"اس پیکار کا اصلی مقصد 'سمندر سے دریا تک' (یعنی بحیرہ روم سے دریائے اردن تک) پوری سرزمین فلسطین کی آزادی اور تمام فلسطینیوں کی وطن واپسی ہے۔ اس (عظیم مقصد) کو اس سرزمین کے کسی گوشے میں ایک حکومت کی تشکیل تک محدود کر دینا، وہ بھی اس تحقیر آمیز شکل میں جس کی بات بے ادب صیہونی کرتے ہیں، نہ حق جوئی کی علامت ہے اور نہ حقیقت پسندی کی نشانی۔ امر واقع یہ ہے کہ آج ملینوں فلسطینی فکر، تجربے اور خود اعتمادی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس عظیم جہاد کے لئے انھوں نے کمر ہمت باندھ لی ہے، البتہ انھیں نصرت خداوندی اور حتمی فتح کا یقین رکھنا چاہئے، کیونکہ ارشاد ہوا ہے؛ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُه إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ .. بے شک دنیا میں بہت سے مسلمان ہیں جو ان شاء اللہ ان کی مدد کریں گے اور ان کے درد میں شریک ہوں گے۔

22/5/2020

امریکا کی سرکردگی میں عالمی استکبار چاہتا ہے کہ یہ علاقہ اپنے معاملات میں اتنا الجھ جائے کہ صیہونی حکومت سکون کا سانس لے سکے۔ یہ مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک جغرافیائی علاقے اور ایک قوم کا سرے سے انکار کر دینا چاہتے ہیں۔ فلسطین کوئی آج گڑھ لیا جانے والا جعلی ملک نہیں ہے۔ فلسطین کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ ہے، فلسطینی قوم ایک سرزمین کی مالک قوم ہے، ایک جغرافیائی خطے کی مالک قوم ہے۔ استکبار چاہتا ہے کہ ان حقائق کا انکار کر دے، ملت فلسطین کے وجود کا ہی انکار کر دے۔ آج ملت فلسطین پر یہ صیہونی درندے جو سختیاں اور زیادتیاں کر رہے ہیں اس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑے گا، اسے وہ یاد رکھیں۔ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے۔ مسئلہ فلسطین وہ اہم مسئلہ ہے جسے کسی بھی ملک کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی بھی اسلامی ملک بلکہ بیدار انسانی ضمیر رکھنے والا کوئی بھی ملک ہرگز نہ بھولے، یہ فراموش نہ کرے کہ یہ ایک بنیادی اور اساسی مسئلہ ہے۔ ایک مظلوم قوم ہے، محاصرے میں گھری ایک قوم ہے، ایک قوم ہے جو ستر سال سے مسلسل ظلم و زیادتی برداشت کر رہی ہے۔ اسے ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔ دنیائے اسلام کے دیگر مسائل میرے خیال میں غالبا اس لئے کھڑے کئے گئے ہیں کہ مسلمان مسئلہ فلسطین کو بھول جائیں، اس مقصد سے بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔

06-07-2016

سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو ساٹھ سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس قوم کی، ان فلسطینیوں کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں لیکن فلسطین کے اہداف اپنی جگہ قائم ہیں، دشمن کی کوشش یہ ہے کہ فلسطین کے اہداف کو مٹا دے۔ مگر یہ اہداف بدستور باقی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ عرب حکومتیں دوسرے امور میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ انھیں یا تو فرصت ہی نہیں یا وہ چاہتیں ہی نہیں، تکلف کی وجہ سے یا کچھ اور وجوہات کی بنا پر، امریکا اور دوسروں کی اتحادی ہونے کے باعث، کہ مسئلہ فلسطین پر توجہ دیں۔ فلسطین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم مسئلہ فلسطین سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔

22/11/2015

صیہونی حکومت کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ہے۔ ایٹمی مذاکرات ختم ہو جانے کے بعد، میں نے سنا کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں نے کہا کہ یہ مذاکرات جو ہوئے ان کے نتیجے میں ہم آئندہ پچیس سال کے لئے ایران کی طرف سے آسودہ خاطر ہو گئے۔ پچیس سال گزر جانے کے بعد اب اس بارے میں دوبارہ سوچیں گے۔ میں جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پہلی بات تو یہ کہ آپ کو آئندہ پچیس سال کا زمانہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ پچیس سال بعد توفیق الہی اور فضل خداوندی سے علاقے میں صیہونی حکومت نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مدت کے دوران بھی اسلامی مجاہدانہ و شجاعانہ جذبات و افکار ایک لمحے کے لئے بھی صیہونیوں کو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔

9/9/2015

سب سے پہلی بات مملکت فلسطین کے غصب کر لئے جانے اور وہاں صیہونیت کا کینسر وجود میں آنے کے بڑے المئے کی یادہانی کرانا ہے۔ ماضی قریب کے ادوار کے انسانی جرائم میں اس پیمانے اور اس شدت کا کوئی اور جرم رونما نہیں ہوا۔ ایک ملک کو غصب کر لینا اور عوام الناس کو ہمیشہ کے لئے ان کے گھربار اور موروثی سرزمین سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل و جرائم، کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی کی المناک ترین شکل میں  اور دسیوں سال تک اس تاریخی ستم کا تسلسل، حقیقت میں انسان کی درندگی اور شیطانی خو کا نیا ریکارڈ ہے۔

اس المئے کی اصلی مجرم اور ذمہ دار مغربی حکومتیں اور ان کی شیطانی پالیسیاں تھیں۔ جس دن پہلی عالمی جنگ کی فاتح حکومتیں مغربی ایشیا کے علاقے یعنی حکومت عثمانیہ کی ایشیائي قلمرو کو سب سے اہم مال غنیمت کے طور پر پیرس کانفرنس میں آپس میں تقسیم کر رہی تھیں، اس علاقے پر اپنے دائمی تسلط کے لئے اس کے قلب میں ایک محفوظ جگہ کی ضرورت انھیں محسوس ہوئی۔ برطانیہ نے برسوں پہلے بالفور منصوبہ پیش کرکے زمین ہموار کر دی تھی اور یہودی سرمایہ داروں کو ہم خیال بنا کر مشن کو آگے بڑھانے کے لئے صیہونزم نام کی بدعت تیار کر لی تھی اور اب اس کے عملی مقدمات فراہم ہونے لگے تھے۔ انہیں برسوں سے بتدریج مقدمات ترتیب سے آمادہ کئے جا رہے تھے اور سرانجام دوسری عالمی جنگ کے بعد علاقے کی حکومتوں کی غفلت اور مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنی ضرب لگائی اور جعلی اور بغیر قوم  کی حکومت کا اعلان کر دیا۔

اس ضرب کی زد پر سب سے پہلے ملت فلسطین اور اس کے بعد علاقے کی تمام اقوام تھیں۔

علاقے میں بعد کے واقعات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صیہونی حکومت کی تشکیل کا اصلی اور فوری مقصد مغربی ایشیا میں اپنے دائمی رسوخ اور موجودگی کے لئے ایک اڈا قائم کرنا اور علاقے کے ممالک اور حکومتوں کے امور میں دخل اندازی اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے قریب سے رسائی کے امکانات حاصل کرنا تھا۔ اسی لئے جعلی و غاصب حکومت کو طاقت کے گوناگوں عسکری و غیر عسکری وسائل یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا اور نیل سے فرات تک کے علاقے میں اس سرطان کی توسیع کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دی۔

فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس کے امور انہیں کے ارادے کے مطابق انجام پانے چاہئیں۔ فلسطین کے تمام ادیان اور قومیتوں کی شمولیت سے استصواب رائے کی جو تجویز ہم نے تقریبا دو عشرے قبل پیش کی ہے، وہ آج کے چیلنجوں اور فلسطین کے مستقبل کا واحد نتیجہ ہونا چاہئے۔ یہ تجویز ثابت کرتی ہے کہ یہودی دشمنی کے جو دعوے مغربی طاقتیں اپنے تشہیراتی ذرائع کی مدد سے دہراتی رہتی ہیں، بالکل بے بنیاد ہیں۔ اس تجویز کے مطابق فلسطینی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ استصواب رائے میں شرکت اور فلسطین کے لئے سیاسی نظام کا تعین کرنا ہے۔ جسے ہر حال میں مٹنا ہے وہ صیہونی نظام ہے اور صیہونیت خود دین یہود میں ایک بدعت اور اس سے بالکل بیگانہ ہے۔"

22/5/2020