Skip to main content
  • English
  • Français
  • Español
  • Русский
  • हिंदी
  • Azəri
  • العربية
  • اردو
  • فارسی
  • پہلا صفحہ
  • خبریں
  • خطاب
  • ملٹی میڈیا
  • سوانح زندگی
  • فکر و نظر
  • نگارش
  • استفتائات و جوابات
ملٹی میڈیا
آڈیو
فوٹو کوٹ
تصویری رپورٹ
پوسٹر
ویڈیو
ریلز
انفو گراف
موشن گراف

ہم مغربی تمدن کے اقدار کے مقلد نہیں ہو سکتے

اس وقت عالمی انسانی حقوق کے اعلانیے کا امتحان ہو رہا ہے۔ یہ اعلانیہ، جو مغربی مفکرین کے ہاتھوں اور دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا پر ان کا تسلط قائم ہو جانے کے بعد تحریر کیا گیا تھا، آج غزہ میں روزانہ صیہونیوں کے ذریعے روندا جا رہا ہے۔ اور "عالمی برادری" خاموش رہ کر، نہ صرف اپنے ہی لکھے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کی حمایت کر رہی ہے بلکہ صیہونیوں کو مالی اور عسکری امداد بھی فراہم کر رہی ہے۔
2025/08/07

سینسرشپ ختم ہونے کے بعد واضح ہوگا کہ العدید بیس پر ایران کے حملے میں کیا ہوا

امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو امریکا پر ہمارا جوابی حملہ بہت حساس قسم کا تھا۔ جب ان شاء اللہ سینسرشپ ختم ہوگی، تب واضح ہوگا کہ ایران نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔
2025/07/17

سریبرینیتسا اور مغرب کے انسانی حقوق کا جھوٹ

جو بھی امریکا اور بعض دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق کی حمایت کے دعووں کے جھوٹے ہونے کو آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے وہ سریبرینیتسا کے واقعات کو دیکھے۔ جو بھی سلامتی کونسل کی نااہلی کو دیکھنا چاہے، جو اقوام کی سیکورٹی کے نام پر وجود میں آئي ہے، وہ سریبرینیتسا کو دیکھے۔ امام خامنہ ای جولائي 1995
2025/07/11

غزہ کے انسانی المیے کے سامنے کسے کھڑا ہونا چاہیے؟

فلسطین پر قابض مجرم صیہونی گینگ نے ناقابل یقین درندگي اور عدیم المثال بے رحمی اور شر انگيزی کے ساتھ غزہ کے المیے کو ایک ناقابل یقین حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس انسانی المیے کے سامنے کسے کھڑا ہونا چاہیے؟ بلاشبہ یہ فریضہ سب سے پہلے اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتا ہے اور پھر اقوام پر جو اپنی حکومتوں سے اس فریضے کی انجام دہی کا مطالبہ کریں۔  امام خامنہ ای کے پیغام حج سے اقتباس 30 مئی 2025
2025/06/05

دشمنوں نے یورینیم افزودگی کو ہی نشانہ بنایا ہے۔

دشمنوں نے یورینیم افزودگی کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ اگر افزودگی کی صلاحیت نہ ہو تو جوہری صنعت بے کار ہے کیونکہ پھر ہمیں اپنے پلانٹس کے ایندھن کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔ امام خامنہ ای 4 جون 2025
2025/06/04

برائت، حج کی روح ہے

برائت کو ہم نے باہر سے لا کر حج میں داخل نہیں کیا ہے۔ یہ حج کا جزء، حج کی روح اور حج کے عظیم اجتماع کا حقیقی معنی ہے۔ امام خامنہ ای 20 اپریل 1994
2025/05/31

اگر کوئی عہدیدار بدعنوانی میں ملوث ہو جائے تو اس کا نقصان اور خسارہ دگنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کا عذاب بھی دگنا ہوتا ہے۔

اگر کوئی عہدیدار بدعنوانی میں ملوث ہو جائے تو اس کا نقصان اور خسارہ دگنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کا عذاب بھی دگنا ہوتا ہے۔ امام خامنہ ای 28 مئی 2025
2025/05/28

غزہ میں جرائم رکوانے کے لیے ایران اور پاکستان کا مل کر مؤثر قدم اٹھانا ضروری

غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کو رکوانے کے لیے ایران اور پاکستان کا مل کر مؤثر قدم اٹھانا ضروری ہے۔ امام خامنہ ای 26 مئی 2025
2025/05/27

شہید رئیسی کی جانب سے اقوام متحدہ میں قرآن کی عظمت کا بیان

یہ کہ صدر شہید رئیسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرآن ہاتھ میں اٹھائيں یا شہید سلیمانی کی تصویر اپنے ہاتھ میں لیں، یہ قوم کے لیے شرف ہے۔ امام خامنہ ای 20 مئي 2025
2025/05/21

ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ امریکا نے کب، امن کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے؟ امام خامنہ ای 17 مئی 2025
2025/05/18

کون کہہ سکتا ہے کہ ان وحشیانہ مظالم اور خونریزی کے سامنے انسان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟

