فلسطین کے اسکول و کالج کے طلباء، ٹیچروں، اسکول اسٹاف اور یونیورسٹی کے اساتذہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے بارے میں فلسطین کی تعلیم و اعلیٰ تعلیم کی وزارت کی رپورٹ:
دنیا کو غزہ کے مسئلے میں زیادہ سنجیدگي سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومتوں کو، اقوام کو، مختلف میدانوں میں فکری و سیاسی شخصیات کو پوری سنجیدگي سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ پھر اس سوچ کے ساتھ انسان سمجھ سکتا ہے کہ امریکی کانگریس نے پرسوں اپنی کتنی بڑی رسوائي کرائي کہ وہ اس مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھی اور اس کی باتیں سنیں۔ یہ بہت بڑی رسوائي ہے۔
امام خامنہ ای
28 جولائی 2024
رہبر انقلاب اسلامی نے حجاج کرام کے نام پیغام میں پوری معاصر تاریخ میں غزہ میں ہونے والے سب سے وحشیانہ جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکہ سے اظہار برائت اس سال موسم و میقات حج سے آگے بڑھ کر مسلمان نشین ملکوں اور شہروں میں اور ساری دنیا میں جاری رہنا چاہئے اور ہر فرد تک اسے پہنچنا چاہئے۔"
میلبورن آسٹریلیا کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ابو القاسم رضوی نے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے اس سال کے حج کو حج برائت کا نام دیے جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
آپ غور کیجئے! اسرائیل کی زبانی مخالفت کرنے پر امریکا کیسا برتاؤ کر رہا ہے۔ امریکی طلبہ نے نہ تو کوئی تخریبی نعرے لگائے، نہ کسی کو قتل کیا، نہ کہیں آگ زنی کی۔ پھر بھی ان سے اس طرح پیش آ رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
جب وہ ہمارے قونصل خانے پر حملہ کرتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ دنیا میں عام سوچ ہے۔ خبیث حکومت نے اس قضیے میں غلطی کی ہے۔ اسے سزا ملنی چاہیے اور سزا ملے گی۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے 5 مارچ 2024 کو ایران میں یوم شجرکاری کی مناسبت سے تین پودے لگائے جن میں سے ایک زیتون کا پودا تھا۔ انھوں نے زیتون کا پودا لگانے کے بعد کہا کہ "زیتون کا درخت لگانے کا مقصد فلسطین کے عوام سے یکجہتی اور ہمدلی کا اظہار ہے کہ وہ جگہ زیتون کا مرکز ہے اور ہم دور سے ان مظلوم، عزیز اور مجاہد عوام کو سلام کرنا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ہر طرح سے آپ کو یاد کرتے ہیں، جیسے یہ کہ آپ کی یاد میں زیتون کا درخت لگاتے ہیں۔"
مغرب میں کچھ لوگ زبان سے تو کہتے ہیں کہ اسرائیل کیوں قتل عام کر رہا ہے، زبانی حد تک یہ بات کہہ دیتے ہیں لیکن عمل میں اس کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسلحہ دیتے ہیں، اس کی ضرورت کا سامان مہیا کراتے ہیں۔
امام خامنہ ای
یہ جنگ غزہ اور اسرائیل کی جنگ نہیں حق و باطل کی جنگ ہے، استکبار و ایمان کی جنگ ہے۔ استکبار بموں، فوجی دباؤ، المئے اور جرائم لیکر آگے آتا ہے اور قوت ایمان توفیق الہی سے ان سب پر غلبہ حاصل کرے گی۔
امام خامنہ ای
غزہ کے عوام نے اپنے صبر و ضبط سے پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں عوام کا سیلاب نکلتا ہے اور اسرائیل کے خلاف اور امریکی حکومت کے خلاف نعرے لگاتا ہے۔
امام خامنہ ای
ٹھیک ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بڑا الٹ پھیر شروع ہو گيا ہے۔ وہ لوگ جو اس کا حصہ ہوتے ہیں وہ اکثر اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسے "بوائلنگ فراگ سنڈروم" کہا جاتا ہے۔ خیر، آپ ذرا سا زوم کیجیے تو آپ پائيں گے کہ پرانے نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ کسی نے کبھی بالکل صحیح کہا تھا کہ مغربی نظام کا بکھراؤ سلطنت روم کا شیرازہ بکھرنے کی طرح ہی ہے لیکن ہم اس نظارے کا انٹرنیٹ پر ریئل ٹائم لطف لے سکتے ہیں۔
