بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

 

ایک اور چودہ خرداد (امام خمینی کی برسی کی تاريخ 3 یا 4 جون) آ گئي اور ملک کا عمومی ماحول اس عظیم شخصیت، اس مرد عظیم، اس بے مثال رہبر، اس نرم دل انسان، اس فولادی ارادے والے شخص، اس ٹھوس عزم سے لبریز انسان، اس عمیق اور روشن ایمان والے شخص اور اس عاقل و حکیم و دور اندیش انسان کی یادوں سے معمور ہو گیا۔ ہمارے ملک و قوم کو آج بھی اور مستقبل میں بھی دور تک امام خمینی کی گرانقدر یاد کو تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

 

اسلامی جمہوریہ، امام خمینی کی سب سے اہم جدت طرازی

آج میں اپنی عزیز قوم سے جو بات کرنا چاہتا ہوں وہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی سب سے اہم جدت طرازی کے بارے میں ہے۔ امام خمینی نے بہت سی جدت طرازیاں کی ہیں لیکن یہ ان کی سب سے اہم جدت طرازی ہے۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ، یہ امام خمینی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، یہ وہی دینی جمہوریت ہے جسے اسلامی جمہوریہ کے زیر عنوان رسمی شناخت حاصل ہوئي جو ایرانی قوم کے عزم و فکر اور امام خمینی کی قیادت سے نکلنے والا ایک نظام ہے۔

 

امام خمینی کی صلابت و قطعیت اور اسلامی جمہوریہ کی فتوحات سے نظام کے دشمنوں کے منہ بند

میں بات کو یہاں سے شروع کر رہا ہوں کہ پچھلی ایک دو صدی میں دنیا میں سامنے آنے والے نظاموں، انقلابی اور دیگر نظاموں کے درمیان میری نظر میں ایسا کوئي بھی نظام نہیں ہے جس کی اسلامی جمہوری نظام جتنی زوال، نابودی اور شیرازہ بکھرنے کی پیشین گوئي کی گئي ہو۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے پہلے دن سے ہی اس عظیم تحریک کو تسلیم اور ہضم نہ کر پانے والے ملک کے اندر اور باہر کے بدخواہ اور دشمن کہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ، دو مہینے سے زیادہ، کبھی کہتے تھے چھے مہینے سے زیادہ اور کبھی کہتے تھے ایک سال سے زیادہ باقی نہیں رہے گی، ختم ہو جائے گی۔

امام خمینی کی صلابت، ان کی قطعیت، اس کے علاوہ آٹھ سالہ جنگ میں ایرانی قوم کی عظیم الشان فتوحات اور دیگر گوناگوں واقعات نے اس شوروغل کو دبا دیا، یعنی دھیرے دھیرے یہ کم ہو گيا، کم ہوتا گيا اور امام خمینی کی عمر کے آخری ایام تک یہ ختم ہو گیا، اب یہ شورغل نہیں رہ گیا تھا لیکن امام خمینی کی وفات کے بعد بدخواہوں میں پھر سے رمق پیدا ہو گئي، ان میں امید پیدا ہو گئی اور انھوں نے اپنی آرزوؤں کو پیشین گوئي کی صورت میں بیان کرنا شروع کیا، انھی باتوں کو پھر سے دوہرانا شروع کیا۔ ایک فرسودہ ہو چکی لیکن اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والی پارٹی (1) نے سنہ انیس سو نوے میں ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں اس نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ، ڈھلان کے سرے پر پہنچ چکی ہے، یعنی اب اگر اس نے ذرا سی بھی جنبش کی تو ختم ہو جائے گی، نیچے گر جائے گی۔ یہ سنہ انیس سو نوے کی بات تھی۔

کچھ سال بعد ایک دوسرے گروہ نے، کچھ افراد نے جو افسوس کہ عہدیدار بھی، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے رکن (2) بھی تھے، ان لوگوں نے بھی ایک خط میں لکھا کہ اسلامی جمہوریہ کے لیے بہت کم وقت باقی بچا ہے، مطلب یہ کہ اسلامی جمہوریہ آج کل میں ہی ختم ہونے والی ہے۔ یہ ایک دوسرا گروہ تھا، البتہ اس گروہ کے افراد کے رجحانات بھی تقریبا اسی جماعت کے رجحانات جیسے تھے یا پھر وہ اس جماعت کی طرف کسی حد تک جھکاؤ رکھتے تھے۔ ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی کچھ افراد، شخصیات، گروہ اور جماعتیں اسی طرح کی باتیں کرتی تھیں، چاہے ملک کے اندر، چاہے اغیار اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے سائے میں ملک کے باہر اس طرح کی باتیں کی جاتیں تھیں اور ریڈیو ان باتوں کو نشر کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو اسلامی جمہوریہ کا شیرازہ بکھرنے کی خوش خبری دیتے تھے۔ وہ اپنی آرزوؤں کو خبر اور تجزیے وغیرہ کی صورت میں بیان کرتے تھے اور ایک دوسرے کو خوش خبری دیتے تھے۔ آخر میں ابھی ایک دو سال پہلے ہی امریکیوں نے اس سلسلے میں اپنی آخری بات کہہ دی تھی۔ ایک اعلی رتبہ امریکی عہدیدار (3) نے پورے وثوق سے کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی چالیسویں سالگرہ نہیں دیکھ پائے گی۔ یہ اندازے اور یہ پیشین گوئياں، اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی دوسرے نظام کے زوال، نابودی اور اس کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں اس کی تشکیل کی ابتدا سے لے کر بعد کے برسوں میں اتنی زیادہ پیشین گوئياں کی گئي ہوں۔

البتہ جو لوگ اس طرح کی پیشین گوئياں کرتے تھے، ان کی نظر میں بہت سے انقلاب اور ان انقلابوں سے نکلنے والے نظام تھے کیونکہ بہت سی تحریکیں اور انقلاب، چاہے وہ مشرقی ایشیا میں ہوں، جنوب مشرقی ایشیا میں ہوں، مغربی ایشیا میں ہوں، افریقا میں ہوں یا پھر یورپ میں ہوں، جیسے فرانس کا انقلاب کبیر، یہ سب وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد، ختم ہو گئے تھے۔ ان کی ابتداء تو بہت پرجوش تھی لیکن انجام بہت تلخ تھا۔ فرانس کا انقلاب کبیر، سلطنت کے خلاف وجود میں آنے کے تقریبا پندرہ سال بعد، ایک مضبوط آمر حکومت پر منتج ہوا جو نپولین بوناپارٹ کی حکومت ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی ہوا۔ پوری دنیا میں اس طرح کے نظاموں کے ساتھ یہی ہوا۔

خود ہمارے ایران میں بھی یہی ہوا تھا۔ ایران میں تحریک مشروطہ (آئينی تحریک) اتنے ہنگامے، شوروغل، جوش، فتووں اور دوسری چیزوں کے ساتھ وجود میں آئي اور جب تحریک مشروطہ پر دستخط ہوئے، مشروطیت کے فرمان پر دستخط ہو گئے تو اس کے پندرہ سال بعد رضا خان جیسا شخص، اس بھیانک آمریت کے ساتھ برسر اقتدار آ گیا، اس سیاہ آمریت کے ساتھ جو قاجاری دور حکومت سے کہیں زیادہ بری تھی۔ اس کے بعد پھر سنہ انیس سو پچاس اور اکاون میں، جو قومی تحریک کے سال ہیں، ایک تحریک وجود میں آئي، لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ایران کے تیل کو اصطلاحا قومیا لیا گيا، یعنی برطانیہ کے چنگل سے چھڑا لیا گیا لیکن اس کے ایک دو سال بعد امریکی اور برطانوی بغاوت ہوئي اور محمد رضا نے ایک انتہائي پیچیدہ، خطرناک اور سخت ظالمانہ آمریت کو طویل عرصے کے لیے پھر شروع کر دیا۔ مطلب یہ کہ اس طرح کے واقعات دنیا میں ہو چکے ہیں، دنیا میں یہ لوگ جس چیز کی توقع کر رہے تھے وہ اس طرح کے واقعات کے پیش نظر تھی لیکن نہیں! بحمد اللہ امام خمینی کے انقلاب اور نظام کا نہ صرف یہ کہ شیرازہ نہیں بکھرا اور وہ نہ صرف یہ کہ وہ رکا نہیں بلکہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتا گيا، اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے، پسپائي اختیار نہیں کی اور روز بروز اپنی خودمختاری میں نیا نکھار پیدا کیا، اسے آشکار کیا، بڑی بڑی توفیقات حاصل کیں، رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اس انقلاب اور اس نظام کے سامنے لگاتار کیسی کیسی رکاوٹیں کھڑی کی گئيں؟! طرح طرح کی رکاوٹیں، سیاسی رکاوٹیں، معاشی رکاوٹیں، سیکورٹی کی رکاوٹیں وغیرہ وغیرہ، وہ ان سب پر غالب آيا اور آگے بڑھتا گيا۔ آج اسلامی جمہوریہ چالیس سال پہلے سے کہیں زیادہ وسعت کا حامل بھی ہے اور پیشرفتہ بھی ہے۔ وہ خداوند عالم کے فضل و کرم سے ہر پہلو سے آگے ہے۔