کون کہہ سکتا ہے کہ ان وحشیانہ مظالم اور خونریزی کے سامنے انسان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کون یہ بات کر سکتا ہے؟ ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ امام خامنہ ای 12 مئی 2025
2025/05/16

ساری دنیا کو صہیونی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

ساری دنیا کو صہیونی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ امام خامنہ ای 10 مئی 2025
2025/05/15

مَغضوبِ عَلَيھِم

خداوند عالم نے انبیاء اور اولیاء کو بھی نعمت عطا کی ہے اور بنی اسرائيل کو بھی۔ "مغضوب علیھم" یعنی جن پر خدا کا غضب ہوا اور "ضالّین" یعنی گمراہ لوگ بھی ان میں شامل ہیں جنھیں اللہ نے اپنی نعمت عطا کی ہے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ خدا کچھ لوگوں کو نعمت عطا کرتا ہے اور کچھ کو گمراہ کرتا ہے اور ان پر غضب کرتا ہے، ایسا نہیں ہے۔ "المَغضوبِ عَلَيھِم"، "اَنعَمتَ عَلَيھِم" کی صفت ہے۔ تاہم جن لوگوں کو خدا نے نعمتیں عطا کی ہیں، وہ دو طرح کے ہیں: ایک وہ جنھوں نے اپنے عمل سے، اپنی تساہلی سے، اپنی گمراہی سے نعمت کو برباد کر دیا۔ دوسرے وہ جنھوں نے کوشش اور شکر کے ذریعے نعمت کو باقی رکھا۔ بنی اسرائیل بھی ان لوگوں میں سے تھے جنھیں خدا نے بڑی نعمت عطا کی تھی جس کے سبب انھیں دوسروں پر فضیلت مل گئی تھی لیکن وہ اللہ کے غضب کا نشانہ بن گئے۔ ہماری کسوٹی اور ہمارا معیار، سیدھے راستے کا وہ راہرو ہونا چاہیے جسے اللہ نے نعمت عطا کی ہو اور جو اس کے غضب کا نشانہ نہ بنا ہو۔ امام خامنہ ای 10 جولائی 2013
2025/03/30

اَنعَمتَ عَلَيھِم

پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر اللہ نے انعام و احسان کیا ہو۔ قرآن میں کہا گيا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء کو بھی، صدیقین کو بھی، شہداء کو بھی اور صالحین کو بھی نعمتیں عطا کی ہیں، انھوں نے راہ حق کو تلاش کر لیا، گمراہ بھی نہیں ہوئے اور غضب الہی کا نشانہ بھی نہیں بنے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے بھرپور نعمت عطا کی، ان پر غضب نہیں کیا اور وہ لوگ اپنی پاکیزہ سیرت اور ثابت قدمی کی وجہ سے ذرہ برابر بھی گمراہی کی طرف نہیں بڑھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اہلبیت اور ائمہ علیہم السلام ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر ہمیں چلنا چاہیے۔ اب اگر دنیا کی اکثریت دوسری طرح بات کرتی ہے، دوسری طرح عمل کرتی ہے تو ہمیں ہدایت الہی کو تسلیم یا مسترد کرنے کے لیے اپنی عقل اور اپنے دین کی کسوٹی بنانا چاہیے۔ مومن اور مسلم امت، وہ امت ہے جو قرآن مجید سے، ہدایت الہی سے معیار حاصل کرتی ہے۔ یہی ٹھوس معیار ہے۔ امام خامنہ ای 10 جولائی 2013
2025/03/29

صراط مستقیم پر چلنے والے

سورۂ حمد میں ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والوں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں: صِراطَ الَّذينَ اَنعَمتَ عَلَيھِم۔ صراط مستقیم یا سیدھا راستہ، ان لوگوں کا راستہ ہے جنھیں تو نے نعمت عطا کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ نعمت کھانا، پینا نہیں ہے، ہدایت الہی کی نعمت ہے ... معنوی نعمت ہے جو سب سے بڑی الہی نعمت ہے۔ یہ ان لوگوں کی راہ ہے جنھیں تو نے نعمت عطا کی ہے، ان پر غضب نہیں کیا ہے اور وہ گمراہ بھی نہیں ہوئے۔ یہ تین خصوصیات ہونی چاہیے: خدا نے انھیں ہدایت کی نعمت عطا کی ہو، انھوں نے اپنے برے اعمال سے اس نعمت کو غضب الہی میں تبدیل نہ کیا ہو اور گمراہ بھی نہ ہوئے ہوں۔ اس راہ کے مصادیق آپ اپنے زمانے میں، گزشتہ زمانے میں، اسلام کے ابتدائي‏ زمانے میں اور تاریخ میں بڑی آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔ امام خامنہ ای 11 جون 1997
2025/03/28

