قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج وزیر خارجہ منوچہر متکی، وزارت خارجہ کے عہدہ داروں اور بیرون ملک تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفرا اور سفارت کاروں سے ملاقات میں اسلامی انقلاب کو، عالمی روابط کی سطح پر تسلط پسندانہ نظام کے خلاف تعاون کی سیاست کے نام سے نئی سیاست اور نئی منطق کو رائج کرنے والا قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور نمائندے کا فریضہ تسلط پسندانہ نظام کی مخالفت کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے معیاری، مضبوط اور کارساز سفارت کاری کا استعمال ہے جس کا لازمہ انقلاب کے اصولوں اور شرعی بنیادوں پر ثابت قدمی اور ان اصولوں اور بنیادوں کے سلسلے میں ہر طرح کے تکلف سے پرہیز کرنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ تسلط پسندانہ نظام کی مخالفت کی پالیسی کے نفاذ کا انحصار اسلامی جمہوریہ ایران پر ہے، تسلط پسندی میں دو فریق ہوتے ہیں ایک تسلط پسند اور دوسرا تسلط کا شکار جبکہ اسلامی جمہوریہ نے روز اول سے ہی صریحی طور پر اعلان کر دیا کہ وہ نہ تسلط پسند ہے اور کسی ملک کے تسلط میں رہنا گوارا کرے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تسلط پسندی کی مخالفت کی سیاست کو دنیا میں ایک جدت عمل سے تعبیر کیا اور عالمی روابط کی سطح پر اس روش اور پالیسی کی حکومتوں، شخصیتوں اور دانشوروں کی جانب سے زبردست پذیرائی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تسلط پسندانہ نظام کی مخالفت پر استوار پالیسی کو بڑی مستحکم اور اسٹریٹیجک حمایت اور پشتپناہی حاصل ہے جس میں ایک اسلامی انقلاب کی عظیم عوامی حمایت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام کی زوردار تحریک اوائل انقلاب سے اب تک ذرہ برابر ماند نہیں پڑی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ کس ملک میں دیکھتے ہیں کہ اکتیس سال گزر جانے کے بعد انقلاب کی سالگرہ کے جشن میں عوام کی شرکت میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی واقع نہیں ہوئي بلکہ نمایاں اور قابل توجہ اضافہ ہوا؟ یہ عوامی تعاون و شراکت کا سرمایہ بے حد اہم ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کا طرہ امتیاز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی سائنسدانوں کی سائنسی اور تکنیکی شعبے میں مبہوت کن کامیابیوں کو تسلط پسندی کی مخالفت کی پالیسی کا ایک اور سہارا قرار دیا اور فرمایا کہ ان سہاروں میں سے ایک اور سہارا انتخابات میں جو جمہوریت کا سب سے خاص مظہر ہے عوام کی بے مثال شرکت ہے جس میں کمی آنا تو دور، با قاعدہ اضافہ ہوا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں مختلف حکومتوں میں انجام پانے والے وسیع ترین تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں اور جامع ترین سماجی سرگرمیوں کو بھی تسلط پسندی کی مخالفت کے لئے ایک اور بڑی کمک قرار دیا اور فرمایا کہ یہ سارے اسٹریٹیجک سہارے ملک سے باہر اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندوں کی خود اعتمادی کا ذریعہ اور بلند ہمتی کا موجب ہیں جن پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ عزت، حکمت اور مصلحت جیسے تین اصولوں کی بنیاد پر تسلط پسندانہ نظام کی مخالفت کی پالیسی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے سفارتی توانائيوں کے استعمال کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ سفارت کاری کی طاقت اور تاثیر فوجی، تشہیراتی اور مالی طاقت سے کم نہیں بلکہ بسا اوقات زیادہ ہوتی ہے بنابریں تسلط پسندی کی مخالفت کی سیاست کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مضبوط، کارساز اور عقل و منطق اور خود اعتمادی پر استوار سفارت کاری کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مضبوط اور کارساز سفارت کاری کے لئے، شرعی بنیادوں اور اسلامی انقلاب کے اصولوں اور افکار پر یقین کامل کو سب سے پہلی ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ سفارتی سطح پر قومی خود اعتمادی کے ساتھ اور دینی بنیادوں اور انقلابی اصولوں پر ثابت قدمی کے سلسلے میں کسی بھی تکلف کے بغیر عمل کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انقلابی اصولوں اور شرعی بنیادوں پر ثابت قدمی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارت کاری کا بہت موثر پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ عقل و منطق کے ساتھ یہ استقامت، استحکام کی عکاس ہے جو دوسرے فریق کو احترام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغرب والوں کے رنگ میں رنگنے کے لئے مغربی