"زیادہ تر لوگ غلطی سے (تہران کے قبرستان) بہشت زہرا میں امام خمینی کی تقریر کو پندرہ سال کی جلاوطنی سے وطن واپسی کے بعد ان کی پہلی تقریر سمجھتے ہیں لیکن رہبر کبیر انقلاب نے پہلی تقریر مہرآباد ائيرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے آئے لوگوں کے درمیان کی تھی۔ شروع میں ایک نوجوان قاری نے قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی، پھر ایک گروپ نے "خمینی اے امام" نامی جاوداں ترانہ پڑھا اور اس کے بعد امام خمینی نے ایک مختصر سا خطاب کیا اور کہا جا سکتا کہ اس مختصر تقریر کا سب سے اہم نکتہ اتحاد کی اہمیت اور تفرقہ پھیلانے کی سازش کی طرف سے انتباہ ہے۔ انھوں نے اس تقریر میں دو بار واضح الفاظ میں "وحدت کلمہ" یا اتحاد کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سبب بتایا اور کہا کہ ہمیں قوم کے سبھی طبقوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ یہاں تک یہ کامیابی اتحاد کے ذریعے ہی رہی ہے۔ تمام مسلمانوں کا اتحاد، مسلمانوں سے تمام مذہبی اقلیتوں کا اتحاد، دینی مدارس سے یونیورسٹیوں کا اتحاد، سیاسی دھڑوں سے علمائے دین کا اتحاد۔ ہم سبھی کو یہ بات سمجھ جانا چاہیے کہ اتحاد، کامیابی کا راز ہے اور ہمیں کامیابی کے اس راز کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور خدانخواستہ شیطان، آپ کی صفوں میں تقرفہ نہ ڈال دیں۔
11 فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جلوسوں میں بھرپور شرکت پر ملت ایران کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ عوام نے اپنے جوش اور گرمی حیات کا مظاہرہ کیا۔ جو ملت ایران کی پژمردگی کی آس میں تھے مبہوت رہ گئے۔
امام خامنہ ای
اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی مناسبت سے منائے جانے والے عشرۂ فجر کی آمد پر رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مزار اور بہشت زہرا میں شہیدوں کے قبرستان پہنچ کر فاتحہ خوانی کی۔
ہر وہ فیصلہ جو ہم انقلاب کی بنیادی پالیسی کے عنوان سے انقلاب کے لئے کریں استدلال کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ہم عقل و منطق کے تابع ہیں، ہماری حکومت بھی استدلال کی حکومت ہے، ہمارے قوانین بھی (دلیل و منطق پر استوار) ٹھوس قوانین ہیں، ہمارے معارف اور دینی تعلیمات بھی استدلالی ہیں، ہماری سیاسی پالیسیاں بھی محکم دلیلوں پر استوار ہیں۔ کبھی ممکن ہے کہ کوئی ان پالیسیوں کے سلسلے میں نعرے لگائے۔ ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان نعروں کی پشت پر عملی و منطقی استدلال پایا جاتا ہے۔ اس راہ و روش کی بنیاد پہلے تو ملت ایران کے فائدے اور ملک کے مفادات ہیں، دوسرے وہ اصول و نظریات اور عقائد ہیں جن پر یقین کے لیے ایرانی قوم نے جہاد و مجاہدت سے کام لیا، شہیدوں اور مجروحوں کا نذرانہ پیش کیا اور استقامت دکھائی ہے اور دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ہے۔ ہماری پالیسیاں ان چیزوں کے تابع ہیں ۔
امام خامنہ ای
16 جنوری 1998
انحراف کے تمام اسباب و عوامل کے باوجود بحمد اللہ ہماری قوم کے افراد مومن ہیں، خدا دوست اور دین آشنا ہیں، روحانیت و معنویت سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ جوان آج کی اس دنیا میں، جس پر مادیت کی حکمرانی ہے، متحیر ہیں۔ معنویت سے دوری نے اُن کو حیران و سرگرداں کر رکھا ہے، وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کیا کریں؟ ان کے مفکرین بھی سرگرداں ہیں اور ان کے بعض دانشوروں نے سمجھ لیا ہے کہ ان کے کاموں کی اصلاح کی راہ روحانیت و معنویت کی طرف واپسی ہے لیکن کس طرح اس کھوئي ہوئي معنویت کو، جسے دوسو برس کے دوران مختلف وسیلوں سے پامال کیا گيا ہے، دوبارہ زندہ کریں؟ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ہماری قوم ایسی نہیں ہے۔ ہماری قوم نے ہمیشہ معنویت کے اس عظیم سرچشمے سے خود کو منسلک رکھا ہے اور اسی معنویت کے ذریعے ایک ایسے عظیم انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ اسی روحانیت و معنویت کے ذریعے اس مادی دنیا میں ایک اسلامی نظام کا پرچم جو معنویت پر استوار ہے، لہرا رکھا ہے، اس کے ستونوں کو مستحکم کر دیا ہے اور اس کو دشمنوں کی تمام یلغاروں اور طوفانوں سے محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امام خامنہ ای