ہدایت کی دو قسمیں، راستہ دکھانا اور منزل تک پہنچانا

ہم کہتے ہیں کہ اے خدا ہماری ہدایت کرتا رہ، اس "ہدایت کرتا رہ" کے کیا معنی ہیں؟ ایک راستہ دکھانا ہے، ایک منزل تک پہنچانا ہے۔ راستہ دکھانے کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں ہدایت یعنی ہمیں راستہ دکھاؤ۔ منزل تک پہنچانے کا مطب یہ ہے کہ آپ کسی کا ہاتھ پکڑیں اور اسے وہاں لے جائيں جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔ انسان کے سلسلے میں ہدایت الہی ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان ہے، یعنی ہدایت الہی رہنمائی اور مدد کا مجموعہ ہے۔ مدد کا کیا مطلب ہے؟ یعنی توفیق عطا کرنا، انسان کے لیے راستہ کھولنا۔ یعنی جب انسان عزم کرے اور قدم بڑھائے اور خدا نے ہر مرحلے میں رہنمائي کی تو وہ اگلے مرحلے میں قدم بڑھانا انسان کے لیے آسان کر دیتا ہے اور کبھی کبھی لغزش کے مقامات پر اس کی مدد بھی کرتا ہے۔ امام خامنہ ای 8 مئی 1991
2025/03/27

صراط مستقیم، نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا

قرآن مجید کی ابتدا میں ہی سورۂ حمد میں پروردگار عالم سے ہماری درخواست "اِيّاكَ نَعبُدُ وَ اِيّاكَ نَستَعين" سے شروع ہوتی ہے۔ اس مدد طلب کرنے کا ایک بڑا مصداق اگلی آيت میں آتا ہے: "اِھدِنَا الصِّراط المستقیم" گویا یہ ساری تمہیدیں، اس عبارت کے لیے ہیں: سیدھے راستے کی طرف ہماری ہدایت کرتا رہ۔ پھر سورۂ حمد کے آخر تک اس صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی تشریح کی جاتی ہے۔ صراط مستقیم، خدا کی عبادت کا راستہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے اپنی نفسانی خواہشات کو لگام لگانا۔ اسلام نفسانی خواہشات کو ختم نہیں کرتا، انھیں کنٹرول کرتا ہے، کیونکہ یہ خواہشات، آگے بڑھنے کا محرک ہیں۔ اسلام ان خواہشات کو لگام لگاتا ہے اور ان کی ہدایت کرتا ہے۔ اسلام جنسی خواہشات کو ختم نہیں کرتا لیکن ان پر لگام لگاتا ہے، مال و ثروت کی خواہش کو ختم نہیں کرتا کیونکہ یہ پیشرفت کا ذریعہ ہے لیکن اسے کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی ہدایت کرتا ہے۔ امام خامنہ ای 6 مارچ 2000
2025/03/26

صراط مستقیم، دین کی شناخت، دینی احکام اور اللہ پر ایمان کا تحفظ

سورۂ انعام کی آيت نمبر 161 میں پیغمبر سے کہا گيا ہے: کہہ دیجیے کہ بے شک میرے پروردگار نے سیدھے راستہ کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے جو حضرت ابراہیم کے دین اور طرز زندگي سے عبارت ہے۔ یعنی دین کا مطلب دینی افکار، شناخت اور عمل ہے اور اسے صراط مستقیم کہا گيا ہے۔ سورۂ نساء کی آيت نمبر 175 میں کہا گيا ہے: تو جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور جنھوں نے خدا کے ذریعے اپنے آپ کو عصمت میں بچائے رکھا، عصمت یعنی خطا سے محفوظ رکھا گيا جس میں لغزش کا امکان نہ ہو، تو اللہ انھیں اپنی رحمت اور فضل کے عظیم دائرے میں داخل کرے گا اور سیدھے راستے کی جانب ان کی رہنمائی کرے گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صراط مستقیم پر پہنچنے کا ذریعہ، اللہ سے جڑے رہنا ہے۔ امام خامنہ ای 1 مئی 1991
2025/03/25

لوگوں کو اللہ اور سنت پیغمبر کی راہ پر لانے کے لیے جدوجہد، صراط مستقیم

سورۂ صافات کی آیت نمبر 118 میں موسیٰ اور ہارون کے بارے میں کہا گيا ہے: اور ہم نے (ہی) ان دونوں کو راہِ راست دکھائی۔ اگر آپ حضرت موسیٰ اور ہارون کی زندگي پر نظر ڈالیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ ان دونوں کی زندگي، طاغوت کی اطاعت اور غیر اللہ کی حاکمیت سے سرتابی اور اس راہ میں یعنی لوگوں کی ہدایت، انھیں طاغوت کی حاکمیت سے نجات دینے اور انھیں اللہ کی حاکمیت کے دائرے میں لانے کے لیے مستقل جدوجہد اور مصائب برداشت کرنے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ سورۂ یاسین کی آيت نمبر 3 اور 4 میں پیغمبر اسلام سے خطاب ہوا ہے: یقیناً آپ (خدا کے) رسولوں میں سے ہیں  (اور) سیدھے راستے پر ہیں۔ جیسا کہ آپ نے حضرت موسیٰ کی زندگي میں دیکھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت، ان کا موقف اور ان کی راہ بھی وہی صراط مستقیم ہے۔ امام خامنہ ای 1 مئي 1991
2025/03/24