غزہ کے عوام نے اپنے صبر و ضبط سے پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ خود مغربی ممالک میں، برطانیہ، فرانس اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں عوام کا سیلاب نکلتا ہے اور اسرائیل کے خلاف اور امریکی حکومت کے خلاف نعرے لگاتا ہے۔ دنیا میں یہ لوگ بے عزت ہو گئے۔
امام خامنہ ای
میدان (جنگ) غزہ و اسرائیل کے درمیان (جنگ) کا میدان نہیں، حق و باطل (کے درمیان جنگ) کا میدان ہے۔ میدان استکبار اور ایمان (کے بیچ مقابلے) کا میدان ہے۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے آج صبح ہزاروں اسکولی اور یونیورسٹی طلبہ سے ملاقات میں ملت ایران کے خلاف امریکہ کی دیرینہ دشمنی کی وجوہات کی نشاندہی کی اور غزہ میں صیہونیوں اور امریکیوں کے ہاتھوں رونما ہونے والے انسانی المیے کو تاریخ میں عدیم المثال قرار دیا۔
مسلم اقوام غضبناک ہیں، عوامی گروہوں کے اجتماع، صرف اسلامی ملکوں میں ہی نہیں بلکہ لاس اینجلس میں، ہالینڈ میں، فرانس میں، یورپی ملکوں میں، مسلمان اور غیر مسلم دونوں۔ لوگ غصے میں ہیں۔
امام خامنہ ای
یہ آفت، خود صیہونیوں نے اپنی ریشہ دوانیوں سے خود اپنے سروں پر نازل کی ہے۔ جب مظالم و جرائم حد سے گزر جائیں، جب درندگي اپنی حد پا کر لے تو پھر طوفان کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
اسرائیل کا مسئلہ نہ صرف خود اپنے عوام کے لئے بلکہ پورے علاقے کے امن و تحفظ کے لئے ایک خطرہ ہے؛ چونکہ صیہونیوں کے پاس اس وقت بھی ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور وہ مزید ایٹمی اسلحے تیار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی کئی مرتبہ ان کو خبردار کیا ہے لیکن انھوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ البتہ اس کی بڑی وجہ، امریکہ کی پشتپناہی ہے، یعنی غاصب صہیونی حکومت کی کرتوتوں کا گناہ بہت بڑی مقدار میں امریکی حکومت کی گردن پر ہے۔ امریکہ جو خود کو اس قدر امن پسند ظاہر کرتا ہے اور بعض اوقات اپنی زہریلی مسکراہٹ ہماری شریف و مظلوم قوم سمیت تمام قوموں کے خلاف بکھیرتا ہے، فلسطین کے مسئلے میں پہلے درجے کا مجرم ہے۔ اس کے (لاتعداد) گناہوں میں، ایک گناہ یہ بھی ہے۔ آج امریکہ کے ہاتھ پوری طرح فلسطینیوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ علاقے کے ملکوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ آج اسرائیل کا وجود اسلامی لحاظ سے، انسانی لحاظ سے، معاشی لحاظ سے، امن و سلامتی کے لحاظ سے اور سیاسی لحاظ سے علاقے کے ملکوں اور اقوام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
امام خامنہ ای
31 دسمبر 1999
فلسطین اور حالیہ مہینوں میں وہاں رونما ہونے والے واقعات پوری دنیا میں میڈیا اور عوام کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ ایک طرف غزہ کی لڑائی اور ویسٹ بینک کے حادثات زمینی سطح پر رونما ہوئے تو دوسری طرف صیہونی حکومت کے اندر اعتراضات اور افراتفری کی لہر دکھنے میں آئی۔ یہ سب چیزیں اور نشانیاں فلسطین کے منظر نامہ پر حالات میں بہت اہم تبدیلی کی عکاس ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ مہینے پہلے، فلسطین کے سیاسی منظرنامہ پر رونما ہونے والے واقعوں کے تجزيے میں ان حالات کے تعلق سے بہت اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس بارے میں انکی تجزیاتی نگاہ و روش کے تحت پچھلے کچھ مہینوں کے حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
حقیقی معنی میں صیہونی حکومت سیاسی کمزوری اور تزلزل کا شکار ہے۔ ان کے حکام لگاتار اور مسلسل انتباہ دے رہے ہیں کہ عنقریب ہی شیرازہ بکھر جائے گا۔ ان کا صدر کہہ رہا ہے، ان کا سابق وزیر اعظم کہہ رہا ہے، ان کا سیکورٹی چیف کہہ رہا ہے، ان کا وزیر دفاع کہہ رہا ہے، وہ سبھی کہہ رہے ہیں کہ عنقریب ہی ہمارا شیرازہ بکھر جائے گا اور ہم اسّی سال کے نہیں ہو پائيں گے۔ ہم نے کہا تھا "تم اگلے پچیس سال نہیں دیکھ پاؤگے" لیکن ان کو تو (مٹ جانے کی) اور بھی جلدی پڑی ہے۔
امام خامنہ ای
4 اپریل 2023
