تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ تمام بہنوں اور بھائیوں، نوجوانوں، یونیورسٹیوں اور اسکولوں کے طلبا، اساتذہ، معلمین، حکام اور بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان اور (جنگی) معذور جانبازوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور خدا وند عالم سے آپ تمام لوگوں کے لئے فضل و توفیق طلب کرتا ہوں۔
ہر معاشرے اور ملک میں نوجوان نسل تحریک کا محور ہوتی ہے۔ اگر تحریک انقلابی اور قیام سیاسی ہو تو نوجوان میدان میں دوسروں سے آگے ہوتے ہیں۔ اگر تحریک ثقافتی اور تعمیری ہو تو بھی نوجوان دوسروں سے آگے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ دوسروں سے زیادہ کارآمد ہوتے ہیں۔ حتی انبیائے الہی کی تحریکوں اور خود صدر اسلام کی تحریک میں بھی سعی و کوشش کا محور نوجوان ہی تھے۔
جن ممالک میں نوجوان کم ہیں، جیسا کہ آج بعض ملکوں میں، خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ کی پالیسیوں کے باعث، نوجوان نسل کی کمی ہے، وہ چاہے سائنس اور ٹکنالوجی میں اور ترقی میں آگے ہوں لیکن مشکلات سے دوچار ہیں۔ دوسرے ملکوں سے بطور قرض نوجوان لانے پر مجبور ہیں۔ نوجوان اور نوجوانی آفرینش الہی کی جملہ درخشندگیوں میں سے ہے۔ معاشروں منجملہ اسلامی معاشروں کے دشمنوں نے اس نکتے کو اچھی طرح پہچانا ہے اور اس پر انگلی رکھی ہے۔ یہ آج سے ہی مربوط نہیں ہے بلکہ ایک صدی پہلے سے یہی ہو رہا ہے۔
اسلامی ملکوں میں نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لئے ہمہ گیر منصوبے شروع کئے گئے۔ آپ جانتے ہیں کہ سامراجی دور یعنی ایشیائی اور افریقی ملکوں پر مغربی ملکوں کا تسلط تقریبا دو سو سال قبل شروع ہوا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ صورتحال جاری نہیں رہے گی۔ اگر نوجوانوں نے پیشرفت کی، علم حاصل کر لیا اور ارادے کے مالک ہو گئے تو بیرونی طاقتوں اور غارتگروں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ اس لئے نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لئے منصوبے تیار کئے۔
یہ بات جو شاید آپ نے بعض مضامین میں پڑھی ہو کہ لاطینی امریکا یا مشرقی ایشیا کے بعض ملکوں میں نوجوان نسل منشیات، نشے کی چیزوں اور جنسی بے راہ روی سمیت مختلف برائیوں میں غرق ہے، ایسا نہیں ہے کہ شروع سے ہی یہ حالت رہی ہو۔ اس پالیسی پرعمل کیا گيا ہے۔ ظالم شاہی حکومت کے دور میں ہم بھی اس سے محفوظ نہیں تھے۔ اس ملک میں بھی روسیاہ اور خیانت کار پہلوی خاندان اور اس کے ساتھیوں نے جہاں تک ہو سکا، اس پالیسی پرعمل کیا۔
البتہ اسلامی ملکوں میں ایک خصوصیت یہی رہی ہے کہ ان میں اسلام پایا جاتا ہے اور ان اسلامی ملکوں میں ہمارے ملک کی ایک الگ خصوصیت اور بھی ہے اور وہ ہے علمائے کرام کا عوام ہونا۔ آپ جانتے ہیں کہ دیگر اسلامی ملکوں میں یہ چیز نہیں رہی اور اب بھی نہیں ہے۔ اسلام اور اسلامی تبلیغات اس خوفناک لہر کے مقابلے پر آ گئيں۔ انقلابی نعروں اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی عظیم تحریک نے دشمن کے سامنے مشکلات کھڑی کر دیں۔ اس ملک پر حکمفرما بدعنوانیوں اور برائیوں کے اسی دور میں ایمان اور دین سے وابستگی بھی، پہلے نوجوانوں میں ہی جلوہ گر ہوئی۔