قرآن کی ثقافت میں "صراط مستقیم"

صراط مستقیم کیا ہے؟ یہ کیا چیز ہے کہ ہم خداوند عالم سے اس کی جانب اپنی ہدایت کی دعا کر رہے ہیں؟ قرآن مجید کی آیتوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ صراط مستقیم کیا ہے؟ سورۂ آل عمران کی آيت نمبر 51 میں کہا گیا ہے: بے شک اللہ، میرا اور تمھارا پروردگار ہے تو تم اس کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے، سیدھا راستہ ہے۔ تو اس آيت میں صراط مستقیم کیا ہے؟ عبادت و بندگي، بندگی کے مقام تک پہنچنا۔ انسانی تاریخ میں یہ جو کثرت سے مظالم، گمراہیاں اور پریشانیاں دکھائی دیتی ہیں، یہ اس وجہ سے ہیں کہ کسی نے یا کچھ لوگوں نے خدا کی بندگي کو تسلیم نہیں کیا، اپنی یا دوسروں کی نفسانی خواہشات کے بندے بن گئے۔ سورۂ یاسین کی آيت نمبر 61 میں کہا گيا ہے: اور میری ہی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ تو ان آيتوں کے مطابق صراط مستقیم کا مطلب ہے خدا کی عبادت، خدا کی بندگي، خدا کے سامنے سر تسلیم خم رکھنا۔ امام خامنہ ای 1 مئي 1991
2025/03/23

صراط، طریق اور سبیل جیسے الفاظ میں فرق

قرآن مجید میں راہ یا راستے کے لیے کئي الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ "طریق" جب ایک فرضی راستے پر کوئی آگے بڑھتا ہے جبکہ اس پر نہ کوئي علامت ہے، نہ اسے پتھروں سے ہموار کیا گيا ہے، بس کوئي ایک فرضی راستے پر چلنے لگے تو اسے طریق کہتے ہیں، اس راہ میں کوئي خصوصیت نہیں سوائے اس کے کہ ایک راہرو اس پر چلے۔ تو یہ ایک عمومی معنی ہے۔ "سبیل" کے معنی اس سے زیادہ محدود ہیں، یہ وہ راستہ ہے جس پر چلنے والے زیادہ ہیں۔ سبیل، ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والوں کی کثرت کی وجہ سے وہ ہموار ہو گيا ہے اور واضح ہو گيا ہے، البتہ ممکن ہے کبھی انسان اس راستے کو کھو دے۔ "صراط" پوری طرح سے واضح راستے کو کہتے ہیں۔ یہ راستہ اتنا واضح ہے کہ اس راستے کو کھو دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔ "اِھدِنَا الصِّراط" یعنی بالکل واضح راستہ دکھا، اس پر "المستقیم" کی قید بھی لگا دی یعنی ہمیں بالکل واضح اور سیدھا راستہ دکھا۔ امام خامنہ ای 1 مئي 1991
2025/03/22

خاص ہدایت، مومنین سے مختص ہے

ایک چوتھی قسم کی بھی ہدایت ہے جس کا نام ہم نے "خواص کی ہدایت" رکھا ہے، یہ سارے مومنین کے لیے بھی نہیں ہے بلکہ ان میں سے بھی خاص لوگوں سے مختص ہے۔ یہ وہ بہت ہی اعلیٰ سطح کی ہدایت ہے جو پیغمبروں اور اولیائے الہی سے مختص ہے۔ سورۂ انعام کی آيتیں پیغمبر سے کہتی ہیں کہ "اُولئكَ الَّذينَ ھَدَى اللّہ" یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے۔ "فَبِھُدٰھُمُ اقتَدِہ" آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔ خدا کے برگزیدہ بندے اس کی جانب سے کچھ چیزیں، کچھ اشارے، کچھ خاص ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی کو قرآن کی کوئي آيت سنائي جاتی ہے تو وہ کچھ اشارے حاصل کرتا ہے، اس آيت کے کچھ الفاظ ان کے لیے ایک ہدایت لیے ہوئے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے نہیں ہیں۔ یہ سبھی اللہ کی ہدایت ہیں، ہدایت کے معنی یہ ہیں۔ امام خامنہ ای 1 مئي 1991
2025/03/21

یمن کے عوام پر، یمن کے عام لوگوں پر حملہ بھی ایک جرم ہے جسے یقینی طور پر روکا جانا چاہیے۔

یمن کے عوام پر، یمن کے عام لوگوں پر حملہ بھی ایک جرم ہے جسے یقینی طور پر روکا جانا چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز 1404 سے اقتباس (20 مارچ 2025)
2025/03/20

غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کا دوبارہ حملہ، ایک بڑا جرم اور المیہ پیدا کرنے والا ہے۔

غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کا دوبارہ حملہ، ایک بڑا جرم اور المیہ پیدا کرنے والا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز 1404 سے اقتباس (20 مارچ 2025)
2025/03/20

