سورۂ حمد میں ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والوں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں: صِراطَ الَّذينَ اَنعَمتَ عَلَيھِم۔ صراط مستقیم یا سیدھا راستہ، ان لوگوں کا راستہ ہے جنھیں تو نے نعمت عطا کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ نعمت کھانا، پینا نہیں ہے، ہدایت الہی کی نعمت ہے ... معنوی نعمت ہے جو سب سے بڑی الہی نعمت ہے۔ یہ ان لوگوں کی راہ ہے جنھیں تو نے نعمت عطا کی ہے، ان پر غضب نہیں کیا ہے اور وہ گمراہ بھی نہیں ہوئے۔ یہ تین خصوصیات ہونی چاہیے: خدا نے انھیں ہدایت کی نعمت عطا کی ہو، انھوں نے اپنے برے اعمال سے اس نعمت کو غضب الہی میں تبدیل نہ کیا ہو اور گمراہ بھی نہ ہوئے ہوں۔ اس راہ کے مصادیق آپ اپنے زمانے میں، گزشتہ زمانے میں، اسلام کے ابتدائي زمانے میں اور تاریخ میں بڑی آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔
امام خامنہ ای
11 جون 1997
ہم کہتے ہیں کہ اے خدا ہماری ہدایت کرتا رہ، اس "ہدایت کرتا رہ" کے کیا معنی ہیں؟ ایک راستہ دکھانا ہے، ایک منزل تک پہنچانا ہے۔ راستہ دکھانے کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں ہدایت یعنی ہمیں راستہ دکھاؤ۔ منزل تک پہنچانے کا مطب یہ ہے کہ آپ کسی کا ہاتھ پکڑیں اور اسے وہاں لے جائيں جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔ انسان کے سلسلے میں ہدایت الہی ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان ہے، یعنی ہدایت الہی رہنمائی اور مدد کا مجموعہ ہے۔ مدد کا کیا مطلب ہے؟ یعنی توفیق عطا کرنا، انسان کے لیے راستہ کھولنا۔ یعنی جب انسان عزم کرے اور قدم بڑھائے اور خدا نے ہر مرحلے میں رہنمائي کی تو وہ اگلے مرحلے میں قدم بڑھانا انسان کے لیے آسان کر دیتا ہے اور کبھی کبھی لغزش کے مقامات پر اس کی مدد بھی کرتا ہے۔
امام خامنہ ای
8 مئی 1991
قرآن مجید کی ابتدا میں ہی سورۂ حمد میں پروردگار عالم سے ہماری درخواست "اِيّاكَ نَعبُدُ وَ اِيّاكَ نَستَعين" سے شروع ہوتی ہے۔ اس مدد طلب کرنے کا ایک بڑا مصداق اگلی آيت میں آتا ہے: "اِھدِنَا الصِّراط المستقیم" گویا یہ ساری تمہیدیں، اس عبارت کے لیے ہیں: سیدھے راستے کی طرف ہماری ہدایت کرتا رہ۔ پھر سورۂ حمد کے آخر تک اس صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی تشریح کی جاتی ہے۔ صراط مستقیم، خدا کی عبادت کا راستہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے اپنی نفسانی خواہشات کو لگام لگانا۔ اسلام نفسانی خواہشات کو ختم نہیں کرتا، انھیں کنٹرول کرتا ہے، کیونکہ یہ خواہشات، آگے بڑھنے کا محرک ہیں۔ اسلام ان خواہشات کو لگام لگاتا ہے اور ان کی ہدایت کرتا ہے۔ اسلام جنسی خواہشات کو ختم نہیں کرتا لیکن ان پر لگام لگاتا ہے، مال و ثروت کی خواہش کو ختم نہیں کرتا کیونکہ یہ پیشرفت کا ذریعہ ہے لیکن اسے کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی ہدایت کرتا ہے۔
امام خامنہ ای
6 مارچ 2000
سورۂ انعام کی آيت نمبر 161 میں پیغمبر سے کہا گيا ہے: کہہ دیجیے کہ بے شک میرے پروردگار نے سیدھے راستہ کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے جو حضرت ابراہیم کے دین اور طرز زندگي سے عبارت ہے۔ یعنی دین کا مطلب دینی افکار، شناخت اور عمل ہے اور اسے صراط مستقیم کہا گيا ہے۔ سورۂ نساء کی آيت نمبر 175 میں کہا گيا ہے: تو جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور جنھوں نے خدا کے ذریعے اپنے آپ کو عصمت میں بچائے رکھا، عصمت یعنی خطا سے محفوظ رکھا گيا جس میں لغزش کا امکان نہ ہو، تو اللہ انھیں اپنی رحمت اور فضل کے عظیم دائرے میں داخل کرے گا اور سیدھے راستے کی جانب ان کی رہنمائی کرے گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صراط مستقیم پر پہنچنے کا ذریعہ، اللہ سے جڑے رہنا ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئی 1991
