جنگ یقیناً ایک سخت چیز ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول ہیں، کچھ قوانین ہیں، کچھ حدود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جب کوئي کسی سے جنگ کر رہا ہے تو وہ ان تمام حدود کو پیروں تلے روند دے، مسل دے، جیسا کہ مقبوضہ فلسطین پر حکمرانی کرنے والا یہ مجرم گینگ کر رہا ہے۔
حکومتیں، اقوام خاص طور پر حکومتیں، اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے حقیقت میں صیہونی حکومت سے مقابلے کے مسئلے میں کوتاہی کر رہے ہیں۔ یہ کام جو صیہونی حکومت نے غزہ میں کیا اور کر رہی ہے، جو کچھ اس نے لبنان میں کیا اور کر رہی ہے، سب سے وحشیانہ جنگي جرائم ہیں۔
جن لوگوں کا تعلق سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا سے ہے وہ ان نکات پر توجہ دیں۔ ہر چیز کو، جو کچھ بھی انسان کے ذہن میں آئے، اسے سائبر اسپیس پر نہیں ڈال دینا چاہیے، آپ دیکھیے کہ اس کا اثر کیا ہے، دیکھیے کہ لوگوں پر، لوگوں کی سوچ پر، لوگوں کے جذبات پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔
بعض لوگ، اپنی خبر کے ذریعے، اپنے تبصرے کے ذریعے، واقعات کے اپنے تجزیے کے ذریعے لوگوں میں شک پیدا کر دیتے ہیں، خوف پیدا کر دیتے ہیں، یہ چیز خداوند عالم کی نظر میں ناقابل قبول ہے؛ اس سلسلے میں قرآن کا موقف بہت ٹھوس ہے، قرآن اس بارے میں صراحت کے ساتھ کہتا ہے: "لَئِن لَم یَنتَہِ المُنافِقونَ وَ الَّذینَ فی قُلوبِھِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَۃ" "مرجفون" یہی لوگ ہیں۔ مرجفون یعنی وہ افراد جو لوگوں کے دل میں اضطراب پیدا کرتے ہیں، خوف پیدا کرتے ہی۔ اگر ان لوگوں نے اپنی یہ حرکتیں بند نہ کیں تو خداوند عالم پیغمبر سے فرماتا ہے: "لَنُغریَنَّکَ بِھِم" تو ہم آپ کو حکم دیں گے کہ آپ جا کر انھیں سزا دیں۔
بعض لوگ مختلف تجزیوں میں، مسئلے کو عجیب و غریب طرح سے سمجھتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک، سلامتی میں رہے تو ہمیں بڑی طاقتوں کو ناراض کرنے والے وسائل کے قریب نہیں جانا چاہیے؛ مثال کے طور پر "کیا ضروری ہے کہ ہمارے پاس فلاں رینج کا میزائیل ہو کہ وہ لوگ حساس ہو جائيں!" وہ سوچتے ہیں کہ اس طرح، اس شکل میں وہ ملک کی سلامتی کو فراہم کر سکتے ہیں، مطلب یہ کہ دراصل وہ یوں سوچتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک پرامن رہے تو کمزور رہیے، اپنے لیے طاقت کے وسائل فراہم نہ کیجیے، بعض لوگ اسی طرح سے سوچتے ہیں؛ یہ غلط ہے۔
آپ قرآن مجید میں ملاحظہ کیجیے، سلامتی کے مرتبے کو خداوند عالم اتنا اوپر لے آتا ہے کہ اسے مسلمانوں کو ایک عظیم نعمت اور ایک عظیم احسان کے طور پر یاد دلاتا ہے: "فَلیَعبُدوا رَبَّ ھٰذَا البَیتِ * اَلَّذی اَطعَمَھُم مِن جوعٍ وَ آمَنَھُم مِن خَوف." یعنی اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمھیں یہ بڑی نعمتیں عطا کی ہیں، اس نے تمھیں سلامتی دی ہے، تمھارے لیے ایک پرامن اور محفوظ زندگي گزارنے کا امکان فراہم کیا ہے۔
دنیا کے کلیدی مسائل کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک موقف اور نظریہ ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں ہمارا ایک موقف ہے، امریکہ سے متعلق مسائل کے بارے میں ہمارا موقف ہے، نیو ورلڈ آرڈر کے بارے میں ہمارا نظریہ ہے، ہمارا موقف ہے اور دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے۔ یہی خود مختاری ہے۔
امام خامنہ ای
حج نے اسلام کے انسانی وسائل کی وسعت اور اس کے روحانی پہلو کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔
امام خامنہ ای کے پیغام حج 2024 سے ماخوذ
11 جون 2024
طوفان الاقصی نے پورے مغربی ایشیا کی سیاست اور اقتصاد پر کنٹرول حاصل کرنے کے صیہونی حکومت کے جامع منصوبے کو ختم کر دیا اور یہ امید ہی مٹا دی کہ اس منصوبے کا وہ دوبارہ احیا کر پائے گی۔
امام خامنہ ای
صیہونی حکومت کے اعلی رتبہ حکام اور عہدیداران کے اندر بدحواسی اور سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں۔
امام خامنہ ای
3 جون 2024