 

اسلام اور عوام کا ساتھ ہونا، اسلامی جمہوریہ کی بقا کا راز

اب سوال یہ ہے کہ اس بقا کا راز کیا ہے؟ اس پیشرفت کا راز کیا ہے؟ کیوں اتنی زیادہ دشمنی کے باوجود اسلامی جمہوریہ کا انجام دوسرے انقلابوں اور دوسرے نظاموں جیسا نہیں ہوا؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا راز کیا ہے؟ میں عرض کرتا ہوں! اس پرشکوہ اور افتخار آمیز نظام اور اس کی بقا کا راز یہ دو الفاظ ہیں؛ یعنی جمہوری اور اسلامی۔ یہ دو الفاظ، ان دونوں الفاظ کا باہمی ساتھ اور ان دو لفظوں سے تشکیل پانے والے وجود کو پائيدار ہونا بھی چاہیے۔ جمہوری بھی ہے اور اسلامی بھی۔ عوام اور اسلام، جمہوری یعنی عوام اور اسلامی بھی۔ اسلامی ڈیموکریسی۔

 

اسلامی جمہوری نظام کا نظریہ پیش کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا، امام خمینی کا عظیم کارنامہ

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اس سوچ کو، اس نظریے کو، اسلامی جمہوریہ کے نظریے کو وجود عطا کیا اور اسے مختلف سیاسی نظریات کے میدان میں اتار دیا۔ اس دور میں مشرق و مغرب کے مختلف سیاسی نظریات، سیاسی مسائل اور سیاسی سوچ کے میدان میں موجود تھے اور امام خمینی نے ان کے درمیان اس نظریے کو میدان میں اتار دیا اور پھر اسے عملی جامہ پہنا دیا، وجود عطا کر دیا۔ صرف ایک نظریہ پیش نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا، اسلامی جمہوری نظام کو وجود عطا کیا، یہ امام خمینی کا عظیم کارنامہ ہے۔

 

اسلام کی عمیق شناخت اور عوام پر بھرپور اعتماد، اسلامی جمہوریہ کے نظریے کی پیشکش اور اسے عملی جامہ پہنانے کے عمل میں امام خمینی کا اصلی سہارا

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مختلف جہات جیسے علم اور دینی معرفت کے لحاظ سے ایک عظیم انسان تھے۔ اس نظریے کو وجود عطا کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں ان کا اصلی سہارا، ایک طرف اسلام کے سلسلے میں ان کی گہری معرفت تھی، وہ اسلام کی شناخت رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اسلامی حاکمیت، اسلام کے کلیدی پیغاموں میں سے ہے اور دوسری طرف وہ عوام پر بھی بھرپور اعتماد کرتے تھے۔ امام خمینی عوام پر پورا بھروسہ رکھتے تھے، ان کی توانائيوں پر، ان کے عزم پر، ان کی وفاداری پر۔ اس سلسلے میں ہماری بہت سی یادداشتیں ہیں، عوام پر ان کا اعتماد بہت عجیب تھا۔ سنہ انیس سو باسٹھ میں، جب تحریک اپنے ابتدائي ایام میں تھی، امام خمینی نے ایک دن اپنے درس میں بات کو سیاسی مسائل اور اس وقت جو مسئلہ چل رہا تھا اس کی طرف موڑ دیا اور قم کے صحرا کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر ہم عوام کو بلائیں تو یہ صحرا عوام سے بھر جائے گا! سنہ انیس سو باسٹھ میں کوئي یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عوام کو اس طرح کے  کسی کام میں اپنے ساتھ لیا جا سکتا ہے اور انھیں میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔ امام خمینی اس نظریے کے دونوں حصوں کو یعنی اسلامی جمہوریہ کے نظریے کے دونوں حصوں کو، اسلامی حصے کو بھی اور جمہوری حصے کو بھی، اسلام سے متعلق سمجھتے تھے، انھوں نے اسے اسلام سے اخذ کیا تھا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات پر ان کے عبور، ان کی گہری معرفت اور اسلامی مسائل کے ادراک میں ان کی جامعیت نے اس نظریے کو ان کے ذہن میں پروان چڑھایا تھا۔

 

اسلامی جمہوریہ کے نظریے کے مخالفین

میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس نظریے کے مخالفین بھی تھے۔ پہلے ہی دن سے اس معاملے کے دونوں پہلوؤں کے یعنی حکومت کے اسلامی ہونے اور اسلام کی حاکمیت کے بھی اور حکومت کے عوامی ہونے کے پہلو اور جمہوریت کے بھی سخت مخالفین تھے اور آج تک اس کے مخالفین ہیں جن کی اپنی آراء ہیں، میں ان کی طرف اشارہ کروں گا۔

 

(الف) اسلام کی حاکمیت کے مخالف گروہ: غیر مذہبی سیکولر اور مذہبی سیکولر

اسلام کی حاکمیت یعنی ملک کے نظام اور زندگی کے نظام کو اسلامی اقدار، اسلامی تعلیمات، اسلامی خطوط اور اسلامی احکام کے ذریعے چلایا جائے، اس نظرئے کے کچھ کٹّر مخالفین تھے۔ البتہ یہ سارے مخالفین یکساں نہیں تھے۔ ان میں ایک گروہ سیکولر نظرئے کے کچھ غیر مذہبی لوگوں کا تھا جن کا کہنا تھا کہ دین کو اس طرح کا حق ہی نہیں ہے، اس میں یہ اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ سماجی مسائل میں داخل ہو سکے اور ملک کی سیاست، ملک کے سماجی نظام اور ملک کے انتظام و انصرام کو سنبھال سکے، دین میں یہ چیز پائی ہی نہیں جاتی۔ اگر کوئي دین کو مانتا بھی ہو تو دین نماز، روزے، ذاتی مسائل اور قلبی واردات جیسی باتوں کے لیے ہے! المختصر یہ کہ اس گروہ کے لوگ، دین کی حاکمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ تو دین کو معاشرے کے لئے افیم سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ دین، معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے، بلکہ نقصان بھی ہے۔ اسلام کی حاکمیت کے مخالفین کا یہ ایک گروہ تھا۔ دوسرا گروہ دین کو ماننے والوں کا تھا اور وہ دین کے موقف کا دفاع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جناب! دین کو سیاست میں نہیں گھسنا چاہیے۔ دین کو سیاست سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے، دین کو کنارے ہی رہنا چاہیے، اسے اپنے تقدس کی حفاظت کرنا چاہیے، اسے سیاست کے میدان میں داخل ہی نہیں ہونا چاہیے جو ٹکراؤ، توتو میں میں اور لڑائي جھگڑے کا میدان ہے، اگر انسان ان لوگوں کے بارے میں صحیح رائے دینا چاہے تو یہ لوگ مذہبی سیکولرز ہیں؛ یہ مذہبی ہیں لیکن حقیقت میں سیکولر ہیں، یعنی زندگي کے امور میں دین کی مداخلت پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتے۔ یہ گروہ بھی اسلام کی حاکمیت کا مخالف تھا۔