سورۂ صافات کی آیت نمبر 118 میں موسیٰ اور ہارون کے بارے میں کہا گيا ہے: اور ہم نے (ہی) ان دونوں کو راہِ راست دکھائی۔ اگر آپ حضرت موسیٰ اور ہارون کی زندگي پر نظر ڈالیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ ان دونوں کی زندگي، طاغوت کی اطاعت اور غیر اللہ کی حاکمیت سے سرتابی اور اس راہ میں یعنی لوگوں کی ہدایت، انھیں طاغوت کی حاکمیت سے نجات دینے اور انھیں اللہ کی حاکمیت کے دائرے میں لانے کے لیے مستقل جدوجہد اور مصائب برداشت کرنے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ سورۂ یاسین کی آيت نمبر 3 اور 4 میں پیغمبر اسلام سے خطاب ہوا ہے: یقیناً آپ (خدا کے) رسولوں میں سے ہیں (اور) سیدھے راستے پر ہیں۔ جیسا کہ آپ نے حضرت موسیٰ کی زندگي میں دیکھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت، ان کا موقف اور ان کی راہ بھی وہی صراط مستقیم ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
صراط مستقیم کیا ہے؟ یہ کیا چیز ہے کہ ہم خداوند عالم سے اس کی جانب اپنی ہدایت کی دعا کر رہے ہیں؟ قرآن مجید کی آیتوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ صراط مستقیم کیا ہے؟ سورۂ آل عمران کی آيت نمبر 51 میں کہا گیا ہے: بے شک اللہ، میرا اور تمھارا پروردگار ہے تو تم اس کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے، سیدھا راستہ ہے۔ تو اس آيت میں صراط مستقیم کیا ہے؟ عبادت و بندگي، بندگی کے مقام تک پہنچنا۔ انسانی تاریخ میں یہ جو کثرت سے مظالم، گمراہیاں اور پریشانیاں دکھائی دیتی ہیں، یہ اس وجہ سے ہیں کہ کسی نے یا کچھ لوگوں نے خدا کی بندگي کو تسلیم نہیں کیا، اپنی یا دوسروں کی نفسانی خواہشات کے بندے بن گئے۔ سورۂ یاسین کی آيت نمبر 61 میں کہا گيا ہے: اور میری ہی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ تو ان آيتوں کے مطابق صراط مستقیم کا مطلب ہے خدا کی عبادت، خدا کی بندگي، خدا کے سامنے سر تسلیم خم رکھنا۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
قرآن مجید میں راہ یا راستے کے لیے کئي الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ "طریق" جب ایک فرضی راستے پر کوئی آگے بڑھتا ہے جبکہ اس پر نہ کوئي علامت ہے، نہ اسے پتھروں سے ہموار کیا گيا ہے، بس کوئي ایک فرضی راستے پر چلنے لگے تو اسے طریق کہتے ہیں، اس راہ میں کوئي خصوصیت نہیں سوائے اس کے کہ ایک راہرو اس پر چلے۔ تو یہ ایک عمومی معنی ہے۔ "سبیل" کے معنی اس سے زیادہ محدود ہیں، یہ وہ راستہ ہے جس پر چلنے والے زیادہ ہیں۔ سبیل، ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والوں کی کثرت کی وجہ سے وہ ہموار ہو گيا ہے اور واضح ہو گيا ہے، البتہ ممکن ہے کبھی انسان اس راستے کو کھو دے۔ "صراط" پوری طرح سے واضح راستے کو کہتے ہیں۔ یہ راستہ اتنا واضح ہے کہ اس راستے کو کھو دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔ "اِھدِنَا الصِّراط" یعنی بالکل واضح راستہ دکھا، اس پر "المستقیم" کی قید بھی لگا دی یعنی ہمیں بالکل واضح اور سیدھا راستہ دکھا۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
