...میرے عزیزو! آپ کے دوش پر اور تمام ملت ایران کے دوش پر کچھ سختیاں ہیں اور مزید کچھ دشواریاں ان کے دوش پر مسلط کی جا رہی ہیں اور ایران کے عوام تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں۔ مگر سب جان لیں کہ یہ سختیاں عارضی ہیں۔ آپ نوجوانوں کو یاد نہیں ہوگا، مقدس دفاع کے دور میں، مسلط کردہ جنگ کے دور میں، پہلے سال کے دوران ہم کہتے تھے کہ اسی سال جنگ ختم ہو جائے گی۔ دوسرا سال ہوا تو ہم کہتے تھے کہ اس سال جنگ تمام ہو جائے گی۔ تیسرے سال میں ہم کہتے تھے کہ اس سال (جنگ ختم ہوگی)۔ ملت ایران اپنے پورے وجود سے جنگ کی سختیوں اور دشواریوں کو محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اسی سختی میں، اسی شدید دباؤ میں، آج جیسے دباؤ نہیں بلکہ بالکل غیر معمولی دباؤ کے حالات میں (تھی)، اسی شہر تہران میں لوگ گلیوں اور سڑکوں سے گزر رہے ہوتے تھے کہ اچانک صدام کا میزائل ان کے اوپر آکر گرتا تھا۔ دوسرے شہروں کا بھی یہی حال تھا۔ اس قسم کے حالات تھے۔ محاذ جنگ کی اپنی الگ ہی صورت حال تھی۔ مگر وہ سختیاں ختم ہو گئیں۔ سختیاں دو انداز سے ختم ہوتی ہیں۔ ایک تو سختیوں کا اختتام مسرت بخش ہوتا ہے اور دوسرے سختیوں کا خاتمہ رنج و آلام کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسلط کردہ جنگ مسرت و خوشی کے ماحول میں ختم ہوئی۔ یعنی ملت ایران کی فتح پر ختم ہوئی۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ عوام نے سختیوں کا مقابلہ کیا۔

میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ  آج کی یہ سختیاں بھی ختم ہوں گی اور خوشی و مسرت کے ماحول میں ختم ہو سکتی ہیں، اس کی شرط کیا ہے؟ اس کی شرط یہ ہے کہ ملت ایران، خاص طور پر مختلف سطح کے عہدیداران اپنا کام بخوبی انجام دیں۔ یاد رکھئے کہ اسلامی جمہوریہ کے مقدر میں ارتقاء اور رفعت لکھی ہے اور یہ بھی یاد رکھئے کہ اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے نصیب میں ذلت و انحطاط ہے۔ تمام قرائن ہمیں یہی بتا رہے ہیں اور یہی ثابت کر رہے ہیں۔ ایسا ہوکر رہے گا۔ اس وقت ممکن ہے کہ ہم میں سے کچھ افراد موجود نہ ہوں، لیکن ملت ایران ہوگی، ملت ایران زندہ ہے، انقلاب کی تحریک زندہ ہے، مقدس اسلامی نظام کا سلسلہ قائم ہے، اس میں جوش و خروش ہے۔ تب اس زمانے میں آج کے اس دور کو یاد کیا جائے گا اور لوگ کہیں گے کہ ایک زمانے میں ملت ایران (ایسی تھی): «مَسَّتهُمُ البَأس‍ـاّْءُ وَ الضَّرّاّْءُ وَ زُلزِلوا حَتّيّْ يَقولَ الرَّسولُ وَ الَّذينَ ءامَنوا مَعَه{ مَتيّْ نَصرُ اللهِ اَلاِّ اِنَّ نَصرَ اللهِ قَريب»؛

(سورہ بقرہ آیت نمبر 214 کا ایک حصہ: وہ سختیوں اور نقصان میں پڑے، لرزنے لگے، یہاں تک کہ اللہ کے رسول اور ان لوگوں نے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے کہا کہ آخر کب اللہ کی طرف سے نصرت ہوگی؟ ہوشیار! کہ اللہ کی نصرت قریب ہے۔)

اس دن لوگ آپ کے اقدامات، آپ کی استقامت، آپ کی مزاحمت اور آپ کے بہترین طرز عمل کا شکریہ ادا کریں گے، قدردانی کریں گے، اس کی قدر و منزلت کو سمجھیں گے، جس طرح آج ہم مقدس دفاع کے مجاہدین اور شہیدوں کی قدر کرتے ہیں۔۔۔۔