19 جون 2009
اگر کوئی سوچتا ہے کہ اس ملت کو دھمکیوں کے ذریعے خوف زدہ کیا جا سکتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں کے موقف کو دھمکیوں کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ اگر کسی کا موقف تبدیل ہوتا ہے تو وہ اس ملت اور اس انقلاب کا نہیں ہے۔ جو شخص اس انقلاب سے تعلق رکھتا ہے، اس انقلاب کا مطلوب اور عوام کا محبوب ہے، وہ ایرانی عوام کی خواہشوں اور مصلحتوں کے لئے اس عوامی انقلاب کے لئے کہ جس کی راہ میں اس قدر پاکیزہ خون زمین پر بہا ہے اور لوگوں نے اس قدر عظیم مجاہدت کا مظاہرہ کیا ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں عوام نے ایسی استقامت دکھائی ہے، سوئی کی نوک کے برابر بھی دشمنوں کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ آج ہمارے انقلاب کو اس الہی نظام اور انقلاب کے روز افزوں اقتدار، ثبات و استقامت اور روز بروز عوامی استحکام میں پختگی کے عنوان سے جانا جاتا ہے اور دشمنوں کی ناکامی و کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، جیسا کہ خدا کے سارے انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے ہیں، یہ انقلاب بھی کسی شک و شبہہ کے بغیر اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا۔
امام خامنہ ای
31 جنوری 1997
اسلامی انقلاب کے پہلوؤں میں سے ایک وہ طمانچہ ہے جو غیروں سے وابستہ وطن فروشوں، بیرونی ملکوں کی پٹّھو مشینریوں اور غیر ملکی دشمنوں کے منھ پر ملت ایران نے لگایا ہے، اصل میں انقلاب ملت ایران کا وہ غیظ و غضب ہے جو بیرونی اثر و رسوخ کے خلاف ملت ایران نے ظاہر کیا ہے، انقلاب نے ایرانی عوام کو خود مختاری دی ہے اور اب جبکہ اس خود مختاری کی راہ میں اس قدر خون بہہ چکا ہے اس ملک پر آقائی کے دعویدار، اس ملک پر مالکیت کے دعویدار یعنی امریکی جو اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھنے لگے تھے دوبارہ پلٹ آئیں! اس ملک کے اندر آئیں اور اپنے حکم، کاموں میں مداخلت اور مختلف سسٹموں میں رسوخ سے کام لیں، نیز انقلاب کے دشمنوں کو اکٹھا کرکے انقلاب لائیں! کیا ایرانی قوم ایسا ہونے دے گی؟ کیا ایرانی قوم اپنے انقلاب، اپنے امام و رہبر اور اپنی عظمت و شوکت سے دست بردار ہوچکی ہے کہ وہ امریکیوں کو اجازت دے گی کہ وہ پھر سے ایران کے اندر واپس آئیں اور اس ملک میں اُن کی آمد و رفت کے دروازے کھل جائیں؟... امریکی حکومت ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی دشمن ہے، انقلاب کی دشمن ہے اور ملت ایران کی دشمن ہے وہ اس کو ظاہر کرچکے ہیں اور بارہا یہ بات وہ کہہ چکے ہیں۔
امام خامنہ ای
16 / جنوری / 1998
سن ۱۹۵۳۔۵۴ عیسوی سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک (یعنی ۱۹۷۹تک) برطانیہ اور امریکہ ایران میں تیل کے کنووں بلکہ در حقیقت ایرانی تیل کے ذخیروں پر (پھن کاڑھے) بیٹھے تھے اور جس حد تک بھی اُن سے ممکن تھا تیل نکالتے اور لے جاتے رہے، ملت ایران کا ان کی طرف سے کس طرح دل صاف ہوسکتا ہے؟ پہلوی حکومت برطانیہ اور امریکہ کی زرخرید غلام تھی اور محمد رضا (پہلوی) ایران میں واقعا امریکہ کے ایک ایجنٹ کی طرح کام کررہا تھا ، ایک وابستہ حکومت کا سربراہ امریکی ایجنٹ ک طور پر کہ جس کا اس کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں تھا کہ جب بھی اس سے کہیں کہ فلاں کو وزیر اعظم بنادو اور فلاں کو وزارت عظمی سے ہٹادو تو وہ اس پر عمل کرتا رہے؛ وہ لوگ جو کام بھی چاہتے تھے یہ حکومت کرتی رہتی تھی، تہران میں امریکہ اور برطانیہ کے سفراء اس مملکت کے بنیادی خطوط اور راہوں کو متعین کرتے تھے، اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ امریکیوں کو کس بات کا غصہ ہے ۔۔۔ در اصل، اسلامی انقلاب نے سب سے پہلا کام جو کیا یہ تھا کہ ایران میں برطانیہ اور امریکہ کے امتیازات (یعنی خصوصی مراعات) کا خاتمہ کردیا۔