ایک چوتھی قسم کی بھی ہدایت ہے جس کا نام ہم نے "خواص کی ہدایت" رکھا ہے، یہ سارے مومنین کے لیے بھی نہیں ہے بلکہ ان میں سے بھی خاص لوگوں سے مختص ہے۔ یہ وہ بہت ہی اعلیٰ سطح کی ہدایت ہے جو پیغمبروں اور اولیائے الہی سے مختص ہے۔ سورۂ انعام کی آيتیں پیغمبر سے کہتی ہیں کہ "اُولئكَ الَّذينَ ھَدَى اللّہ" یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے۔ "فَبِھُدٰھُمُ اقتَدِہ" آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔ خدا کے برگزیدہ بندے اس کی جانب سے کچھ چیزیں، کچھ اشارے، کچھ خاص ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی کو قرآن کی کوئي آيت سنائي جاتی ہے تو وہ کچھ اشارے حاصل کرتا ہے، اس آيت کے کچھ الفاظ ان کے لیے ایک ہدایت لیے ہوئے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے نہیں ہیں۔ یہ سبھی اللہ کی ہدایت ہیں، ہدایت کے معنی یہ ہیں۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
یمن کے عوام پر، یمن کے عام لوگوں پر حملہ بھی ایک جرم ہے جسے یقینی طور پر روکا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز 1404 سے اقتباس (20 مارچ 2025)
ایک ہدایت ہے جو مومنوں سے مختص ہے: ھُدًى لِلمُتَّقين، یہ اُس ہدایت کے اوپر ہے جو خود انسان کے اندر پائي جاتی ہے، جسے ایمانی ہدایت کہتے ہیں۔ اسی ہدایت کا ذکر سورۂ نحل میں ہے کہ جو لوگ خدا کی آيتوں پر ایمان نہیں لاتے، خدا ان کی ہدایت نہیں کرتا۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا ہدایت نہیں کرتا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ پھر کبھی مومن نہیں بن سکتے؟ انھیں کبھی ہدایت ایمانی حاصل نہیں ہو سکتی؟ کیوں نہیں، جو ایمان نہیں رکھتا، ممکن ہے کہ اس کے پاس آج ایمان نہ ہو، کل وہ اپنی عقل اور اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے اور ایمان لے آئے، تو یہ ایمانی ہدایت نہیں ہے، تیسری قسم کی ہدایت ہے، وہ ہدایت مومنین سے مختص ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
ہدایت کے معنی رہنمائي کرنے اور راستہ دکھانے کے ہیں۔ ہدایت الہی کے کئي مرحلے اور کئي معنی ہیں۔ ایک طرح کی ہدایت عام ہدایت الہی ہے جس میں تمام موجودات شامل ہیں۔ یہ تکوینی ہدایت ہے، عام اور عالمگیر ہے، اس کے ذریعے تمام موجودات کی رہنمائي ہوتی ہے۔ جس محرک کے تحت چیونٹیاں یا شہد کی مکھیاں خاص طریقے سے اپنا گھر بناتی ہیں اور اجتماعی طور پر زندگي گزارتی ہیں، اس کا سرچشمہ ہدایت الہی ہے۔ ہمارا مقصود یہ ہدایت نہیں ہے۔ ہدایت کی ایک قسم بنی نوع انسان سے مختص ہے کہ جو فطرت انسان سے عبارت ہے۔ انسان کے خمیر میں ایک احساس ہے، ایک پنہاں ادراک ہے جو اللہ کے وجود اور بعض دینی معارف کی طرف اس کی رہنمائي کرتا رہتا ہے۔ آپ اللہ کو اپنی عقل سے پہچانتے ہیں اور فطرت و عقل کے علاوہ اللہ کو پہچاننے کا کوئي ذریعہ نہیں ہے، یہی انسانی عقل کی ہدایت ہے لیکن مقصود یہ ہدایت بھی نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
تمام طاقتیں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ جہاں خدا ارادہ کر لیتا ہے وہاں دنیا کی سب سے مضبوط طاقتیں بھی اپنے کام انجام نہیں دے پاتیں۔ امریکا، ایران میں گھسنا چاہتا ہے، طبس میں اس پر مصیبت آ جاتی ہے حالانکہ اس کے پاس ظاہری طاقت تھی۔ اس وقت بھی سامراجی طاقتیں، بڑے صیہونی اور سرمایہ دار، ایک اسلامی حکومت سے بری طرح خوفزدہ ہیں۔ کوشش کر رہے ہیں کہ اسے ختم کر دیں لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے ہیں جبکہ ظاہری طور پر ان کے پاس سب کچھ ہے۔ جب خداوند عالم ارادہ کرتا کہ ان کی طاقت، اثر نہ کر پائے تو وہ اثر نہیں کرتی۔ کبھی مشیت الہی یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقت اثر کرے، تو اثر کرتی ہے۔ مومن اور یکتا پرست انسان، طاقت کو صرف اور صرف اللہ سے مخصوص سمجھتا ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