(ب) عوام کی حاکمیت کے مخالف گروہ: سیکولر لبرلز اور عوامی قوت پر بھروسہ نہ کرنے والے مذہبی افراد

عوامی حاکمیت کے مخالفوں یعنی ڈیموکریسی کے مخالفین کے بھی دو محاذ تھے: ایک محاذ، سیکولر لبرلز کا تھا جو جمہوریت یا ڈیموکریسی کو تسلیم کرتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا دین سے کوئي لینا دینا نہیں ہے اور جمہوریت کے میدان میں لبرلز اور ٹیکنو کریٹس کو آنا چاہیے۔ بنابریں مذہبی ڈیموکریسی اور اسلامی جمہوریہ لایعنی ہے۔ تو اس طرح یہ لوگ اس نظریے کے جمہوریت والے حصے کے مخالف تھے۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو دین کو تو مانتے تھے لیکن کہتے تھے کہ جناب! دین کی حاکمیت کا عوام سے کیا لینا دینا ہے؟ اس میں عوام کا کیا کام ہے؟ دین کو حکومت کرنی چاہیے، دین کی حاکمیت ہونی چاہیے۔ تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے۔ اس دوسری رائے کے بعض نمونے کچھ عرصہ قبل انتہا پسندانہ شکل میں آپ نے داعش کے لوگوں میں ملاحظہ کیے جو بزعم خود، دین کی حاکمیت پر عقیدہ رکھتے تھے لیکن وہ عوام کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔

 

اسلامی تعلیمات پر استوار اسلامی جمہوریہ کا نظریہ

امام خمینی اللہ پر توکل اور عوام پر اعتماد کے ساتھ اور دین کے بارے میں اپنی گہری شناخت کے سہارے مضبوطی سے ڈٹ گئے اور انھوں نے اس نظریے کو آگے بڑھایا اور اپنی اس عظیم جدت طرازی کو معاشرے کی سطح پر جامۂ عمل پہنایا۔ اجمالا ہی سہی لیکن مجھے یہ بات ضرور عرض کرنی ہے کہ یہ ایک جذباتی بات نہیں ہے بلکہ ایک عالمانہ استنباط ہے کہ دین کو حکومت کرنی چاہیے اور اس حاکمیت میں عوام کی شراکت ہونی چاہیے، یعنی مذہبی ڈیموکریسی، یہ چیز اسلام کے بطن سے نکلی ہے اور بنیادی اسلامی تعلیمات پر استوار ہے۔

 

دین کی حاکمیت کا منبع قرآن و احادیث

قرآن مجید نے دین کی حکمرانی کو واضح طور پر بیان کیا ہے؛ اگر کوئي اس کا انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اس نے قرآن مجید میں غور و خوض نہیں کیا ہے۔ ایک طرف قرآن مجید سورۂ نساء کی ایک آیت میں اعلان کرتا ہے: "وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّہ" (4) ہم نے پیغمبروں کو اس لیے بھیجا ہے کہ لوگ اذن خداوندی سے ان کی اطاعت کریں۔ تو کس چیز میں اطاعت کریں؟ پیغمبروں کی اطاعت کن چیزوں میں کی جانی چاہیے؟ اس چیز کو قرآن مجید کی سیکڑوں آیتیں بیان کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آیات جہاد، عدل و انصاف قائم کرنے سے متعلق آيات، حدود اور تعزیرات سے متعلق آيات، سودوں اور سمجھوتوں سے متعلق آيات، عالمی سمجھوتوں سے متعلق آیات؛ وَ اِن نَكَثوا اَيمـانَھُم (5) وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا مطلب ہے حکومت؛ ان آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان امور میں پیغمبر کی اطاعت کی جانی چاہیے، ملک کے دفاع کے معاملے میں، حدود جاری کرنے کے معاملے میں، معاملات اور سماجی سمجھوتوں کے مسئلے میں، دوسرے ملکوں سے سمجھوتوں کے بارے میں، عدل و انصاف کے قیام کے معاملے میں، سماجی انصاف قائم کرنے کے معاملے میں پیغمبر کی اطاعت ہونی چاہیے؛ اس کا مطلب ہے حکومت۔ کیا حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ ہیں۔ قرآن مجید میں اسلام کی حکمرانی کو اتنی صراحت کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔

البتہ یہ چیز پیغمبر اور معصومین علیہم السلام کی سنت، حدیث اور ان کے اقوال میں بھی کثرت سے موجود ہے۔ جب یثرب کے لوگوں کے نمائندے مکے آئے اور پیغمبر کو یثرب آنے کی دعوت دی، جو بعد میں مدینۃ النبی بنا، انھوں نے منیٰ کے قریب پیغمبر سے بات کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے عہد لیا، کہا کہ میں آؤں گا لیکن تمھیں دفاع کرنا ہوگا، جان دے کر بھی حمایت کرنی ہوگي۔ ان لوگوں نے اسے قبول کیا اور وعدہ کیا۔ پھر جب پیغمبر مدینے پہنچے تو انھوں نے اسلامی حکومت تشکیل دی، حاکمیت کو وجود عطا کیا۔ یہ حاکمیت ان کی پیغمبری سے متعلق تھی یعنی کوئي اور بات نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ وہ پیغمبر تھے، اس لیے کہ لوگ ان پر ایمان لائے تھے، اس لیے انھوں نے حکومت تشکیل دی تھی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد، ان کی جانشینی کے بارے میں پائے جانے والے اختلافات کے باوجود، مسلمانوں میں سے ایک بھی شخص کو، حتی پیغمبر کی جانشینی کے بارے میں اختلاف رکھنے والے افراد کو بھی اس بات میں کوئي شک نہیں تھا کہ جو بھی حکومت تشکیل پائے، وہ دین اور قرآن کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ بنابریں دین کی حاکمیت کا مسئلہ، اسلام کی حاکمیت کا معاملہ، بڑا واضح مسئلہ اور اسلام پر عقیدے کا لازمہ ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کوئي اسلام پر عقیدہ رکھتا ہے اور وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات پر صحیح طریقے سے غور کرے تو اسے سماج میں اسلام کی حاکمیت پر بھی عقیدہ رکھنا چاہیے۔

 

اسلامی حکومت کے قیام اور اپنے مستقبل کے تعین کے حق میں عوام کی ذمہ داریاں

جہاں تک جمہوریت، ڈیموکریسی اور عوام کے ووٹوں کی اہمیت کی بات ہے تو یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو دو زاویوں سے دیکھا جانا چاہیے۔ پہلا زاویہ، معاملے کا دینی اور عقیدتی پہلو ہے کہ معاملہ فرض اور حق کا ہے۔ دوسرا زاویہ، دین کی حاکمیت کو عملی جامہ پہنانے کے امکان کا ہے جو عوام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

پہلا حصہ، جو عوام کا کردار اور اسلامی حکومت کے باب میں حتمی شراکت ہے، انسانوں کی ذمہ داری سے سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید اور روایات میں معاشرے کی سرنوشت کے تعلق سے عوام کی ذمہ داری کے بارے میں بہت زیادہ اور واضح باتیں موجود ہیں: کُلُّکُم راعٍ وَ کُلُّکُم مَسئولٌ عَن رَعِیَّتِہ (6) یعنی معاشرے کے تمام افراد، معاشرے کی صورتحال کے سلسلے میں ذمہ دار ہیں۔ مَن اَصبَحَ لا یَھتَمُّ بِاُمورِ المُسلِمینَ فَلَیسَ بِمُسلِم (7) امور مسلمین کا مطلب، اسلامی معاشرے کے یہی امور جو تمام باتوں پر محیط ہیں۔ یا خطبۂ صفین کے نام سے مشہور خطبے میں حکومت کے سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کا ایک جملہ ہے جو میری نظر میں بہت زیادہ اہم ہے: وَ لَکِن مِن واجِبِ حُقوقِ اللّہِ سُبحانَہُ‏ عَلَى عِبادِہِ النَّصيحَۃُ بِمَبلَغِ جُھدِھِم وَ التَّعاوُنُ عَلَى اِقامَۃِ الحَقِّ بَينَھُم (8) پروردگار کے سب سے اہم اور لازمی حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ التَّعاوُنُ عَلَى اِقامَۃِ الحَقِّ بَينَھُم لوگ معاشرے میں حق کے قیام کے لیے تعاون کریں، یعنی یہ عوام کا فریضہ ہے، عوام ذمہ دار ہیں، انھیں مدد کرنی چاہیے تاکہ ملک میں حق کی حکومت قائم ہو سکے، خدا کی حکومت قائم ہو سکے۔