امام خمینی کا یہ نظریہ تھا کہ خود فلسطینی عوام اپنا حق لیں اور دنیا کی اقوام اور مسلم قومیں ان کی حمایت کریں، اگر ایسا ہو گیا تو صیہونی حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
3 جون 2024
ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز نوجوان اسٹوڈنٹس! آج آپ نے عظیم مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ تشکیل دیا ہے، مزاحمت کا بڑا محاذ آپ سے دور ایک علاقے میں، آپ کے آج کے انہی احساسات و جذبات کے ساتھ، برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے جوانوں اور اسٹوڈنٹس کے نام
امام خامنہ ای کے خط سے اقتباس
25/05/2024
ہماری سرزمین میں امام رضا علیہ السلام کے حرم اطہر کے وجود اور پورے ملک اور ہمارے عوام کے دلوں میں ان کے روحانی وجود کی برکت پوری طرح واضح ہے۔ آٹھویں امام علیہ السلام معنوی، فکری اور مادی لحاظ سے ہماری قوم کے ولی نعمت ہیں۔
امام خامنہ ای
سیاست کا پہلو بہت اہم ہے۔ ائمہ کی سیاست کیا تھی؟ یہ چیز کہ امام ان تمام مدارج کے ساتھ، اس الہی منزلت کے بعد، اس الہی امانت کے ساتھ جو انہیں دی گئی تھی، بس اس بات پر اکتفا کر لیں کہ کچھ فقہی احکام بیان کر دیں، کچھ اخلاقیات بیان کر دیں! یہ اس انسان کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے جو بخوبی غور کر رہا ہے۔ ان ہستیوں کے مد نظر عظیم اہداف تھے۔ ان کا بنیادی ہدف اسلامی معاشرے کی تشکیل کرنا تھا اور اسلامی معاشرے کی تشکیل اسلامی حاکمیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی وہ اسلامی حاکمیت کے لئے کوشاں تھے۔
امام خامنہ ای
میں چاہتا ہوں کہ کتب بینی زیادہ سے زیادہ رائج ہو کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ہم کتاب کے محتاج ہیں، مختلف میدانوں کے سبھی لوگوں، مختلف عمر اور الگ الگ علمی سطح کے سبھی لوگوں کو کتاب پڑھنے کی ضرورت ہے اور حقیقی معنی میں کوئي بھی چیز کتاب کی جگہ نہیں لے سکتی۔
ملاحظہ فرمائيے کہ امریکی اسرائيل کی زبانی مخالفت پر کیا کارروائی کر رہے ہیں! امریکی اسٹوڈنٹس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، یہ واقعہ عملی طور پر یہ دکھاتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے بڑے جرم میں امریکا، صیہونی حکومت کا شریک جرم ہے۔
امام خامنہ ای
ابراہیم علیہ السلام کا ان کفار کے بارے میں جو معاندانہ برتاؤ نہیں کرتے یہ نظریہ ہے کہ ان سے اچھا سلوک کیا جائے مگر ایک جگہ وہ ان لوگوں سے اعلان بیزاری کرتے ہیں جو قاتل ہیں اور لوگوں کو ان کے گھر اور وطن سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اس کا مصداق آج کون ہے؟ صیہونی، امریکا اور ان کے مددگار۔
امام خامنہ ای
آج فلسطین کو حمایت کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس مسئلے میں دوسروں کا منتظر نہیں رہا اور نہ آئندہ رہے گا۔ لیکن اگر مسلم قوموں اور حکومتوں کے طاقتور ہاتھ تعاون کریں تو اس کا اثر بہت بڑھ جائے گا۔ یہ فریضہ ہے۔
امام خامنہ ای
طلبہ سے پیش آنے کا امریکی حکومت کا طریقہ عملی طور پر غزہ میں نسل کشی کے بھیانک جرم میں صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے۔
امام خامنہ ای
آپ غور کیجئے! اسرائیل کی زبانی مخالفت کرنے پر امریکا کیسا برتاؤ کر رہا ہے۔ امریکی طلبہ نے نہ تو کوئی تخریبی نعرے لگائے، نہ کسی کو قتل کیا، نہ کہیں آگ زنی کی۔ پھر بھی ان سے اس طرح پیش آ رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
صیہونی حکومت آکر کھیت اور رہائشی مکان کو بولڈوزر سے تباہ کر دیتی ہے کہ وہاں کالونی تعمیر کرے، فلسطینی اس گھر کو بچا رہا ہے جو اس سے چھین لیا گيا ہے۔ وہ دہشت گرد ہو گیا؟ دہشت گرد تو وہ ہے جو ان پر بمباری کر رہا ہے۔
امام خامنہ ای
ہم برسوں سے امریکا اور یورپ کی سخت پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پابندیوں کا مقصد کیا ہے؟ جھوٹ بولتے ہیں کہ ایٹمی اسلحے اور انسانی حقوق کی خاطر لگائی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ایران پر پابندی لگاتے ہیں دہشت گردی کی حمایت کی خاطر۔ ان کی نگاہ میں دہشت گردی کیا ہے؟ غزہ کے عوام۔
امام خامنہ ای
پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ایران، برادر ہمسایہ ملک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس خاص صورت حال کے مد نظر دونوں ملکوں کے روابط میں مزید گرمجوشی پیدا ہونی چاہئے اور تعطل کے شکار پروجیکٹس جیسے گیس پائپ لائن کو مکمل کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای
مسلم اقوام، بالخصوص اہم مسلم شخصیات کو اقبال کی 'خودی' کے ادراک کی ضرورت ہے۔ انہیں ضرورت ہے کہ اقبال کا پیغام سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام اپنی ذات و ماہیت کے اعتبار سے انسانی معاشروں کے انتظام و انصرام کے غنی ترین سرمائے کا حامل ہے، دوسروں کا محتاج نہیں۔
اقبال تاریخ اسلام کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں اور ان میں اتنی گہرائي اور رفعت ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کی کسی ایک خصوصیت یا ان کی زندگي کے کسی ایک پہلو کو ہی مدنظر رکھا جائے اور ان کے اسی پہلو اور اسی خصوصیت پر انھیں سراہا جائے۔
'سچا وعدہ' آپریشن کے دوران مسلح فورسز نے اپنی قوت و توانائی کی جھلک اور ملت ایران کی قابل ستائش تصویر پیش کی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ملت ایران کے ارادے کی طاقت کا لوہا منوایا۔
امام خامنہ ای
21 اپریل 2024
یہ چیز کہ فلسطین کا مسئلہ لندن میں، پیرس میں اور واشنگٹن میں پہلے نمبر کا ایشو بن جائے معمولی بات نہیں ہے۔ اس کی نظیر نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ عالم اسلام میں ایک نئی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔
امام خامنہ ای
جب صیہونی حکومت شام میں ایران کی کونسلیٹ پر حملہ کرتی ہے تو اس نے گویا ہماری سرزمین پر حملہ کیا ہے۔ خبیث حکومت نے غلطی کر دی، اسے سزا ملنی چاہئے اور سزا ملے گی۔
امام خامنہ ای
اسلام کے شجاع اور فداکار سردار جنرل محمد رضا زاہدی اپنے ساتھی مجاہد محمد ہادی حاج رحیمی کے ساتھ غاصب اور نفرت انگیز صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدام کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ خدا اور اس کے اولیاء کا سلام اور رحمت ان پر اور اس واقعے کے دیگر شہداء پر ہو اور ظالم اور جارح حکومت کے حکمرانوں پر لعنت اور نفرین ہو۔
امام خامنہ ای
یہ جو صیہونی حکومت اتنے سارے عسکری ساز و سامان اور دنیا کی ظالم طاقتوں کی پشت پناہی سے عورتوں اور بچوں کا قتل عام کر رہی ہے، اس بات کی علامت ہے کہ یہ حکومت مزاحمتی فورسز کا مقابلہ کرنے اور انہیں شکست دینے پر قادر نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
مغرب کی حمایت سے انجام پانے والے صیہونی حکومت کے جرائم اور درندگی پر غزہ کے عوام کا تاریخی صبر ایک عظیم حقیقت ہے جس نے اسلام کا وقار بڑھایا۔ اہل غزہ کے صبر کی عظیم حقیقت نے فلسطین کے موضوع کو دشمن کی خواہش کے برخلاف دنیا کا سب سے اہم ایشو بنا دیا۔
امام خامنہ ای
ملت ایران کا تمدنی پیغام اور ملت ایران کے اعتبار کی بنیاد قرار پانے والا پیغام دنیا میں ظلم کے مقابلے میں اس کی شجاعانہ مزاحمت کا پیغام ہے۔ منہ زوری اور توسیع پسندی کے مقابلے میں جس کا مظہر آج امریکہ اور صیہونی ہیں۔
امام خامنہ ای
شعر ایک ذریعہ ابلاغ ہے۔ آج دنیا میں چیلنجز اور جھڑپیں میڈیا کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔ جنگ میڈیا کی جنگ ہے۔ جس کے پاس طاقتور میڈیا ہے وہ اپنے اہداف کی تکمیل میں زیادہ کامیاب ہے۔
امام خامنہ ای
حالیہ چند مہینوں میں مزاحمت نے اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کیا اور امریکہ کے اندازوں کو درہم برہم کر دیا۔ امریکہ اس علاقے میں، عراق، شام، لبنان وغیرہ پر اپنا غلبہ چاہتا تھا۔ مزاحمت نے دکھا دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے، امریکیوں کو اس علاقے سے جانا پڑے گا۔
امام خامنہ ای
جب با ضمیر انسان صیہونیوں کے ستر سالہ مظالم کو دیکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ مزاحمت کے بارے میں سوچیں گے۔ ملت فلسطین اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف مجرم صیہونیوں کے دائمی مظالم کے مقابلے کے لئے مزاحمتی محاذ کی تشکیل ہوئی۔
امام خامنہ ای