امام خامنہ ای
03 / فروری / 1995
22 بہمن (11 فروری) یہ ہے، 22 بہمن ایک الہی نعمت ہے، یہ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا، یہ اپنے فولادی عزم کے اظہار کا ایک الہی موقع ہے۔ جو کچھ اس قوم کے لوگوں کے دل میں ہے، وہ 22 بہمن کے دن پورے ملک میں ہر جگہ ان کے نعروں میں دکھائي دیتا ہے۔
انقلاب کی سرکوبی اور انقلاب کو شکست دینا، جو ایک سامراجی منصوبہ تھا، اس خطے میں شکست کھا چکا ہے اور اس کے برخلاف انقلاب پر حملہ کرنے والے، امریکا جیسی بڑی اور طاقتور حکومت تک روز بروز شکست اور ہزیمت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہم خطے میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی واضح علامتیں اور نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری قوم، ہمارے جوانوں اور ہمارے تجزیہ نگاروں کے لیے اہم نکات ہیں جن پر واقعی بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی روحانیت کے سہارے کھڑی ہونے والی عوامی فورس یا منہ زوری اور دھونس دھمکی کے سہارے ٹکی ہوئی مادی طاقت کے درمیان ٹکراؤ کی بڑی بحث جس پر سماجیات، اقوام کی نفسیات اور سماجی نفسیات کی بحثوں میں توجہ دی جانی چاہیے ... اس ملک اور اس قوم نے ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور مادی و ابلاغیاتی دولت سے مالامال طاقتور ملکوں کی سازشوں کو اہم ترین میدانوں میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے اور انھیں شکست دی ہے۔
امام خامنہ ای
14/9/2007
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کی مناسبت سے ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی پرشکوہ بقا کا راز یہ دو الفاظ ہیں: "جمہوری" اور "اسلامی"۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے تصور اور نظرئے کو پیش کیا اور اسے عملی شکل عطا کی۔ اس نظریے کے نفاذ میں ان کا اصل سہارا اسلام اور عوام کے سلسلے میں ان کی عمیق معرفت تھی۔
اس تقریر میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امام خمینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کو ان کی سب سے اہم جدت طرازی قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ پچھلی ایک دو صدیوں میں سامنے آنے والے انقلابی اور دیگر نظاموں کے درمیان ایسا کوئي بھی نظام نہیں ہے جس کے زوال کی اتنی پیشین گوئیاں کی گئی ہوں جتنی ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے زوال کے بارے میں کی گئیں۔ آپ نے فرمایا: انقلاب کے پہلے دن سے اس عظیم تحریک کو تسلیم اور برداشت نہ کر پانے والے بدخواہوں کا ملک کے اندر اور باہر یہی کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ دو مہینے، چھے مہینے یا ایک سال سے زیادہ باقی نہیں رہے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ اس طرح کی ہرزہ سرائی امام خمینی کے عزم محکم اور استوار ارادے کے ذریعے اور مقدس دفاع میں ایرانی قوم کی فتح کے سبب، زمیں بوس ہو گئی لیکن امام خمینی کی وفات کے بعد ان میں پھر رمق پڑ گئی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آخرکار ایک آدھ سال پہلے ہی امریکیوں نے یہی باتیں پھر کہیں اور امریکہ کے ایک اعلی عہدیدار نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی چالیسویں سالگرہ نہیں دیکھ پائے