عدم استحکام اور قابل نفرت
رہبر انقلاب اسلامی نے قدس کے غاصب نظام کے اندر موجود (سیاسی عدم استحکام) اور (اس کے دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانے) جیسے نکات کا تجزیہ کیا ہے: ”جہاں تک صیہونی حکومت کی بات ہے - کہ وہ بھی ہماری ایک دشمن ہے - تو وہ اپنی پچھتر سال کی عمر میں کبھی بھی آج جیسی ہولناک مصیبتوں میں گرفتار نہیں ہوئي تھی۔ سب سے پہلے سیاسی تزلزل، چار سال میں چار وزیر اعظم بدلے گئے، جماعتی اتحاد تشکیل پانے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ اتحاد بکھر جاتا ہے۔ وہ پارٹیاں جو پہلے سے تشکیل پا چکی ہیں یا تشکیل پا رہی ہیں، رفتہ رفتہ ٹوٹتی جا رہی ہیں، تحلیل ہوتی جا رہی ہیں، یعنی وہ اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ وہ ٹوٹنے جیسی حالت میں پہنچ جاتی ہیں۔ پوری جعلی صیہونی حکومت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اگر آپ موجودہ صورتحال کو دیکھیں - فلسطینیوں کا معاملہ الگ ہے - تو ان کے درمیان بری طریقے سے اختلاف پیدا ہو گيا ہے، تل ابیب اور مختلف دوسرے شہروں میں ایک لاکھ اور دو لاکھ لوگوں کے مظاہرے، اسی بات کی نشانی ہیں۔ ممکن ہے وہ (صیہونی) کسی جگہ دوچار میزائل مار دیں لیکن وہ اس معاملے کی تلافی نہیں کر سکتا ہے۔ حقیقی معنی میں صیہونی حکومت سیاسی کمزوری اور تزلزل کا شکار ہے۔ بتایا گيا ہے کہ جلد ہی، ان لوگوں کی تعداد جو اسرائیل سے نکل رہے ہیں، وہ یہودی جو باہر بھاگ رہے ہیں، ان کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ جائے گي۔“
دوسری طرف عوام کی نظر میں بھی صیہونی حکومت کی شبیہ بہت خراب ہو چکی ہے: ” اسرائيل جو کچھ کر رہا ہے، اس کے مقابلے میں دنیا میں کیا ہو رہا ہے، خود امریکا میں جلوس نکل رہے ہیں، برطانیہ میں ریلی نکل رہی ہے، یورپ کے لوگ صیہونی حکومت کے سربراہ کی گاڑی پر حملہ کر رہے ہیں۔“ عوامی سطح پر ان حالات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف اعتراضات کی لہر اب امت اسلامی کے دائرے سے باہر پھیل چکی ہے: ” اس سال فلسطین کو غصب کرنے والی حکومت یعنی اسرائيلی حکومت کے جرائم اور اس کے مظالم کا ایک حصہ دنیا کے سامنے آيا تو آپ نے دیکھا کہ یوم قدس میں لوگوں کے اجتماعات اور مظاہرے، صرف عالم اسلام تک محدود نہیں رہ گئے تھے، یعنی عالم اسلام کے علاوہ بھی یورپ میں یہاں تک کہ خود امریکا میں بہت سے لوگوں نے مظاہرے کیے، فلسطینیوں کی حمایت کی...کیونکر ایک یورپی شخص، جس کی حکومت، صیہونی حکومت سے دلبستہ اور اس سے وابستہ ہے، فلسطینی عوام کے حق میں اور صیہونی حکومت کے خلاف سڑک پر نعرے لگا رہا ہے؟ یہ بات بہت اہم ہے۔“
استقامت اپنے عروج پر اور اسرائیل زوال کی طرف گامزن
رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ کچھ مہینوں کے دوران جس سب سے اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا تعلق (اسرائیل کے کمزور ہونے اور اسکے زوال) سے ہے۔ یہ زوال (استقامت) کا نتیجہ اور میدان عمل میں استقامت کے نظریے کےعملی ہونےاور استقامتی محاذ کے اقدام کا نتیجہ ہے: ” آج بحمد اللہ ہم غاصب حکومت کے تدریجی زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں ... ایسا کیوں ہوا؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یہ فلسطینی عوام کی مزاحمت کی برکت کی وجہ سے ہے۔ فلسطینی عوام کی اندرونی مزاحمت، اس پیشرفت کا اصلی سبب ہے...اس وقت صیہونی حکومت کی جو ابتر صورتحال ہے – اس وقت صیہونی حکومت کی حالت واقعی ابتر ہے – وہ فلسطینی جوانوں کی استقامت کی وجہ سے ہے۔“