ہدایت الہی کے معنی اور اس کی اقسام (2)

ایک ہدایت ہے جو مومنوں سے مختص ہے: ھُدًى لِلمُتَّقين، یہ اُس ہدایت کے اوپر ہے جو خود انسان کے اندر پائي جاتی ہے، جسے ایمانی ہدایت کہتے ہیں۔ اسی ہدایت کا ذکر سورۂ نحل میں ہے کہ جو لوگ خدا کی آيتوں پر ایمان نہیں لاتے، خدا ان کی ہدایت نہیں کرتا۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا ہدایت نہیں کرتا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ پھر کبھی مومن نہیں بن سکتے؟ انھیں کبھی ہدایت ایمانی حاصل نہیں ہو سکتی؟ کیوں نہیں، جو ایمان نہیں رکھتا، ممکن ہے کہ اس کے پاس آج ایمان نہ ہو، کل وہ اپنی عقل اور اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے اور ایمان لے آئے، تو یہ ایمانی ہدایت نہیں ہے، تیسری قسم کی ہدایت ہے، وہ ہدایت مومنین سے مختص ہے۔ امام خامنہ ای 1 مئي 1991
2025/03/20

ہدایت الہی کے معنی اور اس کی اقسام (1)

ہدایت کے معنی رہنمائي کرنے اور راستہ دکھانے کے ہیں۔ ہدایت الہی کے کئي مرحلے اور کئي معنی ہیں۔ ایک طرح کی ہدایت عام ہدایت الہی ہے جس میں تمام موجودات شامل ہیں۔ یہ تکوینی ہدایت ہے، عام اور عالمگیر ہے، اس کے ذریعے تمام موجودات کی رہنمائي ہوتی ہے۔ جس محرک کے تحت چیونٹیاں یا شہد کی مکھیاں خاص طریقے سے اپنا گھر بناتی ہیں اور اجتماعی طور پر زندگي گزارتی ہیں، اس کا سرچشمہ ہدایت الہی ہے۔ ہمارا مقصود یہ ہدایت نہیں ہے۔ ہدایت کی ایک قسم بنی نوع انسان سے مختص ہے کہ جو فطرت انسان سے عبارت ہے۔ انسان کے خمیر میں ایک احساس ہے، ایک پنہاں ادراک ہے جو اللہ کے وجود اور بعض دینی معارف کی طرف اس کی رہنمائي کرتا رہتا ہے۔ آپ اللہ کو اپنی عقل سے پہچانتے ہیں اور فطرت و عقل کے علاوہ اللہ کو پہچاننے کا کوئي ذریعہ نہیں ہے، یہی انسانی عقل کی ہدایت ہے لیکن مقصود یہ ہدایت بھی نہیں ہے۔ امام خامنہ ای 1 مئي 1991
2025/03/19

تمام طاقتیں اللہ سے مخصوص ہیں

تمام طاقتیں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ جہاں خدا ارادہ کر لیتا ہے وہاں دنیا کی سب سے مضبوط طاقتیں بھی اپنے کام انجام نہیں دے پاتیں۔ امریکا، ایران میں گھسنا چاہتا ہے، طبس میں اس پر مصیبت آ جاتی ہے حالانکہ اس کے پاس ظاہری طاقت تھی۔ اس وقت بھی سامراجی طاقتیں، بڑے صیہونی اور سرمایہ دار، ایک اسلامی حکومت سے بری طرح خوفزدہ ہیں۔ کوشش کر رہے ہیں کہ اسے ختم کر دیں لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے ہیں جبکہ ظاہری طور پر ان کے پاس سب کچھ ہے۔ جب خداوند عالم ارادہ کرتا کہ ان کی طاقت، اثر نہ کر پائے تو وہ اثر نہیں کرتی۔ کبھی مشیت الہی یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقت اثر کرے، تو اثر کرتی ہے۔ مومن اور یکتا پرست انسان، طاقت کو صرف اور صرف اللہ سے مخصوص سمجھتا ہے۔ امام خامنہ ای 24 اپریل 1991
2025/03/18

خدا سے مخصوص مدد مانگنے کا مطلب

ہم کہتے ہیں "اِيّاكَ نَعبُد وَ اِيّاكَ نَستَعين" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے سے مدد نہیں لینی چاہیے؟ ہم لوگوں سے، انسانوں سے، بھائي سے، دوست سے مدد لیتے ہیں۔ خود قرآن مجید میں کار خیر میں ایک دوسرے سے مدد لینے کی سفارش کی گئي ہے: "تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقويّْ" نیک کام اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یکتا پرست انسان، ہر طاقت اور ہر توانائي کو خدا سے مختص مانتا ہے اور جو بھی آپ کی مدد کرتا ہے، وہ قادر نہیں ہے بلکہ قادر خدا ہے۔ حقیقی قدرت اور طاقت، اللہ کی ہے۔ یہ ہماری طاقتیں، مجازی طاقتیں ہیں۔ اگر آپ کسی سے خدا کو نظر انداز کر کے مدد لیں اور اسے قدرت و طاقت کا مالک سمجھیں تو یہ شرک ہے۔ امام خامنہ ای 24 اپریل
2025/03/17