فلسطینی عوام کی اندرونی مزاحمت، اس پیشرفت کا اصل سبب ہے۔ یہ مزاحمت و استقامت جتنی زیادہ ہوگي، صیہونی حکومت اتنی ہی زیادہ کمزور ہوگي، اس کی کمزوریاں زیادہ نمایاں ہوتی جائيں گي۔
امام خامنہ ای
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل رو بہ زوال ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اس حقیقت کے شواہد و قرائن پیش کئے۔ اس انفوگرافکس میں انھیں شواہد کا احاطہ کیا گيا ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد للّه ربّ العالمین و صلوات اللّه و تحیّاته علی سیّد الانام محمّدٍ المصطفی و آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
قال الله الحكيم في كتاب المبين:
»وَلا تَهِنوا وَلا تَحزَنوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ» و قال عزّ مَن قائِلٌ:
»فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ. «
سب سے پہلے تو میں آپ تمام عزیز مہمانوں، پارلیمانی اسپیکروں، مختلف فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں، دانشوروں، عالم اسلام کی فرزانہ ہستیوں، نمایاں شخصیات اور تمام آزاد منش انسانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس اجلاس میں آپ کی شرکت کی قدردانی کرتا ہوں۔
فلسطین کا غمناک قصہ اور اس صابر، بردبار اور استقامت کی پیکر قوم کی جانکاہ مظلومیت، واقعی ہر حریت پسند، حق پرست اور انصاف پسند انسان کو آزردہ خاطر کر دیتی ہے اور دل کو درد و رنج کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔
فلسطین، اس پر غاصبانہ قبضے، دسیوں لاکھ انسانوں کی (جبری) نقل مکانی اور اس چیمپیئن قوم کی دلیرانہ استقامت کی تاریخ نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔ ہوشمندانہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کے کسی بھی حصے میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس رنج و اندوہ اور ایسے ظالمانہ اقدامات سے روبرو نہیں ہوئی کہ علاقے سے باہر رچی جانے والی ایک سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل طور سے قبضہ ہو جائے، پوری قوم کو اس کے گھر بار سے بے دخل کر دیا جائے اور اس کی جگہ پر دنیا میں چہار سو سے جمع کرکے ایک گروہ کو بسا دیا جائے۔ ایک حقیقی وجود کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایک جعلی وجود کو دے دی جائے۔ یہ تاریخ کے ناپاک اوراق میں سے ایک ورق ہے جو دیگر سیاہ ابواب کی طرح اذن پروردگار اور نصرت خداوندی سے بند ہو جائے گا۔ کیونکہ؛
«إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا و قال؛ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ»
آپ کی یہ کانفرنس دشوار ترین علاقائی اور عالمی حالات میں منعقد ہو رہی ہے۔ ہمارا علاقہ جو عالمی سازش کے خلاف فلسطینی قوم کی جدوجہد کا ہمیشہ پشت پناہ رہا ہے، ان دنوں بدامنی اور گوناگوں بحرانوں سے دوچار ہے۔ علاقے کے متعدد اسلامی ممالک میں موجودہ بحرانوں کی وجہ سے فلسطینی کاز اور قدس کی آزادی کی مقدس خواہش کی حمایت متاثر ہوئی ہے۔ ان بحرانوں کے نتیجے پر توجہ دینے سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان سے فائدہ اٹھانے والی طاقتیں کون ہیں؟ وہی جنھوں نے اس علاقے میں صیہونی حکومت کو وجود عطا کیا ہے تاکہ ایک طویل المیعاد تصادم مسلط کرکے اس علاقے کے استحکام، ثبات اور ترقی کا راستہ مسدود کر دیں۔ آج بھی موجودہ فتنوں کے پیچھے وہی کارفرما ہیں۔ ان فتنوں کے پیچھے جن کے باعث علاقے کی قوموں کی توانائیاں عبث اور بے معنی جھڑپوں میں ایک دوسرے کو بے اثر بنانے میں صرف ہو رہی ہیں اور جب ساری ریاستیں ناکام ریاستیں بن جائیں گی تو پھر صیہونی حکومت کو اپنی زیادہ سے زیادہ تقویت کا موقع مل جائے گا۔ اسی طرح ان حالات میں ہم امت مسلمہ کے خیر خواہوں، مدبروں اور دانشمندوں کی مساعی کے بھی شاہد ہیں جو پوری دلسوزی کے ساتھ ان اختلافات کو حل کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، لیکن افسوس کہ دشمن کی پیچیدہ سازشیں بعض حکومتوں کی غفلتوں کی وجہ سے قوموں پر خانہ جنگی مسلط کرنے، قوموں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کرنے اور امت مسلمہ کے خیر خواہوں کی مساعی کی تاثیر کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں سب سے اہم چیز مسئلہ فسطین کی پوزیشن کو کمزور کرنے اور اسے ترجیحات سے خارج کر دینے کی کوشش ہے۔ مسلم ممالک میں جو آپسی اختلافات ہیں، جن میں بعض فطری اور بعض دشمن کی سازش کا نتیجہ اور بعض دیگر غفلت کی دین ہیں، ان تمام اختلافات کے باوجود مسئلہ فلسطین سب کے اتحاد کا محور ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے! اس اہم کانفرنس کا ایک ثمرہ عالم اسلام اور دنیا کے حریت پسندوں کی سب سے اہم ترجیح یعنی مسئلہ فلسطین کو زیر بحث لانا اور فلسطینی عوام اور ان کی حق بجانب اور انصاف پسندانہ جدوجہد کی حمایت کے اعلی ہدف کا حصول ہے۔ فلسطینی عوام کی سیاسی حمایت سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے جو آج کی دنیا میں خصوصی ترجیح رکھتی ہے۔ الگ الگ فکری رجحان اور مزاج کی مالک مسلم اقوام اور تمام حریت پسند ایک ہدف کے گرد مجتمع ہو سکتے ہیں اور وہ ہدف ہے فلسطین اور اس کی آزادی کی سعی و کوشش کی ضرورت۔ صیہونی حکومت کے سقوط کے آثار نمایاں ہو جانے اور اس کے حامیوں بالخصوص ریاستہائے متحدہ امریکا پر چھانے والی کمزوری کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے کہ رفتہ رفتہ عالمی ماحول بھی صیہونی حکومت کے معاندانہ، غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات سے مقابلے کی جانب مائل ہو رہا ہے۔ البتہ عالمی برادری اور علاقے کے ممالک اس انسانی مسئلے کے سلسلے میں اپنے فرائض پر ہنوز عمل نہیں کر سکے ہیں۔
فلسطینی عوام کی وحشیانہ سرکوبی، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، اس قوم کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں کالونیوں کی تعمیر، مقدس شہر قدس اور مسجد الاقصی، اسی طرح اس شہر میں واقع دیگر اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی شناخت اور ماہیت تبدیل کرنے کی کوششیں، شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور دوسرے بہت سے مظالم بدستور جاری ہیں اور انھیں ریاستہائے متحدہ امریکا اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور افسوس کہ اس پر عالمی سطح پر مناسب رد عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ ملت فلسطین کو یہ افتخار حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر احسان کیا اور اس مقدس سرزمین اور مسجد الاقصی کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی۔ اس قوم کے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اپنی ذاتی توانائيوں پر اعتماد کرتے ہوئے جدوجہد کے شعلوں کو اسی طرح قائم رکھے اور انصاف سے دیکھا جائے تو اس قوم نے اب تک یہ کام انجام بھی دیا ہے۔
تحریک انتفاضہ جو اس وقت مقبوضہ علاقوں میں تیسری دفعہ شروع ہوئی ہے، ماضی کی دونوں انتفاضہ تحریکوں سے زیادہ مظلوم ہے، لیکن درخشندگی اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اذن پروردگار سے آپ دیکھیں گے کہ یہ تحریک انتفاضہ جدوجہد کی تاریخ میں بڑا اہم مرحلہ رقم کریگی اور غاصب حکومت کے ماتھے پر ایک اور شکست چسپاں کر دیگی۔ یہ سرطان شروع سے اب تک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کا علاج بھی مرحلہ وار ہے اور چند انتفاضہ تحریکوں اور بے وقفہ مزاحمت نے بڑے اہم مراحل کے اہداف حاصل کر لئے ہیں اور وہ اسی طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے تاکہ فلسطین کی مکمل آزآدی تک اپنے بقیہ اہداف بھی پورے کرے۔