ہم کہتے ہیں "اِيّاكَ نَعبُد وَ اِيّاكَ نَستَعين" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے سے مدد نہیں لینی چاہیے؟ ہم لوگوں سے، انسانوں سے، بھائي سے، دوست سے مدد لیتے ہیں۔ خود قرآن مجید میں کار خیر میں ایک دوسرے سے مدد لینے کی سفارش کی گئي ہے: "تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقويّْ" نیک کام اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یکتا پرست انسان، ہر طاقت اور ہر توانائي کو خدا سے مختص مانتا ہے اور جو بھی آپ کی مدد کرتا ہے، وہ قادر نہیں ہے بلکہ قادر خدا ہے۔ حقیقی قدرت اور طاقت، اللہ کی ہے۔ یہ ہماری طاقتیں، مجازی طاقتیں ہیں۔ اگر آپ کسی سے خدا کو نظر انداز کر کے مدد لیں اور اسے قدرت و طاقت کا مالک سمجھیں تو یہ شرک ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل
اللہ سے مدد چاہنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ میں ناقص اور قصوروار انسان، اگر اپنی تمام تر توانائيوں کو بھی تیری عبادت و عبدیت کی راہ میں یکجا کر دوں، تب بھی میں نے تیری عبادت و عبدیت کا حق ادا نہیں کیا ہے، تجھے میری اضافی مدد کرنی چاہیے تاکہ میں یہ حق ادا کر سکوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام جیسے بزرگان دین کہتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین جیسی شخصیات کما حقہ خدا کی عبادت نہ کر پانے کی بات کرتی ہیں جبکہ یہ شخصیات اللہ کی عبادت میں جو کام کرتی تھیں، ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
اگر انسان اس غاصب بادشاہ پر جو اس کے اندر ہے یعنی اس حقیقی ڈکٹیٹر پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گيا تو پھر وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں پر بھی غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ شعر نہیں، مضمون نہیں ہے، یہ کھلے ہوئے حقائق ہیں۔ ہم نے اسلامی انقلاب کے دوران پوری طرح سے ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کر لیا تو قربانی دیں گے اور اگر کوئي ملت قربانی دے تو کوئي بھی طاقت اس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گی۔ دشمن تب ہم پر فتحیاب ہوتا ہے جب ہم اپنے نفس پر فتحیاب نہیں ہو پاتے۔ انسان کی شکست کا پہلا مرحلہ، خود اس کی اندرونی شکست ہے۔ جب حسد اور دکھاوے کی چاہت اور اسی طرح کی چیزیں انسان پر غالب آ جاتی ہیں تو کام میں انسان کے ہاتھوں میں لرزش پیدا کر دیتی ہیں اور جب آپ کا ہاتھ لرزنے لگتا ہے تو دشمن کا ہاتھ مضبوط ہو جاتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
"وَ اِيّاكَ نَستَعين" اور صرف تجھ ہی مدد چاہتے ہیں۔ کس چیز میں تجھ سے مدد چاہتے ہیں؟ اس چیز میں کہ ہم صرف تیری ہی بندگي کریں، کسی دوسرے کی نہیں، غیر اللہ کی بندگي نہ کرنا زبان سے تو بہت آسان ہے لیکن عمل میں یہ سب سے مشکل کاموں میں ہے؛ انفرادی زندگي میں بھی سخت ہے اور اجتماعی زندگي میں بھی سخت ہے، ایک قوم کی حیثیت سے بھی سخت ہے اور آپ اس کی سختیوں کو دیکھ رہے ہیں کہ جب اسلامی جمہوریہ نے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں توحید کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہمارے اندر کے اس شیطان اور طاغوت کو بھگانا ہے، یہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ نفسانی خواہشات اور نفسانی شہوات سے مقابلے کی نسبت امریکا سے مقابلہ آسان ہے، نفس سے جنگ سب سے سخت ہے، اُس جنگ کی بنیاد بھی یہ جنگ ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