امر بالمعروف کا فریضہ۔ یہ ایک عمومی ذمہ داری ہے اور 'معروفوں' میں ایک سب سے اہم، حق و عدل کی حکومت ہے۔ سماج میں منصف حکومت ہونی چاہیے، حق کی حکومت ہونی چاہیے، لوگوں کو اس (معروف) کا حکم دینا چاہیے، اس سے عوام کی ذمہ داری کا اشارہ ملتا ہے۔ یا سماجی انحرافات سے مقابلے کی ضرورت کا معاملہ ہے، امیرالمومنین علیہ السلام نے خطبۂ شقشقیہ میں، حکومت قبول کرنے کی ایک وجہ اسی بات کو قرار دیا ہے۔ وَ ما اَخَذَ اللّہُ عَلَی العُلَماءِ اَلّا یُقارّوا عَلیٰ کِظَّۃِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم (9) یعنی خداوند متعال نے علماء سے یہ عہد لیا ہے، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ تمام علماء سے، کہ وہ سماجی فاصلوں، سماجی خلیجوں کے سامنے نہیں جھکیں گے اور سماجی فاصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ایک، زیادہ پیٹ بھرا ہونے کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہو جائے اور دوسرا بھوک کی وجہ سے۔ امیر المومنین نے "علماء" اس لیے فرمایا ہے کہ علماء کا طبقہ، ایک ممتاز طبقہ ہے اور اسی لیے ان پر اس حق کا اطلاق زیادہ ہوتا ہے، ان پر اس بات کی ذمہ داری زیادہ ہے، یا پھر اس وجہ سے ہے کہ علماء کا مطلب ہے جاننے والے؛ یعنی جس کو بھی اس کا علم ہو جائے، جو لاعلم ہے، فطری طور پر اس کی کوئي ذمہ داری نہیں ہے لیکن جو مطلع ہو جائے، جسے علم ہو جائے، اس کی ذمہ داری ہے۔ بنابریں یہ ایک عمومی ذمہ داری ہے۔ اب اس ذمہ داری کو کس طرح نبھایا جائے؟ یہ چیز، الگ الگ ادوار میں مختلف ہوتی ہے۔ آج انتخابات ہیں، ممکن ہے کسی دن کسی اور وسیلے سے ہو، لیکن یہ ذمہ داری موجود ہے۔ ایک طرف یہ 'ذمہ داری' اور دوسری طرف 'حق' یعنی مستقبل اور سرنوشست کے تعین کا حق موجود ہے۔ انسان آزاد ہیں، "لا تَکُن عَبدَ غَیرِكَ لَقَد خَلَقَكَ اللّہُ حُرّا" (10) امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے: تم دوسروں کے غلام نہ بنو، خدا نے تمھیں آزاد پیدا کیا ہے، تم خود انتخاب کرو، اپنے مستقبل کا تعین تم خود کرو؛ یہ اسلام کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے۔

بنابریں عوامی حاکمیت اور جمہوریت کا مسئلہ، ان دینی بنیادوں پر مبنی ہے، یہ چیز قرآن میں بھی ہے، حدیث میں بھی ہے، نہج البلاغہ میں بھی ہے اور پیغمبر اور امیر المومنین کی سیرت میں بھی ہے۔ امیر المومنین خطبۂ صفین میں فرماتے ہیں: لا تَکُفّوا عَن مَشوِرَۃٍ بِحَقٍّ او مَقالَۃٍ بِعَدل (11) یعنی جھجک نہ دکھاؤ،  مجھ سے کہو، میرے کام میں، میری روش میں، میرے طریقۂ کار میں مداخلت کرو، اپنی رائے دو۔ تو معاملہ ایسا ہے۔ بنابریں عوام کی ذمہ داری اور عوام کا حق، یقینی طور پر اسلام کے بطن سے نکلتا ہے۔ یہ پہلا زاویہ تھا۔

 

حکومتوں کو عوامی پشت پناہی کی ضرورت

دوسرا زاویہ، عوامی پشت پناہی اور عوامی سہارے کا زاویہ ہے، یہ بھی بہت واضح ہے۔ حکومت، صرف دینی حکومت ہی نہیں بلکہ کوئي بھی حکومت اگر عوامی پشت پناہی کے بغیر ہو اور عوام اس کے حامی نہ ہوں تو وہ تلوار اور کوڑے کے سہارے زندگي گزارنے پر مجبور ہوگي۔ یعنی اس حکومت کے باقی رہنے کا امکان نہیں ہے۔ اسلامی اور قرآنی حکومت بہرحال ظالم، تلوار چلانے اور عوام پر بے جا کوڑے برسانے والی حکومت نہیں ہے اس لیے وہ عوامی پشت پناہی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بنابریں نہ تو اس بات کا امکان تھا کہ عوامی پشت پناہی کے بغیر اسلامی جمہوریہ وجود میں آئے اور نہ اس کے وجود میں آنے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ وہ اپنی حیات جاری رکھ سکے۔ بحمد اللہ، اسلامی جمہوریہ ایران باقی ہے اور آئندہ بھی باقی رہے گا۔

اسلامی جمہوریہ؛ مغرب سے مستعار لیا ہوا آئيڈیا نہیں بلکہ خالص دینی تصور

بنابریں مذہبی ڈیموکریسی جسے اسلامی جمہوریہ کا عنوان ملا اور جس نے رسمیت حاصل کر لی اور جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا تھا، ایک خالص دینی منصوبہ ہے جس میں کسی طرح کا کوئي شک نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے جو یہ کہا کہ امام خمینی نے الیکشن کو، جمہوریت کو اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو مغرب والوں سے تکلف اور شرما حضوری وغیرہ کے سبب لیا ہے، بہت ہی بے بنیاد بات ہے۔ امام خمینی کے سلسلے میں ہماری جو شناخت ہے اس کی بنا پر اور برسوں ہم نے ان کے ساتھ کام کیا ہے، لوگوں نے ان کو دیکھا ہے، وہ ایسے شخص نہیں تھے کہ کسی کے تکلف میں اور لوگوں کی باتوں کی وجہ سے حکم خدا سے روگردانی کریں، ہرگز نہیں! اگر دین میں جمہوریت نہ ہوتی، اس کا دین سے اور خدا سے تعلق نہ ہوتا تو امام خمینی ایسے شخص نہیں تھے کہ اسے مان لیتے۔ وہ ٹھوس انداز میں اپنی بات کہتے۔ آپ نے امام خمینی کی زندگي میں اسے واضح طور پر دیکھا ہے، جس دن انھوں نے حجاب کا مسئلہ اٹھایا، ایک واجب العمل مسئلہ کہ خواتین کو اجتماعی جگہوں پر حجاب کرنا ہوگا، اس وقت بہت سے لوگ اس کے مخالف تھے، یہاں تک کہ خود امام خمینی کے بعض قریبی افراد بھی۔ ان میں سے ایک شخص ایک دن میرے پاس آئے اور کہنے لگے: جناب! یہ کیسی بات ہے جو آقا (امام خمینی) کہہ رہے ہیں؟ آپ جائيے اور ان سے کہئے کہ اسے چھوڑ دیں، البتہ میرا بھی وہی خیال تھا جو امام خمینی کا تھا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ مخالف تھے لیکن امام خمینی کی یہی رائے تھی اور انھوں نے ٹھوس طریقے سے حجاب کے مسئلے کو پیش کیا، جو بالکل صحیح بات تھی۔ اسی طرح کی دوسری باتیں بھی تھیں۔