گی۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کسی دوسرے نظام میں، اس کے زوال اور اس کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئياں کی گئي ہوں۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی کے ساتھ مزید فرمایا: "لیکن بحمد اللہ امام خمینی کے انقلاب اور نظام کا نہ صرف یہ کہ شیرازہ نہیں بکھرا اور اس کی پیشرفت نہیں رکی بلکہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتا گيا، اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے، پسپائي اختیار نہیں کی اور روز بروز اپنی خود مختاری کو مزید مستحکم بنایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی اس تقریر میں یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ اس نظام کی بقا کا راز کیا ہے؟ کہا کہ اسلامیت اور جمہوریت، اسلامی انقلاب کی بقا اور اس کے تحفظ کے دو اصلی عناصر ہیں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ، شرق و غرب کے مختلف سیاسی نظریات کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کے حکومتی نظریے کی تخلیق ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد نظام کی جمہوریت اور اسلامیت کے بنیادی نظریات کی تشریح کی اور تاریخ اسلام سے کچھ مثالیں پیش کیں اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ، مغربی افکار سے مستعار کوئي نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ امام خمینی کی گہری معرفت اور ان کی مذہبی نو اندیشی سے حاصل شدہ ایک جدید نظریہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ اسلام، جس کے امام خمینی قائل ہیں، سامراج مخالف ہے، امریکا مخالف ہے، ملک کے داخلی امور میں اغیار کی مداخلت کا مخالف ہے، دشمن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے کا مخالف ہے۔ وہ اسلام، جس کے امام خمینی قائل ہیں، بدعنوانی کے خلاف ہے اور یہ چیزیں جو بعض شعبوں میں بدعنوانی کی موجودگي کا سبب بنتی ہیں، یقینی طور پر اسلام مخالف ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی حکومت، وہ حکومت ہے جو بدعنوانی سے مقابلہ کرے۔ اسلام، محروموں کا حامی ہے، طبقاتی فاصلے کا مخالف ہے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ معاشی اور اقتصادی مشکلات کا حل، انتخابات میں شرکت اور صحیح امیدوار کا انتخاب ہے۔ آپ نے لوگوں کو الیکشن میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے سبھی طبقے خود بھی انتخابات میں شرکت کرنے اور اسی طرح دوسروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی دعوت دینے کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس عمل کو قرآن مجید کی اس آيت مبارکہ کا مصداق قرار دیا: "و تواصوا بالحق" (اور لوگ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے)۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امیدوار کے انتخاب میں بہت زیادہ غور کرنے اور امیدواروں کی کارکردگي پر توجہ دینے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا: صرف وعدوں اور باتوں پر اکتفا نہیں کی جا سکتی، جیسا کہ ایٹمی مذاکرات کے مسئلے میں بھی، جو اس وقت جاری ہیں، صرف باتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ہم نے عہدیداروں سے ہمیشہ کہا ہے کہ بات، عمل سے بنتی ہے، باتوں اور وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں الیکشن کے امیدواروں کو نصیحت کی کہ وہ ایسا کوئي وعدہ نہ کریں جسے پورا نہ کر سکتے ہوں۔ انھوں نے امیدواروں سے ایک اہم درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہر امیدوار اپنے آپ کو سماجی انصاف کے قیام اور غریب اور امیر کے درمیان موجود فاصلے کو کم کرنے کا پابند سمجھے۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی طرح اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کے اقتصادیات کی نجات کا راستہ، داخلی پیداوار اور ملکی پروڈکشن کو مضبوط بنانا ہے، فرمایا: امیدواروں کو اس بات کا عزم کر لینا چاہیے کہ وہ بدعنوانی سے مقابلہ کریں گے، ملکی پروڈکشن کو مضبوط بنائيں گے، اسمگلنگ اور بے لگام درآمدات پر روک لگائیں گے۔ آج وہ کھل کر اس بات کا وعدہ کریں تاکہ اگر جیتنے کے بعد وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کریں تو نگراں ادارے ان سے سوال کر سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں، امیدواروں کی اہلیت کی توثیق کے بارے میں ایک اہم نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اہلیت کی توثیق نہ ہونے کے معاملے میں بعض افراد پر ظلم ہوا، ان کے بارے میں یا ان کے اہل خانہ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہی گئيں، جن کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ کچھ قابل احترام اور پاکيزہ گھرانوں کو اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ غلط رپورٹیں تھیں اور بعد میں پوری طرح سے عیاں ہو گيا کہ وہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن بد قسمتی سے ان باتوں کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گيا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرو نہیں ہے ہے، اس کی وجہ یہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ لوگوں کی عزت کی حفاظت سب سے بڑی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اداروں سے میری درخواست ہے کہ وہ اس کی تلافی کریں۔ کسی کے گھرانے یا بچے کے بارے میں کچھ باتیں کہی گئيں اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ غلط تھیں، اس کی تلافی کی جائے اور حیثیت عرفی بحال جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی کی برسی کی مناسبت سے 4 جون 2021 کو ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر ہونے والے اپنے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت اور اوصاف پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ کی ماہیت و تشخص کے بارے میں گفتگو کی۔ ساتھ ہی صدارتی انتخابات کے بارے میں کچھ ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں آئندہ 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ اور اسی طرح مجوزہ پارلیمانی انتخابات کو عظیم الشان ملت ایران کے دو اہم امتحانات سے تعبیر کیا۔ آپ نے پارلیمنٹ کی رکنیت کی لیاقت رکھنے والے امیدواروں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے 21 فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو داخلی و بین الاقوامی مسائل کے تصفئے میں موثر قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں آئندہ 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ اور اسی طرح مجوزہ پارلیمانی انتخابات کو عظیم الشان ملت ایران کے دو اہم امتحانات سے تعبیر کیا۔ آپ نے پارلیمنٹ کی رکنیت کی لیاقت رکھنے والے امیدواروں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے 21 فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو داخلی و بین الاقوامی مسائل کے تصفئے میں موثر قرار دیا۔
پیر کی صبح ادارۂ حج کے عہدے داران نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب نے فرمایا کہ دینی جمہوریت، اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک جدید پیغام ہے اور اس آئیڈیل کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے حج ایک سنہری موقع ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے علم و سائنس کے میدان کے دو ہزار ممتاز نوجوانوں سے ملاقات میں دنیا کی تیز رفتار علمی پیشرفت کے حالات میں ایران کے علمی ارتقاء کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور اسے لازمی و حیاتی مشن قرار دیا۔