میں متوسط گھرانوں کے ایسےوالدین سے واقف تھا جو اپنے نوجوانوں کے دینی جذبات کے ساتھ چلنے پر قادر نہیں تھے۔ حتی بعض اوقات دینی جذبات، عبادت، زہد اور دنیاداری، کھانے پینے اور آرام و آسائش سے بے اعتنائی کی، جو اپنے نوجوانوں میں دیکھتے تھے، ہم سے شکایت کرتے تھے۔ وہ والدین غلط تربیت کے سائے میں بڑے ہوئے تھے۔ مسلمان تھے مگر ان کے اندر اسلامی ایمان کا جوش و خروش نہیں تھا لیکن ان کے نوجوان انقلابی تربیت کے زیر اثر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نوجوان آگے تھے اور ان کے کنبے والے ان سے پیچھے تھے۔ اس طرح دنیا کی عظیم عوامی تحریک، یعنی اسلامی انقلاب، حضرت امام خمینی کی رہبری، پوری قوم کی حمایت سے جس میں نوجوان آگے آگے تھے، کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ یہ ایک فتح تھی۔ سامراج کے خلاف جدوجہد کے میدان کی فتح بھی تھی اور اس سے بڑھ کر نوجوانوں کی سرزمین دل کی فتح تھی اور یہ کارنامہ اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کرکے دکھایا، اس لئے یہ فتح الفتوح تھی۔ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا عظیم ترین کام نوجوان نسل کو سنوارنا تھا۔
اس کے بعد جنگ کے دور میں بھی یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے جنگ کو دشمن کی شکست کی سمت موڑ دیا۔ یہ نوجوان شہداء، یہ نوجوان غازی، یہ میدان جنگ کے امور چلانے والے نوجوان یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جنگ جیسے فیصلہ کن مرحلے میں نوجوان نسل کی اہمیت نظروں سے پوشیدہ رہ جائے۔ یہ واقعہ رونما ہوا لیکن اس کی منصوبہ بندی کرنے والے عالمی سامراج نے تمام میدانوں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ اس ملک میں انقلابی اسلام کی تربیت سے مومن نوجوان کیسے کیسے معجزے کر دکھاتے ہیں۔
آج سب جانتے ہیں کہ سامراج کی فکر کیا ہے۔ سب نے امریکا کی جو سامراج کا سرغنہ ہے، فکر کو پڑھ لیا ہے۔ یہ پورے عالم بالخصوص اس حساس علاقے پر جہاں ہم رہتے ہیں، اپنا تسلط جمانے کی فکر میں ہیں۔ یعنی مشرق وسطی، خلیج فارس، فوجی اور اقتصادی لحاظ سے اس اہم علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سازشی منصوبہ بندی کے پیچھے استکباری فکر ہے۔ ان اسلام مخالف اور عوام مخالف سازشی منصوبوں کا سروکار عوام سے ہے۔ اگر سامرج عظیم عوامی موج کو اپنے سامنے سے ہٹا سکا تو حکومتیں امریکا کے مقابلے پر نہیں ٹک سکتیں۔ آپ نے دیکھا کہ حکومتوں نے خیانت کانفرنس (1) میں کیا کیا۔ اگر کوئی امریکی سامراج اور اس کے زرخریدوں کے طاغوتی اقدامات کو روک سکتا ہے تو وہ اقوام ہی ہیں۔ صرف اقوام یہ کام کرسکتی ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ سامراجی منصوبہ اس بات سے واقف نہ ہوں۔ ممکن نہیں ہے کہ (سامراجی ممالک) اقوام بالخصوص نوجوان نسل کو بڑا خطرہ نہ سمجھتے ہوں۔ ممکن نہیں ہے کہ اس خطرے کے مقابلے کی چارہ اندیشی اور ضروری حکمت علمی اختیار نہ کریں۔
بنابریں آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ آج سامراج کا ایک بڑا کام یہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں نوجوان نسل کو میدان سے باہر کرے اور جس اسلامی ملک میں بیداری زیادہ ہو وہاں نوجوانوں کو زیادہ میدان سے باہر کریں۔ سب سے زیادہ بیداری کس اسلامی ملک میں ہے؟ سب سے زیادہ زندہ کون سا ملک ہے؟ اور سب سے زیادہ کس ملک کے لوگ بے خوف ہوکے سامراج کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں؟ کیا وہ ایران اسلامی کے علاوہ کوئی اور ملک ہے؟ بنابریں ایران اسلامی کے نوجوان جان لیں کہ سامراج انہیں اس مجاہدت کے میدان سے جس میں یقینی کامیابی اور فتح اقوام کے لئے ہے اور کسی اور کے لئے نہیں ہے، نوجوانوں کو نکال باہر کرنے کے لئے پیسے خرچ کر رہا ہے اور انواع و اقسام کی سازشوں پر عمل کر رہا ہے۔ ان سازشوں کا اصل نشانہ آپ مومن، انقلابی اور دلیر نوجوان ہیں جو اپنے امام اور انقلاب کے اہداف کے حصول اور اس راہ کی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں ۔