امام خمینی کی جانب سے عوام کی توانائي اور عزم کی گنجائش سے استفادہ اور اس قوم کی قوت اور عزت میں اضافہ

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نئي مذہبی سوچ پیش کی۔ اس نئے اور پیشرفتہ مکتب کو اور اسلام کے اس حسین اور حیرت انگيز خیال کو، جو اس روشن نظریے اور عمیق معرفت پر مبنی تھا، پیش کیا اور اس ٹھوس اور منطقی منصوبے کے ذریعے ایرانی قوم کو میدان میں لے آئے جو صدیوں سے استبداد اور آمریت کی عادی ہو چکی تھی۔ انھوں نے قوم کو ملک کا مالک بنا دیا اور ایسا انتظام کیا کہ ایرانی قوم نے اپنے آپ کو باور کر لیا، اس میں خود اعتمادی آ گئي۔ آپ عزیز نوجوانوں کے لیے، جنھوں نے اسلامی انقلاب سے پہلے کا زمانہ نہیں دیکھا ہے، یہ جاننا بہت سخت ہوگا کہ ملک کیسا تھا؟ ہم نے اس میں زندگی گزاری ہے، اس زمانے میں سانسیں لی ہیں؛ اس زمانے میں عوام سرے سے ہیچ تھے۔ اگر کوئي، لوگوں سے یہ کہتا کہ آپ ملک کے مسائل میں مداخلت کر سکتے ہیں یا آپ کو اس کا حق ہے تو یہ بات عوام کے لیے ناقابل یقین تھی، عوام پوری طرح سے حاشیے پر ڈال دیے گئے تھے، ان کا کوئي کردار تھا ہی نہیں؛ خاص طور پر پہلوی آمریت کے سیاہ دور کے آخری زمانے میں، جس کے بیس تیس برس ہم نے دیکھے ہیں۔ یہ عوام، اس طرح کے نہیں تھے، انھوں نے بڑی گھٹن میں زندگي گزاری تھی۔ امام خمینی نے اپنے ایک اہم اقدام سے عوام کو میدان میں پہنچا دیا، جوانوں نے خود کو صحیح طریقے سے پہچان لیا، قوم کو اپنی شناخت ہو گئی، امام خمینی نے قوم کی توانائي اور عزم کی عظیم گنجائش کو استعمال کیا اسے اپنی قیادت و ہدایات سے ایسے مرحلے میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی کہ قوم عظیم کام انجام دینے لگي، اس نے کئي ہزار سالہ سلطنت کو اکھاڑ پھینکا، امام خمینی عوام کو میدان کے بیچ میں لے آئے اور عوام کے دین، عوام کی معرفت، عوام کے فہم و شعور کے ساتھ ایسا کچھ کیا کہ وہ ڈٹ جائيں، استقامت کریں اور روز بروز زیادہ مضبوط ہوتے جائيں۔

کبھی اسلامی جمہوریہ ایک چھوٹا سا پودا تھا، آج تنومند و تناور درخت اور شجرۂ طیبہ بن چکا ہے جسے کوئي بھی طوفان اکھاڑ نہیں سکتا۔ بہت سے خوفناک واقعات سامنے آئے لیکن یہ قوم اپنے آپ کو ان خوفناک حوادث میں بچائے رکھنے میں کامیاب رہی، جیسے آٹھ سالہ جنگ۔ آٹھ سال تک دنیا کی ساری بڑی طاقتیں، ایک حکومت کی حمایت میں صف آرا ہو گئيں کہ وہ ہم پر حملہ کرے، اسے ہتھیار دیے، اہم اطلاعات دیں، اسے جنگي فنون سکھائے، اس کی مالی امداد کی، یہ سب کچھ کیا تاکہ وہ اسلامی جمہوریہ کو نابود کر سکے لیکن ایرانی قوم پوری طاقت سے ڈٹ گئي اور انھیں گھٹنوں پر لے آئي، دشمن کی خواہش کے برخلاف وہ نہ صرف یہ خود جھکی نہیں اور اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ اس نے اپنی قوت و عزت کے میدان کو مزید وسعت دی۔

امام خمینی کی نظر میں عوام کے امور کا چارۂ کار: اسلامی موقف اور امور چلانے میں عوامی مطالبوں کی حکمرانی

امام خمینی، ان دو لفظوں، 'جمہوری' اور 'اسلامی' کو ملک کی مشکلات کا عقدہ کشا سمجھتے تھے۔ وہ ملک کے تمام مسائل کا حل یہی سمجھتے تھے کہ ہم اسلام پر عمل کریں اور عوام، میدان میں موجود رہیں؛ امام خمینی کا عقیدہ یہ تھا۔ یہ جو انھوں نے کہا کہ "نہ ایک لفظ کم، نہ ایک لفظ زیادہ" تو ایک لفظ کم یعنی بغیر اسلامی کے جمہوریہ یا جمہوریہ کے بغیر اسلامی؛ اس کا کوئي مطلب نہیں ہے۔ امام خمینی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ۔ یعنی اسلام کی حکمرانی اور عوام کی حکمرانی، یہ دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کا آپس میں کوئي تضاد نہیں ہے۔ اسلام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ ڈھانچہ، اقدار اور موقف اسلام طے کرے گا، عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت چلانے کی روش اور شکل عوام طے کریں گے۔ اسلام کی حاکمیت، عوام کی حاکمیت، عوام کا ارادہ، مؤثر، اسلام کے احکام میں اثر بھی ہے، ان سب کو امام خمینی عقدہ کشا سمجھتے تھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک کے تمام کاموں میں مشکلات کو دور کرنے والی یہی چیز ہے۔ ہم نے جب بھی عوام کو کام میں شامل کیا اور اسلام کی پابندی کی، آگے بڑھتے چلے گئے، امام خمینی کے دور میں بھی اور ان کی وفات کے بعد سے اب تک کے ان دسیوں برس میں بھی۔ میں یہ بات پوری صراحت سے اور تاکید کے ساتھ کہتا ہوں اور عوام کی آنکھوں کے سامنے موجود متعدد شواہد بھی اس کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ہم نے جہاں بھی عوام کو میدان میں اتارا، جہاں بھی اسلام کو اپنے کام کی کسوٹی اور اصل معیار قرار دیا، ہم نے پیشرفت کی؛ جہاں بھی ان دونوں میں سے کوئي ایک لڑکھڑایا، ہم آگے نہیں بڑھ سکے۔ فرض کیجیے کہ ہم عوام کو معاشی مسائل میں میدان میں اتار دیں، یہ جو میں کئي برس سے بار بار کہہ رہا ہوں کہ چھوٹے اور متوسط کارخانوں کو فروغ دیں، مدد کریں اور انھیں بڑھائيں، اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے اور متوسط کارخانے دسیوں لاکھ انسانوں کو روزی فراہم کرتے ہیں، یہ دسیوں لاکھ لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ عوام کی موجودگي ہی تو ہے، اگر ہم نے اس کی تقویت کی ہوتی تو آج ہماری معاشی حالت اس سے بہتر ہوتی۔

مختلف دیگر مسائل میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگر ملک کے محترم عہدیداروں کے درمیان یہ بات رائج ہو جائے کہ وہ اسلامی مسائل کو بھی نظر میں رکھیں یعنی اسلامی حدود کی پوری طرح سے پابندی کریں ملکی مسائل میں بھی، غیر ملکی مسائل میں بھی، معاشی مسائل میں بھی، ثقافتی اور سیاسی مسائل میں بھی، اور عوام کی موجودگی کو بھی یقینی بنائيں یعنی کوئي ایسا میکینزم وجود میں لائیں کہ عوام کا ارادہ، عوام کی موجودگي اور عوام کی مرضی دخیل ہو سکے تو ملک کی تمام مشکلات دور ہو جائيں گی۔

نظام کے اسلامی ڈھانچے کے بارے میں امام خمینی کی نظریہ اور ان کی رائے اور بیانوں میں اسلام کی خصوصیات