عبادت کے لیے اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب

اللہ سے مدد چاہنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ میں ناقص اور قصوروار انسان، اگر اپنی تمام تر توانائيوں کو بھی تیری عبادت و عبدیت کی راہ میں یکجا کر دوں، تب بھی میں نے تیری عبادت و عبدیت کا حق ادا نہیں کیا ہے، تجھے میری اضافی مدد کرنی چاہیے تاکہ میں یہ حق ادا کر سکوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام جیسے بزرگان دین کہتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین جیسی شخصیات کما حقہ خدا کی عبادت نہ کر پانے کی بات کرتی ہیں جبکہ یہ شخصیات اللہ کی عبادت میں جو کام کرتی تھیں، ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ امام خامنہ ای 24 اپریل 1991
2025/03/16

دشمن تب ہم پر فتحیاب ہوتا ہے جب ہم اپنے نفس پر فتحیاب نہیں ہو پاتے

اگر انسان اس غاصب بادشاہ پر جو اس کے اندر ہے یعنی اس حقیقی ڈکٹیٹر پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گيا تو پھر وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں پر بھی غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ شعر نہیں، مضمون نہیں ہے، یہ کھلے ہوئے حقائق ہیں۔ ہم نے اسلامی انقلاب کے دوران پوری طرح سے ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کر لیا تو قربانی دیں گے اور اگر کوئي ملت قربانی دے تو کوئي بھی طاقت اس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گی۔ دشمن تب ہم پر فتحیاب ہوتا ہے جب ہم اپنے نفس پر فتحیاب نہیں ہو پاتے۔ انسان کی شکست کا پہلا مرحلہ، خود اس کی اندرونی شکست ہے۔ جب حسد اور دکھاوے کی چاہت اور اسی طرح کی چیزیں انسان پر غالب آ جاتی ہیں تو کام میں انسان کے ہاتھوں میں لرزش پیدا کر دیتی ہیں اور جب آپ کا ہاتھ لرزنے لگتا ہے تو دشمن کا ہاتھ مضبوط ہو جاتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔ امام خامنہ ای 24  اپریل 1991
2025/03/15

ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور صرف تیری بندگی کرتے ہیں

"وَ اِيّاكَ نَستَعين" اور صرف تجھ ہی مدد چاہتے ہیں۔ کس چیز میں تجھ سے مدد چاہتے ہیں؟ اس چیز میں کہ ہم صرف تیری ہی بندگي کریں، کسی دوسرے کی نہیں، غیر اللہ کی بندگي نہ کرنا زبان سے تو بہت آسان ہے لیکن عمل میں یہ سب سے مشکل کاموں میں ہے؛ انفرادی زندگي میں بھی سخت ہے اور اجتماعی زندگي میں بھی سخت ہے، ایک قوم کی حیثیت سے بھی سخت ہے اور آپ اس کی سختیوں کو دیکھ رہے ہیں کہ جب اسلامی جمہوریہ نے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں توحید کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہمارے اندر کے اس شیطان اور طاغوت کو بھگانا ہے، یہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ نفسانی خواہشات اور نفسانی شہوات سے مقابلے کی نسبت امریکا سے مقابلہ آسان ہے، نفس سے جنگ سب سے سخت ہے، اُس جنگ کی بنیاد بھی یہ جنگ ہے۔ امام خامنہ ای 24  اپریل 1991
2025/03/14

خدا کی عبادت میں تمام موجودات سے موحّد کی ہمنوائی

ہم تیری ہی عبات کرتے ہیں، یہ "ہم" کون لوگ ہیں؟ ایک تو میں ہوں۔ میرے علاوہ، سماج کے دوسرے افراد ہیں۔ "ہم" صرف دنیا کے یکتا پرست نہیں بلکہ تمام انسان ہیں کیونکہ غیر موحّد بھی اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا، ان کی فطرت اللہ کی عبادت کرنے والی ہے، وہ اندر سے خدا کے عابد ہیں چاہے ان کا ذہن اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو۔ دائرہ اس سے بھی زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے اور کون و مکان کی ہر چیز کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے یعنی میں اور دنیا کی ہر شئے تیری عبادت کرتے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ، پروردگار کی عبادت کر رہا ہے۔ اگر انسان اس چیز کو محسوس کر لے تو وہ عبودیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے گا۔ امام خامنہ ای 24 اپریل 1991
2025/03/13