عظیم ملت فلسطین جو عالمی صیہونزم اور اس کے غنڈہ صفت حامیوں سے مقابلے کا سنگین بوجھ اکیلے ہی اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے، صابر، بردبار ساتھ ہی مستحکم اور ثابت قدم ہے اور اس نے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو موقع دیا ہے کہ کہ وہ اپنے دعوؤں کو عملی طور پر صحیح ثابت کریں۔ جس زمانے میں 'حقیقت پسندی' کے دعوے کے نام پر اور کم ترین حقوق کو بھی ہاتھ سے نکل جانے سے بچانے کے لئے کم ترین حقوق پر رضامندی ظاہر کر دینے کی ضرورت کے دعوؤں کے ساتھ آشتی کی تجویز بڑی سنجیدگی کے ساتھ پیش کی گئی، ملت فلسطین یہاں تک کہ ان تنظیموں نے بھی جن کی نظر میں اس نظرئے کا غلط ہونا پہلے سے ہی مسلم الثبوت تھا، اسے ایک موقع دیا۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع ہی سے ساز باز کر لینے کی اس روش کو غلط قرار دیا تھا اور اس کے زیاں بار نتائج اور نقصانات گوشزد کر دئے تھے۔ ساز باز کی اس روش کو جو موقع دیا گیا اس سے ملت فلسطین کی استقامت و جدوجہد کے عمل پر تخریبی اثرات مرتب ہوئے، تاہم اس کا واحد فائدہ نام نہاد حقیقت پسندی کے تصور کے بطلان کا اثبات تھا۔ بنیادی طور پر صیہونی حکومت کی تشکیل کا طریقہ اور روش ایسی ہے کہ وہ توسیع پسندی، سرکوبی اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی سے باز نہیں آ سکتی۔ اس لئے کہ اس کا وجود اور تشخص فلسطین کے وجود اور تشخص کی بتدریج نابودی پر منحصر ہے۔ کیونکہ صیہونی حکومت کا نا جائز وجود اسی صورت میں جاری رہ سکتا ہے جب فلسطین کے وجود اور شناخت کے ویرانوں پر اس کی بنیاد رکھی جائے۔ اس لئے فلسطینی تشخص کی حفاظت اور اس فطری و برحق شناخت کی تمام نشانیوں کی پاسداری واجب، ضروری اور مقدس جہاد ہے۔ جب تک فلسطین کا نام، فلسطین کا ذکر اور اس ملت کی ہمہ جہتی استقامت کا شعلہ فروزاں دہکتا رہے گا، اس وقت تک غاصب حکومت کی بنیادوں کا مستحکم ہو پانا نا ممکن ہے۔
آشتی کی روش کی خرابی صرف یہ نہیں ہے کہ ایک ملت کے حقوق کو نظر انداز کرکے غاصب حکومت کو قانونی حیثیت دیتی ہے، البتہ یہ بھی اپنے آپ میں بہت بڑی اور ناقابل معافی غلطی ہے، بلکہ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کی موجودہ پوزیشن سے اس کی کوئی مطابقت نہیں ہے اور یہ روش صیہونیوں کی توسیع پسندانہ اور حریصانہ خصلتوں اور سرکوبی کی روش کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔ تاہم اس ملت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ساز باز کے طرفداروں کے دعوؤں کی نادرستگی کو ثابت کر دیا اور نتیجتا ملت فلسطین کے مسلمہ حقوق کی بازیابی کے لئے جد وجہد کی روش کی درستگی پر ملی اجماع قائم ہو گیا ہے۔
فلسطین کے عوام اپنی تین عشروں کی کارکردگی میں اب تک دو الگ الگ ماڈلوں کو آزما چکے ہیں اور اپنے حالات سے ان کی مطابقت کی سطح کو بھی سمجھ چکے ہیں۔ ساز باز کی روش کے مقابلے میں مقدس انتفاضہ کی پرافتخار اور مربوط مزاحمت کا ماڈل ہے جس نے اس ملت کو عظیم ثمرات سے بہرہ مند کیا ہے۔ بے وجہ نہیں ہے کہ ان دنوں ہم دیکھتے ہیں کہ ان مراکز کی طرف سے جن کی حقیقت سب جانتے ہیں، 'مزاحمت' پر حملہ ہوتا ہے یا 'انتفاضہ' پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ دشمن سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اسے بھی اس راستے کی درستگی اور اس کے نتیجہ بخش ہونے کا پورا علم ہے۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ بعض حلقے، یہاں تک کہ بعض ممالک بھی جو بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت کے دعویدار بھی ہیں، ملت فلسطین کو صحیح راستے سے منحرف کر دینے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مزاحمتی محاذ پر حملے کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ کئی عشرے گزر جانے کے بعد بھی مزاحمت کا راستہ اپنی آخری منزل یعنی فلسطین کی مکمل آزادی تک نہیں پہنچ سکا ہے، لہذا اس روش پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے! اس کے جواب میں کہنا چاہئے کہ یہ صحیح ہے کہ مزاحمت ہنوز اپنا آخری ہدف یعنی فلسطین کی مکمل آزادی حاصل نہیں کر سکی ہے، لیکن مزاحمت کی روش مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو آج ہم کن حالات میں ہوتے؟ مزاحمت کی سب سے بڑی کامیابی صیہونی پروجیکٹوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ مزاحمت کی روش دشمن پر ایک تھکا دینے والی جنگ مسلط کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یعنی اس روش نے پورے علاقے پر تسلط قائم کر لینے کے صیہونی حکومت کے منصوبے کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس عمل میں ہمیں بجا طور پر مزاحمتی روش اور ان جانبازوں کی قدردانی کرنا چاہئے جنھوں نے مختلف ادوار میں اور صیہونی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی دور میں بھی مزاحمت کا راستہ اپنایا وار اپنی جانیں قربان کرکے مزاحمت کے پرچم کو بلند رکھا اور ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا۔ غاصبانہ قبضہ ہو جانے کے بعد کے ادوار میں مزاحمت کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اسی طرح سنہ 1352 ہجری شمسی مطابق 1973 عیسوی کی جنگ میں مختصر ہی سہی جو کامیابیاں ملیں ان میں مزاحمت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سنہ 1361 ہجری شمسی مطابق 1982 عیسوی سے عملی طور پر مزاحمت کی ذمہ داری فلسطین کے اندر موجود عوام کے دوش پر آن پڑی، اسی بیچ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک -حزب اللہ- کا طلوع ہوا جو فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کی مددگار بنی۔ اگر مزاحمت نے صیہونی حکومت کو زمیں بوس نہ کر دیا ہوتا تو آج ہم علاقے کی دیگر سرزمینوں، مصر سے لیکر اردن، عراق، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں تک اس کی جارحیت کا مشاہدہ کرتے۔ ہاں یہ بہت بڑا ثمرہ ہے، لیکن مزاحمت کا یہی واحد ثمرہ نہیں ہے، بلکہ جنوبی لبنان کی آزادی اور غزہ کی آزادی، فلسطین کو آزاد کرانے کے عمل کے دو اہم تدریجی اہداف کا حصول سمجھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع پسندی کا عمل برعکس سمت میں مڑ گیا۔ سنہ 60 ہجری شمسی مطابق 80 عیسوی کے عشرے کے اوائل سے لیکر بعد کے دور تک صیہونی حکومت نہ صرف یہ کہ نئی سرزمینوں پر قبضہ نہیں کر پائی بلکہ جنوبی لبنان سے اس کے ذلت آمیز انخلا سے صیہونی حکومت کی پسپائی کا عمل شروع ہوا اور غزہ سے اس کے انخلاء کی صورت میں پسپائی کا یہ عمل جاری رہا۔ کوئی بھی پہلی تحریک انتفاضہ میں مزاحمتی روش کے فیصلہ کن اور بنیادی کردار کا انکار نہیں کر سکتا۔ دوسری تحریک انتفاضہ میں بھی مزاحمت کا رول بنیادی اور نمایاں تھا، اس تحریک انتفاضہ میں جس نے سرانجام صیہونی حکومت کو غزہ سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ 33 روزہ جنگ لبنان اور 22 روزہ، 12 روزہ اور 51 روزہ غزہ کی جنگیں، سب مزاحمتی روش کے درخشاں صفحات ہیں جو علاقے کی تمام اقوام، عالم اسلام اور ساری دنیا کے حریت پسند انسانوں کے لئے باعث افتخار ہیں۔
33 روزہ جنگ میں ملت لبنان اور حزب اللہ کے شجاع مجاہدین کو کمک کی ترسیل کے تمام راستے عملی طور پر بند ہو گئے تھے، لیکن اللہ کی مدد سے اور لبنان کے مجاہد عوام کی عظیم توانائیوں کی مدد سے صیہونی حکومت اور اس کے اصلی حامی یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ کو شرمناک شکست اٹھانی پڑی اور اب وہ آسانی سے اس علاقے پر حملے کی ہمت نہیں کر پائیں گے۔ غزہ کے علاقے کی مستقل مزاحمت جو اب مزاحمتی محاذ کا ناقابل تسخیر قلعہ بن چکا ہے، پے در پے ہونے والی جنگوں میں یہ ثابت کر چکی ہے کہ صیہونی حکومت کے پاس ایک ملت کی قوت ارادی کے سامنے ٹکنے کی تاب نہیں ہے۔ غزہ کی جنگوں کے اصلی چیمپیئن وہ شجاع و ثابت قدم عوام ہیں جو کئی سال سے اقصادی محاصرے کا سامنا کرنے کے باوجود، ایمان کی طاقت پر تکیہ کرکے بدستور اس قلعے کا دفاع کر رہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں، جہاد اسلامی کی القدس بریگيڈ، حماس کی عز الدین قسام بریگیڈ، الفتح کی شہدائے الاقصی بریگیڈ اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کی ابو علی مصطفی بریگیڈ کی قدردانی کی جائے جنھوں نے ان جنگوں میں بڑا قیمتی رول نبھایا۔
معزز مہمانو!
