صدام کی لشکر کشی جس نے آٹھ سال تک ہمیں جدوجہد اور جنگ کی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا کوئی حیرت انگیز واقعہ نہیں تھا۔ خود مختار اور حریت پسند اقوام کے خلاف استکبار کی دائمی روش یہی ہے۔ میری صدارت کے ابتدائی برسوں کی بات ہے گنی کوناکری کے صدر احمد سیکوتورے جو افریقا کی ممتاز انقلابی، باوقار، علمی و سیاسی شخصیت کے حامل تھے اور ساری دنیا میں اور یورپ میں بھی ان کی بڑی عزت تھی، ایران آئے۔ مجھ سے گفتگو میں انھوں نے یہ بات کہی کہ انقلاب کے بعد آپ پر بغداد کا حملہ شروع ہوا تو ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ کیونکہ بیشتر خود مختار ممالک کے خلاف سامراج نے یہ ایک حربہ ضرور استعمال کیا کہ سرحدوں کی طرف سے اس پر فوجی دباؤ بڑھا دیا تاکہ اس ملک کے مالیاتی اور انسانی وسائل تباہ ہو جائیں اور  وہ ملک ان قوتوں کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بننے کے قابل نہ رہے۔ تو یہ ہمارے خلاف دشمن کا طے شدہ منصوبہ تھا۔

یہی امریکی اور ان کے موجودہ وزیر دفاع جو آئے دن اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، ان افراد میں تھے جو صدام سے، خود تعاون کر رہے تھے، اس کی سائنسی، اسلحہ جاتی اور انٹیلیجنس مدد کر رہے تھے تاکہ وہ ایران کو شکست دے سکیں۔ مگر وہ ناکام رہے۔ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ بیدار ہیں اور جب تک عہدیداران حقیقی معنی میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی محسوس کر رہے ہیں، اس وقت تک امریکہ اور دوسری طاقتیں اس ملت اور اس نظام کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔

امام خامنہ ای

14 اکتوبر 2003