلط کا سامنا ہے لیکن تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مغربی طاقتیں، اس تاریخی برتری سے دور ہو چکی ہیں جو وہ اپنے ذہن میں رکھے ہوئے تھیں۔ انھوں نے کہا کہ مغرب کے ساتھ ایران کا ٹکراؤ، مغرب اور مشرق کا روایتی ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ ایران اپنی شریعت اور دینی سوچ کے دائرے میں کام کرتا ہے لیکن مشرق کی جغرافیائی حدود کے باہر وہ ایک خودمختار اور قومی، علاقائی اور عالمی میدانوں میں مرکزیت کی حامل طاقت کے طور پر سامنے آتا ہے۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب سے اس کانفرنس کے اکیڈمک بورڈ کے رکن فؤاد ایزدی نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ مغرب برسوں سے ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اور اپنے میڈیا میں انقلاب کا چہرہ مسخ کر کے پیش کر رہا ہے، ایسے میں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری علمی ماحول کی تقویت اور ملکی مفکرین کی حمایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں مغرب کی ثقافتی تبدیلیوں پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ آج مغربی دنیا میں اگر کوئی شہر پر فلسطین کا سب سے بڑا پرچم بھی نصب کر دے تو ممکن ہے اسے عوامی حمایت حاصل ہو جائے اور یہ امریکا کے فکری و سیاسی ماحول میں آنے والی سنجیدہ تبدیلی کو نمایاں کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا، ایک عالمی طاقت سے ایک عام ملک میں تبدیل ہونے کی راہ پر گامزن ہے اور ایسے حالات میں فکری اور عملی دونوں میدانوں میں ایران کی تقویت ہونی چاہیے۔