ہم تیری ہی عبات کرتے ہیں، یہ "ہم" کون لوگ ہیں؟ ایک تو میں ہوں۔ میرے علاوہ، سماج کے دوسرے افراد ہیں۔ "ہم" صرف دنیا کے یکتا پرست نہیں بلکہ تمام انسان ہیں کیونکہ غیر موحّد بھی اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا، ان کی فطرت اللہ کی عبادت کرنے والی ہے، وہ اندر سے خدا کے عابد ہیں چاہے ان کا ذہن اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو۔ دائرہ اس سے بھی زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے اور کون و مکان کی ہر چیز کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے یعنی میں اور دنیا کی ہر شئے تیری عبادت کرتے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ، پروردگار کی عبادت کر رہا ہے۔ اگر انسان اس چیز کو محسوس کر لے تو وہ عبودیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے گا۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
اس آيت کے ضمن میں ایک نکتہ یہ ہے کہ اس بندگی کا سرچشمہ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق طاقت کے ایک ایسے سرچشمے، قدرت و اقتدار کے ایک ایسے مرکز کی طرف مجذوب ہوتا ہے جسے وہ خود سے برتر سمجھتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ یہ چیز انسان کی روح میں، اس کی ذات میں اور اس کے خمیر میں پائی جاتی ہے، چاہے دانستہ ہو یا نادانستہ۔ دنیا میں کی جانے والی ساری عبادتیں، خدا کی پرستش ہے، یہاں تک کہ بت پرست بھی بباطن اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق جو اسے خدا پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا پرستی کی دعوت دیتی ہے، اپنی فطرت کی پیروی کرتا ہے۔ بت پرست بھی اپنے دل کے باطن میں خدا پرست ہے، جو چیز اس کے کام میں مشکل پیدا کرتی ہے وہ اس برتر طاقت اور الہی قدرت کے مصداق کی شناخت میں غلطی ہے۔ ادیان کا کردار یہ ہے کہ وہ انسان کے اس سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کریں، اس کی آنکھیں کھولیں اور اسے بتائيں کہ وہ برتر طاقت کون ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
"ايّاك نَعبُد" یعنی ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں۔ خدا کے مقابلے میں انسان کی بندگي کا مطلب ہے خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔ خدا اور انسان کے درمیان رابطہ، بہت سے آسمانی ادیان اور اسلام میں بھی بندگي سے عبارت ہے۔ بندۂ خدا کا مطلب ہے خدا کے سامنے سر جھکائے رہنے والا۔ دوسری جانب خداوند عالم تمام نیکیوں اور اچھائيوں کا سرچشمہ ہے تو بندۂ خدا کا مطلب ہوا تمام نیکیوں، اچھائيوں، خیر اور نور کا بندہ ہونا۔ یہ بندگي اچھی بندگي ہے۔ انسانوں کا بندہ ہونا، انسانوں کا غلام ہونا، بہت بری چیز ہے کیونکہ انسان، ناقص ہیں، انسان محدود ہیں، اس لیے ان کا بندہ ہونا انسان کے لیے ذلت ہے۔ ظالم طاقتوں کا بندہ ہونا، انسان کے لیے ذلت ہے، نفسانی خواہشات کا بندہ ہونا، انسان کے لیے ذلت و خواری ہے۔ بنابریں بندگي ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو ہر جگہ اچھی یا ہر جگہ بری ہوں۔ کہیں پر بندگي اچھی ہو سکتی ہے اور کہیں پر بری۔ بندۂ خدا ہونا، ایک اعلیٰ مفہوم کا حامل ہے۔