تو اصل بات یہ تھی۔ امام خمینی کی باتیں بہت اہم ہیں۔ انھوں نے بڑی عجیب باتیں کی ہیں۔ میں نے ان کا ایک مختصر سا جملہ نوٹ کیا ہے جو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں بھی اور جمہوریت کے بارے میں بھی امام خمینی کی بڑے واضح اور ٹھوس باتیں ہیں۔ اسلام کے بارے میں وہ رجعت پرستوں کے اسلام اور التقاطیوں خوشہ چینوں (12) کے اسلام دونوں کو بڑے ٹھوس طریقے سے مسترد کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ رجعت پرستوں کو مسترد کرتے ہیں اور دوسری طرف التقاطیوں خوشہ چینوں کو، یعنی وہ افراد جو اسلام کے نام پر دوسروں کی باتیں، اپنے مخاطب کے سامنے اور معاشرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ امام خمینی ان لوگوں کو بھرپور طریقے سے مسترد کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں اسلام، وہ اسلام ہے جو انصاف پسند ہے، سامراج مخالف ہے، بدعنوانی کے خلاف ہے، یہ سب، امام خمینی کی باتوں میں واضح ہے؛ ان کی وصیت میں بھی ہے اور ان کے بیانوں کی شائع شدہ بیس بائيس جلد کی کتاب میں بھی ہے۔ ہم نے تو یہ باتیں خود براہ راست امام خمینی کی زبان سے سنی ہیں، جو لوگ نہیں تھے اور جنھوں نے انھیں نہیں دیکھا ہے وہ ان بیانوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ امام خمینی کی باتیں پوری طرح سے واضح ہیں۔

امام خمینی جس اسلام پر عقیدہ رکھتے تھے وہ سامراج مخالف ہے، یعنی امریکا کے خلاف ہے، اغیار کی تسلط پسندی کے خلاف ہے، ملک کے داخلی امور میں اغیار اور باہری طاقتوں کی مداخلت کے خلاف ہے، دشمن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے کے خلاف ہے۔ بدعنوانی کا مخالف اسلام، وہ اسلام ہے جس پر امام خمینی عقیدہ رکھتے ہیں، وہ اسلام کسی کو بھی خصوصی امتیازات دیے جانے کا مخالف ہے۔ بعض شعبوں میں بدعنوانی کی موجودگي کے بارے میں جو چیزیں سامنے آتی ہیں وہ یقینی طور پر اسلام کے خلاف ہیں۔ اسلام، وہ اسلام ہے جو بدعنوانی سے مقابلہ کرے؛ اسلامی حکومت، وہ حکومت ہے جو بدعنوانی سے لڑے۔ اسلام رجعت پرستی کے خلاف ہے یعنی پرانے پچھڑے ہوئے افکار کو اس طرح زندگي کے میدان میں داخل کر دینا، نئے اسلامی افکار اور امام خمینی کے نئے افکار سے دوری اختیار کرنا۔ اسلام، اشرافیہ کلچر کے خلاف ہے، اسلام محرومین کا حامی ہے۔ اسلام، سماجی فاصلوں کا مخالف ہے، امیر اور غریب کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کے خلاف ہے۔

امام خمینی اپنی مبارک عمر کے اواخر میں، اپنی وفات سے کچھ مہینے پہلے اپنے ایک خط میں، ایک عہدیدار کو اس طرح لکھتے ہیں: آپ کو یہ دکھا دینا چاہیے کہ ہمارے عوام نے ظلم، ناانصافی اور رجعت پرستی کے خلاف قیام کیا اور خالص محمدی اسلام کو، شاہی اسلام، سرمایہ دارانہ اسلام، التقاطی اسلام اور ایک لفظ میں امریکی اسلام کی جگہ لے آئے۔ (13) یہ جنوری، سنہ انیس سو نواسی کا خط ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ یہ انقلاب کے آغاز کے جوش و خروش کے زمانے کا ہے، نہیں! امام خمینی نے اپنی وفات سے کچھ مہینے پہلے یہ خط لکھا تھا۔ بنابریں، اسلام کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ اس طرح کا ہے۔

الیکشن؛ امام خمینی کی نظر میں جمہوریت اور عوامی شراکت کا مظہر

امام خمینی الیکشن کو ڈیموکریسی کا مظہر سمجھتے تھے اور ایسا ہے بھی، یعنی آج ڈیموکریسی اور عوامی موجودگي، انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں کوئي وقت ایسا بھی آئے کہ انتخابات لایعنی ہو جائيں، عوامی موجودگي اور عوامی رائے کے اظہار کے لیے کچھ دوسرے طریقے سامنے آ جائيں، آج الیکشن ہے، امام خمینی کے زمانے میں بھی الیکشن تھا۔ انتخابات کے بارے میں امام خمینی کی کچھ بڑی اہم باتیں ہیں، جیسے: وہ انتخابات کو مذہبی فریضہ سمجھتے تھے؛ انھوں نے انتخابات کے سلسلے میں 'مذہبی فریضے' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان کی وصیت میں ایک جملہ بڑا ہی متنبہ کرنے والا ہے، وہ فرماتے ہیں: "الیکشن میں شرکت نہ کرنا، بعض موقعوں پر ممکن ہے کہ بڑے گناہوں میں سر فہرست قرار پائے۔" الیکشن کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ یہ ہے۔ یا ایک اور جگہ پر وہ فرماتے ہیں: "انتخابات میں شرکت میں کوتاہی کے کچھ دنیوی نتائج ہیں جو ممکن ہے کئي نسلوں تک سامنے آتے رہیں اور خداوند عالم بھی اس کا مؤاخذہ کرے۔" یہ امام خمینی کے فرامین ہیں اور انھیں بیانوں کے ذریعے اور انھی ٹھوس قدموں کے ذریعے انھوں نے اسلامی جمہوریہ کو کھڑا کیا اور اسے مضبوط بنایا۔ بحمد اللہ امام خمینی کی وفات کے بعد ایرانی قوم نے اس الہی تحفے کو، یعنی اس مذہبی جمہوریت کو، جو ایک عطیۂ الہی تھا اور امام خمینی کے ہاتھوں، ایرانی قوم کو دیا گيا تھا، محفوظ رکھا ہے۔

دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت

ایرانی قوم، ایران کے دشمنوں اور ایرانی دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں، جنھوں نے مختلف طرح کی سازشیں کیں اور چالیں چلیں تاکہ عوام کو اس نظام سے دور کر دیں اور اسلام اور مذہبی ڈیموکریسی پر سے ان کا عقیدہ ختم کروا دیں، پوری طرح سے ڈٹ گئي اور اس نے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ دشمن جب بھی اور جس شکل میں بھی سامنے آيا، اسے ایرانی قوم کی فولادی دیوار کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی ایسا ہی ہے، آج بھی دشمن کمین میں ہے، ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے اس نے بڑی امیدیں لگا رکھی ہیں لیکن اسے ایرانی قوم کے مضبوط حصار اور فولادی دیوار کا سامنا ہے۔ دشمنوں نے سیکورٹی کے میدان میں بھی سازشیں کیں، اقتصادی میدان میں بھی کھل کر دشمنی کی اور نظریاتی یلغار بھی کی لیکن ان سب میں انھیں ہزیمت اٹھانی پڑی۔

 

اسلامی جمہوریہ اور اس کی اسلامیت پر ضرب لگانے کے لیے دشمنوں اور مخالفین کی مختلف سازشیں