خدا کی پرستش کا فطری ہونا

اس آيت کے ضمن میں ایک نکتہ یہ ہے کہ اس بندگی کا سرچشمہ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق طاقت کے ایک ایسے سرچشمے، قدرت و اقتدار کے ایک ایسے مرکز کی طرف مجذوب ہوتا ہے جسے وہ خود سے برتر سمجھتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ یہ چیز انسان کی روح میں، اس کی ذات میں اور اس کے خمیر میں پائی جاتی ہے، چاہے دانستہ ہو یا نادانستہ۔ دنیا میں کی جانے والی ساری عبادتیں، خدا کی پرستش ہے، یہاں تک کہ بت پرست بھی بباطن اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق جو اسے خدا پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا پرستی کی دعوت دیتی ہے، اپنی فطرت کی پیروی کرتا ہے۔ بت پرست بھی اپنے دل کے باطن میں خدا پرست ہے، جو چیز اس کے کام میں مشکل پیدا کرتی ہے وہ اس برتر طاقت اور الہی قدرت کے مصداق کی شناخت میں غلطی ہے۔ ادیان کا کردار یہ ہے کہ وہ انسان کے اس سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کریں، اس کی آنکھیں کھولیں اور اسے بتائيں کہ وہ برتر طاقت کون ہے۔ امام خامنہ ای 24 اپریل 1991
2025/03/12

ایّاک نعبد کا مطلب

"ايّاك نَعبُد" یعنی ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں۔ خدا کے مقابلے میں انسان کی بندگي کا مطلب ہے خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔ خدا اور انسان کے درمیان رابطہ، بہت سے آسمانی ادیان اور اسلام میں بھی بندگي سے عبارت ہے۔ بندۂ خدا کا مطلب ہے خدا کے سامنے سر جھکائے رہنے والا۔ دوسری جانب خداوند عالم تمام نیکیوں اور اچھائيوں کا سرچشمہ ہے تو بندۂ خدا کا مطلب ہوا تمام نیکیوں، اچھائيوں، خیر اور نور کا بندہ ہونا۔ یہ بندگي اچھی بندگي ہے۔ انسانوں کا بندہ ہونا، انسانوں کا غلام ہونا، بہت بری چیز ہے کیونکہ انسان، ناقص ہیں، انسان محدود ہیں، اس لیے ان کا بندہ ہونا انسان کے لیے ذلت ہے۔ ظالم طاقتوں کا بندہ ہونا، انسان کے لیے ذلت ہے، نفسانی خواہشات کا بندہ ہونا، انسان کے لیے ذلت و خواری ہے۔ بنابریں بندگي ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو ہر جگہ اچھی یا ہر جگہ بری ہوں۔ کہیں پر بندگي اچھی ہو سکتی ہے اور کہیں پر بری۔ بندۂ خدا ہونا، ایک اعلیٰ مفہوم کا حامل ہے۔ امام خامنہ ای 10 اپریل 1991
2025/03/11

خدا کے مالک ہونے اور ہمارے مالک ہونے میں فرق

دنیا میں ہمارے پاس مالکیت نام کی ایک چیز ہے۔ یہ حقیقی مالکیت نہیں ہے بلکہ عطا کردہ مالکیت ہے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے جسم کے بھی مالک نہیں ہیں۔ ہم اپنے جسم کے کیسے مالک ہیں کہ اس جسم میں آنے والی تبدیلیاں ہماری مرضی کے برخلاف سامنے آتی ہیں اور انھیں کنٹرول کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے؟ اس جسم میں درد ہوتا ہے، یہ جسم فنا ہو جاتا ہے اور اس پر ہمارا کوئي اختیار نہیں ہوتا۔ ہم دنیا میں بہت سی چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اس  کمزور سی مالکیت پر ہی انسان نازاں ہے، قیامت میں یہ ادنیٰ سی مالکیت بھی نہیں ہوگی۔ قیامت میں ہمارے اعضاء و جوارح ہمارے خلاف بات کریں گے اور وہاں سامنے آنے والی ساری باتیں انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوں گي۔ امام خامنہ ای 10 اپریل 1991
2025/03/10

مالک یوم الدین کا مطلب

مطلب یہ کہ آپ کی زندگي کے اس ٹکڑے کا مالک اور صاحب اختیار، جس میں آپ کے پاس کوئي عمل نہیں ہے اور اس میں صرف اور صرف جزا ہے، ان اعمال کی جزا جو ہم نے دنیا کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں انجام دیے ہیں، خداوند عالم ہے، ہر چیز اس کے دست اختیار میں ہے۔ وہاں یہ عطا کردہ، مصنوعی اور انتہائي ناقص مالکیت بھی، جو اس دنیا میں ہمارے اور آپ کے پاس ہے، نہیں ہوگی۔ امام خامنہ ای 10 اپریل 1991
2025/03/09