امام خامنہ ای
10 اپریل 1991
دنیا میں ہمارے پاس مالکیت نام کی ایک چیز ہے۔ یہ حقیقی مالکیت نہیں ہے بلکہ عطا کردہ مالکیت ہے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے جسم کے بھی مالک نہیں ہیں۔ ہم اپنے جسم کے کیسے مالک ہیں کہ اس جسم میں آنے والی تبدیلیاں ہماری مرضی کے برخلاف سامنے آتی ہیں اور انھیں کنٹرول کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے؟ اس جسم میں درد ہوتا ہے، یہ جسم فنا ہو جاتا ہے اور اس پر ہمارا کوئي اختیار نہیں ہوتا۔ ہم دنیا میں بہت سی چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اس کمزور سی مالکیت پر ہی انسان نازاں ہے، قیامت میں یہ ادنیٰ سی مالکیت بھی نہیں ہوگی۔ قیامت میں ہمارے اعضاء و جوارح ہمارے خلاف بات کریں گے اور وہاں سامنے آنے والی ساری باتیں انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوں گي۔
امام خامنہ ای
10 اپریل 1991
مطلب یہ کہ آپ کی زندگي کے اس ٹکڑے کا مالک اور صاحب اختیار، جس میں آپ کے پاس کوئي عمل نہیں ہے اور اس میں صرف اور صرف جزا ہے، ان اعمال کی جزا جو ہم نے دنیا کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں انجام دیے ہیں، خداوند عالم ہے، ہر چیز اس کے دست اختیار میں ہے۔ وہاں یہ عطا کردہ، مصنوعی اور انتہائي ناقص مالکیت بھی، جو اس دنیا میں ہمارے اور آپ کے پاس ہے، نہیں ہوگی۔
امام خامنہ ای
10 اپریل 1991
ایک مسلمان کی سوچ کا لب لباب یہ ہے: تمام اچھائيوں کو خدا کی طرف سے ماننا، ہر چیز کو خدا کا ماننا، اپنے آپ کو بھی خدا کا ماننا، تمام تعریفوں، ستائشوں اور مدح و ثنا کو بھی خدا سے مختص ماننا اور ہر چیز کو خدا کی کسوٹی پر تولنا۔ یہی، اسلامی سوچ اور اسلامی عقیدے کا بنیادی اصول اور قاعدہ ہے۔ یہی چیز ایک انسان کو فداکار بناتی ہے، یہی سوچ ایک انسان کو اپنی ذات کی قید سے رہا کرتی ہے، انفرادیت کے محدود زنداں سے آزاد کرتی ہے، مادی اور مادّہ پرستی کی زنجیروں سے نجات دلاتی ہے، اس کی وابستگی کو، مادّہ پرستی میں مبتلا انسانوں کی وابستگیوں سے دور لے جاتی ہے، کیونکہ وہ خدا سے متعلق ہے۔ یہی، اَلحَمدُ لِلّہِ رَبّ العّْالَمين کا مفہوم ہے۔ تمام اسلامی افکار، جذبات، اہداف اور مقاصد کی بنیاد یہی ہے۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
اَلحَمدُ لِلہ رَبِّ العْالَمين میں لفظ "رَبّ العْالَمين" اَلحَمدُ لِلہ کے لیے استدلال کا درجہ رکھتا ہے۔ کیوں ساری تعریفیں اللہ سے مخصوص ہیں؟ کیونکہ وہ "رَبّ العْالَمين" ہے۔ رب کے معنی مدبّر اور انتظام چلانے والے کے ہیں۔ کسی چیز کا رب یعنی وہ شخص جس کے ہاتھ میں اس چیز کی تدبیر ہو، وہ اس چیز کا انتظام چلانے والا ہو۔ اسی طرح رب کے معنی پالنے والے، رشد عطا کرنے والے اور مالک وغیرہ کے بھی ہیں۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
اَلحَمدُ لِلہ رَبِّ العّْلَمين. حمد کا مطلب کسی انسان یا کسی موجود کی اس کے کسی ایسے عمل یا صفت کے لیے ستائش کرنا ہے جو وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہو۔ اگر کسی میں کوئي ایسی خصوصیت ہو جو اس کے ارادہ و اختیار سے نہ ہو تو اس خصوصیت کی تعریف کو حمد نہیں کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی کے حسن کی تعریف کرنا چاہیں تو اسے عربی میں اس کے حسن کی حمد کرنا نہیں کہا جائے گا لیکن کسی کی بہادری کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کی سخاوت کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کے نیک کام کی حمد کی جا سکتی ہے، یا ایسی صفت کی، جو اس نے اپنے اختیار سے اپنے اندر پیدا کی ہے، حمد کی جا سکتی ہے۔ اَّلحَمدُ ساری حمد اور ستائش، لِلہ اللہ سے مخصوص ہے۔ یہ چھوٹا سا جملہ جو بات ہمیں سمجھاتا ہے، جس نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام نیکیاں، تمام حسن اور تمام وہ چیزیں جن کی حمد کی جا سکتی ہے، اللہ سے مخصوص ہیں۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