افسوس کی بات ہے کہ ایسے لوگ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں جو دشمنوں کی باتوں کو کسی نہ کسی طرح ملک کے اندر دوہراتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے: 'آئيڈیالوجی کا خاتمہ'۔ یہ وہی مخالفین کی بات ہے۔ آئيڈیالوجی کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اور مذہبی ڈیموکریسی کے سلسلے میں اسلام اور اسلامی افکار کو کنارے رکھ دیں اور اسی منحرف اور فاسد لبرل ڈیموکریسی کی سوچ کو اپنا لیں، جس نے آج پوری دنیا کے لوگوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ کچھ لوگ کسی دوسرے رخ سے بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دین کا تقدس اس میں ہے کہ وہ کنارے چلا جائے، یہ وہی بات ہے جو انقلاب کے آغاز میں کہی جاتی تھی۔ یہ دشمن کی بات بھی ہے اور ساتھ ہی انھی باتوں کی تکرار بھی ہے جو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور انقلاب کے آغاز میں کہی جاتی تھیں۔ کچھ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ "اگر ہم اسلامی اصولوں کی پابندی کرنا چاہیں تو یہ جمہوریت سے میل نہیں کھاتی" یہ بات بھی اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کے دشمنوں کی باتوں کا ہی حصہ ہے لیکن ممکن ہے کہ بعض افراد، غفلت کی وجہ سے یہ بات کہہ رہے ہوں۔ میں یہ الزام نہیں لگاتا کہ جو بھی یہ بات کرے گا، وہ یقینی طور پر دشمن کا پٹھو ہے، نہیں! ممکن ہے کہ کبھی یہ بات غفلت کی وجہ سے کہی جائے لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بات، دشمن کی بات ہے اور دشمن چاہتا ہے کہ اسلامیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ کچھ لوگ جمہوریت کے لیے ہمدردی دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "جناب! جمہوریت کا جنازہ نکل گیا" لیکن اصل میں یہ لوگ جمہوریت کے زیادہ ہمدرد نہیں ہیں، یہ اسلامیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اسلام کو کنارے لگانا چاہتے ہیں تاکہ اس کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ حقیقت میں یہ بہت بڑی بھول ہوگي کہ ہم جمہوریت کو اسلامی افکار اور روح اسلامی سے دور کر دیں۔

آئين نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ آئين میں سیاسی و مذہبی افراد کو صدر، حکومت کے سربراہ اور مجریہ کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کے تمام مسائل سپرد کیے گئے ہیں۔ یہ 'سیاسی و مذہبی افراد' کی قید کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ وہ سیاست کے میدان میں ملک کی مصلحت کو مد نظر رکھ سکیں، عوام کے اعتقادات اور عوام کے دین کے میدان میں لوگوں کی ہدایت اور مدد بھی کر سکیں اور دونوں میدانوں میں عاقلانہ طریقے سے کام کر سکیں۔ اسی طرح سے تقوی اور امانت داری کا مسئلہ، جس پر آئين میں تاکید کی گئي ہے، بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور آئين نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔

 

انتخابات میں عدم شرکت یعنی نظام کی اسلامیت اور جمہوریت؛ دونوں ارکان کو کمزور بنانا

آج کل انتخابات کے ایام ہیں اور ہم انتخابات کے قریب ہیں۔ بحمد اللہ الیکشن کا ماحول دھیرے دھیرے رنگ پکڑ رہا ہے۔ بعض لوگ ہیں جو بے بنیاد بہانوں سے الیکشن میں شرکت کے فریضے کو انجام نہیں دینا اور اسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام، دشمنوں کی خواہش کے مطابق ہے جو ایران کے دشمن ہیں، اسلام کے دشمن ہیں اور مذہبی جمہوریت کے دشمن ہیں۔ یہ دونوں ارکان نمایاں طور پر نظر آنے چاہیے؛ جمہوریت بھی اور اسلامیت بھی۔ ان میں سے جسے بھی کمزور بنایا جائے گا، یقینی طور پر اسلام اور ایران، دونوں کو نقصان پہنچے گا، دونوں پر دشمن کی ضرب لگے گي۔

 

موجودہ مسائل کا حل، صحیح انتخاب سے ہوگا، عدم انتخاب سے نہیں

کچھ جملے میں موجودہ الیکشن کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ، معاشی دباؤ کی وجہ سے، جسے ہم سب جانتے اور محسوس کرتے ہیں، اس شش و پنج میں ہیں کہ الیکشن میں حصہ لیں یا نہ لیں؛ یا بعض افراد کہہ رہے ہیں کہ "ہم نے کسی الیکشن میں کسی امیدوار کو بڑے ولولے اور شوق سے ووٹ دیا لیکن بعد میں ہمیں ناراضگي ہی اٹھانی پڑی! اس لیے بہتر ہے کہ الیکشن میں شرکت ہی نہ کریں۔" اس طرح کی اور بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ دلیلیں صحیح نہیں ہیں۔ یہ باتیں، انتخابات میں شرکت کے ہمارے جوش کو کم نہ کریں۔ اگر مسائل ہیں، اگر نااہلی ہے تو ہم صحیح انتخاب اور اچھے انتخاب کے ذریعے اس کی تلافی کریں، نہ کہ عدم انتخاب سے۔ اگر واقعی انتظامی امور میں کوئي کمزوری ہے تو اس کا علاج اور چارۂ کار کیا ہے؟ چارۂ کار یہ ہے کہ ہم انتظامی امور میں بالکل بھی مداخلت ہی نہ کریں یا چارۂ کار یہ ہے کہ ہم مداخلت کریں اور ایک اچھی اور صحیح انتظامیہ کو وجود میں لائيں جو حقیقی معنی میں اسلامی بھی ہو اور عوامی بھی ہو؟ اس کا چارۂ کار یہی ہے نا؟ مطلب یہ کہ اگر کوئي ناراضگی ہے تو اس کی اس طرح تلافی کی جائے، انتخاب میں شرکت ہی نہ کرنے سے تو تلافی نہیں ہوگي۔

 

امیدواروں کی پچھلی کارکردگي سے ان کی اہلیت اور نعروں کی سچائي کا جائزہ لیا جائے

الیکشن میں بہت زیادہ غور کیا جانا چاہیے۔ میں زور دے کر کہتا ہوں کہ باتوں اور وعدوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسروں کے سلسلے میں بھی ہم یہی بات کرتے ہیں، غیر ملکیوں کے بارے میں جو ہمیشہ صرف بات اور وعدے ہی کرتے ہیں، میں اسی ایٹمی مسئلے میں، جس پر مذاکرات جاری ہیں، محترم عہدیداروں سے ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ باتوں اور وعدوں پر اعتماد نہ کریں۔ بات تو عمل سے ہی بنتی ہے۔ بولنے، بات کرنے اور وعدہ کرنے پر تو بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے اہم مسائل میں بھی ایسا ہی ہے۔ بولنا تو بہت آسان ہے۔ کوئي بھی آ کر ایک دعوی کرتا ہے، ایک وعدہ کرتا ہے، ایک بات کہتا ہے، ان پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا پڑے گا کہ ماضی میں اس شخص کا کوئي ایسا عمل ہے یا نہیں جو اس کے وعدے کی تصدیق کر سکے؟ اگر ہے تو اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ بنابریں کسی کی اہلیت اور اس کے کارآمد ہونے کو صرف باتوں سے طے نہیں کیا جا سکتا۔

 

امیدواروں کے لیے کچھ نکات: (1) بغیر سوچے سمجھے وعدہ کرنے سے گریز

مجھے خود محترم امیدواروں سے بھی کچھ توقعات ہیں جنھیں میں عرض کر رہا ہوں۔ ایسے وعدے نہ کریں جنھیں پورا کرنے کا انھیں، یقین نہ ہو۔ یہ وعدے ملک کے لیے نقصان دہ ہیں؛ کیوں؟ اس لیے کہ آپ کوئي وعدہ کریں گے اور پھر اگر آپ صدر بن گئے اور اس وعدے کو پورا نہیں کیا تو آپ عوام کو مایوس کریں گے، عوام کو نظام کی طرف سے مایوس کریں گے، انتخابات کی طرف سے مایوس کریں گے۔ بنابریں ایسے وعدے کرنا جائز نہیں ہے جنھیں پورا کرنے کا امیدواروں کو یقین نہ ہو۔ البتہ وہ ایسے وعدے کر سکتے ہیں جو پوری طرح سے واضح ہیں، مسلّم ہیں اور متعلقہ لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ وعدے پورے ہو سکتے ہیں لیکن ایسے وعدے نہیں کیے جانے چاہیے کہ "میں یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا" مگر ان کی کوئي سپورٹ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے عوام کو مایوسی ہوتی ہے اور یہ گناہ ہے۔

 

