بدھ 4 اکتوبر 2017 کو ترک صدر اور ان کے ہمراہ تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے مشرقی ایشیا اور میانمار سے لیکر شمالی افریقا تک عالم اسلام کو در پیش مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مشکلات کے سامنے اگر ایران اور ترکی کے درمیان کسی مسئلے میں اتفاق رائے ہو جائے تو وہ اتفاق رائے یقینا جامہ عمل پہنے گا اور اس کا فائدہ دونوں ملکوں اور دنیائے اسلام کو پہنچے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دونوں ملکوں کے اقتصادی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ بے پناہ گنجائش اور ظرفیت کے باوجود حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے اقتصادی تعاون میں کوئی فروغ نہیں پیدا ہوا، اس لئے اس سلسلے میں پہلے سے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آستانہ مذاکرات میں ایران اور ترکی کے اچھے تعاون اور نتیجے میں شام کے مسائل میں پیدا ہونے والی بہتری پر خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ داعش اور تکفیریوں کا قضیہ اس طرح ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے حقیقی دراز مدتی منصوبہ بندی لازمی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عراقی کردستان میں استصواب رائے کے انعقاد کو علاقے کے ساتھ خیانت اور اسے خطرے میں ڈالنے کی کوشش قرار دیا اور اس اقدام سے ہمسایہ ممالک پر پڑنے والے دراز مدتی منفی اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور ترکی کو چاہئے کہ اس قضیئے کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدام کریں اور عراقی حکومت بھی اس معاملے میں پوری سنجیدگی سے فیصلہ اور کارروائی کرے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس قضیئے سے نمٹنے کے لئے ایران اور ترکی کے ما بین تعاون، ہم خیالی، سنجیدہ مشترکہ سیاسی و اقتصادی فیصلہ بہت اہم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس مسئلے میں امریکہ اور یورپی ممالک کا نظریہ ایران اور ترکی کے نظرئے سے بالکل مختلف ہے، امریکہ کی خواہش ہے کہ ایران اور ترکی کو پریشان کرنے کا ایک حربہ ہمیشہ اس کے پاس موجود رہے، لہذا امریکیوں، یورپیوں اور ان کے موقف پر ہرگز اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ترک صدر سے کہاکہ جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا ان حالیہ واقعات سے پہلے نمبر پر صیہونی حکومت کو اور اس کے بعد امریکہ کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور ترکی کو الجھا دینے اور انھیں علاقائی مسائل سے دور رکھنے کی دشمن کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بیرونی طاقتیں اور خاص طور پر صیہونی حکومت اس علاقے میں 'نیا اسرائیل' اور تنازعے اور اختلافات کا نیا بہانہ تیار کرنے کی کوشش میں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ حالیہ واقعات پر دراز مدتی اور اسٹریٹیجک نظر رکھتے ہوئے فوری اور سنجیدہ فیصلہ کرنے اور مشترکہ کارروائي سے اس مسئلے کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ملاقات میں صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوغان نے علاقے میں ایران اور ترکی کا طاقتور اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ صدر ایران سے ہونے والے مذاکرات میں ہم شام اور عراق کے سلسلے میں ایک نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے عراقی کردستان کے مسئلے میں ایران، ترکی اور عراق کی جانب سے ایک ہی وقت پر مشترکہ کارروائی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ناقابل انکار ثبوت و شواہد کے مطابق امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کردستان کے مسئلے میں ایک کلی اتفاق رائے ہو چکا ہے اور بارزانی نے استصواب رائے کا انعقاد کرکے ناقابل معافی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل کے علاوہ کسی نے بھی عراقی کردستان کو تسلیم نہیں کیا ہے، انھوں نے مزید کہا کہ عراق کے ہمسایہ ممالک ہرگز اس فیصلے کو قبول نہیں کر سکتے، بنابریں عراقی کردستان کے حکام اب کوئی بھی قدم نہیں اٹھا پائیں گے اور ان کے پاس کوئی بھی راستہ نہیں ہوگا۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ امریکہ، فرانس اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ مشرق وسطی کے ممالک کو تقسیم کر دیں اور اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اردوغان نے کہا کہ انھوں نے شام کے لئے بھی یہی منصوبہ تیار کیا تھا، لہذا اس مسئلے میں ایران اور ترکی کا مشترکہ موقف بہت اہمیت رکھتا ہے۔

رجب طیب اردوغان نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون 30 ارب ڈالر کی سطح تک لے جائے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہم ایک دوسرے کے تعاون سے بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں، البتہ کچھ لوگ اس تعاون سے خوش نہیں ہوں گے اور ان تعمیری اقدامات کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ایران اور ترکی میں اسٹریٹیجک کونسل کے سالانہ اجلاس منعقد ہوں گے اور فیصلوں اور معاہدوں کو سنجیدگی سے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