ہر وہ کام جو اس بات کا باعث ہو کہ نوجوان نسل یہ احساس کرے کہ اس کو مزاحمت کے میدان سے ہٹ جانا چاہئے، براہ راست یا بالواسطہ طور پر امریکا اور سامراجی نظام سے مربوط ہے۔ یہ ایک کلی معیار ہے۔ ہر وہ کام جو انہوں نے دوسرے ملکوں میں کیا ہے، یہاں بھی کرنا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کے جنسی مسائل میں پھنسانا، نوجوانوں کو ذاتی امور میں الجھانا، نوجوانوں کو نشے کی چیزوں اور منشیات میں مبتلا کرنا، انقلاب کے اصل اہداف اور اقدار سے نوجوانوں کے اذہان کو منحرف کرنا، چھوٹے، جزوی اور کاروباری جیسے معمولی اہداف میں لگانا، نوجوان نسل کے ایمان کو کمزور کرنا، اسلامی انقلاب کے اصولوں اور اسلامی جمہوریہ حتی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر نوجوان نسل کے یقین کو کمزور کرنا اور ہر اس چیز کو جو اس عظیم مجاہدت کی راہ میں بروئے کار لائی جاتی ہے اور اس کا وجود ضروری ہے، اس کو نوجوان نسل کی نگاہوں میں بے اثر، بے فائدہ اور مہمل ظاہر کرنا۔ اگر آپ نے ان باتوں کے تعلق سے کوئی چیز کہیں دیکھی، کسی کتاب یا کسی ناول میں جو ترجمہ کیا گیا ہو یا لکھا گیا ہو، پڑھی یا کسی ترجمہ شدہ مقالے، شاعری اور ایسی تحریروں میں جس میں فلسفہ بگھارا گیا ہو، حتی نام نہاد دلیرانہ اور غم و غضے سے بھرے مظاہروں میں دیکھی، اس کو غلط سمجھیں اور جان لیں کہ یہ اتفاقیہ نہیں ہے۔ جان لیں کہ امریکا آپ سے ڈرتا ہے۔ جان لیں کہ عالمی سامراج کی بڑی بڑی چوکیاں میدان میں آپ کی موجودگی سے خود کو خطرے میں محسوس کرتی ہیں۔
آپ کو راستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہ کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔ قتل عام کے ذریعے تو یہ کام نہیں کر سکتے۔ اگر ایک ایٹم بم یا ایک فوجی کاروائی سے اس قوم کو تہس نہس کر سکتے، تو کر چکے ہوتے۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ ان کے نقصان میں تمام ہوگا۔ وہ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں۔ اگر اس قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتے تو مٹا چکے ہوتے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اس کی توانائی ان کے اندر نہیں ہے۔ فطرت عالم یہ نہیں ہے کہ یہ قوم اور یہ نوجوان رہیں لیکن ان کی جارحیت کے راستے میں حائل نہ ہوں۔
آج بعض نام نہاد اسلامی ملکوں میں دسیوں لاکھ نوجوان جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سیٹی بجاتے ہوئے، حوادث دنیا سے بے خبر سڑکوں پر چلتے اور ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ آج دسیوں لاکھ نوجوان ذاتی زندگی کے معمولی اور چھو ٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے دشمن، انسانیت کے دشمن ، اقوام کی عزت و شرف کے دشمن اقوام کےساتھ کیا کر رہے ہیں۔ ایسے نوجوان دنیا میں ہیں۔ سامراج خود سے کہتا ہے کہ ہم ان (ایرانی) نوجوانوں کو بھی انہی (دنیا کے عام) نوجوانوں میں کیوں نہ شامل کر دیں؟ اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ ان کوششوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان حرکتوں کے مقابلے پر ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ پہلے درجے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا اور پھر محنت کش، کاروباری، دیہی، شہری اور ہر طبقے کے نوجوان ان کوششوں کو ناکام بنائیں۔