اللہ کی رحیمی رحمت کیا ہے؟ لفظ "رحیم" سے جو رحمت کی قسم سمجھ میں آتی ہے، وہ ایک الگ قسم کی رحمت ہے، ایک خاص رحمت ہے، ایسی رحمت ہے جو موجوادت کی ایک خاص قسم سے مختص ہے اور وہ موجودات، مومنین اور اللہ کے نیک بندے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں "الرحیم" یعنی رحیم کی صفت سے اللہ کی حمد کرتے ہیں تو در حقیقت ہم پروردگار عالم کی رحمت کی ایک خاص قسم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مومنین سے مختص ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ خاص ہدایت، مغفرت، اعمال کی نیک جزا اور مومنین کے لیے مخصوص رضا و رضوان سے عبارت ہے۔ اگرچہ اس رحمت کا دائرہ محدود ہے اور کچھ ہی لوگوں سے مختص ہے لیکن یہ دائمی ہے، دنیا تک محدود نہیں ہے، جاری رہتی ہے، اس دنیا سے لے کر برزخ تک اور برزخ سے لے کر قیامت اور بہشت تک۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
خداوند عالم تمام موجودات کے سلسلے میں ایک رحمت رکھتا ہے: انھیں خلق کرنے کی رحمت، اس نے انھیں خلق کیا ہے اور یہ وہ رحمت ہے جو پروردگار کی جانب سے ہر مخلوق کے لیے ہے۔
رحمان اور رحیم، دونوں لفظ رحمت سے ماخوذ ہیں لیکن دونوں کے الگ الگ پہلو ہیں۔ رحمان، مبالغے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور رحمت میں کثرت اور اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ رحیم بھی رحمت سے ہی لیا گيا ہے لیکن صفت مشبہہ ہے یعنی صفت میں ثبات اور پائيداری کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم ان دونوں الفاظ سے دو الگ الگ چیزیں سمجھتے ہیں: الرحمن سے ہم سمجھتے ہیں کہ خداوند عالم بہت زیادہ رحمت کا مالک ہے اور اس کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ الرحیم سے ہم سمجھتے ہیں کہ خداوند عالم کی رحمت دائمی اور لگاتار ہے، یہ رحمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
جب آپ اللہ کے نام سے کوئي کام شروع کرتے ہیں تو آپ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہ کام اللہ کے لیے ہے، جس طرح سے کہ آپ سمجھاتے ہیں کہ اس کا انجام بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔
میرا خصوصی سلام ہو آپ پر اے میرے عزیز فرزندو! لبنان کے شجاع جوانو۔
شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے جلوس جنازہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ
21 فروری 2025
جناب سید ہاشم صفی الدین رضوان اللہ علیہ کا نیک نام اور نورانی چہرہ بھی اس خطے کی تاریخ کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ وہ لبنان میں مزاحمت کی قیادت کے قریبی مددگار اور اٹوٹ حصہ تھے۔
شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے جلوس جنازہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ
21 فروری 2025
سید حسن نصر اللہ کا پاکیزہ جسم، جہاد فی سبیل اللہ کی سرزمین پر سپرد خاک کیا جائے گا لیکن ان شاء اللہ ان کی روح اور ان کی راہ ہر دن پہلے سے زیادہ سرفراز ہو کر جلوہ نما ہوگی اور اس راستے پر چلنے والوں کی رہنمائي کرتی رہے گي۔
شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے جلوس جنازہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ
21 فروری 2025
دشمن جان لے کہ غاصبانہ قبضے، ظلم اور سامراج کے خلاف مزاحمت ختم ہونے والی نہیں ہے اور اللہ کے حکم سے اپنی منزل مقصود پر پہنچنے تک جاری رہے گی۔
شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے جلوس جنازہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ
21 فروری 2025
مجاہد کبیر اور خطے میں مزاحمت کے ممتاز رہنما حضرت سید حسن نصر اللہ اعلی اللہ مقامہ، اس وقت عزت کی اوج پر ہیں۔ ان کا پاکیزہ جسم، جہاد فی سبیل اللہ کی سرزمین پر سپرد خاک کیا جائے گا لیکن ان شاء اللہ ان کی روح اور ان کی راہ ہر دن پہلے سے زیادہ سرفراز ہو کر جلوہ نما ہوگی اور اس راستے پر چلنے والوں کی رہنمائي کرتی رہے گي۔
شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے جلوس جنازہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ
21 فروری 2025
جنگ یقیناً ایک سخت چیز ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول ہیں، کچھ قوانین ہیں، کچھ حدود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جب کوئي کسی سے جنگ کر رہا ہے تو وہ ان تمام حدود کو پیروں تلے روند دے، مسل دے، جیسا کہ مقبوضہ فلسطین پر حکمرانی کرنے والا یہ مجرم گینگ کر رہا ہے۔
حکومتیں، اقوام خاص طور پر حکومتیں، اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے حقیقت میں صیہونی حکومت سے مقابلے کے مسئلے میں کوتاہی کر رہے ہیں۔ یہ کام جو صیہونی حکومت نے غزہ میں کیا اور کر رہی ہے، جو کچھ اس نے لبنان میں کیا اور کر رہی ہے، سب سے وحشیانہ جنگي جرائم ہیں۔
جن لوگوں کا تعلق سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا سے ہے وہ ان نکات پر توجہ دیں۔ ہر چیز کو، جو کچھ بھی انسان کے ذہن میں آئے، اسے سائبر اسپیس پر نہیں ڈال دینا چاہیے، آپ دیکھیے کہ اس کا اثر کیا ہے، دیکھیے کہ لوگوں پر، لوگوں کی سوچ پر، لوگوں کے جذبات پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔
بعض لوگ، اپنی خبر کے ذریعے، اپنے تبصرے کے ذریعے، واقعات کے اپنے تجزیے کے ذریعے لوگوں میں شک پیدا کر دیتے ہیں، خوف پیدا کر دیتے ہیں، یہ چیز خداوند عالم کی نظر میں ناقابل قبول ہے؛ اس سلسلے میں قرآن کا موقف بہت ٹھوس ہے، قرآن اس بارے میں صراحت کے ساتھ کہتا ہے: "لَئِن لَم یَنتَہِ المُنافِقونَ وَ الَّذینَ فی قُلوبِھِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَۃ" "مرجفون" یہی لوگ ہیں۔ مرجفون یعنی وہ افراد جو لوگوں کے دل میں اضطراب پیدا کرتے ہیں، خوف پیدا کرتے ہی۔ اگر ان لوگوں نے اپنی یہ حرکتیں بند نہ کیں تو خداوند عالم پیغمبر سے فرماتا ہے: "لَنُغریَنَّکَ بِھِم" تو ہم آپ کو حکم دیں گے کہ آپ جا کر انھیں سزا دیں۔
بعض لوگ مختلف تجزیوں میں، مسئلے کو عجیب و غریب طرح سے سمجھتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک، سلامتی میں رہے تو ہمیں بڑی طاقتوں کو ناراض کرنے والے وسائل کے قریب نہیں جانا چاہیے؛ مثال کے طور پر "کیا ضروری ہے کہ ہمارے پاس فلاں رینج کا میزائیل ہو کہ وہ لوگ حساس ہو جائيں!" وہ سوچتے ہیں کہ اس طرح، اس شکل میں وہ ملک کی سلامتی کو فراہم کر سکتے ہیں، مطلب یہ کہ دراصل وہ یوں سوچتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک پرامن رہے تو کمزور رہیے، اپنے لیے طاقت کے وسائل فراہم نہ کیجیے، بعض لوگ اسی طرح سے سوچتے ہیں؛ یہ غلط ہے۔