فلسطین میں اسلامی استقامتی محاذ کی طاقت اس طرح دن بہ دن بڑھ رہی ہے کہ:”فلسطینی گروہوں کی طاقت، ماضی کی نسبت، یہ نہیں کہنا چاہیے کہ کئي گنا، بلکہ شاید دسیوں گنا بڑھ چکی ہے۔ ہم تک ایک رپورٹ پہنچی کہ فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں ایک چوبیس گھنٹے میں ستائيس کارروائياں انجام دیں، پورے فلسطین میں، بیت المقدس میں، غرب اردن کے علاقے میں، 1948 کے علاقوں میں وہ ہر جگہ کام کر رہے ہیں۔ وہ اوسلو والا فلسطین – آپ کو یاد ہی ہوگا کہ یاسر عرفات اور دوسروں نے اوسلو معاہدے میں فلسطین کے لیے کیسی فضیحت تیار کی تھی – عرین الاُسود تک پہنچ چکا ہے، اُسود یعنی شیروں کا فلسطین! اتنا زیادہ فرق آ چکا ہے... مزاحمتی محاذ بحمد اللہ مضبوط بنتا جا رہا ہے۔“
آج زمینی سطح پر صیہونی اپنی (ڈٹرنس طاقت) کو کھو چکے ہیں: ” آج صیہونی حکومت کی دفاعی طاقت ختم ہو چکی ہے، یہ وہی چیز ہے جس کی طرف سے دسیوں سال پہلے، شاید تقریبا ساٹھ سال پہلے، صیہونی حکومت کے اصلی بانیوں میں سے ایک اور اس حکومت کے وزیر اعظم بن گوریون نے انتباہ دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب بھی ہمارا ڈیٹرنس ختم ہو جائے گا، ہماری حکومت بکھر جائے گي۔ اس وقت اس کی دفاعی قوت ختم ہو چکی ہے یا خاتمے کے قریب ہے۔ وہ خود بھی جانتے ہیں، وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ بکھراؤ اور خاتمہ قریب ہے، اگر کوئي خاص اتفاق نہ ہوا تو یہ مزاحمت کی برکت کی وجہ سے ہے، یہ اس بات کی برکت کی وجہ سے ہے کہ فلسطینی جوان، اپنے دشمن کے ڈیٹرنس کو لگاتار کمزور کرنے میں، کم کرنے، نابود کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔“ زمینی حقائق استقامتی محاذ کے طاقتور ہونے اور صیہونی حکومت کے دن بہ دن زوال کو واضح کر رہے ہیں: ” اس وقت فلسطینی، ہاتھوں میں پتھر لے کر لڑتے تھے، ان کے پاس کوئي دوسری چیز نہیں تھی۔ اب آپ اس صورتحال کا، آج کے فلسطین سے موازنہ کیجیے، چاہے وہ غزہ کے حالات ہوں یا جو کچھ غرب اردن میں ہو رہا ہے، کیا ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟“ اس لئے ”کہ صیہونی دشمن آج پسپائي اور ردعمل کی پوزیشن میں ہے اور ان حالات سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطین کے استقامتی گروہ اور جہاد اسلامی نے راستے کو صحیح طریقے سے پہچان لیا ہے اور وہ پوری ہوشیاری کے ساتھ اس راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔“ حقیقت میں ” آج خداوند عالم کے لطف و کرم سے فلسطین کے مزاحمتی گروہوں اور جہاد اسلامی کی طاقت اور حیثیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور حالیہ پانچ روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔“
اصل بات