انداز، روش اور تکلفات کو اپنانے کی ضرورت پر مبنی گزشتہ برسوں میں نظر آنے والے نطریات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ چند افراد اس خیال میں تھے کہ مغربی چیزوں کی نقل کرکے اور ان کے سامنے جھک کر ہمارے مقام و مرتبے میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ مغرب والوں کی باتیں اور انداز فرسودہ اور دو سو سال قبل کے زمانے سے متعلق ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ کی سیاست اور اس کا پیغام تر و تازہ اور موثر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی وزارت خارجہ کی سطح پر انجام دئے جانے والے اقدامات کی قدردانی کرتے ہوئے سفارت کاری کی سطح پر اور عالمی چیلنجوں کے مقابلے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابیوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ مثال کے طور پر ایٹمی مسئلے میں اسلامی نظام کے خلاف بڑے پیمانے پر دروغ گوئی، ہنگامے اور شدید دباؤ کے باوجود دنیا کے طاقتور ممالک اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکے جس سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈھانچے اور بنیادوں کے عظیم استحکام اور مضبوطی کا پتہ چلتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع میں ہی اعلان کر دیا کہ وہ بجلی کی پیداوار سمیت پر امن مقاصد میں استعمال کے لئے جوہری ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں امریکا اور برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک اور صیہونیوں کے زہریلے پروپیگنڈے اور ہنگامہ آرائی پوری طرح بے بنیاد ہے اور خود یہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اس قسم کی مخالفتوں کا نقصان بھی انہیں کو اٹھانا پڑے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گوناگوں دباؤ کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے میں متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جہاں تک ضرورت پڑی وہ پیشرفت کرے گا تاکہ اس سائنسی اور تکنیکی شعبے میں خود کفا ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی کارکردگی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ ایجنسی کی بعض رپورٹیں اور اقدامات اس عالمی ادارے میں آزادی عمل کے فقدان کی غمازی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو امریکا اور بعض دیگر ممالک کے دباؤ میں نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے یکطرفہ اقدامات سے ایجنسی اور اقوام متحدہ کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور یہ چیز ان عالمی اداروں کی حیثیت و آبرو کے لئے بہت بری ثابت ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وزارت خارجہ کی کارکردگی کی بنیاد تسلط پسندانہ نظام کی مخالفت کی پالیسی کو آگے بڑھانا اور مضبوط سفارت کاری کے ذریعے عالمی روابط پر اپنا اثر ڈالنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ معیاری سفارت کاری پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دی جائے اور سفارتی سطح پر ہر ملاقات اور ہر بیان پوری طرح نپا تلا اور صحیح اندازوں کے مطابق ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں سفارت کاری اور مذاکرات کے پیچیدہ فن کی ظرافتوں سے آشنائی کو ملک کے سفارت کاروں کے لئے نہایت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ عمومی سفارت کاری اسلامی جمہوریہ ایران کی جدت ہے جس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے بیرون ملک مقیم ایرانیوں سے موثر اور مستحکم روابط کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس ملاقات کے آغاز میں وزیر خارجہ منوچہر متکی نے بیرون ملک مصروف کار اسلامی جمہوریہ ایران کے نمایندوں اور سفارت کاروں کے اس سال کے اجلاس کا ایجنڈا عالمی انتظامی سسٹم میں تبدیلی اور انصاف پر مرکوز سفارت کاری قرار دیا اور کہا کہ علاقے کے سیاسی اور اقتصادی امور میں ایران کی پوزیشن کی تقویت، قومی مفادات اور سلامتی کا تحفظ، اسلامی یکجہتی کے جذبے کی ترویج، فلسطین اور لبنان میں اسلامی مزاحمت کا دفاع اور بڑی طاقتوں کی تسلط پسندی اور مداختلوں کا مقابلہ ایران کی خارجہ پالیسیوں کی اہم ترجیحات ہیں۔
وزیر خارجہ نے اسی طرح علاقے، دولت مشترکہ، ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا اور یورپ کے حلقوں میں وزارت خارجہ کی کارکردگی کی بریفنگ دی اور زور دیکر کہا کہ ان تمام خطوں میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ تین اصولوں، وقار، حکمت اور مصلحت کے تناظر میں عالمی سطح پر دانشمندانہ انداز میں تعلقات قائم کئے جائیں۔