(2) ایسے نعرے پیش کرنے سے پرہیز جن پر خود ہی عقیدہ نہ ہو

صدارتی الیکشن کے محترم امیدواروں سے ایک توقع یہ بھی ہے کہ وہ ایسے ہی نعرے پیش کریں گے جن پر ان کا عقیدہ ہو۔ ہم افراد کو پہچانتے ہیں، جانتے ہیں کہ شاید دل میں وہ اس نعرے کو تسلیم ہی نہ کرتے ہوں؛ یہ صحیح نہیں ہے، عوام کے ساتھ ایمانداری سے پیش آنا چاہیے۔ خدانخواستہ ایسے نعرے نہ لگائے جائیں، جن پر خود امیدوار ہی کو یقین نہیں ہے۔

 

(3) امیدواروں کی جانب سے سماجی انصاف، بدعنوانی سے مقابلے، ملکی پیداوار کی مضبوطی کی پابندی

امیدواروں سے ایک اور توقع یہ ہے کہ وہ ٹھان لیں کہ اگر الیکشن میں کامیاب ہوئے تو اپنے آپ کو کچھ باتوں کا پابند سمجھیں گے۔ پہلی چیز یہ کہ سماجی انصاف قائم کرنے اور غریب و امیر کے فاصلے کو کم کرنے کے پابند رہیں گے۔ یعنی اس کام کو اپنے سب سے بنیادی کاموں میں قرار دیں گے۔ دوسرے یہ کہ بغیر کسی تکلف کے، بغیر کسی کا خیال کیے ہوئے بدعنوانی سے مقابلہ۔ خود کو اس کا پابند سمجھیں کہ وہ بدعنوانی سے مقابلہ کریں گے، خود کو اس کا پابند سمجھیں کہ وہ ملکی پیداوار کو تقویت پہنچائیں گے۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے اور یہ معاشیات کے ماہرین کی بھی رائے ہے، حقیر نے بھی اس بات پر کئي بار تاکید کی ہے کہ ملک کے اقتصادیات کی نجات کا راستہ، ملکی پیداوار کی تقویت ہے۔ ملکی پیداوار کی تقویت، اسمگلنگ کی روک تھام، بے لگام درآمدات پر روک، ان لوگوں سے مقابلہ جو درآمدات کے ذریعے اپنی جیب بھرتے ہیں اور ملکی پیداوار کے ذریعے درآمدات کو روکنے نہیں دینا چاہتے بلکہ درآمدات کے ذریعے ملکی پیداوار کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ امیدوار، اس طرح کے مقابلوں کو اپنے بنیادی اہداف میں سمجھیں اور اس کی پابندی کا وعدہ کریں۔ یہ آج کے امیدوار صاحب اپنے آپ کو اس کا پابند ظاہر کریں اور کھل کر کہیں کہ وہ اس کے پابند ہیں تاکہ اگر وہ الیکشن جیت گئے اور انھوں نے اپنے اس وعدے پر عمل نہیں کیا تو نگرانی کرنے والے ادارے ان سے سوال کر سکیں اور ان سے پوچھ سکیں کہ جناب آپ نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟

 

تمام لوگوں کی جانب سے سبھی کو الیکشن میں حصہ لینے کی دعوت دیے جانے کی ضرورت

میں نے پچھلے ہفتے(15) مجلس شورائے اسلامی کے محترم اراکین سے بات کی تھی اور ایک جملہ کہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ جو لوگ اچھے مقرر ہیں وہ عوام کو الیکشن میں شرکت کی ترغیب دلائیں۔ یہ بات میں نے وہاں کہی تھی۔ اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ذمہ داری صرف ان لوگوں کی نہیں ہے جو اچھا بولتے ہیں بلکہ یہ عوام کے تمام طبقوں اور تمام افراد کی ذمہ داری ہے کہ خود تو الیکشن میں شرکت کریں ہی، دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ یہ حق کی تلقین ہے جو قرآن مجید میں ہے: "و تواصوا بالحق" (16) (اور وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے۔) یہ سب کا فریضہ ہے اور سبھی اسے انجام دیں، اہل خانہ، دوست، ساتھ کام کرنے والے، ساتھی اور جن سے بھی آپ کا سروکار ہے، سب کو الیکشن میں شرکت کی دعوت دیجیے۔

 

جن افراد کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئي ان میں سے بعض کے اعادۂ حیثیت عرفی کی ضرورت

میری باتیں پوری ہو گئيں۔ ایک ضروری انتباہ ہے جو میں اپنی باتوں کے آخر میں دینا چاہتا ہوں، یہ ایک دینی اور انسانی کام ہے، وہ انتباہ یہ ہے: امیدواروں کی اہلیت کی توثیق نہ ہونے کے عمل میں بعض افراد پر ظلم ہوا، ان کے بارے میں یا ان کے اہل خانہ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہی گئيں جن کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ کچھ قابل احترام اور پاکيزہ گھرانوں کو اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ غلط رپورٹیں تھیں اور بعد میں پوری طرح سے عیاں ہو گيا کہ وہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن وہ لوگوں کی زبانوں پر آ گئيں اور افسوس کہ انھیں سوشل میڈیا پر ڈال دیا گيا۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ سوشل میڈیا ہر نظارت سے آزاد ہے اور سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اس کی ایک مثال یہی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ طریقے سے ان چیزوں کو پیش کر دیا گيا۔ لوگوں کی عزت کی حفاظت کلیدی مسائل میں سے ہے، سب سے اہم انسانی حقوق میں سے ہے۔ میری درخواست ہے اور ذمہ دار اداروں سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اس کی تلافی کریں۔ کسی کے بچے یا اس کے گھرانے کے بارے میں کوئي غلط رپورٹ دی گئي اور بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ غلط تھی، اس کی تلافی کی جائے اور اعادہ حیثیت عرفی کیا جائے۔

خداوند عالم ہمیں گناہ، ظلم اور مومن کی اہانت سے محفوظ رکھے۔ خداوند متعال ہمیں اپنے فریضوں کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھے۔ خداوند عالم اپنے فضل اور اپنی رحمت سے اپنی وسیع رحمتوں کو امام خمینی کے شامل حال قرار دے، انھیں اپنے اولیائے عظام کے ساتھ محشور کرے اور برزخ و قیامت میں انھیں ہم سے راضی کرے۔ خداوند عالم شہداء کی پاکیزہ ارواح کو ہم سے خوشنود رکھے اور اپنے فضل و کرم سے ہمیں ان سے ملحق کرے۔ خداوند عالم ایرانی قوم کو نیکیاں نصیب کرے، اس الیکشن کو اس قوم کے لیے مبارک قرار دے اور اسے ان انتخابات میں قرار دے جنھوں نے دشمن کو دھول چٹائي ہے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوگا، ان شاء اللہ۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

(1) ایران کا قومی محاذ

(2) چھٹی مجلس شورائے اسلامی کے بعض اراکین

(3) امریکہ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی؛ جان بولٹن

(4) سورۂ نساء، آيت 64

(5) سورۂ توبہ، آیت 12 (اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ...)

(6) جامع‌الاخبار، صفحہ 119

(7) کافی، جلد 2، صفحہ 163

(8) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 216

(9) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 3

(10) نہج البلاغہ، خط نمبر 31،

(11) نہج البلاغہ، خطبۂ صفین

(12) قدیم فلاسفہ کے ایک گروہ کا نام جو ہر مکتب سے فلسفے کا کوئي نہ کوئي اصول لے کر اپنے نام سے فلسفی اقوال تیار کر لیا تھا۔ یہاں مراد ایسے افراد ہیں جو اسلام کے نام پر دوسرے مکاتب کے افکار پیش کرتے ہیں۔

(13) صحیفۂ امام خمینی، جلد نمبر 21، صفحہ نمبر 240، اسلامی انقلاب کی تاریخ کی تدوین کے لیے سید حمید روحانی کے نام لکھا گيا خط (5/1/1989)

(14) صحیفۂ امام خمینی، جلد نمبر 21، صفحہ نمبر 422

(15) مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے اراکین سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب  (27/5/2021)

(16) سورۂ عصر، آيت نمبر 3