البتہ سب سے پہلے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو اپنے آپ کو سنوارنا چاہئے، خودسازی کرنی چاہئے۔ خود کو دینی تربیت سے آراستہ کرنا چاہئے۔ تربیت کے امور اچھے ہیں۔ معلم تربیت بھی اچھا ہے، تربیتی امور بتانے والا بھی اچھا ہے۔ لیکن جس کے وجود کی گہرائیوں میں تربیت کرنے والا وعظ ونصیحت کرنے والا نہ ہو، واعظ من نفسہ (2) یہ تربیتیں اس پر کارگر نہیں ہوں گی۔ خود سازی کریں۔ اپنے نفس کے خلاف مجاہدت کریں۔ اپنی ذات میں احکام الہی کے نفاذ کو اہمیت دیں۔ نماز، خدا پر توجہ، دعا اور خدا پر توکل کو اہمیت دیں۔ یہ آپ کو فولادی بنا دے گی۔
امریکا جس چیز سے ڈرتا ہے وہ سیاسی بیانات نہیں ہیں۔ البتہ آپ اپنے اندر سیاسی تجزیئے کی صلاحیت پیدا کریں۔ اگر کسی نوجوان اور قوم میں سیاسی بصیرت نہ ہو تو وہ دھوکہ کھا جائے گی۔ اس کو میدان سے باہر کر دیں گے۔ اور دین کے وسیلے سے اس کو کنارے لگا دیں گے۔ جیسے بہت سے لوگ دین کا اظہار کرتے ہیں، تقدس مآب ہیں اور سیاسی بصیرت نہیں رکھتے۔ انہیں بہت آسانی سے ہٹا دیتے ہیں۔ کنارے لگا دیتے ہیں۔ آج بھی گوشہ و کنار میں کچھ لوگ ہیں جو خود کو دیندار اور متدین سمجھتے ہیں اور اس انقلاب کے جو دین کی بنیاد پر استوار ہے، موافق نہیں ہیں۔ بنابریں سیاسی بصیرت ضروری ہے۔ لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ اصل قضیہ وہ ایمان الہی و قوت معنوی ہے جوآپ کے دلوں میں ہونا چاہئے۔ خود کو دیندار بنائیں۔
نوجوان اپنے ماحول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ کیونکہ یہ واجب یعنی امر بالمعروف ، اچھے کاموں کا حکم ، معاشرے میں قائم نہیں ہوا ہے۔ یہ نہ کہیں کہ مجھ سے کیا مطلب۔ سامنے وا لا بھی نہیں کہہ سکتا کہ تم سے کیا مطلب اور کہے بھی تو آپ اس پر توجہ نہ دیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی ، برا کام کرتا نظر آئے فورا مکوں سے کام لیا جائے۔ ہمارے پاس ایسا اسلحہ ہے جو مکے سے زیادہ کارگر ہے۔ وہ کیا ہے؟ زبان، زبان مکے سے زیادہ کارگر، موثر اور کاری ہے۔ مکے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بعض نوجوان مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہمیں اجازت دیجئے، ہم منکرات، برے کاموں کے اس تظاہر کا مقابلہ کریں۔ بہت اچھا، مقابلہ کیجئے۔ لیکن کس طرح؟ ٹوٹ پڑئے اور سامنے والے کو تہس نہس کردیجئے؟ نہیں ، طریقہ یہ نہیں ہے۔ بات کیجئے۔ کہیئے۔ صرف ایک جملہ بولئے۔ لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کبھی دیکھے کہ کوئی غلط کام ہو رہا ہے۔ جھوٹ، غیبت، تہمت، کسی برادر مومن کے تئیں، کینہ پروری، دینی محرمات کی طرف سے لاپرواہی، مقدسات کی جانب سے بے اعتنائی، مسلمہ ایمانی اصولوں کی توہین، نامناسب لباس، غلط حرکت، ایک آسان جملے کے علاوہ اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہئے کہ تمہارا کام غلط ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ غصے کے ساتھ کہا جائے۔ آپ کہئے، دوسرے بھی کہیں۔ اس طرح معاشرے میں گناہ ختم ہو جاۓ گا۔