صیہونی حکومت کی موجودگی سے لاحق خطرات سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے، اس لئے مزاحمتی محاذ کو اپنا عمل جاری رکھنے کے لئے تمام لازمی وسائل سے بہرہ مند ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں علاقے کی تمام اقوام اور حکومتوں اور دنیا بھر کے تمام حریت نوازوں کا فریضہ ہے کہ اس مجاہد قوم کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کریں، کیونکہ مزاحمت کی اصلی بنیاد ملت فلسطین کی استقامت و پائیداری ہے جس نے خود غیور اور مجاہد فرزندوں کی پرورش کی ہے۔ فلسطین کے عوام اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی ضرورتوں کی تکمیل بہت اہم اور حیاتی فریضہ ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے۔ اس عمل میں غرب اردن کے علاقے کے مزاحمتی محاذ کی بنیادی ضرورتوں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے جو اس وقت مظلومانہ تحریک انتفاضہ کا اصلی بوجھ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے۔ فلسطین کے مزاحمتی محاذ کو بھی ماضی سے عبرت لیتے ہوئے اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ 'مزاحمت اور فلسطین' کا قضیہ اس سے کہیں زیادہ با ارزش اور بالاتر ہے کہ وہ اسلامی یا عرب ممالک کے آپسی اختلافات، ملکوں کے داخلی تنازعات یا قومیتی اور مسلکی اختلافات میں خود کو الجھائے! فلسطینیوں، بالخصوص مزاحمتی تنظیموں کو چاہئے کہ اپنی اہم پوزیشن کو سمجھیں اور ان اختلافات میں نہ پڑیں! تمام اسلامی اور عرب ممالک اور تمام اسلامی و ملی تحریکوں کا فریضہ ہے کہ فلسطین کے اہداف کی خدمت میں لگ جائیں۔ مزاحمتی محاذ کی حمایت ہم سب کا فریضہ ہے اور کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ اس حمایت کے عوض ان سے کوئی مخصوص توقع وابستہ کرے۔ البتہ حمایت کی واحد شرط یہ ہے کہ یہ مدد صرف اور صرف فلسطینی عوام کی بنیادوں اور مزاحتمی محاذ کے ڈھانچے کو تقویت پہنچانے پر صرف ہو۔ دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کے نظرئے کی پابندی اور تمام پہلوؤں سے استقامت، اس مدد و حمایت کے تسلسل کی ضامن ہے۔ مزاحمتی روش کے بارے میں ہمارا موقف ایک اصولی موقف ہے، یہ کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے۔ جو تنظیم بھی اس راہ میں ثابت قدم ہو ہم اس کے ساتھ ہیں اور جو گروہ بھی اس راستے سے ہٹا وہ ہم سے دور ہو گيا۔ اسلامی مزاحمتی تنظیموں سے ہمارے روابط کی گہرائی مزاحمت کے نظرئے کے تئیں اس گروہ کے التزام کی سطح پر منحصر ہے۔ ایک اور نکتہ جس کا ذکر کرنا ضروری ہے؛ وہ مختلف فلسطینی تنظیموں کا آپسی اختلاف ہے۔ گروہوں کے درمیان فکر و مزاج کے تنوع کی وجہ سے نظریات میں فرق ایک فطری اور سمجھ میں آنے والی بات ہے، البتہ اسی وقت تک جب تک یہ اختلاف اسی محدود دائرے میں باقی رہے، بلکہ ممکن ہے کہ یہ فلسطین کے عوام کی جدوجہد کی مزید تقویت اور امداد باہمی کا راستہ ہموار کرے۔ مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب یہ اختلاف رائے تنازعے اور خدانخواستہ تصادم کا باعث بننے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں مختلف تنظیمیں ایک دوسرے کی توانائی اور قوت کو بے اثر بنا کر عملی طور پر ایسی سمت میں آگے بڑھتی ہیں جو ان سب کے مشترکہ دشمن کی مرضی کے مطابق ہے۔ اختلاف رائے اور فکر و پسند کے فرق کو کنٹرول کرنا ایسا فن ہے جس پر تمام اصلی تنظیموں کو کاربند رہنا چاہئے، وہ اپنے مزاحمتی منصوبے اس طرح سے تیار کریں کہ اس سے صرف دشمن پر دباؤ بڑھے اور مزاحمت کو تقویت پہنچے۔ جہادی اسٹریٹیجی کی بنیاد پر قومی اتحاد، فلسطین کی ملی ضرورت ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ تمام تنظیمیں فلسطین کے سارے عوام کی مرضی کے مطابق اس ہدف کے حصول کے لئے کوششیں انجام دیں گی۔