مسلمان کے ذہن پر الحمد للہ رب العالمین کی آیت کا اثر

ایک مسلمان کی سوچ کا لب لباب یہ ہے: تمام اچھائيوں کو خدا کی طرف سے ماننا، ہر چیز کو خدا کا ماننا، اپنے آپ کو بھی خدا کا ماننا، تمام تعریفوں، ستائشوں اور مدح و ثنا کو بھی خدا سے مختص ماننا اور ہر چیز کو خدا کی کسوٹی پر تولنا۔ یہی، اسلامی سوچ اور اسلامی عقیدے کا بنیادی اصول اور قاعدہ ہے۔ یہی چیز ایک انسان کو فداکار بناتی ہے، یہی سوچ ایک انسان کو اپنی ذات کی قید سے رہا کرتی ہے، انفرادیت کے محدود زنداں سے آزاد کرتی ہے، مادی اور مادّہ پرستی کی زنجیروں سے نجات دلاتی ہے، اس کی وابستگی کو، مادّہ پرستی میں مبتلا انسانوں کی وابستگیوں سے دور لے جاتی ہے، کیونکہ وہ خدا سے متعلق ہے۔ یہی، اَلحَمدُ لِلّہِ رَبّ العّْالَمين کا مفہوم ہے۔ تمام اسلامی افکار، جذبات، اہداف اور مقاصد کی بنیاد یہی ہے۔ امام خامنہ ای 13 مارچ 1991
2025/03/08

اَلحَمدُ لِلہ اور رَبِّ العْالَمين کے درمیان رابطہ

اَلحَمدُ لِلہ رَبِّ العْالَمين میں لفظ "رَبّ العْالَمين" اَلحَمدُ لِلہ کے لیے استدلال کا درجہ رکھتا ہے۔ کیوں ساری تعریفیں اللہ سے مخصوص ہیں؟ کیونکہ وہ "رَبّ العْالَمين" ہے۔ رب کے معنی مدبّر اور انتظام چلانے والے کے ہیں۔ کسی چیز کا رب یعنی وہ شخص جس کے ہاتھ میں اس چیز کی تدبیر ہو، وہ اس چیز کا انتظام چلانے والا ہو۔ اسی طرح رب کے معنی پالنے والے، رشد عطا کرنے والے اور مالک وغیرہ کے بھی ہیں۔ امام خامنہ ای 13 مارچ 1991
2025/03/07

حمد اور مدح کا فرق

اَلحَمدُ لِلہ رَبِّ العّْلَمين. حمد کا مطلب کسی انسان یا کسی موجود کی اس کے کسی ایسے عمل یا صفت کے لیے ستائش کرنا ہے جو وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہو۔ اگر کسی میں کوئي ایسی خصوصیت ہو جو اس کے ارادہ و اختیار سے نہ ہو تو اس خصوصیت کی تعریف کو حمد نہیں کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی کے حسن کی تعریف کرنا چاہیں تو اسے عربی میں اس کے حسن کی حمد کرنا نہیں کہا جائے گا لیکن کسی کی بہادری کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کی سخاوت کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کے نیک کام کی حمد کی جا سکتی ہے، یا ایسی صفت کی، جو اس نے اپنے اختیار سے اپنے اندر پیدا کی ہے، حمد کی جا سکتی ہے۔ اَّلحَمدُ ساری حمد اور ستائش، لِلہ اللہ سے مخصوص ہے۔ یہ چھوٹا سا جملہ جو بات ہمیں سمجھاتا ہے، جس نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام نیکیاں، تمام حسن اور تمام وہ چیزیں جن کی حمد کی جا سکتی ہے، اللہ سے مخصوص ہیں۔ امام خامنہ ای 13 مارچ 1991
2025/03/06

خدا کی 'رحیمی' رحمت کے مصادیق

اللہ کی رحیمی رحمت کیا ہے؟ لفظ "رحیم" سے جو رحمت کی قسم سمجھ میں آتی ہے، وہ ایک الگ قسم کی رحمت ہے، ایک خاص رحمت ہے، ایسی رحمت ہے جو موجوادت کی ایک خاص قسم سے مختص ہے اور وہ موجودات، مومنین اور اللہ کے نیک بندے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں "الرحیم" یعنی رحیم کی صفت سے اللہ کی حمد کرتے ہیں تو در حقیقت ہم پروردگار عالم کی رحمت کی ایک خاص قسم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مومنین سے مختص ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ خاص ہدایت، مغفرت، اعمال کی نیک جزا اور مومنین کے لیے مخصوص رضا و رضوان سے عبارت ہے۔ اگرچہ اس رحمت کا دائرہ محدود ہے اور کچھ ہی لوگوں سے مختص ہے لیکن یہ دائمی ہے، دنیا تک محدود نہیں ہے، جاری رہتی ہے، اس دنیا سے لے کر برزخ تک اور برزخ سے لے کر قیامت اور بہشت تک۔ امام خامنہ ای 13 مارچ 1991
2025/03/05
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
  • 6
  • 7
  • اگلا>
  • آخری »

آخری فتح جو زیادہ دور نہیں، فلسطینی عوام اور فلسطین کی ہوگی۔

2023/11/03
خطاب
  • تقاریر
  • فرمان
  • خطوط و پیغامات
ملٹی میڈیا
  • ویڈیو
  • تصاویر
  • پوسٹر
  • موشن گراف
سوانح زندگی
  • سوانح زندگی
  • ماضی کی یاد
فورم
  • فیچرز
  • مقالات
  • انٹرویو
نگارش
  • کتب
  • مقالات
مزيد
  • خبریں
  • فکر و نظر
  • امام خمینی
  • استفتائات و جوابات
All Content by Khamenei.ir is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.