رہبر انقلاب اسلامی، طاقت کے توازن کے استقامتی محاذ کے حق میں بدلنے اور قدس کو آزاد کرانے کے مسئلے میں جس سب سے اہم نکتے پر تاکید کرتے ہیں وہ (ویسٹ بینک کے مسلّح ہونے) اور غاصبانہ قبضے کے خلاف استقامت میں اس علاقے کے سرگرم رول کا موضوع ہے: ” غرب اردن میں استقامتی گروہوں کی روز بروز بڑھتی طاقت، صیہونی دشمن کو دھول چٹانے کی اصل کنجی ہے اور اس راہ پر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔“ غرب اردن کے مسلح ہونے کی بنیادی اسٹریٹجی اور اس کا صیہونی حکومت کے خلاف استقامتی محاذ کی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ایسا موضوع تھا جسے کئی سال پہلے رہبر انقلاب اسلامی نے پیش کیا اور اسے عملی شکل دینے پر تاکید کی تھی: ”غرب اردن کے علاقے کو بھی غزہ پٹی کی طرح مسلح ہونا چاہئے۔“ اور اب اسلامی استقامتی محاذ کے ذریعہ غزہ کی استقامت کے ویسٹ بینک کے قیام اور استقامت کے جڑ جانے سے، اکویشن کا رخ قدس کی آزادی کی طرف ہو گیا ہے: ” آپ نے غزہ کی مجاہدت کو مغربی کنارے سے جوڑ کر اور استقامت کی دیگر فورسز نے جہاد اسلامی کی حمایت کر کے، فلسطینی قوم کے جہاد کی یکجہتی کا خبیث اور فریبی دشمن کے سامنے مظاہرہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پوری سرزمین فلسطین کے تمام فلسطینی گروہ، اس اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کریں۔ غاصب دشمن زوال اور فلسطینی مزاحمت مضبوطی کی طرف گامزن ہے۔ ولا حول و لا قوۃ الا باللہ (اور اللہ کی طاقت و قوت کے بغیر کوئي طاقت و قوت نہیں ہے۔)“
اور یہ سب (اسلام کی طرف رجحان) کی برکت سے ہے: ” فلسطین کے اندر جدوجہد کے عروج کی وجہ کیا ہے؟ اسلام کی طرف رجحان۔ ہم نے اس سے پہلے کا زمانہ بھی تو دیکھا ہی ہے، اس وقت جب، فلسطینی گروہوں کے درمیان اسلامی رجحان کی بات ہی نہیں تھی – کچھ لوگ کمیونسٹ تھے، کچھ کمیونسٹ تو نہیں تھے لیکن اسلامی بھی نہیں تھے – تب یہ پیشرفت اور کامیابیاں بھی نہیں تھیں۔ جب سے فلسطینی مجاہدین میں اسلامی رجحان پیدا ہوا اور جب سے یہ رجحان آج تک روز بروز بڑھتا گيا، فلسطینیوں کی جدوجہد میں اس طرح سے پیشرفت ہوئی۔ تو کامیابی اور فتحیابی کی اصلی وجہ اسلام ہے۔“
شکست کا ممکن ہونا
آج فلسطین کے اکویشن کی حقیقیت یہ ہے کہ” اس وقت صیہونی حکومت کے لیے حالات، ستر سال پہلے کے حالات کی بہ نسبت بدل چکے ہیں اور صیہونی حکام اگر اس حکومت کے اسّی سال پورے نہ کر پانے کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہیں، تو انھیں اس کا حق ہے۔“ اور یہ موضوع بتا رہا ہے” کہ ٹھیک ہے کہ دشمن کی انٹیلی جنس مضبوط ہے، اس کے اندازہ لگانے اور حساب کتاب کرنے والے ادارے مضبوط ہیں، اس کی مسلح فورسز اچھی ہیں، پیسے تو اس کے پاس زیادہ ہیں ہی، یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اس بات کا پورا امکان ہے کہ انسان اس کے اندازوں کو غلط ثابت کر دے، اسے شکست سے دوچار کر دے... یہ ساری چیزیں ایسے حقائق کی نشاندہی کرتی ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور ان سے دشمن کے قابل شکست ہونے اور اس کے اندازوں کے بھی قابل شکست ہونے کو سمجھا جانا چاہیے۔ “