یہ افسانے نہیں حقائق ہیں۔ یہ ہمیں اور آپ کو یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ اپنے مال کا پانچواں حصہ، چوتھا حصہ، نصف حصہ، دسواں حصہ دینے، واجب زکات نکالنے اور مستحق افراد پر خرچ کرنے میں اتنی ٹال مٹول نہ کریں۔ یہ عظیم نمونہ عمل ہے۔ البتہ ہم اور آپ، ہمارے بزرگان اور عظیم المرتبت انسان بھی امیر المومنین کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ بالکل واضح ہے۔

چند سال قبل میں نے خطبہ نماز جمعہ میں کہا کہ ہم امیر المومنین علیہ السلام جیسے نہیں بن سکتے۔ کسی نے مجھے خط لکھا کہ آپ کو یہ اچھا بہانہ مل گیا ہے کہ ہم تو امیر المومنین جیسے نہیں بن سکتے۔ جی نہیں، یہ بہانہ نہیں ہے۔ روایت کے مطابق امام باقر علیہ السلام امیر المومنین علیہ السلام کے کاموں کو دیکھتے تھے تو گریہ کرتے تھے اور فرماتے تھے: کس  کے پاس ایسی قوت برداشت ہے؟ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اہل بیت میں ایک ہی ہستی خود کو امیر المومنین جیسا بنا سکتی تھی اور وہ امام سجاد کی ذات تھی۔

سید الساجدین بھی امیر المومنین کے مثل بن سکتے تھے! کیا یہ کسی اور کے بس کی بات ہے؟ خطبہ نہج البلاغہ کے مطابق خود امیر المومنین نے فرمایا کہ آگاہ رہو یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ تاہم یہ روایتیں اس لئے نقل نہیں کی گئیں کہ ہمیں امیر المومنین کے مثل بننا ہے اور ہم کہہ کر پہلو تہی کر لیں کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے! یہ روایتیں اس لئے ہیں کہ ہم اسی سمت میں حرکت کریں۔ سب اسی سمت میں آگے بڑھیں۔

خطبہ نماز جمعہ سے اقتباس

مورخہ 27 مارچ 1992