لوگ کہنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ کچھ لوگ نفس کی کمزوری کی وجہ سے کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ کہنا بے فائدہ ہے ہاتھ سے کام لینا چاہئے۔ نہیں، زبان ہاتھ سے زیادہ اہم ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قائم کریں۔ نوجوانوں کے درمیان، نہ کالجوں میں اور نہ ہی یونیورسٹیوں میں، کہیں بھی برائی نہ پھیلنے دیں۔ یہ مراکز آپ کے لئے اہم میدان ہیں۔ جان لیں کہ اس معاشرے اور ایران اسلامی کی نوجوان نسل زندہ ہے۔ دشمن بھی اس کو جان لے۔ آپ نوجوانوں کے ہوتے ہوئے، ہم پر حجت تمام ہے۔
وہ خیانت کی کانفرنس ختم ہوگئی۔ اپنی باتیں انہوں نے کہیں۔ صیہونیوں اور غاصب حکومت کو سرکاری طورپر تسلیم کرلیا۔ انجام کیا ہوا؟ فلسطینیوں کو کیا ملا؟ عرب دنیا کو کیا ملا؟ چالیس سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد غاصب اور جعلی اسرائیلی حکومت کی آرزو تھی کہ یہ حادثہ رونما ہو لیکن اسی کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کر رہی تھی کہ اس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نخرے دکھا رہی تھی۔ شرطیں پیش کر رہی تھی اور کانفرنس میں آئی تو عربوں کے سامنے، سخت ترین اور بے شرمانہ ترین باتیں کیں اور کانفرنس سے الگ ہوکر چلی گئی۔ عرب حکومتوں نے اس سازش اور اس فریب کے مقابلے میں سر تسلیم کیوں خم کر دیا؟ تاریخ ان کے بارے میں کیا کہے گی؟ خدا قیامت میں ان سے کس طرح باز پرس کرے گا؟ ان کی اقوام ان کے ساتھ کیا کریں گی؟
البتہ، تلافی کا راستہ اب بھی موجود ہے۔ پوری طرح تو تلافی نہیں ہو سکتی لیکن عرب حکومتیں اس برے کام کی جو ہوا ہے، کسی حد تک تلافی کر سکتی ہیں۔ سب عرب حکومتیں اعلان کریں کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور جو باتیں وہاں کہی گئی ہیں چونکہ اسرائیل نے اس طرح عمل کیا ، اس لئے وہ سب کالعدم اور منسوخ ہیں۔ اس فیصلے سے اپنی اقوام کو خوش کریں۔ یہ کام وہ کر سکتی ہیں۔ لیکن بہرحال امید اقوام اور نوجوانوں سے ہے۔
اس بات میں شک نہیں کرنا چاہئے کہ اس شجرۂ خبیثہ کی اجتثت من فوق الارض ما لھا من قرار (3) کوئی بنیاد نہیں ہے اور یہ باقی نہیں رہے گا۔ بیشک نابود ہو جائے گا۔ اس میں شک نہیں کرنا چاہئے کہ حق کامیاب ہوگا اور فلسطین عالم اسلامی کی آغوش میں واپس آئے گا۔ اس کام کا جلدی یا دیر میں انجام پانا، مسلمانوں کی غیرت اور ہمت پر منحصر ہے۔ مسلمانوں کو ہمت سے کام لینا چاہئے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اس مسئلے کو نہ چھوڑیں۔ ایران کی سرافراز اور شجاع قوم کی طرح اپنی بات کہیں۔ جو چاہتی ہیں اس کا مطالبہ کریں۔ بیشک خداوند عالم بھی ان پر فضل و کرم کرے گا۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ وہ آپ عزیز نوجوانوں اور ہمارے ملک اور تمام اسلامی ملکوں کے نوجوانوں کو اپنی ہدایت و رحمت میں شامل کرے ، حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ یعنی امام زمانہ ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرمائے اور آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال کرے۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
-----------------------------------------------------------------------------
1-میڈرڈ کانفرنس؛ میڈرڈ کانفرنس میں امریکا اور اسرائیل کی خباثت آمیز سازشوں کے مقابلے کے لئے مسلم اقوام کے نام قائد انقلاب اسلامی کے پیغام ( مورخہ 25-7-1370 مطابق 16-10-1991 ) کے خاشیے سے رجوع کریں۔
2- وسائل الشیعہ، ج 12 ص 25
3- ابراہیم ؛ 26