مزاحمتی محاذ کو ان دنوں ایک نئی سازش کا بھی سامنا ہے اور وہ 'دوست نما' عناصر کی سرگرمیاں ہیں جو فلسطین کے عوام کی مزاحمت اور تحریک انتفاضہ کو اس کے راستے سے منحرف کر دینے اور اسے ملت فلسطین کے دشمنوں سے اپنی خفیہ سودے بازی کے نذرانے کے طور پر پیش کر دینے کے در پے ہیں۔ مزاحمتی محاذ اس سے کہیں زیادہ سمجھدار ہے کہ اس جال میں پھنسے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ جدوجہد اور مزاحمت کی قیادت خود ملت فلسطین کے ہاتھ میں ہے اور ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قوم حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اس طرح کے انحرافات کا سد باب کرتی ہے اور اگر خدانخواستہ مزاحمتی تنظیموں میں سے کوئی تنظیم اس جال میں پھنسی تو یہ ملت ماضی کی طرح ایک بار پھر اپنی ضرورت کے مطابق نئی تحریک پیدا کر لیتی ہے۔ اگر ایک تنظیم مزاحمت کا پرچم زمین پر رکھتی ہے تو یقینا دوسری تنظیم ملت فلسطین کے بطن سے باہر آئے گی اور اس پرچم کو پھر بلند کر دیگی۔
آپ حاضرین محترم اس اجلاس میں یقینا صرف فلسطین پر بحث کریں گے کہ بدقسمتی سے حالیہ چند برسوں میں جس پر ضروری اور لازمی توجہ کے تعلق سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ بے شک علاقے میں اور امت اسلامیہ کے اندر جگہ جگہ موجود بحرانوں پر توجہ دینا ضروری ہے لیکن اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد مسئلہ فلسطین ہے۔ یہ اجلاس ایک رول ماڈل بن سکتا ہے جس کی تقلید کرتے ہوئے رفتہ رفتہ تمام مسلمان اور علاقے کی اقوام اپنے اشتراکات کو بنیاد بناکر اختلافات کو کنٹرول کر سکتی ہیں اور ہر ایک تنازعے کو حل کرکے امت محمدی صلوات اللہ علیہ کی زیادہ سے زیادہ تقویت کے اسباب فراہم کر سکتی ہیں۔
آخر میں آپ تمام عالی قدر مہمانوں کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے محترم اسپیکر اور دسویں پارلیمنٹ میں ان کے رفقائے کار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس کانفرنس کے انعقاد کی زحمت اٹھائی۔
عالم اسلام کے سب سے بنیادی مسئلے اور تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے اتحاد کے محور یعنی فلسطینی کاز کی خدمت کرنے میں آپ کی کامیابی کی درگاہ خداوندی میں دعا کرتا ہوں۔
درود و رحمت خداوندی تمام شہدائے اسلام، بالخصوص صیہونی حکومت کے مقابلے میں مزاحمت کرنے والے عالی مقام شہیدوں، مزاحمتی محاذ کے تمام سچے مجاہدین کی روحوں اور اسلامی جمہوریہ کے بانی کی روح مطہرہ پر نثار ہو، جو مسئلہ فلسطین پر خاص توجہ دیتے تھے۔ آپ سب کامیاب اور فتحیاب رہئے!
والسلام عليكم و رحمت الله و بركاته.
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پندرہ آبان سن تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق چھے نومبر انیس سو اکیانوے عیسوی کو سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے طلبا کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں معاشرے کی کامیابی و ترقی میں نوجوانوں کے اہم اور کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امر المعروف اور نہی عن المنکر پر توجہ دینے کی سفارش کی اور ساتھ ہی اس کے لئے مناسب اور موثر راستے کی نشاندہی فرمائی۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں فلسطین کے سلسلے میں منعقدہ میڈرڈ کانفرنس کو خیانت کانفرنس سے تعبیر کیا۔